احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
امام کو لقمہ دینا
O ہماری
مسجد کے امام ایک دن نماز پڑھاتے ہوئے دوران قراء ت بھول گئے تو مقتدی حضرات میں سے
کسی نے انہیں لقمہ دے دیا۔ نماز کے بعد اس کے متعلق لوگوں میں اختلاف ہو گیا‘ کچھ حضرات
کا خیال تھا کہ لقمہ نہیں دینا چاہیے۔ صحیح مسئلہ کی وضاحت کریں۔
P امام بھی آخر انسان ہے وہ دوران نماز بھول کا شکار ہو
سکتا ہے۔ اگرو ہ بھول جائے تو اس کی رہنمائی کی جا سکتی ہے اور یہ بھول دو طرح کی ہوتی
ہے۔ دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔ ایک بھول کی یہ قسم ہے جو قراء ت کے علاوہ نماز کے
واجبات میں ہوتی ہے مثلاً اس نے تشہد بیٹھنا تھا وہ بھول کر کھڑا ہو گیا یا وہ ایک
رکعت کے بعد کھڑا ہونے کی بجائے بیٹھ گیا۔ ایسے حالات میں مقتدی حضرات کو چاہیے کہ
وہ ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر اسے متنبہ کریں جبکہ خواتین ہلکی سی تالی بجا کر اسے خبردار
کریں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہt کا
بیان ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’نماز میں (بوقت ضرورت) مرد حضرات ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر (امام کو مطلع کریں
گے) اور عورتیں تالی بجائیں گی۔‘‘ (بخاری‘ الجمعہ: ۱۲۰۳)
بھول کی دوسری قسم یہ ہے کہ امام دوران قراء ت نسیان کا شکار
ہو جائے‘ اس کا حکم یہ ہے کہ کوئی بھی مقتدی اسے لقمہ دے دے‘ اس عمل سے کسی کی نماز
فاسد نہیں ہوتی۔ ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنا نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون
کرنا ہے۔ جس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے
کا تعاون کرو۔‘‘ (المائدہ: ۱)
احادیث سے امام کو لقمہ دینے کے متعلق متعدد دلائل ہیں‘ جن میں
سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے:
\ سیدنا عبداللہ
بن عمرw بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
ایک مرتبہ نماز پڑھائی تو آپe پر
قراء ت خلط ملط ہو گئی۔ جب آپe نماز
سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابی بن کعبt سے فرمایا: ’’کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے۔‘‘
انہوں نے عرض کیا جی ہاں! تو رسول اللہe نے فرمایا: ’’پھر تجھے کس چیز نے غلطی بتانے سے روکے
رکھا؟‘‘ (ابوداؤد‘ الصلوٰۃ: ۹۰۷) … اس حدیث سے معلوم
ہوا کہ امام اگر دوران قراء ت بھول جائے تو اسے لقمہ دینا چاہیے۔
\ سیدنا مسور
بن یزیدt سے
روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپe نے
نماز میں قراء ت فرمائی تو اس میں سے کچھ آیات چھوٹ گئیں جنہیں آپe نے
تلاوت نہ فرمایا۔ ایک آدمی نے عرض کیا‘ اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں آیات چھوڑ دی
ہیں۔ تو آپe نے
فرمایا: ’’تو نے مجھے یاد کیوں نہ کروا دیں؟‘‘ (ابوداؤد‘ الصلوٰۃ: ۹۰۷)
\ سیدنا انسt سے
مروی ہے‘ آپt نے
فرمایا کہ ہم عہد رسالت میں دوران نماز ائمہ کرام کو لقمہ دیا کرتے تھے۔ (مستدرک حاکم:
ج۱‘ ص ۲۷۶)
\ سیدنا علیt فرماتے
ہیں: ’’جب امام تم سے لقمہ طلب کرے تو اسے لقمہ دو۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۲‘ ص ۷۲)
اس کی ممانعت کے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے‘ ہم اس کی
وضاحت بھی کر دینا چاہتے ہیں۔ سیدنا علیt سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’اے علی! امام کو دوران نماز لقمہ مت دیا کرو۔‘‘ (ابوداؤد‘ الصلوٰۃ: ۹۰۸)
اس روایت کے متعلق امام ابوداؤد خود لکھتے ہیں: ’’اس روایت
میں ایک راوی ابواسحاق ہیں جو حارث بن عبداللہ کوفی سے بیان کرتے ہیں‘ جبکہ انہوں نے
یہ روایت ان سے نہیں سنی۔‘‘
علاوہ ازیں خود حارث بن عبداللہ الاعور رافضی ہے اور اسے کئی
ایک محدثین کرام نے کذاب کہا ہے۔ محدث العصر علامہ البانیa نے بھی اس حدیث کو ناقابل حجت ٹھہرایا ہے۔ (ضعیف ابوداؤد:
۱۹۳)
بہرحال بشری تقاضوں کے تحت اگر امام دوران قراء ت بھول رہا ہو
تو اسے بتا دینا چاہیے کہ اس عمل سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم!
حق مہر کی حیثیت وحکمت
O نکاح
کرتے وقت حق مہر کیوں مقرر کیا جاتا ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ نیز اس کی حیثیت کے متعلق
وضاحت فرمائیں۔
P قبل از اسلام شریف خاندانوں میں شادی کے موقع پر عورت
کو حق مہر دینے کی عادت موجود تھی‘ اسلام نے اس شائستہ رسم کو برقرار رکھا۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ’’عورتوں کو ان کے حق مہر بخوشی ادا کرو۔‘‘ (النساء: ۴)
حق مہر دینے سے عورت کی عظمت اور اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔ اس
میں عورت کی معاشی کفالت بھی ہے۔ نیز اس سے نکاح کا رشتہ بھی پأئیدار اور مستحکم ہوتا
ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی حکمت یہ ہے کہ حق مہر کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے اور ایک مسلمان
کے لیے شریعت کا حکم ماننا ضروری ہے۔ ہم حکمت کے نہیں بلکہ حکم کے پابند ہیں۔ ہمارا
یہ ایمان ہے کہ شریعت کا ہر حکم حکمت سے بعید نہیں ہوتا اور اس میں انسانیت کی فلاح
وبہبود مضمر ہے۔
علماء ومحدثین نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اگر معاہدہ
نکاح میں حق مہر لازم نہ ہو تو وہ معمولی ناچاقی کی بناء پر اس معاہدہ کو ختم کر سکتا
ہے۔ اس لیے نکاح میں حق مہر لازم قرار دیا گیا ہے تا کہ وہ اس معاہدہ کو ختم کرتے وقت
غور وفکر کرے کہ مجھے حق مہر سے محروم ہونا پڑے گا۔ لیکن یہ بات سرے سے غلط ہے کہ حق
مہر اس لطف اندوزی کا معاوضہ ہے جو خاوند اپنی بیوی سے حاصل کرتا ہے کیونکہ بعض صورتوں
میں اس کے بغیر بھی حق مہر ادا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً نکاح کے بعد اس کے پاس جانے سے
پہلے اگر طلاق دی تو بھی نصف حق مہر دینا پڑتا ہے۔ نیز نکاح کے بعد قبل از رخصتی اگر
خاوند فوت ہو جائے تو مکمل حق مہر ادا کرنا ہوتا ہے۔
بہرحال یہ تمتع اور لطف اندوزی کا معاوضہ نہیں‘ حق مہر کتنا
ہونا چاہیے؟ ہم اس کے متعلق بھی افراط وتفریط کا شکار ہیں‘ مختلف احادیث سے معلوم ہوتا
ہے کہ حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے جس پر فریقین
راضی اور مطمئن ہوں۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم لوگ شادی پر لاکھوں کے حساب سے
خرچ کر دیتے ہیں مگر جب حق مہر کی باری آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ شرعی حق مہر رکھ لیں
اور شرعی حق مہر سے ان کی مراد بتیس روپے ہوتی ہے۔ کچھ ایسے حضرات بھی ہوتے ہیں کہ
شوہر کی حیثیت سے زیادہ حق مہر کا مطالبہ کر دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد
صرف نکاح نامہ میں اندراج ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مجلس نکاح میں بھی شان وشوکت برقرار
رہے باقی یہ رقم یعنی دینی کس نے ہے؟ شریعت میں اس قسم کی حیلہ سازی کی قطعاً کوئی
گنجائش نہیں کیونکہ حق مہر لڑکی کا حق ہے۔ اسے دباؤ ڈال کر معاف کرانا غلط اور گناہ
ہے۔ ہاں اگر وہ کسی دباؤ کے بغیر اپنی رضا ورغبت سے تمام حق مہر یا اس کا کچھ حصہ
معاف کر دے تو یہ اور بات ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر وہ اپنی خوشی سے
اس میں سے کچھ تمہیں چھوڑ دیں تو تم اسے مزے سے کھا سکتے ہو۔‘‘ (النساء: ۴)
ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں
کو فروخت کرتے ہیں۔ وہ حق مہر کی کثیر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسے وصول کر کے لڑکی
کو نہیں دیتے بلکہ خود کھاتے ہیں اور جب تک انہیں حسب پسند رقم نہ ملے وہ لڑکیوں کا
نکاح نہیں کرتے خواہ وہ بوڑھی ہو جائیں۔ ایسے لوگ بھی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں‘
انہیں اس جرم سے باز رہنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
مالِ زکوٰۃ سے پانی کا فلٹر لگانا
O کیا
مالِ زکوٰۃ سے فلٹر پلانٹ لگایا جا سکتا ہے تا کہ اس سے ہر امیر وغریب فائدہ حاصل کرے؟
یا اسے اپنی جیب خاص سے لگانا چاہیے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیا جائے۔
P پانی کا انتظام کرنا ایک بہترین صدقہ جاریہ ہے جیسا
کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصt نے
اپنی والدہ کے لیے ایک کنواں لگوایا تھا‘ لیکن اس قسم کا صدقہ جاریہ اپنی جیب خاص سے
کرنا چاہیے۔ مالِ زکوٰۃ غرباء ومساکین کا حق ہے۔ یہ مال ان کو ملنا چاہیے‘ جب مالِ
زکوٰۃ کسی غریب کو مل جاتا ہے تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے پھر زکوٰۃ کی حیثیت ختم
ہو جاتی ہے‘ اگر وہ غریب ملنے والا صدقہ کسی امیر کو ہدیہ کرتا ہے تو اس کے لیے جائز
ہے اس پر کوئی پابندی نہیں۔ زکوٰۃ کے مصارف میں ایک ابن السبیل بھی ہے جو مسافر کے
معنی میں ہے‘ اگر کوئی کسی گذر گاہ پر مسافروں کے لیے صاف پانی کا پلانٹ مالِ زکوٰۃ
سے لگاتا ہے تو اس کا جواز ہے‘ وہ بھی اس صورت میں کہ اس سے صرف مسافر حضرات فائدہ
اٹھائیں خواہ وہ امیر ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن جو لوگ مسافر نہیں اور صاحب حیثیت ہیں انہیں
ایسے پلانٹ سے فائدہ اٹھانے کی شرعی طور پر اجازت نہیں کیونکہ وہ مسافر حضرات کے لیے
مالی زکوٰۃ سے لگایا گیا ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment