خطبۂ حرم ... قلبِ سلیم
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن حمید d
ترجمہ: جناب محمد عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
میں خود کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ
آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ کیونکہ پرہیز گاری ہی بہترین سامان ہے جو دنیا
میں بھی کام آتا ہے اور آخرت میں بھی ساتھ ہوتا ہے۔ یاد رکھو کہ انسان کے لیے ایمان
کے بعد سب سے اچھی نعمت اچھے اخلاق ہیں۔ اچھے اخلاق کم پڑھے لکھے آدمی کے پاس بھی ہو
سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بڑی بڑی ڈگریوں والا اس خزانے سے محروم ہو۔ مبارکباد
کے لائق تو وہ شخص ہے جو دوسروں کی زیادتی کو بھول جاتا ہے جو سنگ دل نہیں ہوتا، جو
دشمنی کا راستہ بھی نہیں جانتا۔ جس کی ملاقات سے خوشی ملتی ہے اور جس سے بات کر کے
سعادت محسوس ہوتی ہے۔
اے اللہ کے بندے! معافی وہی مانگتا ہے جس میں بہادری ہو، معاف
وہی کرتا ہے جو زیادہ طاقتور ہو۔ ویسے بھی لوگوں کی خوشنودی کمانا تو خود کو مشقت میں
ڈالنے کے مترادف ہے۔ لیکن بردبار انسان کے غصے سے بچنا چاہیے۔
’’اور اے نبی! نیکی
اور بدی یکساں نہیں ہیں‘ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو‘ تم دیکھو گے
کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘ یہ صفت نصیب نہیں
ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں
کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔‘‘ (فصلت: ۳۴)
اے بیت اللہ کے حاجیو! اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یہ ہے اصل معاملہ
(اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ
سے ہے۔‘‘ (الحج: ۳۲)
جی ہاں! اللہ کے بندو! نیکی کا دار ومدار دلوں کی پرہیزگاری
پر ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں:
’’تقویٰ ایمان سے
بھی زیادہ قابل تعریف ہے، کیونکہ ایمان میں کچھ اور چیزیں بھی شامل ہو سکتی ہیں، جبکہ
تقویٰ میں کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہوسکتی‘ کیونکہ دل سب سے خطرناک حصہ ہے۔ جس کی
تاثیر سب سے زیادہ ہے۔ جس کا معاملہ سب سے زیادہ نازک ہے۔ جس کی اصلاح سب سے زیادہ
مشکل ہے۔‘‘
حسن بصریa فرماتے
ہیں:
اپنے دل کا علاج کرو، کیونکہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے دل نیک ہوں۔
اللہ آپ کے جسموں اور شکلوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ آپ کے دلوں اور کاموں کو دیکھتا ہے۔
اے بھائیو! عربی میں قلب ہر چیز کے خالص اور سب سے زیادہ اہم
حصے کو کہتے ہیں۔ دل کو قلب اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے اعضاء میں سب سے زیادہ
خالص اور اہم ہے۔ دوسری طرف سے قلب اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو اپنی حالت بدلتی رہتی
ہو یا جس میں تبدیلی آتی رہتی ہو۔ اسی طرح قلب کے معانی میں سے ایک ہر چیز کے نتیجے
پر غور کرنا بھی ہے۔
اے مسلمانو! دل اپنے کام کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی انتہائی
اہم مخلوقات میں سے ہے۔ جس کا کام محسوس نہیں ہوتا، بلکہ وہ روح، نفس، ذہن، عقل اور
احساس کی طرح یہ بھی علم الغیب کا حصہ ہے۔ یہ ساری اللہ ہی کی غیر محسوس نعمتیں ہیں
جو محسوسات کی دنیا میں آ کر انہیں غذا، نور اور مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان ہی کے نور
سے سے انسان حق اور باطل میں فرق کرنے کے قابل بنتا ہے، درستی اور خرابی میں، نفع اور
نقصان میں، حقیقت اور توہمات میں فرق کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔
سیدنا نعمان بن بشیرt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’سنو! جسم میں گوشت کا ایسا ٹکڑا ہے جو درست ہو جائے تو سارا جسم سدھر جاتا
ہے، اور اگر بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، یہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
پیارے بھائیو! دل کی درستی ایمان، حقیقت سے آگاہی اور احوال
سے واقفیت میں ہے۔ جبکہ جسم کی درستی اللہ کی فرماں برداری اور اس کے سامنے عاجزی میں
ہے۔
جب بگڑتا ہے تو شرک، کفر، تکبر، خود پسندی، ریا کاری، حسد اور
دیگر امراض قلب سے بگڑتا ہے۔ جب یہ بگڑتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جسم بگڑتا ہے
تو گناہوں اور نافرمانیوں سے بگڑتا ہے، مخلوق خدا پر ظلم سے اور زمین میں فساد سے بگڑتا
ہے۔
اے مسلمانو! دل ہی وہ حصہ ہے جس میں باہر سے آنے والی معلومات
براہ راست پہنچتی ہیں۔ یہ وہ رابطہ ہے جو انسان کو اپنے رویے اور ظاہری اعمال سے جوڑے
رکھتا ہے۔
رسول اللہe کثرت
سے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر
ثابت قدمی نصیب فرما۔‘‘ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ پر اور آپ کی لائی
ہوئی چیزوں پر ایمان قبول کر چکے ہیں، کیا پھر بھی آپ ہمارے معاملے میں فکر مند ہیں؟
فرمایا: ’’دل اللہ کی دو انگلیوں میں ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے، انہیں پھیر دیتا ہے۔‘‘
(مسند احمد‘ امام مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے)
نبی اکرمe ان
الفاظ میں بھی قسم کھایا کرتے تھے: ’’دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!‘‘ (بخاری)
اے میرے بھائیو! دل ہی ہر خیر کا شہر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ
نے خیر کو دل کے ساتھ جوڑا ہے۔ فرمایا:
’’اللہ کو معلوم
ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا
گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(الانفال: ۷۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس دل میں خیر ہوتی ہے، چاہے وہ ذرہ
برابر ہی کیوں نہ ہو، وہ ایمان کے لیے کھل ہی جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر
غور کیجیے:
’’یہ وہ لوگ ہیں
جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان
کو قوت بخشی ہے۔‘‘ (المجادلہ: ۲۲)
اسی طرح بلند شان والے کا فرمان ہے:
’’یہ وہ لوگ ہیں
جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان
کو قوت بخشی ہے۔‘‘ (الحجرات: ۷)
منافقین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بھی غور کیجیے:
’’اے پیغمبر! تمہارے
لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی دکھا رہے ہیں خواہ وہ اُن
میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے۔‘‘
(المائدہ: ۴۱)
اسی طرح بلند شان والے نے اعراب کے ایک گروہ کے بارے میں فرمایا:
’’ایمان ابھی تمہارے
دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘ (الحجرات: ۱۴)
ایمان ہی دلوں کی زندگی اور اس کا سکون ہے۔
اے مسلمانو! کچھ اعمال صرف دل سے وابستہ ہوتے ہیں۔ جن کا اثر
انسان کے برتاؤ میں، اس کے احساسات میں اور اس کے احوال میں نظر آتا ہے۔ پیار اور خوشی
کی شکل میں، فکر اور غم کی شکل میں، پریشانی اور غصے کی شکل میں، کینہ اور حسد کی شکل
میں، چال بازی، موقع پرستی، غصے، سمجھ، آگاہی اور معرفت کی شکل میں۔ بلند شان والے
نے چند قوموں کے متعلق فرمایا:
’’ان کے پاس دل ہیں
مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔‘‘ (الاعراف: ۱۷۹)
دل کے اہم ترین اور عظیم کاموں میں ارادہ اور نیت بھی شامل ہیں۔
نیت دل کے عزم اور پختہ ارادے کو کہتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے:
’’اعمال کا دار ومداد
نیتوں پر ہے، ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزا دی جائے گی۔‘‘ (بخاری ومسلم)
ہر عبادت میں نیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی سے عادت اور عبادت
الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ اسی سے عبادات ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں۔ بلکہ نیت سے عادت
بھی عبادت بن جاتی ہے۔ بری نیت ہو تو عبادت بھی بے قیمت ہو جاتی ہے۔ اخلاص بھی تو سچی
نیت اور دل کی پاکیزگی ہی کو کہتے ہیں۔
دل کے کاموں میں ثابت قدمی بھی شامل ہے۔ جس سے وقار اور سکینت
حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان کو ثابت قدمی نصیب ہو جاتی ہے تو وہ پریشانی اور اضطراب سے
بچ جاتا ہے۔ وہ اپنے حال کو صحیح انداز میں سمجھ لیتا ہے اور مستقبل کی فکر کرتا ہے۔
جب نبی اکرمe نے
معاذt کو
یمن بھیجا تو انہیں فرمایا:
’’اللہ آپ کے دل
کو ثابت قدم کر دے گا، اور آپ کے دل کو ہدایت عطا فرمائے گا۔‘‘ (مسند احمد، سنن ابوداؤد،
جامع ترمذی‘ یہ حدیث حسن ہے)
اے مسلمانو! دل کی کچھ صفات انتہائی عظیم ہیں، جن سے ایمان کی
حقیقت جھلکتی ہے اور جن میں دلوں کی زندگی اور چین ہے۔ جن پر قائم رہنے میں بندے کی
استقامت اور کامیابی ہوتی ہے۔ ان صفات میں: دل کی سلامتی شامل ہے۔ جیسا کہ بلند شان
والا فرماتا ہے:
’’اس دن نہ مال کوئی
فائدہ دے گا نہ اولاد الا یہ کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘
(الشعراء: ۸۸)
نبی اکرمe اللہ
سے یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے قلبِ سلیم کا سوال کرتا ہوں۔‘‘ (مسند
احمد، جامع ترمذی اور سنن نسائی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔)
قلبِ سلیم والا شخص وہ ہے جو ہر قسم کے عیب، شک، شرک، برائی
اور گمراہی سے بچ گیا ہو۔ جس کا ظاہر اور باطن ایک جیسے ہوں۔ جس کے راز کا پیغام اس
کے اعضاء سناتے ہوں۔ قلب سلیم وہ ہے جس میں معبود کے لیے اخلاص بھی ہے، اس کی طرف مکمل
ذلت اور عاجزی کے ساتھ رجوع بھی ہو اور اخلاص کے ساتھ شریعت کی پیروی بھی ہو۔
’’حق یہ ہے کہ جو
بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس
کے رب کے پاس اُس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔‘‘
(البقرۃ: ۱۱۲)
پیارے بھائیو! دل کے عظیم کاموں میں عاجزی بھی شامل ہے۔ یعنی
اللہ کی بات کو تسلیم کر لینا اور اسی کی جانب متوجہ رہنا۔ حافظ ابن قیمa فرماتے
ہیں:
یاد رکھو کہ جب عاجزی میں انسان کا قدم راسخ ہو جاتا ہے اور
وہ اس کی راہ میں آگے نکل جاتا ہے تو اس کی ہمت بلند ہو جاتی ہے اور نفس بلندیوں پر
پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہ کسی کی تعریف پر خوش نہیں ہوتا۔ کسی کی تنقید پر پریشان نہیں
ہوتا۔ وہ خواہشات نفس سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہوتا ہے اور ایمان اور یقین کی لذت اس
دل میں گھر کر چکی ہوتی ہے۔ اگر کوئی دلیل چاہو تو اللہ کے اس فرمان کو پڑھ لو:
’’اور علم سے بہرہ
مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان
کے دل اس کے آگے جھک جائیں۔‘‘ (الحج: ۵۴)
دل کی صفات میں خوف بھی شامل ہے۔ رب العزت کا فرمان ہے:
’’سچّے اہل ایمان
تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں۔‘‘ (الانفال: ۲)
سیدنا عرباض بن ساریہt کی حدیث میں ہے: رسول اللہe نے
ہمیں ایسی نصیحت کی کہ دل لرز گئے۔ (ابو داؤد‘ ترمذی)
اہل ایمان کے دل اس خوف سے لرزتے رہتے ہیں کہ جو عبادات اور
نیک اعمال انہوں نے کیے ہیں وہ اللہ کے یہاں رد نہ ہو جائیں۔ ان کے خوف کی بنیاد اللہ
تعالیٰ کی تعظیم اور اجلال ہوتا ہے، اس کی ہیبت اور اس کی بادشاہت سے رعب ہوتا ہے۔
اللہ کے نیک بندوں کے دل ڈرے ہوتے ہیں، ایک نیکی کرتے ہیں تودوسری میں لگ جاتے ہیں۔
اس دن کے شر سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں پھرنے لگیں گی۔
اللہ کے بندو! اطمینان والا دل وہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ
نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:
’’جنہوں نے (اِس
نبی کی دعوت کو) مان لیا، اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار
رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے، جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘ (الرعد:
۲۸)
اطمینان وہ ہوتا ہے جس میں انسان کو سکون، امن، آرام اور خوشی
نصیب ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمe کو اور اہل بدر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ بات اللہ نے
تمہیں اس لیے بتا دی ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں۔‘‘ (آل عمران:
۱۲۶)
دل کی وہ صفت، جس کو حاصل کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے،
خشوع کی صفت ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’کیا ایمان لانے
والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے
نازل کردہ حق کے آگے جھکیں۔‘‘ (الحدید: ۱۶)
رسول اللہe نے
ایسے دل سے پناہ مانگی ہے کہ جس میں خشوع ہی نہ ہو۔ (مسلم)
خشوع میں عاجزی، انکساری، گریہ زاری اور خوف آ جاتے ہیں۔ ان
سب میں بنیادی چیز ہر چھوٹی اور بڑی چیز میں غیر اللہ سے ناامیدی ہے۔
اللہ کے بندو! دل تب ہی درست ہو سکتا ہے جب وہ اللہ کو پہچان
لے، اس کی اطاعت کرنے لگے، اس سے ڈرے، اس کی حدود کے اندر رہے، اپنے کھانے پینے اور
لباس کی اصلاح کرے۔ جسے اپنے دین کی فکر ہوتی ہے، غفلت کی نیند سے بیدار ہو جاتا ہے،
آخرت میں نجات کا طالب ہوتا ہے، وہ اپنے دل کی اصلاح کا سب سے زیادہ فکر مند ہوتا ہے،
دل کی خرابی اور ہلاکت کے اسباب سے سب سے زیادہ دور رہتا ہے۔ حسن بصریa فرماتے
ہیں: جب تک تم اللہ کی فرماں بردار نہ ہو گے، تب تک تم اس سے محبت نہ کر پاؤ گے۔ یحییٰ
بن معاذt فرماتے
ہیں: جو اللہ کی حدود کے اندر نہ رہے اور اس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہو تو اس کا
دعویٰ سچا نہیں، اور جو دنیا سے محبت کرنے والا ہوتا ہے، اس کے نزدیک خواہشات نفس سے
زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ہوتی۔
اللہ کے بندو! دل کو زندگی نصیب ہوتی ہے نفس کے ساتھ جہاد کرنے
سے، نیک اور پرہیز گار لوگوں کی صحبت سے اور اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنے سے۔ دل میں اللہ
کی محبت جتنی زیادہ ہو جائے گی، بندہ اتنا ہی فرماں بردار بن جائے گا اور جتنا وہ فرماں
بردارہو گا، اس کی محبت اتنی ہی زیادہ ہو جائے گی۔ تمام نیک اعمال کا مقام ومرتبہ محبت
کے بعد ہی آتا ہے جن کی توفیق اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ خوش نصیب وہی ہے جسے اللہ
تعالیٰ خوش نصیب بنائے۔ بدبخت بھی وہی ہے جسے اللہ گمراہ کر دے۔ دل اللہ کے ہاتھ میں
ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’کیا یہ لوگ زمین
میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت
یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘
(الحج: ۴۶)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے مسلمانو! انسان کے سب سے چھوٹے اعضاء جسم پر سب سے بڑا اثر
ڈالتے ہیں۔ یعنی اس کے دل اور اس کی زبان پر۔ گناہ اور نافرمانی، خوف اور ڈر کا سبب
ہیں۔ فرماں برداری حفاظت کا ضامن قلعہ ہے۔ دلوں کو صرف اللہ کی نگہبانی میں ہی سکون
اور چین ملتا ہے۔ انہیں تب ہی سکون ملتا ہے جب وہ شریعت کی حدود میں رہیں۔ ان کی بصیرت
پر تب ہی پردہ پڑتا ہے اور ان کا نور حق، علم اور ہدایت کو پہچاننے کے لیے تب ہی ناکافی
ہوتا ہے جب وہ شیطان کے قبضے میں آ جائیں اور گمراہی کی کھائی میں گر جائیں۔ دو دل
ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک وہ جو اللہ کے ساتھ رہتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ہر
معاملے میں اس کا ساتھ دے اور دوسرا وہ کہ جسے شیطان گناہوں اور نافرمانیوں سے ذلیل
اور رسوا کر چھوڑتا ہے۔
پیارے بھائیو! دل بیمار بھی ہوتا ہے، مر بھی جاتا ہے اور اندھا
بھی ہو جاتا ہے۔
’’کیا وہ شخص جو
پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں
وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں
میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟۔‘‘ (الانعام: ۱۲۲)
دل کی بیماریوں میں سب سے پہلے شرک اور غیر اللہ پر بھروسہ ہے۔
اللہ کی پناہ ایسے شخص سے جو جان بوجھ کر کفر کی طرف جائے یا جس کا دل کفر پر مطمئن
ہو جائے۔
دل کی بڑی بیماریوں میں بدعت پرستی اور سنت کی خلاف وزری ہے۔
کیونکہ بہترین طریقہ نبی اکرمe کا
طریقہ ہے اور ایجاد کردہ عبادتیں بد ترین کام ہیں۔ نبی اکرمe نے
دل کی سلامتی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کینہ اور خواہشات پرستی سے دوری کا ذکر کیا اور
ساتھ مسلمان جماعت سے مضبوط تعلق اور حکمران کی اطاعت اور ان کے خلاف جانے سے بچنے
کا ذکر کیا۔ آپe نے
فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی مسلمان کا دل کبھی پیچھے نہیں رہتا، اعمال کو
اللہ کے لیے خالص کرنا، حکمرانوں کے ساتھ خلوص رکھنا اور مسلمان جماعت سے جڑے رہنا۔
(اسے اصحاب سنن نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا عبد اللہ بن مسعودt اور
سیدنا زید بن ثابتt سے
روایت کیا ہے۔)
اسی طرح دل کی بیماریوں میں خواہش پرستی اور خواہشات کے سامنے
جھک جانا بھی ہے۔ ابن قیمa فرماتے
ہیں: گناہوں کی سزا میں یہ بھی شامل ہے کہ (اللہ معاف کرے) ان سے دل کی بصیرت ختم ہو
جاتی ہے۔ اس کا نور جاتا رہتا ہے۔ علم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور ہدایت کی راہ غیر
واضح ہو جاتی ہے۔ دل کے اندھے پن سے پہلے دل بہت سی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے، جیسے
تکبر، نفاق، استہزاء، حسد، فساد وغیرہ۔
سنو! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ سنو! اللہ آپ
کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ یاد رکھو کہ جب گناہوں سے پرہیز نہ کیا جائے تو دل
اندھے پن اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’مگر یہ لوگ اس
معاملے سے بے خبر ہیں اور ان کے اعمال بھی اس طریقے سے (جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے)
مختلف ہیں‘ وہ اپنے یہ کرتوت کیے چلے جائیں گے۔‘‘ (المؤمنون: ۶۳)
دل کی بیماری کے بہت سے نتائج سامنے آتے ہیں۔ جیسا کہ راہ راست
سے بھٹک جانا، گناہوں میں پڑ جانا، دل پر مہر لگ جانا، شیطان کا ساتھی بن جانا اور
اس کی اغوا کاری میں بھٹکتے پھرنا۔
’’پھر جب انہوں نے
ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے۔‘‘ (الصف: ۵)
’’ان کے دلوں میں
ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا۔‘‘ (البقرۃ: ۱۰)
ہم اللہ کے عذاب سے اس کی پناہ میں آتے ہیں۔ اس کی دردناک سزا
سے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ رسوائی سے اس کی پناہ میں آتے ہیں۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! شرک اور مشرکوں
کو رسوا کر دے! سرکشوں، بے دینوں اور تمام دشمنان دین کو تباہ وبرباد فرما! اے اللہ!
ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما!
ہمارے حکمرانوں اور اماموں کی اصلاح فرما! اے پروردگار عالم! ہماری حکمرانی ان لوگوں
کے ہاتھوں میں دے جو تجھ سے ڈرنے والے، پرہیزگاری اپنانے والے اور تیری خوشنودی کے
طالب ہوں۔ آمین!
No comments:
Post a Comment