سیرت سیدنا عمار بن یاسرؓ
تحریر: جناب مولانا عبدالمالک مجاہد
یمن سے تاجروں کا ایک قافلہ مکہ کی طرف رواں دواں تھا۔ قافلے
میں بڑی تعداد میں اونٹ‘ گھوڑے اور خچر تھے۔ ان پر مختلف اشیاء لدی ہوئی تھیں۔ موسم
خاصا گرم تھا۔ قافلے والے عموماً صبح سویرے سفر کرتے اور جب دن روشن ہو جاتا اور سورج
کی شدت کی وجہ سے سفر کرنا مشکل ہو جاتا تو وہ کسی مناسب جگہ پڑاؤ ڈال دیتے۔ قافلے
کی منازل پہلے سے مقرر تھیں۔ ان کو خوب معلوم تھا کہ دوران سفر پانی کہاں سے ملتا ہے
اور انہیں رات کہاں بسر کرنا ہے۔ صحرا کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں‘ اس لیے قافلے اکثر
اوقات رات کے اندھیروں میں سفر کرتے۔ وہ ستاروں سے رہنمائی لیتے تھے۔ ان کے آباء واجداد
صدیوں سے یہ سفر کرتے چلے آ رہے تھے۔ جیسے جیسے مکہ قریب آتا جا رہا تھا‘ تاجر اپنے
اذہان میں پروگرام ترتیب دے رہے تھے کہ اس بار انہیں کیا کچھ خریدنا ہے اور کس کے پاس
اپنی چیزیں فروخت کرنا ہیں۔ وہ اس مرتبہ اپنے تصور میں بہت زیادہ منافع کی توقع لیے
بڑھتے چلے آ رہے تھے۔
اس قافلے میں تین افراد ایسے بھی تھے جن کو تجارت سے کوئی غرض
نہ تھی‘ نہ تو ان کے پاس سامان تجارت تھا‘ نہ وہ کسی منافع کے لیے سفر کر رہے تھے۔
یمن سے یاسر بن عامر اور ان کے دو بھائی حارث اور مالک اپنے گمشدہ چوتھے بھائی کی تلاش
میں نکلے تھے۔ ایک مدت پہلے ان کا بھائی گھر سے نکلا‘ پھر عرصے تک اس کی کوئی خبر نہ
ملی تو بھائیوں نے اس کی تلاش میں مختلف جگہوں پر رابطہ کیا مگر ناکامی ہوئی۔ مکہ مکرمہ
اس زمانے میں عربوں کا بہت بڑا مرکز تھا۔ مختلف علاقوں کے تاجر یہاں اکٹھے ہوتے تھے۔
کسی نے انہیں مشورہ دیا یا خود ان کے اپنے ذہن میں آیا کہ ہو سکتا ہے ان کا بھائی
مکہ میں مل جائے‘ چنانچہ یہ تینوں بھائی اس قافلے کے شریک سفر ہو گئے۔ پھر وہ دن آیا
کہ قافلہ مکہ کے قریب پہنچ گیا۔ لوگوں میں غیر معمولی جوش وخروش تھا۔ ادھر قریش بھی
قافلے کے منتظر تھے‘ تا کہ جب قافلہ مکہ مکرمہ میں داخل ہو تو اس کا والہانہ استقبال
کیا جائے۔ ان کی رہائش اور خورد نوش کا پہلے سے بندوبست ہو چکا تھا۔ قافلے والے سفر
کی تکان بھول کر خرید وفروخت میں مشغول ہو گئے۔ بڑے بڑے تجار کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ
جیسے ہی قافلہ آئے اس سے اہم اشیاء فوراً خرید لی جائیں۔ پھر قریشی اور یمنی آپس
میں گھل مل گئے۔ کوئی خرید رہا ہے تو کوئی بیچ رہا ہے۔ مگر یاسر اور اس کے بھائی اپنے
کام میں لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو تلاش کرنا شروع کیا۔ مکہ کی وادیوں اور
بازاروں کے علاوہ جہاں جہاں کسی نے بتایا وہ وہاں تک پہنچے اور اپنے بھائی کو ڈھونڈتے
رہے مگر ان کے بھائی کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ہر دن کا سورج ان کے لیے امید کی نئی کرن
لے کر آتا مگر شام ڈھلے ان کی امیدیں بھی غروب ہو جاتیں۔
قافلے کی واپسی کا وقت ہو چکا تھا‘ تاجروں نے اپنا اپنا سامان
باندھنا شروع کیا۔ یاسر اور اس کے بھائی اپنے مشن میں ناکام ہو چکے تھے انہوں نے واپسی
کا سوچنا شروع کیا۔ تینوں بھائی اکٹھے ہوئے تا کہ واپسی کی تیاری کریں‘ انہیں خیال
آرہا تھا کہ ہمارے اہل وعیال اور رشتہ دار یمن میں ہمارے منتظر ہوں گے۔ اچانک یاسر
نے اعلان کیا: ’’میرا یمن واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مجھے مکہ بہت پسند آیا ہے‘
اب میں یہیں قیام کروں گا۔‘‘ اسے بیت اللہ کا قرب وجوار اور ہمسائیگی بڑی اچھی لگی۔
اس کے بھائیوں نے واپسی پر ہر چند اصرار کیا مگر اس کا فیصلہ اٹل تھا۔ حتی کہ وہ دن
آپہنچا جب قافلہ یمن روانہ ہوا اور یاسر نے اپنے بھائیوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ
دیا۔
یاسر مکہ میں اکیلا تھا‘ اس کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہ تھا
جو مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیتا۔ اس زمانے کا دستور یہ تھا کہ جو شخص یا قبیلہ باہر
سے آتا تو مکہ کے کسی معزز آدمی یا بڑے خاندان کی کفالت میں آجاتا یا ان سے معاہدہ
کر لیتا تا کہ اگر کوئی اس پر ظلم یا زیادتی کرے تو وہ بڑا آدمی اس کا دفاع کر سکے۔
اس زمانے میں زندگی صرف طاقتور کے لیے تھی‘ جو لوگ غرباء‘ فقراء‘
مساکین یا غلام تھے ان کی زندگی بڑے اور طاقتور لوگوں کی مرہون منت تھی۔ یاسر نے بھی
قریش کے ایک بڑے خاندان بنو مخزوم کی کفالت حاصل کر لی۔ بنو مخزوم کا ایک اہم فرد ابوحذیفہ
بن مغیرہ تھا۔ یاسر کا اس کے ساتھ معاہدہ ہو گیا کہ وہ اس کا سرپرست ہو گا۔ ابوحذیفہ
کی ایک لونڈی تھی جس کا نام سمیہ بنت خیاط تھا۔ وہ بہت اچھے اخلاق وکردار کی مالک‘
مہربان اور وفادار خاتون تھیں۔ اسی خاتون سے سیدنا یاسر کی شادی ہو گئی۔ سیدنا یاسر
نے محنت مزدوری شروع کر دی۔ پھر اللہ نے سمیہ کی گود ہری کر دی۔ ان کے ہاں بیٹا ہوا
جس کا نام انہوں نے عمار رکھا۔ کچھ عرصے بعد دوسرا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ
رکھا۔ اب یہ گھرانہ چار افراد پر مشتمل تھا اور بنو مخزوم کی کفالت میں ان کی زندگی
بڑے اچھے طریقے سے بسر ہو رہی تھی۔ وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ بچے جوان ہوتے چلے گئے۔
اچانک مکہ مکرمہ میں ایک اعلان ہوا‘ جس نے سب کو چونکا دیا۔
ایک ہاشمی نوجوان نے جو اپنی بے مثل شرافت‘ حسن کردار‘ صداقت اور امانت میں بڑا معروف
تھا‘ اعلان نبوت کر دیا اور آہستہ آہستہ لوگ اس کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ زیادہ وقت
نہیں گزرا کہ مکہ کے سنجیدہ طبقے کی ایک معقول تعداد نے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
مشرکین نے ان کی بھر پور مخالفت شروع کر دی۔ جو اسلام قبول کرتا اس کا ناطقہ بند کر
دیا جاتا۔ خصوصاً کمزوروں‘ ناتوانوں اور فقیروں کی تو زندگی ہی اجیرن کر دی گئی۔ اللہ
کے رسول e نے
صفا پہاڑی پر واقع دارارقم کو اپنی دعوت کا مرکز بنا لیا۔ یہ گھر بنو مخزوم سے تعلق
رکھنے والے ارقم بن ابی الارقم کا تھا۔ نئے مسلمان ہونے والے اسی جگہ کا رخ کرتے۔ یہ
مسلمانوں کا خفیہ مرکز تھا۔ ایک دن دوپہر کے وقت سیدنا عمار بن یاسرw بھی
دارارقم کی طرف کشاں کشاں جا رہا تھا۔ وہ مکہ والوں کے رد عمل سے خوب واقف تھا۔ مگر
حق کی آواز تو اس کے دل کی آواز تھی۔ محمدe کی دعوت جو فطرت کی دعوت تھی‘ اس سے وہ کیسے دور رہ
سکتا تھا؟ عمار نے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا اور پھر
وہ دبے پاؤں آگے بڑھا۔ دارارقم کے قریب پہنچا تو اچانک اسے صہیب بن سنان رومی نظر
آئے۔ یہ بھی مکہ میں اجنبی تھے۔ انہوں نے عبداللہ بن جدعان کی کفالت میں سونے کا کاروبار
شروع کیا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ خاصے مالدار ہو گئے تھے۔ مگر ان کا بھی کوئی قبیلہ
یا بڑا خاندان نہ تھا۔ یہ بھی سیدنا عمار کی طرح غریب الوطن تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے
کو دیکھا‘ ہاتھ ملایا‘ پھر عمار پوچھنے لگے: صہیب! تم کہاں جا رہے ہو؟ اس سے پہلے کہ
صہیب اس سوال کا جواب دیتے‘ الٹا اُنہی نے سوال کر دیا: عمار! تم بتاؤ‘ تم کہاں جا
رہے ہو؟
میں تو محمدe کے
پاس جانا اور ان کی باتیں سننا چاہتا ہوں۔ سیدنا عمار نے جواب دیا۔ میں بھی انہی کے
پاس جا رہا ہوں۔ سیدنا صہیب نے سرگوشی کی۔
دونوں نے گرمجوشی سے آپس میں پھر ہاتھ ملایا کیونکہ دونوں کی
منزل اور مراد مشترک تھی۔ اب دونوں دوست دارارقم میں اکٹھے داخل ہوتے ہیں۔
ان کا استقبال کائنات کی سب سے افضل اور اعلیٰ شخصیت نے کیا۔
وہ ان کو عقیدۂ توحید بتا رہے تھے۔ رب کی پہچان کرا رہے تھے۔ اسلام کی خوبیاں اُجاگر
کر رہے تھے اور تھوڑی ہی دیر بعد دونوں کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان
کر رہے تھے۔
دونوں نے وہ دن اللہ کے رسولe کی خدمت میں گزارا‘ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اپنے سینوں
کو ایمان کی روشنی سے منور کیا۔ شام ہوئی تو چھپتے چھپاتے وہاں سے نکل آئے۔
سیدنا عمارt نے
اپنے والدین کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی۔ ان کے لیے یہ دعوت کوئی نئی چیز نہ تھی۔
مکہ کا ہر شخص اس انقلابی دعوت سے آگاہ ہو چکا تھا اور یہ دونوں میاں بیوی سلیم الفطرت
تو پہلے ہی سے تھے‘ بیٹے کی بات پر انہوں نے لبیک کہا اور فوراً اسلام قبول کر لیا۔
توحید کی خوشبو چھپی نہیں رہ سکتی۔ تھوڑے ہی عرصے میں لوگوں کو معلوم ہونا شروع ہو
گیا کہ آلِ یاسر نے اسلام قبول کر لیا ہے اور پھر ایک دن بنو مخزوم کے سرکردہ افراد
نے پوچھا: کیا تم لوگ بھی صابی ہو گئے ہو؟ انہوں نے اثبات میں سرہلا دیا۔ بس پھر کیا
تھا۔ یہ اعتراف کوئی چھوٹا جرم نہ تھا۔ فوراً ہی اس کی سزا ملنے لگی۔ مار پیٹ‘ گالیاں
اور تنگ کرنا تو معمولی بات تھی۔ وہ جتنا ظلم کر سکتے تھے اس میں کوئی کسر باقی نہیں
رکھی گئی۔ وادئ بطحا میں جب سورج کی گرمی سے مکہ تپ رہا ہوتا‘ آل یاسر پر کوڑے برسائے
جاتے۔ ان کو پانی سے محروم رکھا جاتا۔ گرم زمین پر لٹا کر زنجیروں سے باندھ دیا جاتا۔
ان سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ محمدe کا ساتھ چھوڑ دو۔ مگر جیسے جیسے ان کا ظلم بڑھتا چلا
گیا آلِ یاسر کا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا گیا۔
ایک روز دنیا کی سب سے مشفق ہستی کا وادئ بطحا سے گزر ہوا۔ دیکھا
کہ آلِ یاسر کو عذاب دیا جا رہا ہے۔ یاسر خود‘ اس کی بیوی سمیہ اور بیٹے عبداللہ اور
عمار زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ انہوں نے اکیلے رب کو اپنا
مشکل کشا اور حاجت روا مان لای ہے۔ سیدنا یاسر بن عامرt کہہ رہے ہیں: [الدہر ہکذا] ’’زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ اللہ کے رسولe نے ان کی حالت زار دیکھی۔ ان کے جسم سے بہتا ہوا خون
دیکھا‘ وہ لاچار‘ بے یار ومددگار انتہائی بے بسی کی حالت میں ظالموں کے ہاتھوں مار
کھا رہے تھے۔ آپe نے
عرش والے رب کی طرف نگاہ دوڑائی اور زبان اقدس سے یہ الفاظ نکلے:
[اِصْبِرْ، ثُمَّ
قَالَ: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِآلِ یَاسِرَ۔ وَقَدْ فَعَلْتَ۔]
’’صبر کرو‘ پھر گویا
ہوئے: اے اللہ! آلِ یاسر کو بخش دے اور یقینا تو نے بخش دیا ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں اس طرح ہے:
[اَبْشِرُوْا اٰلَ
یَاسِرَ! فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّة۔]
’’آلِ یاسر! تمہارے
لیے بشارت اور خوشخبری ہو کہ اللہ کی جنت تمہارا ٹھکانہ ہے۔‘‘
مظلوم آلِ یاسر نے یہ خوشخبری سنی تو ان کے ایمان میں مزید
اضافہ ہو گیا کہ خود ناطق وحی نے ان کو جنت کی بشارت دی ہے۔ یہ دنیا کا عذاب تو محض
چند روزہ ہے۔ ظلم ڈھانے والے آخر کتنا ظلم کر لیں گے‘ مگر جنت کی خوشبو! واہ واہ!
سبحان اللہ! اس کے کیا کہنے۔ آلِ یاسر صبر کرتے ہیں مگر بنو مخزوم کے ظلم وستم میں
مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک دن نوبت یہ آگئی کہ سیدنا یاسر اس عذاب کو برداشت
نہ کر سکے۔ وہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے جوار رحمت میں پہنچ گئے۔ ان کے فرزند عبداللہ
بھی مار کھاتے کھاتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور سیدہ سمیہr تو
ان کی لونڈی تھیں۔ ابوجہل کے مسلسل ظلم کا نشانہ بننے والی بوڑھی خاتون بھلا کب تک
سختیاں برداشت کرتی۔ ایک دن بد بخت ابوجہل نیزہ لے آیا اور بولا: محمد کو چھوڑ دو
یا مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ سیدہ سمیہr کے سامنے تو آخرت تھی۔ وہ دین حنیف سے ایک لمحے کے
لیے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھی۔ ابوجہل نے نیزے سے سیدہ سمیہr کی
شرمگاہ پر وار کیا۔ سیدہ سمیہr تڑپ
کر گری اور اپنے رب کے حضور پہنچ گئیں۔ اس نے اپنے رب کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اُسے
پورا کر دکھایا۔ اس نے ایک اعلان کیا تھا کہ میرا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامت
اختیار کی تھی۔ اس طرح اسلام کی راہ میں قربان ہو جانے پر اس خاتون کو اسلام کی پہلی
شہید خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سیدہ سمیہr اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے رب کے حضور چلی گئیں
اور رہتی دنیا تک کائنات کی تمام مسلمان خواتین کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئیں:
جان دی‘ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اب اس چھوٹے سے گھرانے میں سیدنا عمارt ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ان کے والدین اور بھائی ان کی آنکھوں
کے سامنے اپنی جانیں دین حق کی راہ میں قربان کر چکے ہیں۔ اب ان کی باری آتی ہے۔ ان
پر مختلف قسم کے عذاب آزمائے جا رہے ہیں۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ محمدe کے
بارے میں کچھ ایسے کلمات کہہ دو جو ہمیں پسند ہیں اور ہمارے بتوں کے لیے بھی کچھ خیر
کے کلمات کہہ دو۔
انسان کتنا ہی جری کیوں نہ ہو مگر جب ظلم اور جبر کی انتہا ہو
جاتی ہے تو وہ کبھی مجبور بھی ہو جاتا ہے۔ سیدنا عمارt کو سخت تشدد کے بعد پانی میں ڈبکیاں دی گئیں تو انہوں
نے نیم بے ہوشی کے عالم میں اپنی زبان سے بتوں کے بارے میں کلمۂ خیر کہہ دیا اور ان
کا دوسرا مطالبہ بھی پورا کر دیا۔ ظالموں نے ان کی جان چھوڑ دی۔ ہوش آیا‘ سوچا‘ یہ
میں نے کیا کہہ دیا! اللہ کے رسولe کے بارے میں ایسے کلمات‘ بتوں کے بارے میں کلمۂ خیر‘
آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے سیدنا عمار اللہ کے رسولe کی
خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ آپe نے
دریافت فرمایا: عمار! پیچھے کیا معاملہ ہوا؟ عرض کیا: [شر یا رسول اللہ!] ’’اللہ کے رسول! مجھ سے بڑا غلط کام سرزد ہو گیا۔ ان ظالموں
نے مجھے اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک آپ کے بارے میں میری زبان سے چند غلط کلمات اور
اپنے بتوں کے لیے کلمۂ خیر نہیں کہلوا لیا۔‘‘
اللہ کے رسولe نے
اپنے ساتھی کی طرف دیکھا کہ والدین اور بھائی کی جدائی کا غم سہنے والا عمار اپنے ضمیر
پر بوجھ لیے پھر رہا ہے۔ اس کو تو مجبور کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنی زبان سے ایسے کلمات
ہرگز نہیں نکالنا چاہتا تھا۔ آپe نے ان سے سوال کیا:
[فکیف تجد قلبک؟]
’’(یہ کلمات کہنے
کے بعد) تمہارے دل کی کیا کیفیت ہے؟‘‘
جواب دیا: [مطمئن بالایمان] ’’دل تو حالتِ ایمان
پر مطمئن ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو اپنے اس بندے پر پیار آگیا کہ اس کا تو کوئی
قصور نہیں اور پھر سیدنا جبریل امین وحی لے کر آجاتے ہیں:
’’جس نے اللہ پر
ایمان لانے کے بعد کفر کیا اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے لیکن جسے مجبور کر دیا
جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اس پر کوئی گرفت نہیں۔‘‘ (النحل: ۱۰۶)
ظلم کی ہر اندھیری رات کے بعد روشن صبح بھی تو طلوع ہوتی ہے۔
اللہ کے رسولe نے
اپنے ساتھیوں کو مدینہ طیبہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آہستہ آہستہ صحابہ کرام] مدینہ
طیبہ جا رہے ہیں۔ ایک دن سیدنا عمارt بھی مکہ کی سر زمین چھوڑ کر مدینہ طیبہ جا پہنچے۔ یہ
شہر امن کا گہوارہ ہے۔ کچھ دنوں بعد اللہ کے رسولe بھی تشریف لے آتے ہیں۔ مدینے پہنچ کر پہلا کام مسجد
نبوی کی تعمیر کا تھا۔ بنو نجار کے محلے میں دو یتیم بچے سہل اور سہیل جو سیدنا اسعد
بن زرارہt کی
کفالت میں تھے‘ ان سے زمین خرید لی گئی۔ یوں اللہ کے رسولe اپنی
امت کو سبق دے رہے ہیں کہ مسلمان چاہے کسی بھی جگہ جائیں اپنا گھر بعد میں بنائیں پہلے
اللہ تبارک وتعالیٰ کا گھر آباد کریں۔ مہاجرین اور انصار کے لیے منادی اعلان کر رہا
ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کرنا ہے۔ رضا کاروں کی ضرورت ہے۔ آئیے! مسجد کی تعمیر میں
حصہ لیں۔ پھر چسم فلک نے دیکھا کہ بنی نوع انسان کی سب سے اعلیٰ شخصیت خود عملی طور
پر مسجد کی تعمیر میں حصہ لے رہی ہے۔ صحابہ نے دیکھا کہ ان کے قائد‘ ان کے رہنما‘ ان
کے رسول خود اپنے دست مبارک سے پتھر اٹھا رہے ہیں تو وہ دیوانہ وار آگے بڑھتے ہیں
اور مسجد کی تعمیر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایک صحابی نے اپنے ساتھیوں کو متوجہ کیا
اور کہا:
لَئِنْ قَعَدْنَا وَالنَّبِیُّ یَعْمَلُ
لَذٰلِکَ مِنَّا الْعَمَلُ الْمُضَلَّلُ
’’ہم بیٹھے رہیں
اور نبیu کام
کرتے رہیں‘ اب ہمارا بیٹھے رہنا بڑا ناروا عمل ہے۔‘‘
اِدھر مسلمانوں نے اس کے جواب میں کہا:
اَللّٰہُمَّ! اِنِّیْ الخیر خَیْرُ الْآخِرَة
فَاغْفِرْ لِلْاَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَة
’’اے اللہ! کامیابی
تو صرف آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اے اللہ! انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔‘‘
سیدنا علی اور سیدنا عمار بن یاسر] یوں رجز پڑھ رہے ہیں:
لَا یَسْتَوِیْ مَنْ یَّعْمُرُ الْمَسَاجِدَ
یَدْاَبُ فِیْہِ قَائِمًا وَّقَاعِدًا
وَمَنْ یرے عَنِ التُّرَابِ حَائِدًا
’’وہ شخص جو اٹھتے
بیٹھتے ہر حال میں مسجد کی تعمیر میں مصروف رہتا ہے اور وہ آدمی جو مسجد بنانے میں
کوئی حصہ ہی نہیں لیتا ان دونوں کا درجہ کبھی برابر نہیں ہو سکتا۔‘‘
سیدنا عمار بن یاسرw بھی دوسرے صحابہ کے ساتھ پتھر لے لے کر آ رہے ہیں۔
یہ قوی الجسم تھے۔ دوسروں نے ایک پتھر اٹھایا ہوا ہے اور سیدنا عمارt نے
دو پتھر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ کے رسولe نے رحم بھری نظروں سے اپنے پیارے صحابی کی طرف دیکھا۔
یہ کتنا وفادار ہے! اور پھر پشین گوئی فرما:
[وَیْحَ عَمَّارٌ،
تَقْتُلُہُ الْفِئَة الْبَاغِیَة۔]
یہاں ’’ویح‘‘ کا مفہوم رحمت اور ترحم کے معنوں میں ہے کہ ’’عمار کو ایک باغی گروہ
قتل کرے گا۔‘‘
سیدنا عمار بن یاسرw نے ساری زندگی اللہ کے رسولe کے
ایک اطاعت گزار غلام کی حیثیت سے گزار دی۔ تمام غزوات میں وہ اللہ کے رسولe کے
ساتھ رہے۔ اللہ کے رسولe بھی
تو اپنے ساتھیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ یہ محبت یکطرفہ نہ تھی۔ بلکہ آپe تو
اپنی پوری امت کے خیر خواہ اور غم خوار تھے۔ آپ کو ایک ادنیٰ صحابی سے بھی بڑی محبت
تھی اور یہ تو سیدنا عمارt تھے
جن کا پورا خاندان اسلام پر بے دریغ قربان ہو گیا اور پھر ایک روز اپنے اس پیارے صحابی
کو اللہ کے رسولe نے
یہ اعزاز بخشا:
[إِنِّی لَا اَدْرِی
مَا قَدْرُ بَقَائِی فِیکُمْ، فَاقْتَدُوا بِالَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِی ـ وَاَشَارَ إِلَی
اَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَ ـ وَتَمَسَّکُوا بِعَہْدِ عَمَّارٍ، وَمَا حَدَّثَکُمْ ابْنُ
مَسْعُودٍ فَصَدِّقُوہُ۔]
’’میں نہیں جانتا
کہ میں کب تک تمہارے درمیان رہوں گا۔ تم لوگ میرے بعد دو شخصیات ابوبکر اور عمرw کی
اقتدا کرنا اور عمار کے موقف کو مضبوطی سے پکڑنا جب عبداللہ بن مسعود تمہارے روبرو
کوئی بات بیان کریں تو اس کی تصدیق کرنا۔‘‘
جب اللہ کے رسولe وفات
پا گئے تو سیدنا عمارt بھی
دیگر صحابہ کرام] کی
طرح بے حد غم زدہ ہوئے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو تھمتے ہی نہ تھے۔ یہ مسلمانوں پر بڑا
مشکل دور تھا۔ بہت سارے قبائل مرتد ہو گئے۔ بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ اس
وقت سیدنا ابوبکر صدیقt کی
استقامت اور عبقریت کی وجہ سے یہ فتنہ دب گیا۔ انہوں نے مختلف محاذوں پر مجاہدین کو
بھیجا جنہوں نے کامیابیاں حاصل کیں۔ سیدنا عمار بن یاسرw اس
فوج کے ہراول دستوں میں شامل رہے۔
جنگ یمامہ میں سیدنا عمار بن یاسرw شریک تھے۔ گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی‘ یہ ایک پتھر
پر کھڑے ہو گئے اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے:
[یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ!
اَمِنَ الْجَنَّة تَفِرُّونَ؟ اَنَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، ہَلُمَّ إِلَیَّ۔]
’’مسلمانو! کیا تم
جنت سے بھاگ رہے ہو؟ ادھر آؤ! میں عمار بن یاسر ہوں۔‘‘
چنانچہ فوج کے دستے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ
پڑے اور شدید جنگ کے بعد مجاہدین اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔
سیدنا عمار بن یاسرw ایک میدان جنگ سے دوسرے میدانِ جنگ میں منتقل ہوتے رہے۔
ہر میدان میں داد شجاعت دیتے رہے۔ قادسیہ کی جنگ اسلامی تاریخ میں بڑی اہم ہے۔ اس کے
بعد مسلمانوں پر مزید فتوحات کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ سیدنا عمار بن یاسرw اس
اہم جنگ میں بھی شریک تھے اور پھر وہ دن بھی آیا جب سیدنا عمر فاروقt نے
ان کو کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ انہوں نے اہل کوفہ کو خط لکھا:
[إِنِّی قَدْ بَعَثْتُ
إِلَیْکُمْ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ اَمِیرًا، وَ ابْنَ مَسْعُودٍ مُعَلِّمًا وَوَزِیرًا،
وَقَدْ جَعَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ عَلَی بَیْتِ مَالِکُمْ، وَہُمَا لَمِنَ النُجَبَائِ،
مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍﷺ، مِنْ اَہْلِ بَدْرٍ فَاسْمَعُوا، لَہُمَا وَاَطِیْعُوْا]
’’میں آپ لوگوں
کی طرف عمار بن یاسر کو امیر بنا کر اور عبداللہ بن مسعود کو معلم اور وزیر بنا کر
بھیج رہا ہوں اور میں نے ابن مسعود کو ناظم بیت المال بھی مقرر کیا ہے۔ یہ دونوں بڑے
کریم النفس اور اونچے لوگ ہیں۔ یہ محمدe کے
وہ ساتھی ہیں جنہوں نے بدر میں شرکت کی۔ ان کے احکامات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔‘‘
سیدنا عمار بن یاسرw نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں ایک بھر پور زندگی
بسر کی اور بالآخر سن ۳۷ ہجری میں جنگ صفین میں سیدنا علی بن ابی طالبt کی
طرف سے لڑتے ہوئے ۹۴ برس کی عمر میں ابوالغادیہ المزنی کے ہاتھوں خلعت شہادت سے سرفراز
ہوئے۔
سیدنا عمار بن یاسرw نے بالکل اوائل میں اسلام قبول کیا۔ بعض روایات میں
ہے کہ اس وقت تک صرف چار یا پانچ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ تمام صحابہ کو ان
کی اس فضیلت کی خوشخبری مل چکی تھی کہ دوسرے لوگ تو اکیلے اکیلے جنت میں جائیں گے مگر
آلِ یاسر کا سارا گھرانہ اکٹھا جنت میں جائے گا۔ ان کے کانوں میں نبی کریمe کا
یہ فرمان مبارک ابھی تک گونج رہا تھا:
[اَبْشِرُوا آلَ
عَمَّارٍ، وَآلَ یَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّة]
’’اے خاندان یاسر!
صبر سے کام لو‘ تمہارا ٹھکانا اللہ کی جنت ہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment