مولانا ابوحفص عثمانی اور جامعہ سلفیہ
تحریر: جناب مولانا محمد خالد سیف
۱۹۶۱ء کی وہ سرمئی شام اب تک چشم تصور میں ہے‘ جب میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ ناظم
صاحب کی آمد کا منتظر تھا کہ اچانک آواز آئی: ’’ناظم صاحب آ رہے ہیں‘ ناظم صاحب آ رہے
ہیں۔‘‘
میں نے دیکھا کہ ایک نہایت وجیہ اور متین شخص نپے تلے قدم اٹھاتے
ہوئے جامعہ کے گیٹ سے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ صاف ستھرا لباس‘ قدرے طویل قامت‘ مضبوط
ومستحکم سٹرکچر‘ صاف رنگ‘ چہرے پر سنت کی بہار‘ آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں کا چشمہ
اور چشمے کے پیچھے ذہانت وفطانت اور تدبر ودانش کی غماز آنکھیں‘ یہ تھے حضرت مولانا
محمد اسحاق چیمہa اس
وقت کے جامعہ سلفیہ کے ناظم‘ جن سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل ہو رہا تھا۔ میں اور
کچھ دیگر ساتھی ان کے اس لیے منتظر تھے کہ فارم داخلہ پر ان کے دستخط ثبت ہونے سے جامعہ
کی پہلی جماعت میں ہمارے داخلہ کی باقاعدہ کارروائی مکمل ہو سکے۔
جامعہ کی تاریخ میں مولانا محمد اسحاق چیمہ aکا نام سنہری حروف
میں جگمگاتا رہے گا۔ بلاشبہ انہوں نے اس چمن زار کتاب وسنت کی اپنے خون جگر سے آبیاری
کی تھی‘ کبھی اپنے رفقاء کرام مولانا محمد رفیق مدن پوریa‘ مولانا عبیداللہ احرارa‘ مولانا محمد یعقوب
بھامڑیa‘ مولانا عبدالواحدa اور
دیگر حضرات کے ہمراہ جامعہ کے لیے فنڈز خصوصاً گندم کے موسم میں پنجاب کے قریہ قریہ
اور گاؤں گاؤں میں جا کر فراہمی گندم کے لیے مہم چلا رہے ہیں اور کبھی چھکڑے یا ٹرک
پر آنے والی گندم کی بوریوں کو اپنی کمر پر لاد کر سٹور میں پہنچا رہے ہیں۔ میں نے
دیکھا کہ بڑی عمر کے دو دو طالب علم یا عملے کے لوگ مل کر اپنے بازوؤں پر بوری اٹھاتے‘
جبکہ اللہ کا یہ شیر اکیلا اپنی کمر پر اڑھائی من کی بوری اٹھا لیتا اور اگر میرا حافظہ
غلطی نہیں کر رہا تو کبھی شاید دو دو بوریاں بھی‘ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
مولانا چیمہ صاحبa کا معمول تھا کہ وہ قریبا روزانہ بوقت شام جامعہ میں
تشریف لاتے اور وقت ضرورت صبح وشام دونوں وقت بھی۔ تعجب انگیز بات یہ کہ بسا اوقات
آدھی رات کے وقت بھی‘ معلوم یوں ہوتا ہے کہ ذمہ داری کا احساس انہیں رات کو بھی آرام
سے سونے نہ دیتا۔ سردیوں کے موسم میں بھی رات کو نرم اور گرم بستر چھوڑ کر جامعہ کا
چکر لگاتے‘ ان دنوں ان کی رہائش جناح کالونی میں تھی۔ سفر کی سہولتیں موجود نہ تھیں‘
اللہ جانے کہ وہ آدھی رات کے وقت جامعہ میں پہنچ کیسے جاتے تھے؟ اسی دور کا یہ واقعہ
مجھے سینئر ساتھیوں نے سنایا کہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت آپ جامعہ میں تشریف لائے۔
حالات کے جائزے کے لیے ایک ایک کمرے میں گئے کہ کسی طالب علم کو کوئی پریشانی نہ ہو‘
کوئی بیمار نہ ہو‘ کسی کو علاج معالجے کی کوئی ضرورت نہ ہو لیکن آپ نے دیکھا کہ تمام
طلبہ اپنے اپنے کمروں میں محو استراحت ہیں البتہ ایک کمرے میں لائٹ جل رہی ہے۔ آپ دروازے
کو آہستہ سے کھول کر اندر گئے تو دیکھا کہ ایک طالب علم نے کتاب آگے رکھی ہوئی ہے اور
وہ بڑے انہماک اور استغراق کے ساتھ کتاب کے مطالعہ میں مشغول ہے۔ محبت اور شفقت سے
فرمایا: عبیداللہ! دیکھو رات بیت گئی ہے‘ تمہارے سارے ساتھی سو رہے ہیں‘ اب تم بھی
سو جاؤ۔ اس وقت کے یہ عبیداللہ نامی طالب علم آج حضرت مولانا مفتی عبیداللہ عفیفd کے
نام سے مشہور ہیں جو معروف محقق‘ عالم‘ مصنف اور شیخ الحدیث ہیں۔ سچ فرمایا اللہ سبحانہ
وتعالیٰ نے:
{وَ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا
فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۱ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ} (العنکبوت:
۶۹)
’’اور جن لوگوں نے
ہمارے لیے کوشش کی ہم ان کو ضرور اپنے رستے دکھائیں گے اور اللہ تو نیکو کاروں کے ساتھ
ہے۔‘‘
مولانا چیمہ صاحبa کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا
تھا۔ وہ صاحب فہم وبصیرت عالم‘ تجربہ کار مدرس‘ دانشور‘ مدبر‘ بہترین منتظم اور مربی
تھے۔ وہ نہایت احسن انداز میں جامعہ کے نظم ونسق‘ انتظام وانصرام اور طلبہ کی تعلیم
وتربیت کے فرائض سے عہدہ برآ ہو رہے تھے۔ ایک ایک طالب علم کی خوبیوں اور خامیوں پر
ان کی نظر ہوتی۔ ہمارے مرحوم فاضل دوست مولانا محمد یوسف کاظمa کی
علمی وادبی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کاظم صاحب کو دار العلوم ندوۃ العلماء
میں داخلہ کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ اس سلسلے میں بھر پور تعاون فرمایا اور انہوں نے
جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لے لیا۔ چنانچہ یہ
الگ بات ہے کہ لکھنؤ کی آب وہوا انہیں موافق نہ آئی اور وہ وہاں سے جلد ہی واپس آگئے۔
جیسا کہ کاظم صاحب نے خود راقم سے اس کا ذکر فرمایا تھا۔ ندوہ سے تعلیم کی تکمیل کے
بغیر مراجعت کا انہیں دکھ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کی صورت میں
ان کے اس دکھ کا ازالہ فرما دیا۔
پاکستان سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے واے طلبہ کا یہ دوسرا
بیج تھا‘ جس میں جامعہ سلفیہ کے تین فضلاء شامل تھے: 1 حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa 2 حضرت
مولانا محمد یوسف کاظمa اور
3 حضرت
مولانا محمد ابراہیم خلیل بلتستانیd۔ راقم کو مؤخر الذکر سے تلمذ کا شرف
بھی حاصل ہے اور میں نے آپ سے ۱۹۶۲ء میں جامعہ سلفیہ
میں بلوغ المرام کا درس لیا۔ میرے لیے سیف کا تخلص انہی کا تجویز کردہ ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے
سب سے پہلے بیج میں ڈاکٹر صہیب حسن بن الشیخ عبدالغفار حسنa‘ مولانا حسن جانa (پشاور) اور ان
کے رفقاء تھے۔
سچ کہتے ہیں ’’المبرد‘‘ کہ [یذکر الخبر بالخبر] بات سے بات یاد آتی ہے۔ بات ہو رہی تھی مولانا اسحاق چیمہ کی
طلبہ کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر کی‘ خوبیوں پر نظر کی مثال آپ نے ملاحظہ فرمائی۔
اب خامیوں پر نظر کی ایک چھوٹی سی مثال: انہوں نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک طالب علم کی
داڑھی سنت کے مطابق پوری نہیں‘ انہوں نے پوچھا: اسماعیل! تمہاری داڑھی چھوٹی کیوں ہو
گئی ہے؟ بذلہ سنج اسماعیل نے جواب دیا: حضرت! سردیوں کا موسم ہے‘ رات کو لحاف اوڑھ
کر سوتے ہیں‘ لحاف سے رگڑ کھا کھا کر داڑھی چھوٹی ہو گئی ہے۔ جواب سن کر حضرت چیمہ
صاحب مسکرانے لگے اور محفل کشت زعفران بن گئی۔ پھر انہوں نے بڑی محبت اور شفقت سے سمجھایا
کہ اگر دینی طلبہ سنت پر صحیح عمل نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟ اس نصیحت کے بعد
محمد اسماعیل نے سنت کے مطابق عمل شروع کر دیا۔
بات طول اختیار کرتی جا رہی ہے‘ اس وقت مولانا محمد اسحاق چیمہa نور
اللہ مرقدہٗ وبرد مضجعہ کے حالات وواقعات بیان کرنا مقصود نہیں۔ اس سلسلے میں قارئین
کرام مکرمی اخی فی اللہ حضرت مولانا ارشاد الحق اثریd کے ’’مقالات‘‘ جلد چہارم کی طرف مراجعت فرمائیں۔ حضرت
چیمہ صاحب کا ذکر خیر بطور تمہید اس لیے ہوا کہ اس وقت میں اس شخصیت کے بارے میں اپنی
یادوں کو تازہ کرنا چاہتا ہوں جو آپ کے جامعہ کے منصب نظامت سے سبکدوش ہونے کے بعد
اس منصب پر فائز ہوئی اور وہ تھے مولانا ابوحفص عثمانیa۔
مولانا چیمہ صاحب مرحوم بعض اکابر جماعت کے ساتھ اختلاف کے باعث
اپنے منصب سے سبکدوش ہو گئے‘ آپ کے سبکدوش ہونے کے بعد عارضی طور پر جناب حاجی محمد
یوسف چغتائی مرحوم‘ یوسف ڈائز کارپوریشن‘ کچہری بازار فیصل آباد کو نظامت سپرد کر دی
گئی اور مستقل ناظم کے تقرر کے لیے غور وفکر شروع ہوا حتی کہ مولانا ابوحفص عثمانیa کو
اس منصب جلیل پر فائز کر دیا گیا۔ مولانا عثمانی غالبا مولانا محمد اسماعیل سلفیa اور
جناب میاں فضل حقa کا
حسن انتخاب تھے۔
مولانا عثمانی صاحب اس وقت خوشاب میں خطابت کے فرائض انجام دے
رہے تھے‘ وہ بلاشبہ بہت سی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا‘ وہ
پختہ کار اور محقق عالم دین‘ مناظر وخطیب‘ مصنف ومترجم اور بہترین منتظم تھے۔ اہل حدیث
اور دیگر فرقوں دیوبندی‘ بریلوی اور شیعہ وغیرہ کے ما بین اختلافی مسائل پر بڑی گہری
نظر رکھتے تھے۔ جامعہ میں بحیثیت ناظم کام شروع کرنے سے چند روز پہلے وہ جامعہ میں
تشریف لائے۔ یہ ۱۹۶۲ء کی بات ہے‘ ان کی اس آمد کے غالبا دو مقصد تھے 1 جامعہ
کا معائنہ اور صورت حال کا جائزہ اور 2 جامعہ کے تمام اساتذہ کرام اور طلبہ سے ایک خصوصی خطاب۔
انہوں نے یہ خطاب جامعہ کی قدیم مسجد میں نماز عصر کے بعد فرمایا۔ آج تک وہ منظر میری
آنکھوں کے سامنے ہے اور خوب اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے حمد وثناء کے بعد درج ذیل
آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:
{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ
عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۱ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۱ فَلَا تَظْلِمُوْا
فِیْہِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ
کَآفَّۃً۱ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ}
’’جس دن اللہ نے
آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس دن سے اللہ کے نوشتہ کے مطابق اللہ کے ہاں مہینوں
کی تعداد بارہ ہی ہے۔ جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ ہے لہٰذا ان
مہینوں میں (قتال ناحق ہے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جیسے
وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ (التوبہ: ۳۶)
جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ انہوں نے ابتدائی اور تمہیدی باتوں کے
بعد فرمایا:
اس آیت کریمہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ ابتدائے آفرینش ہی سے سال
کا دورانیہ بارہ مہینوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں اور وہ ہیں:
ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب۔ محرم بلاشبہ حرمت والا مہینہ ہے‘ اس کا تقدس اور
احترام ملحوظ رہنا چاہیے‘ یہ اتفاق کی بات ہے کہ سیدنا حسینt اور آپ کے رفقاء کرام کی شہادت کا واقعہ محرم میں پیش
آیا لیکن واقعہ کربلاء کا ماہ محرم کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس واقعہ کی آڑ میں
حضرات صحابہ کرام] پر
جو سب وشتم اور لعن طعن کیا جاتا ہے بلکہ کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور ایک خاص مکتب
فکر نے اسے اپنا دین وایمان قرار دے دیا ہے۔ جبکہ یہ سب کچھ دین وایمان کے صریحا منافی
ہے۔ حد ہے کہ جن پاکباز قدوسی صفات صحابہ کرام] کی محنتوں اور کوششوں کی وجہ سے دنیا میں اسلام پھیلا
اور اس دور میں ہم تک ایمان پہنچا ان کی تکفیر کی جاتی ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ان
کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام] نے
قرآن مجید میں تحریف کرتے ہوئے کمی بیشی کر دی لہٰذا نہ موجودہ قرآن پر اعتماد ہے اور
نہ ان احادیث پر جو اہل سنت کی کتب حدیث میں موجود ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ سیدنا علیt کی
امامت نص قرآن سے ثابت تھی لیکن صحابہ کرام] نے اس آیت ہی کو قرآن سے نکال دیا لہٰذا موجودہ کتاب
وسنت نا قابل اعتماد ہے‘ ان کے بقول امام مہدی منتظر ظہور فرما کر انہیں صحیح دین وشریعت
کی تعلیم دیں گے اور اس کے مطابق یہ عمل کریں گے۔
عثمانی صاحب نے اس مکتب فکر کے اس طرح تفصیل کے ساتھ دیگر عقائد
کے تعارف کے بعد بتایا کہ
درحقیقت یہ افکار ونظریات یہودیت ومجوسیت سے کشید کیے گئے تھے۔
یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ آفتاب اسلام کے طلوع ہونے کے بعد ان کی حیثیت وشوکت ختم
ہو گئی‘ مدینہ منورہ سے انہیں جلا وطن کر دیا گیا‘ خیبر میں انہیں شکست وہزیمت اٹھانا
پڑی‘ اسلام کا سیل رواں اب تھمتا ہی نہیں تو انہوں نے محسوس کیا کہ اب ہم اسلام اور
مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو انہوں نے صنعاء یمن کے ایک یہودی عبداللہ بن سبا
کی قیادت میں اسلام کے خلاف ایک بڑی خوفناک سازش تیار کی کہ سیدنا علیt اور
اہل بیت کی محبت کا لیبل لگاؤ اور تمام اسلامی تعلیمات کا حلیہ بگاڑ دو‘ اس مکتب فکر
کے ایک ایک مسئلے کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لو‘ وہ تمہیں کتاب وسنت کے منافی
نظر آئے گا۔
عثمانی صاحب نے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ
سبائیت پر پردہ ڈالنے کے لیے کئی سبائیوں نے ابن سبا کے وجود ہی کا انکار کر دیا
ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابن سبا اور اس کی اس مذموم تحریک سبائیت کا طبری‘ ابن عساکر‘
ابن خلدون‘ ابن کثیر اور ابن حجرS جیسے
تمام مؤرخین نے ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی سبائی اعتراض کرے کہ یہ مؤرخین اور ان کی کتب
تاریخ ہمارے نزدیک معتبر ہی نہیں کیونکہ یہ تمام اہل سنت کی ہیں تو ہم اس کے جواب میں
یہ کہیں گے کہ ابن سبا کا ذکر صرف اہل سنت ہی کی کتب میں نہیں بلکہ اس کا ذکر تو شیعہ
کی قدیم کتب تاریخ ورجال ’’منہج المقال‘‘، حلّی کی ’’کتاب الرجال‘‘، ’’رجال کشی‘‘ اور
نور بخشی کی ’’فرق الشیعہ‘‘ اور دیگر بہت سی کتب میں بھی موجود ہے۔
بہر آئینہ عثمانی صاحب کا یہ لیکچر بڑا بھر پور‘ بڑا مدلل اور
بے حد معلومات افزا تھا‘ کاش جامعہ کا کوئی استاد یا طالب علم اس وقت اسے قلمبند کر
لیتا۔
اس لیکچر کے چند دنوں بعد انہوں نے جامعہ کے ناظم کی حیثیت سے
باقاعدہ چارج سنبھال لیا اور سارا نظم ونسق اور انتظام وانصرام مکمل طور پر اپنے کنٹرول
میں لے لیا۔ اساتذہ کرام کی تدریس‘ طلبہ کی تعلیم‘ اساتذہ وطلبہ کی حاضری‘ مسجد‘ مکتب‘
مبلغ‘ اخراجات‘ اساتذہ وطلبہ کی چھٹیاں الغرض تمام امور ومعاملات پر ان کی گہری نظر
ہوتی۔ انہوں نے بہت جلد اپنے آپ کو ایک ماہر لیکن سخت گیر ناظم ثابت کیا۔ اس کا یہ
مطلب بھی نہیں کہ وہ ہر وقت سختی ہی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے‘ نرمی کے وقت نرمی سے بھی
کام لیتے‘ طلبہ کے ساتھ تعلیمی امور میں تعاون بھی کرتے۔ کوئی استاد چھٹی پر ہوتا تو
ان کی جگہ اسباق بھی پڑھا دیتے۔ کسی طالب علم کو ان کی مدد کی ضرورت ہوتی تو اس سے
تعاون بھی کرتے۔
راقم الحروف نے مڈل کا پرائیویٹ امتحان دینے کا پروگرام بنایا‘
داخلہ فارم پر کسی مڈل یا ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر کی تصدیق ضروری تھی‘ مجھے اپنے ذرائع
سے معلوم ہوا کہ مڈل سکول نشاط آباد کے ہیڈ ماسٹر ان کے دوست ہیں‘ میں نے اس سلسلے
میں ان سے بات کی کہ آپ انہیں فون کر دیں یا مجھے کوئی لیٹر وغیرہ دے دیں‘ انہوں نے
کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کا کام واقعی ہو جائے‘ فون یا لیٹر وغیرہ کی صورت میں شاید
کام نہ بنے لہٰذا میں خود آپ کے ساتھ ان کے پاس جاتا ہوں۔ انہوں نے مجھے اور ایک اور
طالب علم کو ساتھ لیا اور اس طرح اس ہیڈ ماسٹر سے مل کر نہ صرف یہ کہ میرا داخلہ بھجوایا
بلکہ داخلہ بھی اس سکول ہی کی طرف سے بھجوایا۔ بات بظاہر چھوٹی سی ہے لیکن میں اس سے
بہت متاثر ہوا۔ وہ سکول جامعہ سے دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا‘ اس دور میں سواری
کا بھی کوئی انتظام نہ تھا‘ بڑھاپے کے باوجود عثمانی صاحب میرے ساتھ پیدل ہی سکول گئے
اور پیدل ہی واپس آئے تھے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ!
۱۹۶۶ء میں جامعہ کے
چھٹے درجے میں تھا کہ مؤقر ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں جماعت کے مشہور محقق عالم‘
مناظر اور مصنف مولانا عبدالقادر عارف حصاریa کا ایک مضمون پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ مغرب کے فرضوں
کے بعد کی سنتیں مسجد میں ادا کرنا بدعت ہے انہیں گھر میں پڑھنا چاہیے۔
میں نے انہیں خط لکھا کہ اگرچہ میں ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں
لیکن آپ کا یہ موقف صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ صحیح مسلم میں سیدنا انسt سے
مروی حدیث میں ہے کہ
’’ہم مدینہ میں تھے‘
مؤذن جب نماز مغرب کے لیے اذان کہہ دیتا تو لوگ جلدی سے ستونوں کے پیچھے ہو کر (فرضوں
سے پہلے) دو رکعتیں پڑھ لیا کرتے تھے حتی کہ اگر کوئی اجنبی شخص مسجد میں داخل ہوتا
تو وہ سمجھتا کہ (فرض) نماز ہو چکی ہے کیونکہ ان دو رکعتوں کے پڑھنے والوں کی تعداد
بہت زیادہ ہوتی تھی۔‘‘ (یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ احمد‘ نسائی اور بیہقی میں بھی
ہے۔)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام] مغرب کے فرضوں کے بعد والی سنتیں مسجد ہی میں ادا کیا
کرتے تھے‘ ورنہ مغرب کے فرضوں سے پہلے پڑھی جانے والی دو رکعتوں کو اجنبی شخص بعد والی
دو سنتیں کیسے باور کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ مغرب کے بعد والی
سنتیں دیگر سنتوں اور نوافل کی طرح گھر میں پڑھنا افضل ہے‘ جبکہ مسجد میں بھی جائز
ہے لیکن مسجد میں پڑھنے کو بدعت قرار نہیں دینا چاہیے۔
مولانا حصاری صاحبa نے میرے خط کے جواب میں اور اپنے موقف کی تائید میں
دو تین صفحے کا مفصل خط لکھا اور ان کا ملفوف جب جامعہ میں میرے نام آیا تو عثمانیa نے
لفافہ کے باہر ان کا نام اور پتہ دیکھا تو انہوں نے اسے کھول کر پڑھا‘ ان دنوں میں
ڈاکخانہ نہیں تھا‘ جامعہ کی ساری ڈاک نشاط آباد کے ڈاکخانہ کے ذریعہ سے جامعہ میں پہنچا
دی جاتی تھی۔ جامعہ میں ساری ڈاک عثمانی صاحب کے پاس آتی تھی۔ بہرحال انہوں نے مجھے
بلایا اور پوچھا کہ آپ نے مولانا حصاری کو کوئی خط لکھا تھا؟ میں نے ڈرتے ڈرتے اثبات
میں جواب دیا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ شاید میرا انہیں خط لکھنا کسی ضابطہ کے خلاف نہ ہو
لیکن ان کی اگلی بات سن کر کچھ حوصلہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے لفافے پر مولانا
حصاری کا نام پڑھ کر اس خط کو کھول لیا ہے اور اندازہ تھا کہ یقینا کوئی علمی مسئلہ
ہے۔ ان سے رہنمائی لی گئی ہو گی لیکن مجھے اس بات سے بے حد خوشی ہوئی کہ مولانا عثمانی
نے بھی اس مسئلہ میں میری تائید کی۔ مولانا حصاری کے موقف کو کمزور قرار دیا اور ان
کے جواب کے جواب کے لیے میری رہنمائی بھی فرمائی۔ حضرت مولانا حصاری صاحبa سے
اس وقت نہ کوئی شناسائی تھی‘ نہ ان سے ملاقات کا شرف حاصل تھا۔ اس خط وکتابت کے کچھ
عرصہ بعد وہ ایک دفعہ جامعہ میں تشریف لائے‘ جامعہ میں ان کے کوئی عزیز زیر تعلیم تھے۔
مجھے معلوم ہوا تو سلام عرض کرنے کے لیے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے عزیز نے
انہیں میرا نام بتایا تو انہوں نے محبت وشفقت سے گلے لگا لیا اور بہت سی دعاؤں سے
نوازا‘ افسوس کہ مولانا حصاریa سے
یہ پہلی ملاقات ہی آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ نور اللہ مرقدہٗ۔
اس داستان سرائی سے مقصود یہ تھا کہ نظم ونسق سے متعلق امور
میں سختی کے باوجود اس طرح کے علمی امور ومعاملات میں طلبہ کی نہ صرف حوصلہ افزائی
بلکہ رہنمائی بھی فرماتے تھے۔ محب مکرم مولانا ارشادق الحق اثریd نے
علمی وتحقیقی مسائل میں ان سے بھر پور استفادہ کیا۔ اپنے سابقہ حنفی دیوبندی مسلک کے
پیش نظر وہ علامہ نیموی کی ’’آثار السنن‘‘ ہمیشہ زیر مطالعہ رکھتے تھے۔ مولانا عثمانی
صاحب a نے
انہیں حضرت الامام عبدالرحمن محدث مبارکپوریa کی کتاب ’’ابکار المنن فی تنقید آثار السنن‘‘ کے مطالعہ
کا مشورہ دیا۔ بحمد اللہ وحسن توفیقہ اس کتاب کا مطالعہ ان کے لیے انقلاب آفریں ثابت
ہوا۔ حنفیت کے بندھن ٹوٹ گئے اور وہ مکمل طور پر کتاب وسنت کے دامن سے وابستہ اور محدثین
کرام وائمہ سلف کے مسلک مروارید سے منسلک ہو گئے اور اب تو وہ ما شاء اللہ مسلک سلف
کے بے باک ترجمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم‘ عمل اور عمر میں برکت فرمائے۔ آمین! ………… (جاری)
No comments:
Post a Comment