Friday, September 13, 2019

علم حدیث اور اہل حدیث 34-2019


علم حدیث اور اہل حدیث

تحریر: جناب مولانا عبدالخالق
علم حدیث وہ مبارک ومہتم بالشان اور رفیع القدر علم ہے جو کہ فجر اسلام ہی سے حاملین کتاب وسنت اور ورثائے علوم نبوت کی خصوصی توجہ اور عنایت کا مرکز رہا ہے۔ اس لیے کہ یہ دین اسلام کا بنیادی ما ٔخذ اور سرچشمۂ وحی الٰہی ہے اور اس کا اطلاق قرآن اور حدیث دونوں پر ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں من جانب اللہ اور باہم لازم وملزوم ہیں اور ان کی حجیت یکساں طور پر مسلم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل جہان کی رشد وہدایت کے لیے جس طرح ایک جامع‘ عالم گیر اور کامل واکمل دستور حیات (قرآن کریم) نازل کیا ہے‘ اسی طرح اس کی تفسیر وبیان کو بھی ’’حدیث مصطفیe‘‘ کی صورت میں نازل فرمایا ہے:
﴿اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ۰۰۱۷ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗۚ۰۰۱۸ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗؕ۰۰۱۹﴾ (القيٰمة)
پھر اس کا بیان وتفسیر بھی ہمارے ذمے ہے۔‘‘ سے اظہر من الشمس ہے کہ قرآن کا بیان اس کے علاوہ ہے اور دونوں ہی من جانب اللہ ہیں۔ سورۂ ہود میں ارشاد ہے:
﴿الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍۙ۰۰۱﴾ (هود)
’’یہ کتاب جس کی آیات محکم بنائی گئی ہیں اور پھر حکیم وخبیر (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔‘‘
نبی کریمe کا ارشاد گرامی ہے:
’’خبردار! مجھے قرآن کریم کے ساتھ اس کی مثل (حدیث) بھی عطا کی گئی ہے۔‘‘ (ابوداود: ح ۴۶۰۴)
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاداتِ نبویہ اور احکام واعمال مصطفویہ کو واجب القبول اور واجب الاتباع قرار دیا اور اطاعت رسولe کو اپنی اطاعت گردانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
﴿مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ١ۚ وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًاؕ۰۰۸۰﴾ (النسآء)
’’اتباع رسولe کرنے والا گویا کہ اللہ کا مطیع ہے۔‘‘
چنانچہ علامہ شاطبی فرماتے ہیں: ’’یعنی حدیث پاک قرآنی احکام کی شرح وتفسیر ہے۔‘‘ (الموافقات: ۶/۱۰)
علامہ سمعانیؒ فرماتے ہیں: یعنی کتاب اللہ کے بعد اشرف ترین علم اس کی تفسیر وبیان ’’حدیث‘‘ کا علم ہے۔ (الانتہالا ٔہل الحدیث: ص ۵۶)
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفیؐ برجاں مسلم داشتن
وحی الٰہی کی بکمالہٖ حفاظت وصیانت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۰۰۹﴾
’’بلاشبہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (الحجر)
آیت کریمہ میں لفظ ’’الذکر‘‘ سے قرآن کریم اور حدیث مصطفیe دونوں مراد ہیں اور یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مبنی برحق ہے۔ لہٰذا وحی الٰہی بکمالہ محفوظ ومامون ہے جس طرح قرآن کریم محفوظ ہے اسی طرح اس کی تفسیر وبیان (حدیث) بھی محفوظ ہے۔ نبی کریمe کی نبوت ورسالت چونکہ قیامت تک آنے والوں کے لیے ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ دین اسلام قیامت تک محفوظ ہو‘ لہٰذا یہ ہر دور میں اپنی اصلی وحقیقی شکل میں محفوظ رہا ہے اور محفوظ رہے گا۔ ان شاء اللہ!
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور میں بعض نظریات اور مقاصد کی حامل تحریکات کی طرف سے دین اسلام کی اصلی وحقیقی صورت کو مسخ کرنے‘ اس کے حسن کو گہنانے‘ اسلامی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے اور اپنے مذموم مقاصد اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے تاویلات باطلہ کے ذریعے سے اس کی غلط تشریح کرنے اور من گھڑت وموضوع روایات کے ذریعہ احادیث صحیحہ سے لوگوں کو دور رکھنے کی سازشیں ہوتی رہیں‘ لیکن یہ تمام تر سازشیں اور کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔
ایسے عناصر ہر دور میں رسوا ہوئے ہیں اس لیے کہ
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
چشم کائنات نے دیکھا کہ نور اسلام کو بجھانے اور دین حق کو دبانے کے لیے جس قدر سازشیں ہوئیں یہ اسی قدر نکھرا‘ چمکا اور ابھرا۔ کیونکہ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھی ہے کہ یہ اتنا ہی زیادہ ابھرے گا جتنا کہ اسے دبایا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت اور انبیائo کی میراث کے تحفظ کے لیے جن خدام کتاب وسنت کا انتخاب فرمایا انہوں نے اس منصب جلیل کو اپنی سعادت مندی اور بلند اقبالی خیال کرتے ہوئے اس کارخیر کے لیے اپنا قیمتی سرمایۂ حیات وفور شوق سے لٹایا اور علوم نبوت کی خدمت کو اپنے لیے ایک اعزاز اور قابل صد افتخار اور باعث عزت وشرف گردانا۔
اس طائفہ مبارکہ کو اہل حدیث‘ محدثین اور طائفہ منصورہ جیسے مبارک القاب سے یاد کیا جاتا ہے دربار رسالت مآب سے انہی شیدائیان قرآن وحدیث کو ’’ورثۃ الانبیاء‘‘ کا قابل فخر لقب عطا ہوا ہے یہی وہ قابل رشک لوگ ہیں جنہیں زبان نبوت سے یہ دعا ملی ہے:
[نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَبَلَّغَهُ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَحْفَظُ مِنْ سَامِعٍ.](ابن ماجہ)
’’اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو پر رونق اور شاداب کرے جو ہماری حدیث کو سن کر اسے آگے پہنچاتا ہے‘ بعض اوقات کسی سے سننے والا سنانے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔‘‘
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
علامہ تونسویؒ نے کیا خوب کہا ہے:
’’اہل حدیث نبی اکرمe کے ساتھی ہیں (ان میں سے) جن کو زندگی میں آپe کی صحبت میسر نہ آسکی تو اسے آپ کی مبارک سانسوں (حدیث پاک) سے تو شرف صحبت حاصل ہے۔‘‘
ہمہ وقت قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کرنا اور ہر حدیث کی روایت اور تعلیم وتدریس کے دوران بکثرت درود شریف پڑھنا انہی کے حصے میں آیا ہے۔
 اہل حدیث یا محدثین:
محدثین کرام کے نزدیک حدیث اور سنت دو مترادف اصطلاحات ہیں اور اس سے مراد ہے:
’’یعنی حدیث یا سنت سے مراد وہ قول یا فعل یا تقریر یا جسمانی سراپا یا عادات واخلاق ہیں جن کی نسبت نبی اکرمe کی طرف ہو۔ اہل حدیث اور محدثین سے مراد وہ سعادت مند گروہ ہے جو عملاً ونقلاً حدیث مصطفیe کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
’’ہم اہل حدیث سے مراد صرف وہ لوگ ہی نہیں لیتے جو احادیث کا سماع کرتے‘ اسے لکھتے اور روایت کرتے ہیں بلکہ ہمارے نزدیک وہ تمام لوگ اہل حدیث ہیں جو احادیث کو یاد کرتے‘ ان کے معانی ومطالب سیکھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔‘‘ (مجموع فتاویٰ: ۴/۹۵)
علامہ ابن قتیبہؒ فرماتے ہیں:
’’اہل حدیث وہ لوگ ہیں جو حق کو اس کے اصل مصدر سے تلاش کرتے اور رسول اکرمe کی احادیث اور آپe کی سنن کو اپنا کر اور بحر وبر اور مشرق ومغرب سے آپ کی سنت اور حدیث کو تلاش کرنے کی جد وجہد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (تاویل مختلف الحدیث: ص۸۰)
عقیدہ اصفہانیہ میں ہے:
’’اہل حدیث صحابہ کرام] کے نقش قدم پر چلنے والے اور نبی اکرمe کی احادیث مبارکہ کی حفاظت کرنے والے ہر دور اور ہر مقام پر کتاب وسنت کا علم رکھنے والے ہیں۔ یہ کائنات کے بہترین لوگ ہیں۔‘‘ (العقیدۃ الاصفہانیہ: ۱/۱۵۶)
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’اہل حدیث ہی فرقہ ناجیہ ہیں‘ کیونکہ اگر کوئی حدیث رسول مقبولe پر عمل پیرا ہو کر نجات حاصل نہیں کر سکتا تو پھر کس چیز کے ذریعہ نجات حاصل کرے گا؟ لہٰذا فرقہ ناجیہ ہونے کے سب سے زیادہ حقدار اہل حدیث ہیں کہ جن کے امام ومطاع‘ جن کی اتباع پر وہ مر مٹنے کے لیے تیار ہوتے ہیں‘ وہ صرف اور صرف رسول اللہe ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ: ۳/۳۴۷)
مذکورہ اقوال کی روشنی میں بالکل واضح ہے کہ ہر دور میں علمائے امت کے نزدیک ’’اہل حدیث‘‘ یا ’’محدثین‘‘ ان لوگوں کو کہا جاتا رہا جو کہ حدیث مصطفیe کو پڑھتے‘ پڑھاتے‘ روایت کرتے‘ ان کی تحقیق کر کے صحیح وضعیف کو الگ الگ کرتے‘ احادیث صحیحہ کے مطابق عمل کرتے ہیں اور ہر دور میں [أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ] ان کا شعار اور طرہ امتیاز رہا ہے۔
کسی کا ہو رہے کوئی
نبیؐ کا ہو رہیں گے ہم
اہل حدیث کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ حدیث پاک کی ہے۔ مدرسہ نبویہ (اصحاف صفہ) سے لے کر ہر دور میں خدام قرآن وحدیث موجود رہے ہیں۔ کیونکہ نبی اکرمe نے فرمایا ہے:
’’قابل اعتماد اور ثقہ لوگ اس علم کو پڑھتے اور پڑھاتے (اور آگے پہنچاتے رہیں گے۔)‘‘ (السلسلہ الصحیحہ: ۱/۵۴۵)
سیدنا ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:
’’میری امت میں سے ایک گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا‘ ان کو پریشان کرنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔‘‘ (ترمذی: ح ۲۱۵۵)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ علی بن مدینیؒ نے فرمایا: [هم أهل الحدیث] یہ گروہ اہل حدیث کا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
’’اہل حدیث ہی طائفہ منصورہ ہے‘ اگر حدیث پر عمل کرنے والے طائفہ منصورہ نہیں تو اور کون ہوں گے؟‘‘
پھر امام احمدؒ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے طائفہ منصورہ کے بارے میں فرمایا:
’’اگر یہ لوگ اہل حدیث نہیں تو پھر مجھے  نہیں معلوم کہ اہل حدیث کون ہیں؟‘‘ (فتح الباری: ۱/۸۵)
علوم نبوت کے وارث محدثین حضرات نے چمنستان حدیث کی رونق بحال رکھنے اور علم حدیث کی شمع کو فروزاں کرنے کے لیے اس دور میں جب وسائل کی کمی تھی اور سہولیات ناپید تھیں‘ علم دین کے حصول کے لیے ہزاروں میل کی مسافتیں طے کیں۔ انہوں نے لق ودق صحراء‘ خاردار جنگل اور فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کیا۔ اگر ان کو معلوم ہوا کہ سمندر پار کسی کے پاس رسول اکرمe کا فرمان موجود ہے تو وہ سمندر کا سینہ چیر کر وہاں تک جا پہنچے اور سند عالی کے حصول کے لیے لمبی لمبی مسافتیں طے کیں‘ کتب سیر ورجال ان قابل رشک لوگوں کے تذکرہ جمیل اور حسین کارناموں سے بھری ہوئی ہیں۔
ان کا امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے کہ انہوں نے صحیح دین امت تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور دنیا کے عیش وآرام کو تج کر جہاں ہزاروں لوگوں کے لیے صراط مستقیم کو واضح کیا اور دنیا میں نسبت حدیث کے شرف عالی سے متعارف ہوئے وہاں اخروی سعادتوں سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ ہم تحدیث نعمت کے طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں ان کی طرف نسبت پر فخر ہے۔
امت محمدیہ q پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اس امت کو ’’سند‘‘ جیسی امتیازی خوبی سے نوازا ہے تا کہ صدق وکذب اور حق وباطل میں تمیز ہو سکے۔ ’’سند‘‘ متن کو بیان کرنے والے سلسلۂ رجال کو کہا جاتا ہے‘ محدثین کرامؒ نے اس قرآنی اصول کو مد نظر رکھا:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا ا﴾ (الحجرات)
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی مجہول العدالت شخص خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔‘‘
حضرات صحابہ کرام] چوں کہ بالاتفاق عدول وثقات ہیں اور وحی الٰہی کے اولین شاہد اور روایت حدیث میں حد درجہ محتاط تھے اس لیے ان سے بلا تردد روایات لی جاتی تھیں‘ کیونکہ انہوں نے براہِ راست وہ روایات رسول اکرمe سے سنیں اور باہتمام ان کو حفظ کیا اور کمال احتیاط اور دیانت وامانت سے آگے پہنچایا۔ چنانچہ سیدنا انسt فرماتے ہیں:
’’ہم تقریبا ساٹھ آدمی نبی اکرمe کے پاس حاضر ہوتے تھے اور آپe ہمیں احادیث سکھاتے‘ پھر جب آپ تشریف لے جایا کرتے تو ہم آپس میں مذاکرہ کیا کرتے تھے اور جب ہم فارغ ہوتے تو وہ احادیث مبارکہ ہمارے دلوں پر نقش ہو چکی ہوتی تھیں۔‘‘ (الفقیہ وا لمتفقہ)
جب سلسلۂ روایت حدیث صحابہ کرام] سے آگے بڑھا تو ساتھ ہی روایت حدیث کے بارے میں تحقیق اور چھان بین شروع ہو گئی‘ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباسw فرماتے ہیں:
[إنا کنا مرۃ إذا سمعنا رجلا یقول: قال رسول اللہﷺ ابتدرتہ أبصارنا، وأصغینا الیہ بآذاننا، فلما رکب الناس الصعب والذلول لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف] (مقدمہ صحیح مسلم)
امام محمد بن سیرینؒ (۱۱۰ھ) فرماتے ہیں:
[الاسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء]
’’اسناد دین کا حصہ ہیں اور اگر سند کا اہتمام نہ ہو تو جس کے جی میں جو آتا کہتا پھرتا۔‘‘
تحقیق‘ سند اور صحت روایت کا اہتمام کرنے کی غرض سے محدثین کرام نے جس قدر محنت اور کاوش کی آج اسماء الرجال اور جرح وتعدیل کی کتابیں اس کی شاہد عدل ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر اسپرنگر لکھتا ہے:
’’محمدؐ کے حالات وواقعات جمع اور فراہم کرنے کے لیے مسلمان مصنفین اور محققین نے پانچ لاکھ آدمیوں کے سوانحی حالات وواقعات مرتب اور مدون کیے۔‘‘ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا: ص ۲۱۱)
اسی لیے جب سیدنا عبداللہ بن مبارکؓ سے موضوع روایات کے خطرات اور اثرات بد کے خدشات کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا تھا: [تعیش لہا الجہابذۃ] کہ ماہرین علوم حدیث اس کا سد باب کر لیں گے۔
یہ خدمت علوم نبوت کے سلسلے میں وہ سعی مشکور اور عظیم کاوش ہے جس کے بارے میں امام حاکمa فرماتے ہیں:
’’اگر سند نہ ہوتی اور اہل حدیث اس کا خصوصی اور باقاعدہ اہتمام نہ کرتے تو آج دین اسلام کا حلیہ بگڑ چکا ہوتا۔‘‘ (معرفۃ علوم الحدیث: ص ۶)
بقول مولانا الطاف حسین حالی:
گر وہ ایک جویا تھا علم نبی کا
لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح وتعدیل کے وضع قانون
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسون
اگر صحیح حدیث کی تعریف پر ہی غور کیا جائے تو ان نابغہ روگار اور عبقری شخصیات کے ذہن رسا اور بالغ نظری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے صدیوں پہلے صحت روایات کے لیے معیار مقرر کیا تھا۔ آج تک کوئی شخص کسی بات کو پرکھنے کے لیے اس سے بہتر معیار اور پیمانہ پیش نہیں کر سکا۔ انہوں نے صحیح حدیث کے لیے پانچ شرطیں مقرر کیں کہ صحیح حدیث وہ ہے:
[ما اتصل سندہ بنقل العدل الضابط عن مثلہ الی منتہاہ غیر معلل ولا شاذ]
’’یعنی (۱) اتصال سند (۲) عدالت (۳) ضبط تام (۴) عدم علت (۵) عدم شذوذ۔‘‘
اس سے بڑھ کر سخت اور کڑا  معیار کیا ہو سکتا ہے؟ اس لیے جہاں وہ روایت حدیث کی برکات اور اجر وثواب کو جانتے تھے‘ وہاں رسول اکرمe کا فرمان [مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.] بھی ان کے پیش نگاہ تھا۔ اس لیے انہوں نے حدیث پاک کے تحمل وادا میں انتہائی احتیاط سے کام لیا اور اس ذمہ داری کو بڑی جانفشانی سے نبھایا۔
آج ہمارے پاس تلقی بالقبول کا شرف حاصل کرنے اور علمائے امت سے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا خطاب پانے والی صحیح بخاری اور امام مسلم کی صحیح مسلم اور دیگر کتب صحاح موجود ہیں تو یہ انہی نفوس قدسیہ کی محنت وکاوش کا ثمرہ اور نتیجہ ہیں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)