توہّم پرستی
تحریر: جناب مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر
(امن پوری)
توحید اسلام کا بنیادی اوراساسی عقیدہ ہے۔ یہ انسان کے دل سے
اللہ تعالیٰ کے سوا ہرچیز کا خوف نکال دیتاہے ۔ عقیدۂ توحیدجس قدر کمزور ہوتا جاتا
ہے ، اتنا ہی انسان مخلوقات سے ڈرنے لگتا ہے حتی کہ مشرک آدمی ہر چیز سے خوف کھانے
لگ جاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کا عقیدہ کمزور ہوتواس کا اعتماداللہ تعالیٰ سے اٹھ جاتا
ہے اور وہ مخلوقات میں نفع ونقصان تلاش کرنے لگتا ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکین
کوخطاب کرتے ہوئے فرمایا ؛
{ قُل أَتَعْبُدُوْنَ
مِنْ دُونِ اللّٰہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا } (المائدۃ :
۷۶)
’’(اے نبی!) کہہ
دیجیے کہ اللہ کے علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو ، وہ تمہارے نفع ونقصان کے مالک نہیں۔‘‘
یعنی تم انہیں نفع ونقصان کا مالک سمجھ کر ان کی پرستش کرکے
شرک میں مبتلا ہورہے ہو، حالانکہ ان کے اختیار میں توکچھ بھی نہیں ۔ نفع ونقصان توصرف
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ مشرکوں کی بت پرستی کے خلاف دلیل پیش
کررہے ہیں کہ تم بت اس لیے پوجتے ہوکہ ان سے نفع کی امید یانقصان کا خوف رکھتے ہو ،
چنانچہ وہ تمہیں نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتے ، لہٰذا انہیں پوجنا بے کار ہے۔
توہم پرستی:
انسان کو شرک کی طرف لے جانے والی اعتقادی کمزوریوں میں سے ایک
توہم پرستی اور اللہ تعالیٰ پر یقین کامل نہ ہونا بھی ہے۔ توہم پرست انسان مولیٰ کریم
کی بجائے مخلوقات پر اعتماد کرتااورسمجھتا ہے کہ یہ چیز مجھے نقصان سے بچا سکتی ہے
یانفع پہنچا سکتی ہے ۔
عام دیکھنے میں آیا ہے کہ ہنڈیا اُلٹا کر منڈیرپہ رکھ دی جاتی
ہے ،گاڑی کے ساتھ جوتا لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ مکان یاگاڑی نظر بد سے محفوظ رہے ، گویا
کالی ہنڈیا اورجوتا نقصان سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر
جوتا گاڑی کے ساتھ لٹکادیا جائے تو وہ تو نظربد سے بچا سکتا ہے تو پاؤں میں جوتا ہونے
کے باوجود نظر کیوں لگ جاتی ہے ؟
دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کڑے رنگ برنگے
دھاگے اور انگوٹھیاں پہنتے ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتا
ہے ،نیزجنات وشیاطین اورجادو وغیرہ بھی اثر انداز نہیں ہوتا ۔ ان سب چیزوں کا مطلب
یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بھی کئی چیزیں ایسی ہیں جو بیماریوں کودُور کرسکتی ہیں
، حالانکہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
{قُلْ اَفَرَأَیْتُمْ
مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰہِ إِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کَاشِفَاتُ
ضُرِّہٖ} (الزمر : ۳۸)
’’(اے نبی!) ان سے
پوچھیے کہ جنہیں تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو ، اگراللہ تعالیٰ مجھے کوئی نقصان
پہنچانا چاہے تو یہ اسے رفع کرسکتے ہیں؟‘‘
نبی ٔ اکرمeایک سفر میں تھے‘ آپeنے اپنا قاصد بھیجا اور اسے فرمایا :
[لا یبقینّ فی رقبۃ
بعیر قلادۃ من وتر أو قلادۃ إلّا قطعت]
’’ہراونٹ کی گردن
سے تانت کا ہار یا فرمایا کہ ہار کاٹ دیاجائے۔‘‘ (صحیح البخاری : ۳۰۰۵، صحیح مسلم : ۲۱۱۵)
راویٔ حدیث امام مالکؒ فرماتے ہیں:
[أرٰی ذٰلک من العین
۔]
’’میرے خیال میں
یہ (اونٹوں کی گردنوں میں رسیاں) نظر بد کی
وجہ سے (ڈالی گئی) تھیں۔‘‘ (صحیح مسلم : ۲۱۱۵، الموطا للامام مالک : ۲/۲۰۷)
عرب میں توہم
پرستی:
توہم پرستی کاسلسلہ عرصہ دراز سے قوموں میں چلا آرہا ہے اور
اصلاح وہدایت کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا ہے۔ عربوں کے اندر بھی بے شمار قسم کے اوہام
وخرافات پائے جاتے تھے۔ جس طرح ہرقوم کے جہلاء کا عقیدہ ہوتا ہے کہ فلاں دیوتا، فلاں
ہستی کے خلاف اگر زبان سے کچھ نکلا توفوراً بلائیں آکر ہمیں لپیٹ لیں گی۔ عرب گھرانے
بت خانوںاور صنم کدوں کا روپ دھار چکے تھے ۔ دنیا کے تمام کام انہی بتوں سے متعلق سمجھے
جاتے تھے۔ مدتوں سے یہ خیالِ راسخ چلاآتا تھا کہ فلاں بت کی پرستش یاخدمت گزاری میں
اگر کوتاہی کی گئی توآسمان سے پانی برسنابند ہوجائے گا، اولاد پیدانہ ہوگی ، باغوں
میںپھل نہ پڑے گا ۔ شروع میں جب آپeنے بتوں کے خلاف وعظ شروع کیا تواکثر لوگوں نے(نعوذ باللہ) آپ
کو پاگل سمجھ لیا اورجاہلیت کے بعض کافراز راہِ ہمدردی جھاڑ پھونک کرنے آئے ۔
ضمام بن ثعلبہ tمسلمان ہوکر اپنے قبیلے میں گئے اورلات وعزیٰ کی مذمت شروع کی
توتمام قبیلہ خوف سے کانپ گیا کہ ضمام انہیں برا نہ کہو، کہیں تمہیں مرضِ جنون ، جذام
نہ ہوجائے ۔ (مسند الامام احمد : ۱/۲۵۰، ۲۶۴، ۲۶۵، مسند الدارمی : ۶۵۲، سنن ابی داوٗد : ۴۸۷مختصرا ، وسندہٗ حسن ، وصححہ الحاکم : ۳/۵۴، ۵۵، ووافقہ الذہبی)
سیدہ زنیرہ r مسلمان
ہونے کے بعد بصارت سے محروم ہوگئیں تو کفار کہنے لگے کہ لات وعزیٰ نے ان کو اندھا کردیا
ہے۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی: ۷۰۲۴، وسندہٗ حسنٌ)
طفیل بن عمرو دوسی tنے اپنی بیوی کواسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگی : دیکھو ذی
الشری بت کہیں ہمیں برباد نہ کردے۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی : ص ۲۱۲، وسندہٗ صحیحٌ)
کچھ اسی طرح کا اظہار قوم ِ ثمود کے متعلق بھی قرآنِ کریم نے
نقل کیا ہے کہ جب ہود u نے
انہیں دعوت ِ توحیددی تو وہ کہنے لگے :
{ إِنْ نَّقُوْلُ
إِلّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ آلِہَتِنَا بِسُوْءٍ } (ہود : ۵۴)
’’ہم توسمجھے ہیں
کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں پاگل کردیا ہے۔‘‘
توہم پرستوں
کی دلیل:
توہم پرستوں کے ہاں قرآن وسنت کے دلائل کارگر نہیں ہوتے ، بلکہ
ظاہری ومادی فوائد ونقصان ان کی دلیل ہوا کرتے ہیں ۔ اگر کسی راسخ العقیدہ شخص کا کوئی
نقصان ہوجائے تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ اس کو فلاں کی مار پڑ گئی ہے، حالانکہ کیا خود
ان کا کبھی کوئی نقصان نہیں ہوتا یا بیماری وپریشانی نہیں آتی۔ اگر آتی ہے تو وہ
کس کی مار ہوتی ہے؟ عرب بدو مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے یہ توقعات وابستہ کر لیتے
کہ وہ انہیںہرقسم کی آفات سے محفوظ رکھے گا۔
اگر کہیں ان کی توقعات کو ٹھیس پہنچتی تو فوراً متزلزل ہوجاتے، جیسا کہ سیدنا عبداللہ
بن عباسrبیان فرماتے ہیں :
[کان الرجل یقدم
المدینۃ، فیسلم، فإن ولدت امرأتہ غلاما ونتجت خیلہ، قال: ہذا دین صالح، وإن لم تلد
امرأتہ ولم تنتج خیلہ، قال : ہذا دین سوء۔]
’’باہر کا جوشخص
مسلمان ہوکر مدینہ میں آتا تھا ، اس کی حالت یہ تھی کہ اگر اس کی بیوی لڑکا جنتی اور
اس کی گھوڑی بچہ دیتی تو وہ کہتا کہ یہ نہایت عمدہ مذہب ہے ۔ ایسا نہ ہوتا تو کہتا
کہ یہ نہایت بُرا مذہب ہے۔‘‘(صحیح البخاری : ۴۷۴۲)
قرآنِ مجید کی یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے متعلق نازل ہوئی :
{ وَمِنَ النَّاسِ
مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہٗ خَیْرٌ اطْمَأَنَّ بِہٖ وَإِنْ
أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ } (الحج : ۱۱)
’’بعض لوگ اللہ تعالیٰ
کی بندگی کنارے پرکھڑے ہوکر کرتے ہیں ، اگر فائدہ پہنچے تواطمینان ہوجاتا ہے اوراگر
مصیبت آجائے تو فوراً روبرگشتہ ہوجاتے ہیں۔‘‘
اگرچہ مخلصین ار باب ِ فہم پر اس قسم کی عارضی ناگواریوں کا
کوئی اثر نہیں ہوتا ، تاہم عام لوگ توہم پرستی جن کی فطرت ِ ثانیہ بن گئی تھی ، وہ
اس قسم کے اتفاقی واقعات سے بہت متاثر ہوتے تھے۔ ایک بدو نے آپeکے دست ِ مبارک
پر بیعت کی ۔ اتفاقاً دوسرے دن بیمار ہوگیا توبیعت توڑنا چاہی ۔ آپeنے تین بار منع
کیا ، لیکن اس نے اصرار کرکے بیعت فسخ کردی ۔ اس پرآپeنے فرمایا :
[المدینۃ کالکیر
تنفی خبثھا، ونتصع طیبہا ]
’’مدینہ آگ کی بھٹی
کی طرح ہے ، جو میل کو الگ کرتی اور حقیقی جوہر کو خالص کرتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاری
: ۷۲۱۱، صحیح مسلم : ۱۳۸۳)
احادیث میں توہم
پرستی کا ردّ :
الغرض زمانہ نبوت سے قبل عربوں میں بے شمار خرافات پائی جاتی
تھیں ۔ رسولِ اکرمe نے
برملا اعلان فرمایا کہ ان کی کوئی اصل نہیں ۔
[لا عدوٰی، ولا طیرۃ،
ولا ہامۃ، ولا صفر]
’’نہ چھوت ہے ، نہ
بدفالی ہے ، نہ مردہ کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے اورنہ ہی صفر کا مہینہ منحوس ہے۔‘‘
(صحیح البخاری : ۵۷۰۷، صحیح مسلم : ۲۲۲۰)
عربوں کاخیال تھا کہ بیماری متعدی ہوتی ہے ۔ آپeنے اس کی نفی کی
توایک شخص نے اعتراض کیا کہ ایک اونٹ کو خارش لگنے سے پورے ریوڑ کے اونٹ خارش زدہ کیوں
ہوجاتے ہیں؟ فرمایا : اگر بیماری ایک سے دوسرے کو لگتی ہے تو سب سے پہلے اونٹ کوکہاں
سے لگی؟ یعنی اگر پہلے اونٹ کو اللہ تعالیٰ
کی طرف سے بیماری آئی ہے تو باقیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیوں نہیں آئی؟ اسی
طرح جب وہ کام کے لیے گھر سے نکلتے تو پرندہ اڑا کر فال لیتے تھے۔ دائیں طرف اُڑتا
تو خوش ہوتے کہ کام ہوجائے گا اوراگر بائیں طرف اُڑ تا تو واپس گھر آجاتے کہ کام نہ
ہوگا ۔ آپeنے اس کی نفی فرمائی ۔
ہامہ سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی آدمی مرجاتا ہے تو اس کی روح
اُلّو کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور چکرلگاتی ہے ، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں بھی بدروحوں
کا تصور پایا جاتا ہے۔ آپe نے
اس کی نفی کی ۔ اس طرح عرب صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے تھے ، بلکہ اس کو صفر کہنے
کی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ مہینہ خیروبرکت کے لحاظ سے صفر ہے۔ آپeنے اسے بھی وہم
قرار دیا اور اسے شرک کی ایک قسم کہا۔
اس طرح وہ اوہام جو عرب میں پھیلے ہوئے تھے ، آپeنے ان کا استیصال
کیا ۔ اوہام پرستی حقیقت میں قوموں کی تباہی کا ایک بڑا سبب ہوتی ہے۔ یہ اوہام حقیقت
کے خلاف ہونے کے علاوہ بہت سے کاموں میں خلل انداز ہوتے ہیں ۔ غورسے دیکھیںتو ان کا
سلسلہ شرک تک جا پہنچتا ہے اورانسان کو صحیح طریقِ عمل سے روک دیتے ہیں۔ مثلاً بیماری
میں طب کے قاعدے کے موافق علاج کیا جائے تو مفید ہوگا ، لیکن بہت سے لوگ وہم پرستی
کی بنا پر ٹونے ٹوٹکے کورافع مرض سمجھتے ہیں اورعاملین کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔
رسولِ اکرمeنے ان تمام اوہام کو تصریح اوریقین کے ساتھ باطل قراردیا ، مثلاً
:
Ý عرب کا خیال
تھا کہ جب کوئی بڑا شخص مرجاتا ہے تو چاند یاسورج کوگرہن لگتا ہے۔ نبیٔ اکرمeکے صاحبزادے ابراہیم
tکی وفات ہوئی تو سورج کوگرہن لگا ہوا تھا۔ لوگوں نے خیال کیا
کہ انہی کی وفات کا اثر ہے۔ جب نبی ٔاکرمeنے یہ سنا توفرمایا:ـ
[إنّ الشمس والقمر
آیتان من آیات اللّٰہ ، لا ینخسفان لموت أحد ولا لحیاتہ]
’’چاند سورج اللہ
تعالیٰ کی نشانیاں ہیں ۔ کسی کے مرنے یا جینے سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔‘‘ (صحیح البخاری
: ۱۰۴۳، صحیح مسلم : ۹۱۵)
وہم پرستی کا ایک منظر اس وقت دیکھنے کو ملا جب پوری دنیا کا
طویل ترین سورج گرہن ہوا ۔ پاکستان میں جزوی طور پرسورج گرہن کا آغاز ۱۷:۱۰ پر ہوا جو
۰۸:۰۳ تک جاری رہا ۔ اس دوران
کراچی کے ساحلی علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے معذور بچوں کو ریت میں دبایا
، جبکہ والدین اپنے بچوں کے قریب بیٹھ کر قرآنِ پاک کی تلاوت اورتسبیح کرتے رہے ۔
ان افراد کا کہنا تھا کہ اس عمل سے بچوں کی ذہنی اورجسمانی بیماریاں دُور ہوجاتی ہیں۔
Þ یہ خیال تھا
کہ سانپ اگر ماردیا جائے تو اس کا نَر یامادہ ساتھی آکرمارنے والے انسان کو ہلاک کردیتا
ہے ، چنانچہ ارشاد ِ نبوی ہوا :
[من ترک الحیّات
مخافۃ طلبہنّ، فلیس منّا، ما سالمناہنّ منذ حاربناہنّ۔]
’’جب سے ہماری ان(سانپوں
)سے لڑائی ہوئی ہے ، دوبارہ صلح نہیں ہوئی۔ جس نے سانپ کو ڈر کی وجہ سے چھوڑ دیا(کہ
اس کا ساتھی مجھے نقصان پہنچائے گا) وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘(مسند الامام احمد : ۱/۲۳۰، سنن ابی داوٗد : ۵۲۵۰، وسندہٗ حسنٌ)
ß ایک دفعہ آپeمسجد میں تشریف
فرماتھے کہ ستارہ ٹوٹا ۔ آپeنے صحابہ کرام سے دریافت کیا کہ جاہلیت میں آپ اس کی نسبت کیا
اعتقاد رکھتے تھے؟ عرض کیا : ہمارا یہ اعتقاد تھا کہ بڑے شخص کی پیدائش یا وفات پرستارے
ٹوٹتے ہیں۔ آپeنے فرمایا کہ کسی کے مرنے یاپیدا ہونے سے ستارے نہیں ٹوٹتے۔(صحیح
مسلم : ۲۲۲۹)
à شِیرخوار بچوں
کے سرہانے استرا رکھ دیا جاتا کہ جنات ان کو نہ ستانے پائیں ۔ ایک دفعہ سیدہ عائشہrنے دیکھا تو اٹھا
کر پھینک دیا اورفرمایا کہ رسول اللہeان باتوں کو ناپسند فرماتے تھے۔ (الادب المفرد للبخاری : ۹۱۲، شرح معانی الآثار للطحاوی : ۴/۳۱۲ مختصرا ، وسندہٗ حسنٌ)
á نظر بد سے بچنے
کے لیے اونٹوں کے گلے میں قلادہ لٹکاتے تھے ۔ نبی ٔ اکرمe نے حکم فرمایا کہ کسی اونٹ کے گلے میں قلادہ نہ رہنے
دیا جائے ، جیساکہ ابوبشیر انصاریtبیان کرتے ہیں کہ وہ دورانِ سفر رسول اللہeکے ساتھ تھے ۔ آپeنے ایک شخٰص کو
اس کام کے لیے بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں تندی وغیرہ کا کوئی قلادہ (ہار)نہ چھوڑا
جائے ، بلکہ اسے کاٹ دیا جائے۔‘‘ (صحیح البخاری : ۳۰۰۵ ، صحیح مسلم : ۲۱۱۵)
تعجب!
جہلائے عرب میں ایسی خرافات موجود تھیں تو تعجب کیوں ؟ تعلیم
سے ناآشنا لوگ اکثر توہم پرستی کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ آج کل
کے ماڈرن اورتعلیم یافتہ دَور میں بھی بے حد خرافات ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔
اگر مختلف علاقوں میں پائی جانے والی خرافات اور توہمات کودیکھا جائے تو آج ہم جہلائے
عرب سے بھی اس کام میں بہت آگے نظر آتے ہیں۔
کیا یہ وہی امت ہے جسے سکھایاگیاتھا کہ نفع ونقصان صرف اللہ
کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ کسی کو شفا دیتا ہے تو کوئی جن ، فرشتہ ، انسان اورادلتا بدلتا
موسم اسے بیمار نہیں کرسکتااور اگر وہ کسی کو بیمار کرنا چاہے تو سارے حکیم وڈاکٹر
اور عامل مل کر اسے شفا نہیں دے سکتے۔علاج کی اہمیت اور جائز عملیات کی افادیت سے انکار
نہیں، مگر اللہ کا حکم اور مشیئت ہرچیز پر مقدم ہے۔ کوئی ماہر ترین ڈاکٹر اورمہنگی
سے مہنگی دوا مریض کی حالت میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں لاسکتے اگر اللہ کا حکم اورمرضی
نہ ہواوراگر وہ بھی شفا کا فیصلہ فرمادے تو خاک کی چٹکی اورپانی کے گھونٹ سے شفا مل
جاتی ہے۔
کیا یہ وہی امت ہے کہ جسے سمجھایا گیاتھا کہ سورج اورچاند، زمین
وآسمان ، سمندر اوردریا سب اللہ کے حکم کے سامنے بے بس ہیں ۔ ان کاطلوع وغروب ، حرکت
اور سکون ، روانی اورٹھہراؤان کے اپنے اختیار میں نہیں ۔ ان کا مالک چاہے تو گہرے
سمندر کو پایاب کردے اور اس کا حکم ہوتو خشک اورجامد پتھروں سے چشمے جاری کردے۔ عقیدے
اورایمان کی یہی پختگی تھی کہ جس نے مسلمانوں کو صدیوں کے توہمات سے نجات دے دی ۔ عقیدۂ
توحید پرایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بعض مسلمان دوبارہ جاہلانہ توہمات میں مبتلا
ہورہے ہیں ۔ نجومیوں ، جوگیوں ، دست شناسوں اور پیشہ ورانہ عاملوں کے آستانے ان ہی
اوہام پرستوں کی وجہ سے آباد ہیں۔
توہم پرستی کی
چند مثالیں :
زمانہ اسلام سے قبل کے عرب معاشرے میں پائی جانے والی تمام خرافات
آج ہمارے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں، مثلاً پرندوں اورجانوروں اوران کی بولیوں سے نحوست
لینا ، کوا چھت کی منڈیر پر آبیٹھے اوربولنے لگ جائے تو سمجھنا کہ کوئی مہمان آرہا
ہے ، چھینک آگئی تو کوئی یادکررہا ہے ، بوقت ِ صبح دکانداروں کا کسی کو ادھار سودا
نہ دینا کہ اس طرح سارے دن کی برکت ختم ہوجاتی ہے، مرغ بانگ دینے کے جرم میں ذبح کا
سزا وار ٹھہرتا ہے۔
کالی بلی راستہ کاٹ جائے تومنحوس سمجھنا، جانوروں کی گردنوں
میں رنگ برنگ کی چادریں اور دھاگے باندھ کر چھوڑ دینا اورسمجھنا کہ اگر ان کو کسی نے
ہاتھ لگایا تواس کا نقصان ہوجائے گا۔ آنکھ کی پھڑ پھڑاہٹ کومصائب کی دستک سمجھنا ،
جمعہ کے دن عید آجائے تو اس کوبھاری سمجھنا ، دلہنوں کو گھر میں داخل کرتے اور رخصت
کرتے وقت عجیب وغریب امور ، مثلاً دروازے پرتیل گرانا ، سرپرقرآن کاسایہ کرنا ، پاؤں
کے نیچے روئی دھرنا ، دلہن کے پاس لوہا رکھنا وغیرہ ، حاملہ عورت یانومولود بچے کی
ماں کو فوتگی والے گھر نہ جانے دینا یا اپنے گھر کسی کونہ آنے دینا ، نومولود کے سرہانے
چھری وغیرہ رکھنا، دلہن کے آتے ہی اگر گھر میں کوئی نقصان ہوجائے تو اسے منحوس سمجھنے
لگنا ، کسی دن بالخصوص منگل کے دن کسی کام کی ابتدا نہ کرنا ، جنات کو نکالنے کے لیے
عجیب وغریب طریقے اختیار کرنا ، نجومیوں ،ساحروں اور کاہنوں سے قسمت آزمائی کرانا
اس پر مستزاد ہے۔
قسمت کا حال پوچھنا ایسا عمل ہے کہ پوری قوم فیشن کی طرح اس
کو اپناتی ہے۔ حالانکہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:
[من أتی عرّافا
أو کاہنا، فصدّقہ بما یقول، فقد کفر بما أنزل علی محمّد]
’’جو شخص کسی نجومی
یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی بات کو صحیح سمجھا تو اس نے محمد (e)پر نازل ہونے والے
دین کے ساتھ کفر کیا۔‘‘ (مسند الامام احمد : ۲/۴۲۹، السنن الکبریٰ للبیہقی : ۸/۱۳۵، وسندہٗ صحیحٌ)
کاہن اس شخص کو کہاجاتا ہے جوغیب دانی کا دعویٰ کرتا ہو ۔ اس
کے کئی طریقے آج کل موجود ہیں ، مثلاً ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر قسمت کا حال بتانا ،
ستاروں کے ملاپ سے مقدر معلوم کرنا، قرآنی فالنامے اورطوطوں کے ذریعے قسمت نکالنا
، زمین پر لکیریں کھینچنا وغیرہ۔
سیدنا ابنِ عباسw سے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا:
[من اقتبس علما من
النجوم، اقتبس شعبۃ من السحر ، فزاد ما زاد]
’’جس نے علم ِ نجوم
سیکھا ، اس نے جادو سیکھا ، جیسے جیسے یہ علم بڑھتا جائے گا، جادو بڑھتا جائے گا۔‘‘
(مسند الامام احمد : ۱/۲۲۷، ۳۱۱، مسند عبد بن حمید
: ۷۴۱، سنن ابی داوٗد : ۳۹۰۵، سنن ابن ماجہ : ۳۷۲۶، وسندہٗ حسنٌ)
حافظ نوویaنے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (ریاض الصالحین : ۲/۲۳۶)
جادوگروں کے بارے میں ارشادِ نبوی موجود ہے کہ
’’سات تباہ کرنے
والے گناہوں سے بچو۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! وہ گناہ کون کون سے
ہیں؟ آپeنے فرمایا: ’’شرک ، جادو، قتل ، سود ، یتیم کا مال کھانا ، جنگ
سے دوڑنا اور(پاکدامن عورتوں پر)تہمت لگانا۔‘‘ (صحیح البخاری : ۲۷۶۶، صحیح مسلم : ۸۹/۱۴۵)
ہمارے ہاں پائے جانے والی ایک بدترین توہم پرستی جوانسان کو
شرک تک پہنچا دیتی ہے ، یہ ہے کہ کسی درخت یا جانور وغیرہ کو بابرکت سمجھ کر اس کے
ساتھ دھاگے باندھنا ، بچوں کو اس پر بٹھانا یااپنی کوئی چیز اس کے ساتھ لٹکانا۔
سیدنا ابوواقد tبیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہeکی معیت میں حنین
کی طرف گئے ۔ ہم نئے نئے مسلمان تھے۔ مشرکین نے ایک درخت مقرر کر رکھا تھا، جس کے پاس
سجدے کرتے اورتبرک کے لیے اسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے تھے۔ اس درخت کا نام ذات ِ انواط
تھا۔ ہم اس کے پاس سے گزرے توہم نے بھی رسول اللہeسے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے بھی ایک ذات ِ انواط مقرر کردیجیے
تاکہ ہم بھی اس کے ساتھ اپنے اسلحہ جات لٹکایا کریں توآپe نے فرمایا: ’’اللہ اکبر، اللہ کی قسم ! تم نے تووہی
بات کی ہے ، جوبنی اسرائیل نے موسیٰ u سے کہی تھی کہ
[اجعل لنا إلٰہا
کما لہم آلہۃ]
’’ہمارے لیے بھی
اس طرح کا الٰہ بنا دو، جس طرح مشرکوں کے الٰہ (بت) ہیں۔‘‘ (مسند الامام احمد : ۵/۲۱۸، سنن الترمذی : ۲۱۸۰، صحیح ابن حبان : ۶۷۰۲، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذیaنے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے ۔ امام زہریaنے صحیح ابنِ حبان وغیرہ میں سماع کی تصریح کی ہے۔
اندازہ کیجیے کہ رسول اللہeنے ان صحابہ کے مطالبے کو صرف ردّ ہی نہیں کیا ، بلکہ مشرکین
کے عمل سے تشبیہ دی تاکہ پتا چل جائے کہ ایسے امور شرک میں داخل ہیں۔ قرآن وسنت کے
یہ احکامات ان لوگوں کے لیے ہیں جو مختلف قسم کی خرافات اوراوہام میں مبتلا ہیں۔
متوکّلین کے
لیے خوشخبری:
ان لوگوں کو رسول اللہe نے خوشخبری دی ہے جو ان امور سے بچتے ہیں اوراللہ تعالیٰ
پر توکل اورکامل یقین رکھتے ہیں۔
سیدنا عمران بن حصین tسے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا: ’’میری امت کے سترہزار افراد جنت میں بغیر حساب کے
داخل ہوں گے۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سے لوگ ہیں جو جنت
میں بغیر حساب کے چلے جائیں گے ؟ اس پر آپeنے فرمایا : ’’یہ وہ لوگ ہیں جودم نہیں کرواتے ، داغ نہیں لگواتے
، نحوست نہیں پکڑتے اور اپنے رب پر کامل یقین اور توکل رکھتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری
: ۵۷۰۵، مسلم: ۲۱۸)
غور کیجیے کہ دَم کروانا اورداغ لگوانا اگرچہ شرعاً جائز ہے
، مگر پھر بھی آپeنے ایسے لوگوں کو اس فضیلت میں شامل نہیں کیا تواندازہ کریں
کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوگا ، جو طرح طرح کی خرافات میں مبتلا ہیں؟
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں راسخ العقیدہ مسلمان بنائے
اوراپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے۔ آمین !
ذلت ونکبت کا اتنا ہی وہ ہوتا ہے شکار
جس کا جتنا لگاؤ فتنہ اوہام سے
No comments:
Post a Comment