ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ
تحریر: جناب پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد
شریف شاکر
حدیث:
امام مالک ، جعفر بن محمد سے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ e نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کیا۔(امام مالک بن انس : المؤطا (روایۃ یحییٰ
بن یحییٰ اللیثی الاندلسی) (تحقیق: الدکتور بشار عواد معروف):کتاب الاقضیۃ ، باب القضاء
بالیمین مع الشاھد، حدیث ۲۱۱۱: ص ۲؍۲۶۳)
حدیث:
مالک ،ابوالزناد سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عبدالحمید بن عبدالرحمن
بن زید بن خطاب ، جو کہ کوفہ کے گورنر تھے ، کو لکھا کہ ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم
کے ساتھ فیصلہ کیجئے۔ (نفس المرجع ، حدیث۲۱۱۲: ص۲/۲۶۳)
حدیث:
مالک کو یہ بات پہنچی کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار دونوں سے پوچھا
گیا کہ کیا ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کیاجاسکتا ہے؟ تو دونوں نے کہا:
ہاں! (نفس المرجع ، حدیث۲۱۱۳: ص۲/۲۶۴)
حدیث:
’’سیدنا ابن عباسw فرماتے
ہیں کہ رسول اللہe نے
ایک اور قسم کے ساتھ فیصلہ کیا۔‘‘ (المنذری، عبدالعظیم بن عبدالقوی ، الشامی ثم المصری
: مختصر سنن ابی دائود ، کتاب الاقضیہ ،باب القضاء بالیمین والشاھد، حدیث ۳۴۶۲: المکتبۃ الاثریۃ ، سانگلہ ہل: ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء: ص۵/۲۲۵)
شیخ ابو سلیمان خطابی (م ۳۸۸ھ) لکھتے ہیں:
[یرید انہ قضی للمدعی
بیمینہ مع شاھد واحد، کأنہ اقام الیمین مقام شاھد اٰخر، فصار کالشاھدین۔] (الخطابی
، حمد بن ابراہیم،ابوسلیمان: معالم السنن (ذیل مختصر سنن ابی دائود): ص ۵؍۲۲۵)
’’سیدنا ابن عباسw کی
مراد یہ ہے کہ آپe نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے مدعی کے لیے اس کی قسم کے ساتھ فیصلہ کیا، گویا آپe نے
قسم کو دوسرے گواہ کے قائم مقام ٹھہرایا ، تو یہ دو گواہوں کی طرح ہوگیا۔‘‘
امام محمد بن حسن شیبانیa مندرجہ بالا حدیثِ جعفر بن محمد تخریج کرنے کے بعد لکھتے
ہیں:
[قال محمد وبلغنا
عن النبیﷺ خلاف ذلک وقال ذکر ذلک ابن ذئب عن ابن شھاب الزھری قال سألتہ عن الیمین مع
الشاھد فقال بدعۃ وأوّل من قضی بھا معاویۃ وکان ابن شھاب اعلم عند أھل الحدیث بالمدینۃ۔]
(المؤطا ء للامام محمد مع التعلیق الممجد : باب الیمین مع الشاھد: قدیمی کتب خانہ ،
کراچی: سن ندارد: ص۳۶۳)
’’محمد (بن حسن شیبانی)
نے کہا کہ ہمیں نبیe سے
اس کے خلاف (مسئلہ) پہنچا ہے اور کہا کہ یہ (بات) ابن ابی ذئب نے ابن شہاب زہری سے
نقل کی ہے ، اس (ابن ابی ذئب) نے کہا کہ میں نے گواہ کے ساتھ قسم کے بارے میں آپ (زہری)
سے پوچھا تو آپ نے کہا کہ یہ بدعت ہے اور اس کے ساتھ سب سے پہلے معاویہt نے
فیصلہ کیا اور ابن شہاب مدینہ میں اہل حدیث کے ہاں سب سے زیادہ عالم تھے۔‘‘
سیدنا معاویہt اصحاب
رسول میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ صحابی کا عمل بدعت نہیں بلکہ سنت کا
مقام رکھتا ہے ، جہاں تک ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کرنے کا تعلق ہے
تو یہ بدعت نہیں بلکہ سنت متواترہ کا مقام رکھتا ہے۔
امام مالکa فرماتے
ہیں:
[مضت السنۃ فی القضاء
بالیمین مع الشاھد الواحد یحلف صاحب الحق مع شاھدہ ویستحق حقہ فان نکل وابی ان یحلف
، احلف المطلوب ، فان حلف سقط عنہ ذلک الحق ، وان أبی أن یحلف ثبت علیہ الحق لصاحبہ۔]
(امام مالک بن انس : المؤطا ، حدیث ۲۱۱۴: ص ۲؍۲۶۴)
’’ایک گواہ کے ہوتے
ہوئے (مدعی کی) قسم کے ساتھ فیصلہ کرنے میں سنت جاری ہوچکی ، حق دار اپنے گواہ کے ساتھ
قسم اُٹھائے گا اور اپنے حق کا حق دار ٹھہرے گا۔ اگر وہ باز رہے اور قسم اُٹھانے سے
انکار کردے تو مطلوب (مدعی علیہ) سے قسم لی جائے۔ اگر یہ قسم اُٹھا لے تو اس سے وہ
حق ساقط ہوجائے گا۔ اور اگر یہ (بھی ) حلف سے انکار کردے تو اس پر اس کے ساتھی (مدعی)
کا حق ثابت رہے گا۔‘‘
امام مالکa فرماتے
ہیں کہ یہ صرف اموال میں ہوگا۔، حدود، نکاح ، طلاق ، عتاقہ ، سرقہ اور تہمت میں سے
کسی میں واقع نہیں ہوگا۔ (نفس المرجع :حدیث(قول مالک) ۱۲۱۵: ص ۲/۲۶۴)
امام ابن قیمa فرماتے
ہیں کہ ابن ابی حاتم نے ’’کتاب العلل‘‘ میں کہا ہے کہ میں نے اپنے باپ ابوحاتم سے اور
ابوزرعہ سے ( اس حدیث کے بارے میں جسے ربیعہ نے سہیل بن ابی صالح سے اس نے اپنے باپ
سے اس نے ابوہریرہ سے روایت کیا کہ نبیe نے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کیا) سوال کیا تو
ان دونوں نے فرمایا: ’’ یہ صحیح ہے ‘‘ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ بعض
رواۃ [عن سھیل عن ابیہ
عن زید بن ثابت] کہتے ہیں ، تو
دونوں نے فرمایا: [وھذا صحیح ایضاً،
ھما جمیعا صحیحان۔] یہ بھی صحیح ہے
، یہ دونوں صحیح ہیں۔ (ابن قیم الجوزیہ ، محمد بن ابی بکر الزرعی ثم الدمشقی: تہذیب
سنن ابی دائود ومشکلاتہ (ذیل مختصر سنن ابی
دائود): ص۵/۲۲۵)
مذکورہ بالا ان دونوں حدیثوں کی صحت سے اس مسئلہ کی صحت واضح
ہوگئی ، علاوہ ازیں درج ذیل احادیث اس کی تائید میں ذکر کی جاتی ہیں:
حدیث: (۱) انَّ عمارۃ بن حزم شھد أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قضٰی بالیمین مع الشاھد۔ (امام
احمد بن حنبل: المسند: بیت الافکار الدولیۃ، الاردن: الطبعۃ الرابعۃ: ص ۲؍۸۴۲)
’’بلاشبہ عمارہ بن
حزم نے گواہی دی کہ رسول اللہe نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کیا۔‘‘
حدیث: (۲) عن سعد بن عبادۃ أنّ رسول اللّٰہﷺ قضٰی بالیمین مع الشاھد۔ (نفس
المرجع :حدیث۲۲۸۲۷: ص۲/۷۰۴) (ترجمہ وہی ہے)
حدیث: (۳) عن ابن عباس أنّ رسول اللّٰہﷺ قضٰی بالشاھد ویمین۔ (نفس المرجع :حدیث۲۲۲۴،۲۲۶۹: ص۱/۲۲۶)
’’بلاشبہ رسول اللہ
e نے
ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ کیا۔‘‘
حدیث: (۴) عن عمرو بن دینار عن ابن عباس أنّ النبیﷺ قضٰی بالیمین مع الشاھد ، قال عمرو انما
کان فی الأموال۔ (امام احمد بن حنبل: المسند: حدیث۲۹۶۸،۲۲۶۹: ص۱/۲۸۸،۲۸۹)
’’عمرو بن دینار
نے سیدنا ابن عباسw سے
روایت کیا کہ نبی کریم e نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کیا، عمرو نے کہا: یہ صرف اموال میں ہے۔‘‘
حدیث:(۵) عن علی ’أنّ النبی ﷺ قضٰی بشھادۃ
شاھد واحد ویمین صاحب الحق‘ وقضی علی بن ابی طالب بہ بالعراق۔ (ابن قیم الجوزیہ: تہذیب
سنن ابی دائود(ذیل مختصر سنن ابی داؤد): ص۵/۲۲۵)
’’سیدنا علیt سے
روایت ہے کہ نبی کریمe نے
ایک گواہ کے ساتھ اور صاحب حق کی قسم کے ساتھ فیصلہ کیااور علیt بن
ابی طالب نے بھی عراق میں اس کے ساتھ فیصلہ کیا۔‘‘
حدیث: (۶) عن أبی ھریرۃ أنّ رسول اللّٰہ
ﷺ قضٰی بالیمین مع الشاھد۔ (ابن ماجہ، محمد بن یزید، ابوعبداللہ الربعی، القزوینی:
سنن ابن ماجہ: ابواب الشہادات، باب القضاء بالشاھد والیمین، حدیث ۲۳۶۸، ۲۳۷۰: دارالسلام،
الریاض: ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء:ص۳۳۹)
’’سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کیا۔‘‘
حدیث: (۷) عن جابر أنّ النبیﷺ قضٰی بالیمین
مع الشاھد۔ (ابن ماجہ : سنن ابن ماجہ : حدیث
۲۳۶۹)
’’سیدنا جابرt سے
روایت ہے کہ نبی کریمe نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کیا۔‘‘
حدیث: (۸) عن سرق أنّ النبیﷺ اجاز شھادۃ الرجل ویمین الطالب۔ (نفس
المرجع : حدیث ۲۳۷۱)
’’سیدنا سرقt سے
روایت ہے کہ نبی e نے
آدمی کی شہادت اور مطالبہ کرنے والے کی قسم کی اجازت فرمائی۔‘‘
ابن قیمa لکھتے
ہیں کہ سیدنا ابوہریرہt کی
حدیث اور ابن عباسwکی حدیث کو معلل کہا گیا ہے حالانکہ یہ دونوں حدیثیں ، باب میں
ذکر کردہ حدیثوں میں سب سے عمدہ حدیثیں ہیں۔ (ابن قیم الجوزیہ: تہذیب سنن ابی دائود:
ص۵/۲۲۵)
اعتراض کی کیفیت:
سیدنا ابوہریرہt کی
حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے سہیل بن ابی صالح اپنے باپ سے وہ سیدنا ابوہریرہt سے
روایت کرتا ہے، اس حدیث کو اس سے ربیعہ نے روایت کیا ہے۔ راوی نے کہا کہ میں نے یہ
سہیل کے پاس ذکر کیا تو اس نے کہا:
[اخبرنی ربیعۃ وھو
عندی ثقۃ انی حدثتہ ایاہ ولا احفظہ۔] (نفس المرجع : ص۵/۲۲۵،۲۲۶)
’’مجھے ربیعہ نے
بتایا ، اور وہ میرے ہاں ثقہ ہے کہ میں نے اسے یہ حدیث روایت کی ہے اور یہ روایت کرنا
مجھے یاد نہیں۔‘‘
دراوردی نے کہا کہ سہیل کو ایک بیماری لاحق ہوگئی تھی جس سے
اس کی عقل جاتی رہی اور اسے بعض حدیثیں بھول گئیں، سہیل یہ حدیث [عن ربیعۃ عنہ (سن سھیل بن ابی صالح) عن أبیہ] روایت کیا کرتے تھے۔
کئی وجوہ سے اس کا جواب:
اوّل یہ کہ اگر یہ ثابت ہوجائے تو یہ سیدنا ابوہریرہt کی
حدیث کے بعض طرق کی تعلیل ہوگی نہ کہ تمام کی اور اس طریق کی تعلیل سے اصل حدیث کی
تعلیل لازم نہیں آتی۔ کیوں کہ اس حدیث کو ابوالزناد نے اعرج سے اس نے اسے سیدنا ابوہریرہt سے
روایت کیا۔ اسی طریق سے نسائی نے اسے تخریج کیا۔ (ابن قیم الجوزیہ: تہذیب سنن ابی دائود:
ص۵/۲۲۶)
دوم یہ کہ یہ طریق حدیث کے صدق پر دلالت کرتا ہے کیوں کہ سہیل
نے ربیعہ کی تصدیق کی ہے اور آپ اس حدیث کو ’’ربیعہ عن سہیل‘‘ سے روایت کیا کرتے تھے
لیکن آپ اسے بھول گئے تھے اور راوی کا نسیان اس شخص کے خلاف حجت نہیں ہوتا جس نے یاد
رکھا ہو۔ (نفس المرجع)
لہٰذا ربیعہ کا سہیل بن ابی صالح سے روایت کرنا حجت ہے کیوں
کہ اس نے یاد رکھا، اور سہیل کے نسیان کی وجہ سے عدم یاد داشت کا اظہار قابل حجت نہیں۔
سوم یہ کہ ربیعہ اوثق الناس ہے‘ اس نے بتایا کہ ’’اس نے یہ حدیث
سہیل سے سنی ہے۔‘‘ لہٰذا اس کی حدیث کو ردّ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی اگرچہ سہیل
اس کا انکار کردے ، تو یہ کیسے مسترد ہوسکتی ہے؟ جب کہ سہیل نے اس کا انکار نہیں کیا،
وہ تو بیماری کی وجہ سے جو اسے لاحق ہوئی تھی، اسے بھولا ہے ، اور ربیعہ نے یہ حدیث
اس سے اس بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے سنی ہے۔ (ابن قیم الجوزیہ: تہذیب سنن ابی دائود:
ص۵/۲۲۶)
جہاں تک سیدنا ابن عباسw کی حدیث کا تعلق ہے تو اس کو عمرو بن دینار، ابن عباسw سے
، وہ نبیe سے
روایت کرتے ہیں اور عمرو بن دینار ’’عن محمد بن علی‘‘ سے روایت کیا گیا ہے کہ نبی e نے
ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کیا اور یہ تعلیل بھی باطل ہے ، اس جیسی تعلیل کے ساتھ
سنن صحیحہ پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا، اس کو تو بہت سے لوگوں نے [عمرو بن دینار عن
ابن عباس عن النبی ﷺ] سے موصول روایت کیا ہے اور مسلم نے اسے صحیح کہا ہے اور نسائی
نے ’’جیداسناد‘‘ کہا ہے ، اور کئی طرق سے اسے عمرو بن دینار’’عن ابن عباس‘‘ سے چلایا
ہے۔ (نفس المرجع :۵/۲۲۷)
شافعی نے کہا کہ یہ رسول اللہ e سے ثابت شدہ حدیث ہے ، کوئی اہل علم اس جیسی حدیث کو
، اگرچہ اس کے ساتھ کوئی حدیث بھی نہ ہو، ردّ نہیں کرسکتا ، اس کے ساتھ تو اس کے علاوہ
ایسی حدیثیں ہیں جو اسے تقویت دیتی ہیں۔ (نفس المرجع)
علامہ ابن قیمa لکھتے
ہیں کہ شافعی فرماتے ہیں کہ محمد بن حسن نے مجھ سے کہا: ’’ اگر مجھے معلوم ہو جاتا
کہ سیف بن سلیمان ، الیمین مع الشاہد کی حدیث روایت کرتا ہے تو میں اسے لوگوں کے ہاں
خراب کہتا ،میں نے کہا: اے ابو عبداللہ ! کیا جب آپ نے اسے خراب کہا ، وہ خراب ہوگیا؟
یہ سیف ثقہ ہے ، شیخین نے اسے اس کی حدیث کے ساتھ حجت پکڑنے
پر اتفاق کیا ہے ، علی بن مدینی نے کہا کہ میں نے سیف بن سلیمان کے متعلق یحییٰ بن
سعید سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:
کان عندی ثبتا ممن یصدق ویحفظ۔
’’میرے ہاں وہ صادقین
وحافظین میں سے ثبت ہیں۔‘‘
نسائی نے کہا کہ سیف بن سلیمان ثقہ ہے ، طحاوی نے اس کو معلل
قرار دیا اور کہا کہ یہ منکر ہے اور کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ قیس بن سعد عمرو بن
دینار سے کچھ روایت کرتا ہو۔ (ابن قیم الجوزیہ: تہذیب سنن ابی دائود: ص۵/۲۲۷)
یہ علت باطل ہے کیوں کہ قیس ثقہ ثبت ہے ، تدلیس میں غیر معروف
ہے ، قیس اور عمرو ایک ہی زمانہ میں مکہ کے رہنے والے ہیں۔ اگرچہ عمرو اس سے بڑے اور
اس سے پہلے فوت ہوئے ہیں۔ قیس نے عطاء اور مجاہد سے روایت کیا اور یہ دونوں عمرو بن
دینار سے بڑے اور اس سے پہلے فوت ہوئے ہیں۔ عمرو سے اس شخص نے روایت کیا جو قیس کے
زمانہ میں تھا اور وہ ایوب سختیانی ہے، تو عمرو سے قیس کے روایت کرنے کا انکار کہاں
سے آگیا؟ جریر بن حازم نے قیس بن سعد سے ، اس نے عمرو بن دینار سے ، اس نے ابن جبیر
سے ، اس نے ابن عباس سے اس محرم کا قصہ روایت کیا جس کی اونٹنی نے اس کی گردن توڑ دی
تھی اور یہ صحیح ترین حدیث ہے۔ (نفس المرجع)
لہٰذا واضح ہوا کہ قیس نے عمرو سے کئی احادیث روایت کی ہیں اور
ائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی انہیں منقطع کہہ کر اصلاً معلل قرار نہیں دیا اور محمد
بن مسلم طائفی نے عمرو بن دینار ’’عن ابن عباس‘‘ سے روایت کرنے میں قیس کی متابعت کی
ہے ، اسے نسائی اور ابودائود نے ذکر کیا ہے اور یہ حدیث کئی طرق سے ابن عباس سے مروی
ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ثابت ہے اور اس کو ردّ کرنے کے لیے بحمداللہ کوئی مطمع نہیں۔ (نفس
المرجع :۵/۲۲۷،۲۲۸)
کچھ لوگوں نے اس حدیث کو مرسل کہہ کر معلل قرار دیا کہ عمرو
بن دینار نے اس حدیث کو محمد بن علی سے ، اس نے نبی e سے مرسل روایت کیا۔یہ بھی تعلیل فاسد ہے جو حدیث پر
اثر انداز نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس حدیث کو عمرو سے مرسل روایت کرنے والا ایک ضعیف انسان
ہے۔ اس کی روایت کے ساتھ ثقات پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ نسائی نے کہا: ’’ اس کو ایک
ضعیف انسان نے روایت کیا۔ اس نے کہا: ’’عن عمرو بن دینار عن محمد بن علی مرسل‘‘آپ نے
کہا: ’’ یہ متروک الحدیث ہے ، اور ضعفاء کے ساتھ ثقات کے خلاف حکم نہیں لگایا جاسکتا۔‘‘ (ابن قیم الجوزیہ:
تہذیب سنن ابی دائود: ص۵/۲۲۸)
یہ اور ان جیسی دیگر علل ، لغزش ڈھونڈنے کے سوا کچھ نہیں ، ان
علل کی وجہ سے صحیح ثابت احادیث نہیں چھوڑی جاسکتیں، اگر ان جیسی خیالی علل کی وجہ
سے سنن کو ترک کردیا جائے تو ایسے خیالات کی وجہ سے عام صحیح ثابت احادیث کو ترک کرنے
کی راہ نکل پڑے گی۔ اس طریقہ کے مقابلہ میں اصولیین اور اکثر فقہاء کا طریقہ ہے کہ
وہ حدیث کی علت پر توجہ نہیں دیتے۔ جب حدیث کا کوئی ایک طریقہ علت سے سلامت ہو یا کوئی
ثقہ اس کو موصول یا مرفوع بنا دے تو یہ اپنے مخالفین کی پروا نہیں کرتے، خواہ وہ کتنے
ہی کیوں نہ ہوں۔ (نفس المرجع: ص۵/۲۲۸، ۲۲۹)
اس معاملہ میں درست طریقہ ایسی شان رکھنے والے ائمہ کا ہے جو
حدیث اور اس کی علل کا علم رکھنے والے ہیں۔ علل میں مہارت ، واقفین ،رافعین ، مرسلین
اور واصلین میں غور وخوض کرنا ان کی شان ہے، وہ شیخ کے پاس زیادہ رہنے والے ، زیادہ
اعتماد کرنے والے شیخ کے سب سے زیادہ خاص اور اس کی حدیث کو سب سے زیادہ جاننے والے
ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ایسے بہت سے اُمور کے جاننے والے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ وہ
عزم وجزم کے ساتھ ایک جگہ میں اثر انداز علت کی نشان دہی کرتے ہیں اور ایک اورجگہ میں
اس کی نفی کرتے ہیں۔ وہ نہ تو اُصولیین کے طریقہ کو پسند کرتے ہیں اور نہ ہی فقہاء
کے طریقہ کو پسند کرتے ہیں۔ اس طویل بحث سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس اصل ’’القضاء بالیمین
مع الشاھد‘‘ کو نبیe سے
عمر بن خطاب ، علی بن ابی طالب ، ابن عمر ، عبداللہ بن عمرو، سعد بن عبادہ ، جابر بن
عبداللہ ، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ ، سرق ، عمارہ بن حزم اور صحابہ] کی ایک جماعت
نے روایت کیا ہے ، اور عمرو بن شعیب نے مرسل اور متصل روایت کیا ہے اور منقطع زیادہ
صحیح ہے ، اور ابوسعید الخدری نے اورسہل بن سعد نے بھی روایت کیا ہے۔ (ابن قیم الجوزیہ:
تہذیب سنن ابی دائود: ص۵/۲۲۹)
ان احادیث کی صحت اور عدم صحت کی تفصیل یوں ذکر کی گئی ہے:
1 سیدنا ابن عباسw کی
حدیث کو مسلم نے روایت کیا۔
2 سیدنا ابوہریرہt کی
حدیث حسن ہے اور اسے ابوحاتم رازی نے صحیح کہا ہے۔
3 سیدنا جابرt کی
حدیث حسن ہے اور اس کی ایک علت ہے اور وہ اس کا مرسل ہونا ہے اور یہ بات ابوحاتم رازی
نے کہی ہے۔
4 سیدنا زید بن
ثابتt کی
حدیث کو ابو زرعہ اور ابوحاتم نے صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کو سہیل نے اپنے باپ سے ، اس
نے زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کیا۔
5 اور سعد بن
عبادہ کی حدیث کو ترمذی ، شافعی اور احمد نے روایت کیا۔
6 سرق کی حدیث
کو صرف ابن ماجہ نے روایت کیا اور اس کی ایک علت ہے اور وہ سرق سے ابن بیلمانی کا روایت
کرنا ہے۔
7 اور زبیب کی
حدیث حسن ہے ۔ اس کو اس سے شعیب بن عبداللہ بن زبیب عنبری نے روایت کیا۔ اس نے کہا:
[حدثنی ابی قال: سمعت جدی الزبیب] اور شعیب کو ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے۔
8 اور عمرو بن
شعیب کی حدیث کو مسلم بن خالد زنگی نے ابن جریج سے، اس نے عمرو سے منقطع روایت کیا
اور رسول اللہ e نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کیا ، اور یہ صحیح ہے۔
9 ابوسعید کی
حدیث کو طبرانی نے اپنی معجم الصغیر میں ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا۔
0 سہل بن سعد
کی حدیث ، جس کو ابوبکر بن ابی شیبہ نے ابوحازم سے ، اس نے سہل سے روایت کیا، یہ ضعیف
ہے۔
اس مسئلہ میں اعتماد احادیث صحیحہ پر ہے ، اور باقی بے ضرر شواہد۔(ابن
قیم الجوزیہ: تہذیب سنن ابی دائود: ص۵/۲۳۰)
سحنون بن سعید لکھتے ہیں:
[وقد قضی بالیمین
مع الشاھد رسول اللّٰہﷺ وقضی بذلک علی بن ابی طالب ، وقال رسول اللّٰہﷺ: ’اتانی جبریل
من عنداللّٰہ یأمرنی بالقضاء بالیمین مع الشاھد۔‘ وقضی بذلک عمر بن عبدالعزیز وکتب
بذلک الی عمالہ ان یقضی بالیمین مع الشاھد وکان السلف یقولون ذلک ویرون القضاء بالیمین
مع الشاھد العدل فی الأموال والحقوق وکانوا یقولون: لا یکون الیمین فی الفریۃ مع الشاھد
ولا فی الطلاق ولا فی العتاق ولا فی اشباہ ذلک ، وھم سعید بن المسیب وعروۃ بن الزبیر والقاسم بن محمد وابوبکر بن عبدالرحمن
وخارجۃ بن زید وعبیداللّٰہ بن عبداللّٰہ وسلیمان بن یسار۔] (امام مالک : المدوّنۃ الکبریٰ
(تحقیق: الحاج محمد آفندی الساسی، المغربی التونسی، بروایۃ الامام سحنون بن سعید التنوخی
عن الامام عبدالرحمن بن قاسم العتقی): مطبعۃ السعادۃ ، مصر: ۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء: ص۱۳/۳۲،۳۳)
’’رسول اللہ e نے
ایک گواہ کے ہوتے ہوئے (مدعی کی) قسم کے ساتھ فیصلہ کیا ، اور اس کے ساتھ علی بن ابی
طالب نے (بھی) فیصلہ کیا اور رسول اللہ e نے فرمایا کہ میرے پاس اللہ کی طرف سے جبریل ، ایک گواہ
کے ہوتے ہوئے (مدعی کی) قسم کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم کرنے آئے، اور عمر بن عبدالعزیز
نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا اور اپنے عمال کی طرف لکھ کر بھیجا کہ ایک گواہ کے ہوتے ہوئے
قسم کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ سلف یہی بات کہا کرتے تھے اور ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم
کے ساتھ اموال اور حقوق میں فیصلہ کرنے کو عدل خیال کرتے تھے۔اور کہا کرتے تھے کہ تہمت
، طلاق، عتاق اور اس کے اشباہ میں گواہ کے ساتھ قسم نہیں ہوسکتی ، اور یہ اسلاف سعید
بن مسیّب ، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد ، ابوبکر بن عبدالرحمن ، خارجہ بن زید ، عبیداللہ
بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار ہیں۔‘‘
جبریل کے آکر کہنے کی مندرجہ بالا حدیث بہت ضعیف ہے۔ حافظ ابن
حجر عسقلانی اس کے راوی ابراہیم بن ابی حیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابراہیم بہت ضعیف
ہے۔ یہ بات ابن عدی اور ابن حبان نے اس کے حالات ِزندگی میں لکھی ہے۔ (ابن حجر عسقلانی
: التلخیص الحبیر : المکتبۃ الاثریۃ ، سانگلہ ہل : ۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء: ص ۴/۲۰۶)
مالک فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک گواہ کے ہوتے
ہوئے قسم نہیں ہوسکتی اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول سے حجت پکڑتے ہیں اور اللہ
تبارک و تعالیٰ کا قول حق ہے :
{وَاسْتَشْہِدُوْا
شَہِیْدَیْْنِ منْ رِّجَالِکُمْ فَإِن لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ
مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاء} (البقرۃ:۲۸۲)
’’اور تم اپنے مردوں
میں سے دو گواہ بنائو ! اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں
سے ہوں جن کو تم پسند کرتے ہو۔‘‘
معترض کہتا ہے کہ اگر مدعی ایک مرد اور دو عورتیں نہ لا سکے
تو اس کے لیے کوئی چیز نہیں اور اس کے گواہ کے ساتھ اس سے حلف نہ لیا جائے۔ (امام مالک
: المؤطا : ص ۲؍۲۶۷)
مالک کہتے ہیں کہ یہ بات کہنے والے کے خلاف دلیل ہے کہ اسے کہا
جائے: آپ بتایئے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کے خلاف مال کا دعویٰ کرے تو کیا مدعی علیہ
قسم نہیں اُٹھائے گا کہ اس کے ذمہ یہ حق نہیں ہے؟ اگر وہ قسم اُٹھالے تو یہ حق اس سے
باطل ہوجائے گا اور اگر وہ مطلوب قسم سے باز رہے تو صاحب حق سے حلف لیا جائے کہ اس
کا حق اس کے ذمہ ثابت ہے ، اور اس کا حق اس کے ساتھی (مطلوب )پر ثابت ہوجائے گا۔ یہ
ایسی چیز ہے کہ لوگوں میں سے کسی کے ہاں اور نہ شہروں میں سے کسی شہر میں کوئی اختلاف
نہیں تو مدعی کس چیز کی وجہ سے اس مال کو پکڑے گا؟ یا اللہ کی کتاب میں کس جگہ اسے
پائے گا؟ جب وہ اس کا اقرار کرلے تو اسے ایک گواہ کے ہوتے ہوئے قسم کے ساتھ فیصلہ کا
بھی اقرار کرنا چاہیے۔ اگرچہ یہ اللہ عزوجل کی کتاب میں نہیں، تاہم بالیقین سنت ماضیہ
اس کے لیے کفایت کرتی ہے۔ (نفس المرجع)
ھٰذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment