درسِ قرآن
کامیاب انسان
ارشادِ باری ہے:
﴿اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ
النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ١ؕ وَ مَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا
مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۰۰۱۸۵﴾ (اٰل عمران)
’’قیامت کے دن تم
اپنے بدلے پورے پورے دئیے جاؤ گے۔پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کر
دیا گیابے شک وہی کامیاب ہے۔ اور (یاد رکھوکہ)دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان
ہے۔‘‘
ہر انسان اپنے لیے کامیابی کا خواہاں ہوتا ہے اور حصول کامیابی
کے لیے تگ و دو اور محنت ومشقت کرتا ہے۔لیکن عقل مند انسان وہ ہے جو حقیقی اور مستقل
کامیابی کے حصول کے لیے کوشش کرے ایسی کامیابی کہ جس کے بعد ناکامی کا کوئی امکان ہی
نہ ہو۔دنیا میں رہتے ہوئے انسان عارضی نفع اور تھوڑے سے فائدہ کے لیے بھی دن رات سو
چ وبچار کرتا ہے اور اس کے باوجود اسے پورا وثوق نہیں ہوتا کہ وہ اس فائدہ کو پا لے
گا۔لیکن اللہ تعالی نے ایسی دائمی کامیابی اور ابدی منافع کی طرف قرآن میں رہنمائی
کردی ہے کہ جس کے بعد نامرادی نہیں اور اس کا حصول بھی کسی قسم کے شک وشبہ سے بالا
ہے اور حقیقت میں یہی اصل کامیابی ہے:
﴿قَالَ اللّٰهُ هٰذَا
يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ١ؕ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا
الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ١ؕ
ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۰۰۱۱۹﴾ (المآئدة)
’’اس دن اللہ تعالیٰ
فرمائیں گے یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا‘ ان کو
ایسے باغات میں ٹھہرایا جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ
رہیں گے۔اللہ ان سے خو ش ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اور یہ کامیابی ان کا مقدر بنے گی جنہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے
اللہ کی مرضی والی اور رسولe کی
اطاعت والی زندگی گزاری ہوگی:
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِيَآءَ
اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَۚۖ۰۰۶۲ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَؕ۰۰۶۳ لَهُمُ الْبُشْرٰى فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي
الْاٰخِرَةِ١ؕ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُؕ۰۰۶۴﴾
(يونس)
’’یاد رکھو!اللہ
کے دوستوں پر کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔وہ ‘ وہ ہیں جو ایمان لائے اور
(برائیوںسے)پرہیز کیے رکھا۔ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری
ہے۔اللہ تعالیٰ کی باتیں بدلا نہیں کرتیںاور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘
دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں بٹھائے رکھنا
‘ حق اور سچ کا ساتھ دینا‘ اس کے بھیجے ہوئے رسولe کی اطاعت کے ذریعے اللہ کی رضا کا متلاشی رہناہمارے
لیے حقیقی اور ابدی کامیابی کاضامن ہے اورایک مومن کے سامنے اسی کامیابی کا حصول ہدف
زندگی ہونا چاہیے۔
درسِ حدیث
نوحہ (بین) کی ممانعت
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّﷺ لَيْسَ مِنَّا
مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ](متفق
علیہ)
سیدنا عبداللہ بن مسعودt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخساروں کو پیٹا اور گریبان کو چاک کیا اور
جاہلیت کے بول بولے (بین کیا)۔‘‘ (بخاری و
مسلم)
اسلام نے ہر معاملے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا
ہے کسی عزیز کی وفات پر غم کی کیفیت طاری ہونا فطری بات ہے مگر غم کی وجہ سے خلاف شریعت
کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ذکر کردہ حدیث میں رسول اللہe نے فرمایا: ’’جس نے غم کی وجہ سے اپنے رخسار پیٹے، گریبان
پھاڑا، بال نوچے اور زبان سے نازیبا کلمات ادا کئے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
یعنی اس کے اسلام کا اعتبار نہیں کسی عزیز کے فوت ہونے یا کسی
مصیبت کے نازل ہونے پر آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں، دل غمزدہ ہو جائے یہ انسانی
فطرت اور رحمت ہے مگر غیر شرعی حرکات اور کلمات ادا کرنا جائز نہیں۔ میت کی خوبیوں
یا اس کے بعد آنے والا مشکلات تذکرہ کر کے رونا پیٹنا، اپنے بال نوچنا اور زبان سے
ایسے کلمات نکالنا جن سے اللہ ناراض ہوتا ہو غیر شرعی فعل ہے، اگر مرنے والے نے وصیت
کی ہو کہ میرے مرنے پر نوحہ کیا جائے تو نوحہ کرنے سے اسے قبر میں عذاب ہوتا ہے اگر
اس نے وصیت نہیں کی بلکہ فرط غم کی بنا پر اس کے عزیز و اقارب نوحہ کرتے ہیں تو میت
کو عذاب نہیں ہو گا بلکہ نوحہ کرنے والے گنہگار ہوں گے۔ اس لئے کہ نوحہ کرنے والا اللہ
کے فیصلے پر راضی ہونے کے بجائے ناراضی کا اظہار کرنا ہے جس کی بنا پر وہ خود عذاب
میں مبتلا ہوگا۔
اسی بنا پر جب رسول اللہe کسی عورت سے بیعت لیتے اسے پابند فرماتے کہ آج کے بعد
بین نہیں کروگی۔ چونکہ عورتیں نرم دل ہوتی ہیں معمولی سے غم کی بنا پر گھبراہٹ کا اظہار
کرتی ہیں۔ اس لئے عورتوں سے بیعت کے وقت حضورe نوحہ نہ کرنے کا عہد لیتے تھے۔
جاہلیت کے کلمات سے مراد یہ ہے کہ کہا جائے تو چلا گیا اب ہمارا
کیا بنے گا یا تیری جگہ میں مر جاتا اس طرح کے دوسرے کلمات ہیں جن سے اللہ ناراض ہوتا
ہے۔ ان سے بہر صورت بچا جائے۔
No comments:
Post a Comment