Friday, September 13, 2019

احکام ومسائل 34-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

استنجا کے بعد ہاتھوں کو صاف کرنا
O ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہeاستنجا کے بعد اپنے ہاتھوں کو پہلے دیوار پر مارتے اور انہیں رگڑتے پھر دھوتے تھے۔ کیا انہیں مٹی سے رگڑنا ضروری ہے یا انہیں صابن وغیرہ سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے؟!
P استنجاء کے بعد اپنے ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنے کے بعد دھونے کے متعلق سیدہ میمونہr سے روایات آتی ہیں‘ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہe نے استنجاء کے بعد اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور انہیں مٹی سے رگڑا پھر پانی سے دھویا۔ (بخاری‘ الغسل: ۲۵۹)
دوسری روایت میں ہے کہ استنجاء کے بعد اپنے ہاتھوں کو دیوار سے رگڑا پھر انہیں پانی سے دھویا۔ (بخاری‘ الغسل: ۲۶۰)
امام ابوداؤد نے ان احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’استنجاء سے فراغت کے بعد آدمی کا اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑنے کا بیان۔‘‘
امام بخاریa نے حدیث میمونہr پر ان الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے: ’’استنجاء کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے رگڑنا تا کہ وہ صاف ہو جائیں۔‘‘
دراصل امام بخاریa اس عنوان سے ایک اختلاف کی طرف اشارہ کر کے اپنا رجحان بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اختلاف یہ ہے کہ استنجاء کے بعد ہاتھوں کو زمین پر رگڑنے سے مقصود حصول نظافت ہے یا حصول طہارت؟ اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے نظریاتی اختلاف پر ہے‘ وہ اس طرح کہ بعض اہل علم کے نزدیک استنجاء کرنے کے بعد جس بدبو کو دور کرنے کے لیے ہاتھوں کو زمین پر رگڑا جاتا ہے وہ در حقیقت نجاست کے ان اجزاء کو دور کرنے کے لیے ہے جو نظر نہیں آتے لیکن ہاتھوں میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک استنجاء کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے رگڑنا ضروری ہے تا کہ نجس اجزاء سے طہارت ہو جائے۔ جبکہ دوسرے حضرات کا موقف یہ ہے جن میں امام بخاریa سرفہرست ہیں کہ اس قسم کی ہوائی کیفیات کا زائل کرنا ضروری نہیں تا کہ طہارت حاصل ہو بلکہ یہ عمل حصول نظافت کے لیے کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ امام بخاریa نے اپنے عنوان میں اس کی صراحت کی ہے کہ استنجاء میں ازالۂ عین نجاست کے بعد جو بدبو کے اثرات باقی رہ گئے ہیں انہیں بھی دور کر دیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی نفرت کا باعث ہے۔ ایک حدیث میں سیدنا ابوہریرہt نے بھی اس عمل کو رسول اللہe سے نقل کیا ہے۔ (ابوداؤد‘ الطہارہ: ۴۵)
بہرحال کچی جگہوں پر جہاں مٹی میسر ہو وہاں ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر مزید صاف کر لینا مستحب عمل ہے تا کہ بو کا شائبہ بھی نہ رہے اور جہاں مٹی میسر نہ ہو وہاں صابن وغیرہ اس کا قائم مقام ہو گا۔ ہمارے ہاں جہاں مسجد کی انتظامیہ باذوق ہوتی ہے وہ مساجد میں واش روم کے باہر اور وضوء خانہ پر صابن وغیرہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں تا کہ نمازی حضرات صابن سے ہاتھ صاف کر لیں۔ راقم جب ایک مرتبہ وزارت مذہبی امور کی دعوت پر کویت گیا تو وہاں یہ حسین اہتمام دیکھنے کو ملا کہ طہارت خانوں کے باہر بہترین سیال صابن کا اہتمام پھر وہاں بلوری جام خوشبودار مواد سے بھرے پڑے رکھے ہیں تا کہ نمازی حضرات طہارت کے بعد اپنے ہاتہوں کو اچھی طرح صاف کریں اور خوشبو لگا کر ماحول کو معطر کریں۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء!
بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق جہاں مٹی میسر ہو وہاں اس سنت کا احیاء کرنا چاہیے اور جہاں اس قسم کی سہولت نہ ہو وہاں صابن وغیرہ کو استعمال کر کے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح صاف کرنا چاہیے تا کہ بو وغیرہ سے ماحول خراب نہ ہو۔ واللہ اعلم!
مجبوری کے وقت کھڑے ہو کر پیشاب کرنا
O پیشاب کرنے کے متعلق کتاب وسنت میں کیا ہدایات ہیں؟ بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا پڑتا ہے‘ اگر انسان کو کوئی مجبوری ہو تو کیا ایسے مقامات پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی کوئی گنجائش ہے؟!
P ہماری شریعت میں معاشرتی زندگی کی بنیاد نظافت وطہارت اور ایک دوسرے سے خیر خواہی وہمدردی پر ہے۔ معاشرتی زندگی کا ایک گوشہ قضاء حاجت کے آداب ہیں اس میں ستر پوشی اور صفائی وطہارت کو بنیادی حیثیت قرار دیا گیا ہے۔ بیٹھ کر پیشاب کرنا اسلامی تہذیب کا ایک حصہ ہے‘ لیکن اغیار اسے عیب شمار کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے ایک دفعہ بیٹھ کر پیشاب کیا تو طعنہ دینے والوں نے یوں کہا: ’’دیکھو! آپ عورتوں کی طرح بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں۔‘‘ (نسائی‘ الطہارہ: ۳۰)
اسی طرح سیدہ عائشہr سے ایک حدیث بایں الفاظ مروی ہے: ’’جو تمہیں بتائے کہ رسول اللہe نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا اس کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپe تو بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔‘‘ (نسائی‘ الطہارہ: ۲۹)
سیدنا عمرt کے متعلق بھی ایک حدیث میں ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ کھڑے ہو کر پیشاب کر رہا تھا‘ مجھے رسول اللہe نے دیکھا تو فرمایا: ’’اے عمر! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کیا کرو۔‘‘ اس کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ (ابن ماجہ‘ الطہارہ: ۳۰۸)
لیکن یہ روایت عبدالکریم بن ابی المخارق نامی راوی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذیa نے اس کی صراحت کی ہے۔ (جامع ترمذی‘ الطہارہ: ۱۲)
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانیa نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۹۳۱)
لیکن امام بخاریa نے اس عمل کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’کھڑے ہو کر اور بیٹھے ہوئے پیشاب کرنا۔‘‘ (بخاری‘ الوضوء‘ باب نمبر ۶۰)
امام بخاریa نے اس عنوان سے خاص حالات وظروف کے پیش نظر کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سیدنا حذیفہt سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’رسول اللہe کا ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سے گذر ہوا تو وہاں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔‘‘ (بخاری‘ الوضوء: ۲۲۴)
یہ حدیث آپ نے اس وقت بیان کی جب آپ سیدنا ابوموسیٰt کے ایک عمل پر مطلع ہوئے کہ وہ اپنے تقویٰ وطہارت کی بناء پر پیشاب کرنے کے معاملہ میں بہت متشدد ہیں۔ وہ اپنے ساتھ شیشے کی ایک بوتل رکھتے تھے۔ وہ اس میں پیشاب کر کے اسے زمین پر بہاد یتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بنی اسرائیل میں اگر کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ متاثرہ کپڑے کو کاٹ دیتا تھا‘ اس وقت سیدنا حذیفہt نے فرمایا: کاش وہ ایسا تشدد نہ کرتے۔ پھر آپ t نے مذکورہ حدیث بیان کی۔ (بخاری‘ الوضوء: ۲۲۶)
بظاہر سیدنا حذیفہt سے مروی یہ حدیث‘ سیدہ عائشہr سے مروی حدیث کے معارض ہے۔ اس کے متعلق محدثین نے متعدد وضاحتیں کی ہیں‘ ہمارے رجحان کے مطابق بے تکلف بات یہ ہے کہ بیان جواز کے لیے رسول اللہe نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے‘ بلاشبہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں چنداں حرج نہیں بشرطیکہ اس کے چھینٹوں سے جسم یا کپڑے آلودہ ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ لیکن اس مقام پر ہم یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر ہسپتالوں‘ ریلوے اسٹیشن‘ پبلک مقامات‘ اسی طرح موٹروے کے دونوں جانب قیام وطعام کی جگہوں میں دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والوں کے لیے جو ڈبہ سا لگایا ہوتا ہے جہاں طہارت کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا‘ تنگ اور چست پینٹ پوش لوگوں کی سہولت کے لیے اس قسم کا اہتمام کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ ہاں اگر کوئی واقعی مجبوری ہو تو ایسے مقامات پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ پانی یا کم از کم ٹشو پیپر سے صفائی اور طہارت کا اہتمام ہو۔ واللہ اعلم!
مجبوری کے وقت حرام کھانا
O ہمارے ہاں عام محاورہ ہے کہ مجبوری کے وقت حرام کھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح حرام کھانے کی شرائط اور حدود وقیود کیا ہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کریں۔
P قرآن مجید میں ایک مقام پر چند حرام چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: ’’ہاں جو شخص بھوک میں لاچار ہو جائے بشرطیکہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (المائدہ: ۳)
اہل علم نے حرام مثلا مردار وغیرہ کھانے کے بارے میں دو چیزوں سے بحث کی ہے:
\          وہ کونسی مجبوری ہے‘ جس کے پیش نظر مردار کھانا حلال ہے‘ وہ یہ ہے کہ جب بھوک اس حد تک بڑھ جائے کہ انسان ہلاکت کے کنارے تک پہنچ جائے‘ اس میں حکمت یہ ہے کہ مردار میں زہر ہوتا ہے‘ اگر اسے شروع میں ہی کھا لیا جائے تو وہ زہر انسان کو ہلاک کر دے گا۔
\          مجبوری کی حالت میں کس قدر مردار کھانے کی اجازت ہے؟ اس کی حد یہ ہے کہ جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے‘ اس مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بسیار خوری اور لطف اندوزی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایسے اضطراری حالات میں حرام کھانا جائز ہے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)