درسِ قرآن
آیۃ الکرسی ایک عظیم آیت
ارشادِ باری ہے:
﴿اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ
وَّ لَا نَوْمٌ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ.... الخ﴾ (البقرة)
’’اللہ، وہ زندہ
وجاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ نہ
سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔‘‘
یہ آیت ’’آیت الکرسی‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ
تعالیٰ کی ذات وصفات کا ایسا تعارف پیش کیا گیا ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اسی
بنا پر حدیث نبوی میں اسے قرآن کریم کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیاہے۔ اس آیت میں
جن صفات الٰہی کا تذکرہ ہے ان میں سے ہر صفت کا ایک بنیادی اصول ہے جس پر اسلامی عقیدہ
کی بنیاد ہے اور اسی عقیدہ پر اسلام کا عادلانہ نظام قائم ہے۔
اس میں سب سے اہم عقیدۂ توحید اور اس کے اہم اصول ہیں جس کا قطعی، واضح اور خالص تصور پیش کیا گیا ہے۔
یہی تصور وہ اساس و بنیاد ہے جس پر اسلامی فکر قائم ہے اور جس سے پوری زندگی کے لیے
اسلام کا عملی نظام ماخوذ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جن سے عقیدۂ توحید کا وسیع ترین مفہوم سامنے آتا
ہے۔ اس عقیدہ کو تسلیم کرلینے سے لازم آتا ہے کہ آدمی اس بات کو بھی تسلیم کرےکہ
بندگی اور عبودیت صرف اللہ مالک الملک کےلیے
ہے اور اس کی عبادت اور بندگی کے سوا انسان کسی بندگی و عبادت کا پابند نہیں ہے اور
یہ بھی کہ اس پر صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ا طاعت لازم ہے اور جن اطاعتوں کا وہ
حکم دے وہ بھی اس پر لازم ہیں، اس کے علاوہ اس کے لیے کسی کی اطاعت روا اورجائز نہیں۔ اللہ جل جلاله ہی بندوں کا معبود
ہے او حاکمیت صرف اسی کے لیے ہے۔ بندوں کا قانون ساز بھی وہی ہے اور ساری قانون سازی
اسی کی نازل کردہ شریعت کی روشنی میں کرنا ضروری ہے۔ وہی انسانی اقدار، طریقے اور رسم
و رواج درست ہیں جو شریعت الٰہی سے ماخوذ ہوں۔ جو اقدار، طریقے یا رسم و رواج شریعت
الٰہی کے خلاف ہیں وہ کسی طرح بھی درست نہیں، ان سب کی نفی ضروری ہے۔
اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ان صفات
کو بھی ذہن میں لانا چاہیے جو اس میں بیان کی گئی ہیں اور ان صفات کے حوالے سے اپنے
ایمان وعمل کی اصلاح کرنی چاہیے اور شب وروز بکثرت اس آیت مبارکہ کی تلاوت کرنی چاہیے
کیونکہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
’’جو شخص صبح کے
وقت سورۂ حم المومن اليہ المصیر" تک اور آیت الکرسی پڑھے ان کی برکت سے شام
تک (ہر شر) محفوظ رہتا ہے۔ جو شام کے وقت ان دونوں کو پڑھے وہ ان کی برکت سے صبح تک
(ہر شے سے) محفوظ رہتا ہے۔‘‘
درسِ حدیث
اللہ اور بندوں کی محبت کا راز
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّﷺ رَجُلٌ، فَقَالَ:
يَا رَسُولَ اللَّهِ! دُلَّنِي عَلىٰ عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللّٰهُ
وَأَحَبَّنِي النَّاسُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا
يُحِبَّكَ اللّٰهُ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ".]
(ابن ماجہ)
سیدنا سہل بن سعدt سے
روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی‘ اللہ کے رسول! مجھے
کوئی ایسا عمل بتائیں جب میں اسے کروں تو اللہ بھی مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی مجھ
سے محبت کریں۔ تو آپe نے
فرمایا: ’’جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بے رغبت ہو جا تو اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور
جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بھی بے پرواہ ہو جا تو لوگ بھی تم سے محبت کریں گے۔‘‘
(ابن ماجہ)
دنیا میں ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ایک مقام ہو‘ لوگ
اس سے محبت بھی کریں اور اس کی بات بھی مانیں اسی طرح ایک دینی ذہن رکھنے والے انسان
کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اللہ اس سے محبت کرے۔ یہ مرتبہ اور مقام محنت کے بغیر حاصل
نہیں ہوتا اور اصول ہے کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔
صحابہ کرام] کو
دنیاوی مال و زر سے محبت نہیں تھی وہ تو ہر عمل اللہ کو خوش کرنے کے لئے ادا کرتے تھے
اور ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ کسی طرح اللہ اور اس کے رسول کو راضی کر لیں۔ ایسے
ہی سیدنا سہل بن سعدt کے
ذہن میں خیال آیا کہ میں کیوں نہ رسول اکرمe سے نسخہ پوچھ لوں جس کی بنا پر اللہ بھی مجھ سے محبت
کرے اور اللہ کی مخلوق بھی مجھ سے پیار کرے‘ تو آپe نے بڑا آسان نسخہ تجویز فرمایا کہ جو کچھ دنیا میں
ہے اس سے دل نہ لگائو بس بقدر ضرورت لے کر قناعت کرو اور اللہ کی عبادت کرتے رہو تو
اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا اور یہ بات عام ہے یعنی جو بھی دنیا کی رنگینیوں میں
کھو جانے کے بجائے اپنے مالک کی بندگی کرے گا۔ اللہ اس سے محبت کرے گا۔
اور دنیا والوں کی بندے کے ساتھ محبت کا راز یہ ہے کہ انسان
دنیا والوں پر بوجھ نہ بنے ان کو بلا ضرورت تنگ نہ کرے تو لوگ بھی اس سے محبت کریں
گے اس انداز کی زندگی گزارنے والے سے اللہ بھی محبت کرتا ہے اور دنیا والے بھی اس سے
محبت کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment