89 الیوم الوطنی السعودی
تاریخ بتلاتی ہے کہ ۲۳ ستمبر ۱۹۳۲ء کو مغفور الملک شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن
آل سعود نے نئی مملکت‘ المملکۃ العربیۃ السعودیہ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل
یہ ملک نجد وحجاز کے نام سے مختلف قبائل میں بٹا ہوا تھا۔ یہ مملکت عرب دنیا میں سب
سے بڑی مملکت ہے جس کا کل رقبہ ۰۰۰‘۷۰‘۸ مربع میل ہے۔ اس کی آبادی تقریبا دو کروڑ ہے۔
پچاس لاکھ سے زائد غیر ملکی افراد وہاں مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان میں زیادہ افراد برصغیر پاک وہند سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک دور تھا جب صحرائے عرب
میں حجاج کرام کے قافلے لٹ جایا کرتے تھے۔ قبائل اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل پر آپس میں
دست بگریباں رہتے تھے‘ یہاں تک کہ تلواریں میانوں سے نکل آیا کرتی تھیں۔ جب شاہ عبدالعزیز
آل سعود نے اس نئی مملکت کی بنیاد رکھی اور اس کی زمام اقتدار سنبھالی تو اس وقت انہیں
بہت سی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان کے عزم صمیم اور خلوص نیت کے پیش
نظر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال رہی اور انہوں نے اعلان کیا کہ ملک کا قانون اللہ
تعالیٰ کی کتاب‘ قرآن مجید اور رسول اللہe کی سنت مطہرہ ہے۔ اس پر انہوں نے کما حقہ عمل کر کے دکھلایا۔ پھر دنیا نے دیکھا
کہ جزیرہ نمائے عرب میں امن وسکون کا پرچم بلند ہوا اور اس کے بعد نہ کوئی قافلہ لوٹا
گیا اور نہ ہی قبائل نے آپس میں لڑائی جھگڑے کیے۔ یہ مملکت امن وسلامتی کا گہوارہ بن
گئی اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں سایہ فگن ہو گئیں۔ قافلوں کو لوٹنے والے ان کے محافظ
بن گئے۔ ملک عبدالعزیز آل سعود کی بفضل اللہ مساعی جمیلہ‘ قائدانہ صلاحیتوں‘ اولوالعزمی‘
تدبر اور اسلامی اقدار کی فرمانروائی کا کرشمہ تھا کہ مملکت سعودی عرب اپنی موجودہ
شکل میں تشکیل پذیر ہوئی۔ جس نے توحید خالص کا پرچم تھام رکھا ہے اور قبر پرستی کی
تمام بدعتیں دم توڑ کر رہ گئی ہیں۔
جس وقت شاہ عبدالعزیز آل سعود نے مملکت کا انتظام سنبھالا تو مولانا ابوالکلام
آزادؒ نے کہا تھا کہ ’’اب شریف حسین کے فتنہ سے یہ سرزمین مقدس پاک ہو گئی ہے اور اس
طرح وہ عظیم الشان اسلامی ریاست مکمل ہو گئی ہے جس کا شرف قدرت الٰہی نے امام عبدالعزیز
آل سعود کے نام لکھ دیا تھا۔ اب نہ صرف حجاز بلکہ جزیرۃ العرب کے لیے بالکل نئی صورتحال
پیدا ہو گئی ہے‘ جزیرۃ العرب کا سب سے بڑا انسان‘ ہمارے سامنے نمودار ہو گیا ہے اور
ایک عظیم مستقبل اس کے عقب میں ہے۔ اب صدیوں کے بعد مسلمانان عالم کو موقع ملا ہے کہ
سرزمین حجاز کی تجدید واصلاح کے خواب کی تعبیر ڈھونڈیں۔‘‘
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک عبدالعزیز آل سعود کے جملہ نامور صاحبزادوں
نے اپنے ادوار میں مملکت سعودی عرب کو انہی خطوط پر نہ صرف گامزن رکھا بلکہ اسے نئی
رفعتوں سے ہمکنار کر دیا ہے۔ ملک کو سیاسی‘ عسکری‘ تعلیمی‘ اقتصادی‘ معاشرتی سمیت زندگی
کے تمام پہلوؤں میں اپنی تہذیبی وترقیاتی پیش رفت امن وامان اور سیاسی استحکام کی
فضا جاری رکھی ہے۔ اقتصادی ذرائع ووسائل کو مزید تہذیبی ترقی کے لیے اور اپنے دین پر
عمل پیرا ہونے والے مسلمان ہم وطنوں کے معیار کو بلند کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور
معاشرے کے افراد کے درمیان اخوت وتعاون کے رابطوں کو پروان چڑھایا ہے۔ نیز خیر وبھلائی
کی سہولتوں کو وسعت دی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی اور انسانی مسائل کی حمایت کی ہے۔ سعودی
عرب نے مسلمانوں کے مسائل کی نہ صرف حمایت کی بلکہ کھلے دل سے مدد کی ہے۔ پھر انسانیت
کی ترقی کے پروگراموں اور اسلامی وبین الاقوامی تنظیموں کو امداد فراہم کرنے میں بہت
سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت اسلام ومسلمانوں اور دعوت توحید
اور مقدس مقامات مکہ مکرمہ‘ مدینہ منورہ اور حرمین شریفین کی توسیع وتزئین کے ساتھ
ساتھ حجاج ومعتمرین کے لیے بے پناہ سہولتیں میسر کی ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت کی داخلی سیاست اور طرز حکومت اسلامی ضابطوں کے تابع ہے۔ اس
کا نظام شورائی ہے۔ حاکم وقت‘ ارباب حل وعقد اورعلماء ومشائخ سے رائے اور مشورہ طلب
کرتا ہے۔ بعد ازاں سرکاری حکم جاری کیا جاتا ہے۔ آل سعود میں جتنے بھی حکمران آئے ان
سب کی سعئ مشترکہ‘ اسلامی اقدار کی فرمانروائی‘ فلاحی مملکت کا قیام اور امن وامان
میں استحکام ہے جس کے نتیجہ میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عدالتوں میں مقدمات کی
کوئی بھر مار نہیں۔ یہ سب چیزیں عظیم قربانیوں‘ طویل جد وجہد اور اسلام کی فرمانروائی
کا ماحصل ہیں۔ ملک میں تعلیم کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے مدارس ویونیورسٹیوں
کا قیام عمل میں آ رہا ہے جس کے نتیجہ میں دینی تعلیم بھی عام ہے۔ عصری تعلیم کے مواقع
موجود ہیں۔ حقیقی بات یہ ہے کہ حکومت نے علمی‘ فکری‘ تحقیقی اور ثقافتی میدان میں ترقی
کی بہت سی منزلیں طے کی ہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کا یہ بڑا کارنامہ ہے
کہ انہوں نے ۳۴ اسلامی ممالک کا عسکری اتحاد قائم کیا ہے جس کے
سربراہ پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جناب جنرل راحیل شریف ہیں۔
یہ سعودی عرب کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ شریعت مطہرہ کے مطابق احکامات نافذ کرنے کی
وجہ سے دنیا میں ایک مثالی مملکت تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا عقیدہ اور عمل یکساں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسے قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اس نے بھی دنیا بھر کے نادار
ومجبور مسلمانوں کے لیے تعاون وامداد میں کبھی دریغ نہیں کیا۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان
کے خوشی اور رنج والم میں ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب‘ پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو امریکہ اور یورپ نے پاکستان پر نہ
صرف پابندیاں عائد کر دیں بلکہ امداد بھی بند کر دی۔ اس پر سعودی عرب ہی تھا جس نے
پانچ سال تک تیل مفت فراہم کیا۔ پاکستان سے دیرینہ تعلقات کی بنیاد شاہ فیصل شہید نے
رکھی۔ شاہ عبدالعزیز آل سعود بھی پاکستان سے اچھے روابط رکھتے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ
سعودی عرب نے سرکاری سطح پر ہمیشہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔
۱۹۷۱ء میں پاکستان نے تو بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا
مگر شاہ فیصل مرحوم نے تسلیم نہ کیا۔ اسی طرح سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی
تعاون کا معاہدہ ہوا تو سعودی عرب نے پاکستان کو بری‘ بحری اور فضائی تربیت کا کام
سونپ دیا۔
۱۹۷۳ء میںسیلاب اور ۱۹۷۵ء میں سوات میں زلزلہ اور بعد ازاں آزاد کشمیر
میں زلزلہ سے جو تباہی ونقصان ہوا اس پر سعودی عرب نے جس قدر تعاون کیا اس کا یہ احسان‘
پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ اس وقت سعودی سفیر نے جس طرح سیلاب زدہ علاقوں
میں جا کر جیسے کام کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہم ان خدمات جلیلہ پر اپنے برادر ملک
اور محافظ اسلام خادم حرمین شریفین اور ارکان حکومت کے شکر گزار ہیں اور (یوم تأسیس)
یوم الوطنی کے حوالہ سے دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں
کہ اللہ تعالیٰ سعودی عرب کو اندرونی وبیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے اور اسے اسی طرح
عالم اسلام اور حرمین شریفین کی خدمت کرنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment