خبر متواتر
(دوسری قسط) تحریر: جناب پروفیسر حافظ محمد شریف شاکر
خبرِ متواتر کی اقسام
متواتر کی دوقسمیں ہیں: Ý متواتر لفظی Þ متواتر معنوی
Ý متواتر لفظی:
یہ ایسی خبر ہے جس کے رواۃ کے الفاظ میں موافقت پائی جائے۔ مثلاً:
رواۃ کہیں کہ فلاں نے فلاں شہر فتح کرلیا۔ یہ خبر ان الفاظ کے ساتھ ہو یا اس کے قائم
مقام دیگر الفاظ کے ساتھ ہو جو معنی مقصود پر صریح دلا لت کرتے ہوں۔
Þ متواتر معنوی:
یہ ایسی خبر ہے جس میں معنوی تواتر پایا جاتا ہو۔(القاسمی، محمد
جمال الدین، السید، الدمشقی: قواعدالتحدیث من فنون مصطلح الحدیث: دارالکتب العلمیۃ،
بیروت: ۱۹۷۹ء/ ۱۳۹۹ھ ص: ۱۴۶؛ الکتانی: نظم المتناثر من الحدیث المتواتر: ص: ۱۱۳-۱۱۴؛ السیوطی: تدریب الراوی: ص: ۲/۱۸۰)
یعنی اس کے تمام راویوں کے روایت کردہ الفاظ آپس میں نہ ملتے
ہوں ، بلکہ تمام رواۃ کی مرویات کا صرف معنی و مفہوم آپس میں مطابقت رکھتا ہو۔
مثالیں: اس کی بہت سی مثالیں ہیں: ’’متواتر لفظی‘‘ کے تحت مذکورہ’’حدیث مسح علی الخفین‘‘
اور ’’حدیث رفع الیدین‘‘ کی مثالیں دراصل متواتر معنوی کی مثالیں بنتی ہیں۔ تواتر معنوی
کی ایک مثال دعامیں ہاتھ اٹھا نا ہے۔
1 جما ل الدین
قاسمی (م ۱۳۳۲ھ)لکھتے ہیں:
[فمنه احادیث رفع
الیدین فی الدعاء فقد روی عنه ﷺ نحو مئة حدیث فیه رفع یدیه فی الدعاء، لكنھا فی قضایا
مختلفة، فكل قضیة منھا لم تتواتر، والقدر المشترك فیھا، وھو الرفع عند الدعاء تواتر
باعتبار المجموع۔] (الكتانی: نظم المتناثر: ص: ۱۱۳-۱۱۴)
’’یعنی متواتر معنوی
کی کئی مثالیں ہیں:اس کی ایک مثال دعا میں ہاتھ اٹھا نا ہے، نبی کریم e سے
اس بارے میں تقریباً ایک سو احادیث روایت کی گئی ہیںجن میں دعا میں ہاتھ اٹھانے کاذکر
موجود ہے، لیکن یہ مختلف معمولات سے متعلق ہیں اور ہر واقعہ میں ہاتھ اٹھانا تواتر
سے ثابت نہیں ، البتہ تمام معمولات میںجو قدر مشترک ہے وہ دعا میں ہاتھ اٹھا نا ہے۔‘‘
2 امام نوویa (م۶۷۶ھ)لکھتے ہیں:
[قد ثبت رفع یدیهﷺ
للدعاء فی مواطن غیر الاستسقاء وھی اكثر من ان تحصر وقد جمعت منھا نحوامن ثلا ثین حدیثاً
من الصحیحین اواحداھما و ذكرتھا فی اواخر
باب صفة الصلاة
من شرح المھذب۔] (النووی، یحییٰ بن
شرف، محی الدین ابوزكریا: شرح صحیح مسلم ذیل صحیح مسلم: مكتبه رشیدیه، دهلی: ص:
۱/۲۹۳)
’’رسول اللہ e کا
استسقاء کے علاوہ بے شمار مقامات میںدعا ء کے لیے دونوں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، میں نے
اس بارے میں تقریباً تیس احادیث بخاری و مسلم یا ان میں سے کسی ایک سے جمع کی ہیں جنہیں
میں نے ’’شرح المھذب ‘‘ کے باب صفۃ الصلاۃ کے آخر میں ذکر کیا ہے۔‘‘
3 شاہ محمد اسماعیل
شہید (شاہ اسماعیل شہید: شاہ اسماعیل شہید وہلوی بن مولانا شاہ عبدالغنی بن حکیم الامت
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،۱۲ربیع الثانی ۱۱۹۳ھ / ۱۲، اپریل ۱۷۷۹ء کو قصبہ پھلت
ضلع مظفر نگر(اتر پردیش) میں پیداہوئے ،دس سال کے تھے کہ والد شاہ عبدالغنی کا (۱۲۰۳ھ/۱۷۸۹) میں انتقال ہو گیا۔ آپ نے ۶ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید
حفظ کیا۔ والد کی وفات کے بعد شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالعزیز سے علوم اسلامیہ کی
تحصیل مکمل کی۔ [عبدالرشید عراقی: مولانا اسماعیل شہید دہلویa، الاعتصام۔ ہفت روزہ۔ ج:۵۶ شمارہ: ۱۵،ص:۱۹]) حفید شاہ ولی اللہ سنت متواتر ہ کی یوں تقسیم کرتے ہیں:
[السنة متواترة
وغیر متواترة، والمتواترة اما متواترة بالتعامل كاكثر اصول العبادات والمعاملات
والاخلاق او متواترة بالروایة اما بالمعنی فقط وھی كثیرة او باللفظ ایضا وھی قلیلة جداً۔]
(شاه اسماعیل شهید دهلوی: مختصر اصول الفقه: اداره اشاعة السنة، لاهور، ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء،
ص: ۷۹)
’’سنت کی دوقسمیں:
متواترہ اور غیر متواترہ (آحاد) ہیں اور سنت متواترہ یا تو تعامل سے ثابت ہوگی، جیسے:
اکثر عبادات، معاملات اور اخلاقیات ہیں، یا سنت متواترہ روایۃً ثابت ہوگی یا صرف معنی
یا لفظاً ثابت ہوگی اور یہ بہت ہی کم ہے۔‘‘
4 مولانا انور
شاہ کشمیری (م۱۳۵۲ھ)نے متواتر کی چار اقسام بتائی ہیں:
Ý تواتر الاسناد Þ تواتر الطبقۃ
ß تواتر العمل
والتوارث à تواترالقدر المشترک
چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ Ý تواتر کبھی اسناد کی حیثیت سے ہوتا ہے اور یہ معروف
ہے جیسے حدیث [من كذ ب علی متعمدا
فلیتبوأ مقعده من النار] Þ کبھی
طبقہ کی حیثیت سے ہوتا ہے جیسے تواتر قرآن ، یہ شرق تاغرب روئے زمین پر درس و تلاوت
اور حفظ و قراء ت کے لحاظ سے متواتر چلا آرہا ہے ، جسے ایک زمانے کے لوگ دوسرے زمانے
کے لوگوں سے حاصل کررہے ہیں۔ یہ معین سند عن فلان عن فلان کا محتاج نہیں۔ ß کبھی
تواتر عمل و توارث ہوتاہے یعنی صاحب شریعت کے زمانے سے ہمارے اس دن تک کسی چیز پر تواتر
کے ساتھ عمل چلاآرہا ہوتا ہے جیسے مسواک۔ à اور چوتھا ’’تواتر قدر مشترک‘‘ جیسے تواتر ِ معجزات
ہے، ان میں سے ہر ایک اگرچہ آحاد کے درجہ میںہے،
لیکن قدر مشترک قطعی متواتر ہے، جیسے حاتم طائی کی سخاوت ہے ، اگرچہ اس کی خبریں آحاد
ہیں، مگر اس کی سخاوت تواتر کے ساتھ معلوم ہے۔ (محمدانور شاہ کاشمیری: فیض الباری علی
صحیح البخاری: مجلس علمی ڈاھبیل، سورت، ہند، ۱۳۵۷ھ/۱۹۳۸ء، ص: ۱/۷۰)
5 علامہ حافظ
محمد گوندلوی(گوندلوی:حافظ محمد گوندلویa، ۶رمضان ۱۳۱۵ھ بمطابق۱۸۹۷ء بروز جمعرات بوقت سحر تولد ہوئے۔ آپ ۹ برس کے تھے کہ آ پ کے والد (میاں فضل دین) عین عالم عنفوان شباب
میں مرض طاعون میں مبتلا ہو کر وفات پاگئے۔ وقت وفات ان کی عمر ۳۵ برس تھی۔ حافظ صاحب
اس وقت تک پندرہ پارے حفظ کرچکے تھے۔ باقی ماندہ پارے قلیل عرصہ میں حفظ کرلیے۔ بعد
ازاں مولانا علاء الدینa سے
ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ پھر آپ کو امام عبداللہ غزنویa کے پاس مدرسہ غزنویہ ’’تقویۃ الاسلام‘‘ امرتسر پہنچایا
گیا۔ آپ ایک ایک دن میں اٹھارہ اٹھا رہ بیس بیس سبق پڑھتے رہے، آپ نے اسی مدرسہ میں
تعلیم مکمل کی اور اسی سال استا د پنجاب حافظ عبدالمنان محدثa وزیرآبادی
کے پاس حاضر ہوئے اورآپ سے سند واجازت حدیث حاصل کی۔
آپ کے
اساتذہ: Ý مولانا
علاء الدینa شاگرد
رشید مولانا غلام رسولa (قلعہ میاں سنگھ)
Þ فخر
المحدثین ولی کامل حضرت امام عبدالجبار غزنویa ß حضرت
مولانا عبدالاول غزنویa à حضرت مولانا عبدالغفور غزنویa á جامع
المعقول والمنقول حضرت مولانا محمد حسین ہزارویa âاستاد الفنون حضرت مولانا عبدالرزاقa ã عارف
باللہ محدث پنجاب حضرت مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادیa۔ آپ ۱۹۶۴ء میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازa کی دعوت پر دیارِ رسولe حاضر ہوئے اور دوسال تک مدینہ یونیورسٹی میں شیخ الحدیث
کے منصب جلیل پر فائز رہے۔ ۱۹۲۷ء سے پہلے دارالحدیث
رحمانیہ دہلی میں پڑھا تے رہے۔ ان دنوں مشہور شارح مشکوۃ المصابیح مولانا عبیداللہ
رحمانیa، ماہر منقول ومعقول
مولانا نذیر احمد رحمانی اعظمیa اور
عبدالوکیل الخطیبa کو
آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا۔ چک نمر ۴۹۳گ ب اوڈانوالہ کے جامعہ تعلیم الاسلام میں امیر المجاہدین صوفی محمد عبداللہa کے
پاس دو سال پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد گوجرانوالہ درس اعظم میں ۱۹۵۰ء تک کتب حدیث و عقائد پڑھاتے رہے۔ یہ علم و عرفان کا سورج ۴ جون ۱۹۸۵ء سہ پہر تین بجے
بمطابق ۱۴ رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ کو نوے سال کی عمر میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کی
عربی اور اردو تالیفات کی تعداد بائیس تک پہنچتی ہے۔ اہم کتب یہ ہیں: عربی کتب: 1 تقاریر
صحیح بخاری 2 بغیۃ
الفحول 3 تحفۃ
الاخوان 4مسئلہ ایمان 5 شرح
مشکوۃ المصابیح 6 زبدۃ
البیان۔
اردو
میں لکھی گئی کتب: 1 خیرالکلام
فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام 2 التحقیق
الراسخ 3 ایثار
التوحید فی ابطال التثلیث وغیرہ۔ [منیر احمد سلفی: درس بخاری: اسلامک پبلشنگ ہائوس،
لاہور، ۱۴۱۳ھ/۱۹۹۲ء، ص: ۹-۲۷]
سنت متواترہ
کے بارے میں لکھتے ہیں کہ متواتر کی دوقسمیں ہیں: ایک قسم تو وہ ہے جو لوگوں کے تعامل سے ثابت ہوئی ہو ، یعنی اس سنت پر عمل کرنے
والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا تصور نہ کیا جاسکے خواہ یہ
واجب ہویا سنت، جیسے پانچوں نمازیں، صدقۃ الفطر، سننِ رواتب،
نمازوں کے اجزاء: قیام ، رکوع و سجود اورقیام میں قرآن کی قراء ت، ظہر ، عصر
اور عشاء کے فرائض چار چار رکعتیں، مغرب کے تین اور صبح کے دو فرض ہونا۔ اذان اقامت
وغیرہ کا اصولِ عبادات میں سے ہوناہے۔ روزہ، زکوٰۃ، حج اور مسائل بیوع جیسے اصولِ معاملات
جن کے احکام پر امت مجتمع ہے، ان میں سے اکثر تعامل کے ذریعہ متواتر ہیں، اسی طرح نکاح
و مخاصمت کے مجمع علیہا مسائل اور اسی طرح حلم، صبر و توکل اور غصب وشر جیسے اصولِ
اخلاق ان کے احکام تعامل کے ذریعہ متواتر ہیں۔ یعنی ہرزمانہ میں امت کا تعامل ان کاشعور
دلاتا ہے۔ (حافظ محمد محدث گوندلوی: بغیۃ الفحول فی شرح مختصر الاصول: ادارہ اشاعۃ
السنۃ، لاہور: ۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸ء: ص: ۷۹-۸۰)
علامہ جمال الدین قاسمی (م۱۳۳۲ھ) نے متواتر لفظی کی چار مثالیں ذکر کی ہیں:
’’[۱] من کذب علی متعمدا … جسے دو سو صحابہ] نے روایت کیا۔
[۲] حدیث حوض جسے تقریباً ستر صحابہ] نے روایت کیا۔
[۳] موزوں پر مسح کی حدیث جسے تقریباً ستر صحابہ] نے
روایت کیا۔
[۴]نماز میں رفع یدین کی حدیث، جسے تقریباًپچاس صحابہ] نے
روایت کیا ہے۔‘‘(القاسمی:قواعدالتحدیث :ص: ۱۴۶)
لیکن یہ سب متواتر لفظی کی مثالیں نہیں بلکہ ان میں سے بعض صرف
متواتر معنوی ثابت ہوئی ہیں۔
[من كذب علی متعمدا]
… (الخ)
زبیدی(م۱۲۰۵ھ) نے اس کے صحابہ] رواۃ
کی تعداد ننانوے ذکر کی ہے (الزبیدی، محمد مرتضیٰ، السید: لقط اللالی المتناثرۃ فی
الاحادیث المتواترۃ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا): دارالکتب العلمی، بیروت: ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء: ص۲۶۳) اور لکھا ہے کہ
ابوبکر الصیرفی نے ’’شرح الرسالۃ‘‘ میں کہاہے کہ اسے ستر سے زائد صحابہ نے روایت کیا
، اور ابن دحیہ نے کہا کہ یہ حدیث تقریباً نوے صحابہؓ سے روایت کی گئی ہے۔ تقریبا چار
سو طرق کے ساتھ تخریج کی گئی ہے اور ابن جوزی نے کہا ہے کہ اٹھانوے صحابہ نے اسے روایت
کیا ، اور نووی نے شرح مسلم (۱/۸) میں نقل کیا کہ
بعض نے کہا کہ اسے دو سوصحابہ نے روایت کیا ہے۔ (الزبیدی :لقط اللالی المتناثرۃ (تحقیق
محمد عبدالقادر عطا): ص۲۶۱)
کتب ِاحا دیث ِ متواترہ:
Ý الازھار المتناثرة
فی الاخبار المتواترة
اس کتاب کے مصنف امام جلال الدین السیوطی ہیں ۔آپ لکھتے ہیں
:
[قدالفت فی ھذا النوع
كتابا لم اسبق الی مثله سمیته الازھار المتناثرة فی الاخبار المتواترة مرتبا علی الابواب ، اوردت فیه كل حدیث باسانید
من خرجه وطرقهٖ ، ثم لخصته فی جزء لطیف سمیتُه قطف الازھار۔] (السیوطی، عبدالرحمن بن
ابی بكر جلال الدین: تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی: دارالفكر، بیروت: ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ء،
ص: ۲/۱۷۹)
’’میں نے اس نوع
کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی کہ اس جیسی کتاب مجھ سے پہلے کسی نے نہیں لکھی ۔ میں
نے اس کا نام ’’الازھار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترۃ‘‘ رکھا ہے جسے باب بندی کے
طریق پر مرتب کیا گیاہے ۔میں نے اس میں ہر حدیث اس کے مخر ج امام کی اسناد کے ساتھ
درج کی ہے، پھر میں نے ایک جزو ِ لطیف میں اسے ملخص کردیا جس کا نام میں نے’’ قطف الازھار‘‘
رکھا ہے ۔‘‘
ابو الفیض جعفر الکتانی لکھتے ہیں کہ ’’سیوطی نے ’’الفوائد المتکاثرۃ‘‘کے
مقاصد علیحدہ طور پر ’’الازھار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترۃ‘‘ میں ذکر کیے ہیں
۔ آپ نے اس میں صرف حدیث، اس کے صحابہ کی تعداد اور مشہور ائمہ حدیث کی طرف اس کی تخریج
کی نسبت ذکر کی ہے۔‘‘ (الکتانی:نظم المتناثر:ص: ۴)
امام سیوطی سے اپنی کتاب ’’الازھار المتناثرۃ‘‘ کے بارے میں
یہ عبارت لکھتے ہوئے سہو ہوگیا ، کیونکہ سیوطی کی اس موضوع پر پہلی کتاب ’’الازھار
المتناثرۃ‘‘ نہیں ،بلکہ ’’الفوائد المتکاثرۃ ‘‘ ہے جیسا کہ الکتانی کے مندرجہ بالا
بیان سے عیاں ہوتاہے ۔
سیوطی کے اس سہو کی نشاندہی علامہ احمد محمد شاکر(علامہ احمد
محمد شاکرکا نسب حسین بن علی بن ابی طالبw تک پہنچتا ہے۔ آپ ۲۹جمادی الاخری ۱۳۰۹ھ کو جمعہ کے دن نماز فجر کے بعد القاہرہ میں پیدا ہوئے۔ وفات:
آپ کے شاگرد اور دوست محمود محمد شاکر کے مطابق آپ ۲۶ ذو القعدہ بروز
ہفتہ ۱۳۷۷ھ کو فوت ہوئے۔ تالیفات: آپ کی تالیفات ۵۰ تک پہنچتی ہیں آ
پ نے بہت سی کتب پر تعلیقات اور حواشی لکھے جن میں الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم،
المحلی لابن حزم، اورعمدۃ التفسیر، اختصار تفسیر ابن کثیر وغیرہ شامل ہیں۔ [احمد محمد
شاکر: الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث (تحقیق وتتمیم: علی بن حسن الاثری): مکتبہ
المعارف للنشر والتوزیع: ۱۴۱۷ھ ۱۹۹۶ء: مع تعلیق محدث ناصر البانی: ص: ۲۷ تا ۳۶]) مصری نے کی ہے، آپ لکھتے ہیںکہ حافظ سیوطی نے اپنے متعلق نقل کرنے میں عجیب خطا
کی ہے کیونکہ آپ نے اخبار متواترہ سے متعلق اپنی پہلی کتاب کا نام ’’الازھارالمتناثرۃ‘‘
بتایا اور جو اس کا اختصار لکھا اس کا نام ’’ قطف الازھار ‘‘ بتایا ہے ، حالانکہ ایسا
درست نہیں، بلکہ سیوطی کی پہلی کتاب کا نام ’’الفوائد المتکاثرۃ ‘‘ ہے، پھر آپ نے ایک
اور کتاب میں اس کا اختصار لکھا جس کا نام آپ نے ’’ا لازہارالمتناثرۃ‘‘ رکھا ، اوریہ
’’الازھار المتناثرۃ‘‘ ’’دارالکتب المصریۃ ‘‘ میں موجود ہے ۔ یہ کتاب مختصر ہے ، اس
میں اسانید نہیں ہیں ۔ سیوطی نے خوداس کے مقدمہ میں صراحت کی ہے کہ آپ نے ’’ الفوائد
المتکاثرۃ‘‘ کتاب اسانید کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے تالیف کی ہے۔ پھر اس کتاب کو ’’الازھار‘‘
میں مختصر کردیا، صاحب ’’کشف الظنون‘‘ نے بھی ان دونوں کتابوں کا ایسے ہی تذکرہ کیا
ہے۔ (احمد محمد شاکر: شرح الفیۃ السیوطی فی علم الحدیث: دارالمعرفۃ، بیروت: سن ندارد،
ص: ۴۹)
مندرجہ بالا
بیان سے واضح ہوا کہ سیوطی کی کتاب ’’قطف الازہار‘‘’’ الازہار المتناثرۃ‘‘ کا اختصار
نہیں بلکہ یہ الگ کتاب ہے جسے صاحب کشف الظنون نے’’قطف الازہار فی کشف الاسرار ‘‘ کے
نام سے ذکر کیا ہے ، اور یہ کتاب قرآن کریم کے اسر ار و رموز کے بارے میں ہے اور ایک
ضخیم جلد ہے جس میں آغاز ِ قرآن سے اختتام سورۃ بر اۃ (سورۃ توبہ ) تک کے اسر ار التنزیل
کا تذکرہ ہے۔ (نفس المرجع؛ حاجی خلیفہ:کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون: مکتبۃ المثنی،
بغداد، ص: ۲/۱۳۵۲)
ابو الفیض جعفر الکتانی کا ’’الازہار المتناثرۃ‘‘ کے تذکر ہ
میں( جیساکہ اوپر ذکرہوا) ’’وعدۃ من رواہ من الصحابۃ‘‘ (المرجع السابق :ص: ۴) (اور اس کے صحابہ رواۃ کی تعداد) کے الفاظ لکھنا درست نہیں۔ کیونکہ علامہ احمد محمد
شاکر نے دارالکتب المصریہ کے نسخہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں اسانید کا تذکرہ نہیں۔
(احمد محمد شاکر :شرح الفیۃ السیوطی:ص: ۴۹)
’’الازہار المتناثرۃ‘‘کا جو نسخہ میرے زیرِ مطالعہ ہے اس میں سند تو
کیا کسی صحابی کا بھی تذکرہ‘ یہ نسخہ ۱۳۸۰ھ کا مطبوع ہے،
جو اس کا طبعہ ثانیہ ہے اور عبدالغفارسلفی بن عبدالستار بن عبدالوہاب الدہلوی کے زیر
اہتمام برنس روڈ کراچی سے شائع ہوا ہے ۔یہ صرف بارہ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں مندرجہ
ذیل کتب کے عنوانات: کتاب العلم، کتاب الایمان، کتاب الطھارۃ، (کتاب الصلوٰۃ، کا عنوان
مفقود ہیں لیکن کسی قاری نے خود کتاب الصلوٰۃ کا عنوان اپنے ہاتھ سے متعلقہ احادیث
کے آغاز میں لکھ دیا ہے۔) کتاب الجنائز، کتاب الاحکام، کتاب المناقب، کتاب البعث درج
ہیں ۔ کل احادیث ۱۱۲ ہیں ، پہلی من کذب
علی متعمدا … الخ ہے اور آخری حدیث اس طرح مرقوم ہے : ’’حدیث: بعثت انا والساعۃ کھاتین
اخرجہ الشیخان۔‘‘ اور اس کے بعد ’’الحمد للہ ‘‘ پر کتاب ختم ہوئی ہے۔اس کتاب کے شروع
میں مصنف کی طر ف سے صرف چار سطور پر مشتمل ایک خطبہ ہے اور اس میںوہ چیز نہیں جس کا
ذکر علامہ احمد محمد شاکر نے اس کتاب کے مقدمہ کے حوالے سے کیا ہے۔
Þ الفوائد المتكاثرة
فی الاخبار المتواترة:
اس کتاب کا تذکرہ امام سیوطی نے اپنی کتاب ’’الازہار المتناثرۃ‘‘
کے خطبہ میں کیا ہے کہ آپ نے اس میں ہر ایسی حدیث درج کی ہے جسے کم از کم دس صحابہ
نے روایت کیا ہے۔ (السیوطی: تدریب الراوی، ص: ۲/۱۷۹ [حاشیہ:۱])
سیوطی کے اس بیان سے واضح ہوا کہ آپ نے یہ کتاب ’’الازھار المتناثرۃ
‘‘ سے پہلے تالیف کی ہے۔
ابوالفیض الکتانی، ’’الفوائد المتکاثرۃ فی الاخبار المتواترۃ‘‘
کے بارے میں لکھتے ہیںکہ سیوطی نے یہ کتاب ابواب کی ترتیب سے تالیف کی ہے اور اس میں
وہ تمام احادیث جمع کردی ہیں جنہیں کم از کم دس صحابہ نے روایت کیاہے ، اورآپ نے اس
میں تمام احادیث کی اسناد دو طرق اور الفاظ کو بالا ستیعاب ذکر کیا ہے ۔ آپ نے یہ مواد
سے لبریز کتاب پیش کی ہے ۔سیوطی کے قول کے مطا بق اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔
(الکتانی: نظم المتناثر:ص: ۴)
ß قطف الازهار
یہ بھی سیوطی کی تالیف ہے اور ’’الازہار المتناثرۃ‘‘ کاملخص
ہے ۔سیوطی لکھتے ہیں:
[لخصته فی جزء لطیف
سمیته قطف الازهار، اقتصرتُ فیه علی عز وكل
طریق لمن اخرجھا من الائمة واوردتُ فیه احادیث كثیرة۔](الكتانی: نظم المتناثر، ص:۱۷۹)
’’میں نے اس (الازھار
المتناثرۃ ) کو ایک لطیف جز ء میں ملخص کیا ، جس کا نام میں نے ’’قطف الازہار‘‘ رکھا
ہے ۔ اور میں نے اس کے ہر طریق کو اس کے مخرج امام کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسے مختصر
کیا اور اس میں بہت سی احادیث درج کی ہیں۔‘‘
امام سیوطی کی یہ بات درست نہیں، کیونکہ ’’قطف الازھار‘‘ ،
’’الازھار المتناثرۃ‘‘ کا نہیں ، بلکہ ’’الفوائد المتکاثرۃ‘‘ کا ملخص ہے۔(جیسا کہ پہلے
ذکر ہوا) تواتر کے موضوع پر کام کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے زبیدی لکھتے ہیںکہ اس
موضوع پر بہت سے حفاظ نے تالیفات کی ہیں: 1بدرالدین الزرکشی 2 شمس الدین محمد عبدالدائم
البرماوی 3 جلال الدین ابوالفضل السیوطی 4 شمس الدین محمدبن محمد بن طولون الحنفی الصالحی
، ان کے علاوہ دیگر نے بھی اس پر کام کیاہے۔ (الزبیدی: لقط اللالی المتناثرۃ:ص: ۱۵)
à اللآلی المتناثرة
فی الاحادیث المتواترة:
یہ کتاب شمس الدین ابن طولون ابو عبداللہ محمد بن محمدبن علی
کی تالیف ہے ۔الکتانی کتب احادیث متواترہ کے تحت اس کا یوں تذکرہ کرتے ہیںکہ مصنفین
کتب متواترہ میں سے شیخ امام حافظ خاتمہء مسندین بہت سی کتب کے مؤلف شمس الدین ابو
عبداللہ محمد بن محمد بن علی بن طولون حنفی دمشقی صالحی متوفی ۹۵۳ھ ہیں۔ آپ نے اس کتاب کا نام ’’اللآلی المتناثرۃ فی الاحادیث المتواترۃ‘‘ رکھا
ہے۔ (الکتانی، نظم المتناثر، ص: ۴)
á نظم المتناثرمن
الحدیث المتواتر:
یہ ا بو الفیض جعفرحسنی ادریسی کتانی کی تالیف ہے آپ نے اس کی
تالیف کا آغاز امام سیوطی کی کتاب ’’الازہارالمتناثرۃ ‘‘ سے باخبر ہونے سے پہلے کیا
لیکن اس کے دستیاب ہونے کے بعد اسے اپنی کتاب میں سمودیااور کچھ اضافہ بھی کیا۔ (الکتانی
:نظم المتناثر:ص: ۴)
طریقہ تالیف : آپ اس کے طریقہ تالیف کا یوں تذکرہ کرتے ہیں
:
[وقد نھضت قبل ھذا الاوان لجمع ما وقفت علیه منھا فی بطون الدفا ترو
مقیدات الاخوان حتی جمعت منھا جملة وافرة وعدة جلیلة
متكاثرة ولما خفت علیھا من الدروس والضیاع جمعتھا فی مقید للانتفاع وسمیته بنظم المتناثر
من الحدیث المتواتر۔](نفس المرجع، ص: ۳-۴)
’’میں اس وقت (وقت
تالیف) سے پہلے ان احادیث متواترہ کو جمع کرنے کے لیے تیار ہوا جن کو میں بھائیوں کے
مجموعات ودفاتر میں سے تلاش کرکے واقف ہوچکا تھا یہاں تک کہ میں نے ایک عمدہ وافر مقدار
جمع کرلی ، پھر جب مجھے اس مجموعہ کے ضائع ہونے کا خوف پیداہوا تو میں نے اسے نفع عام
کے لیے ایک مجموعہ میں یکجا کردیا اور اس کا نام ’’نظم المتناثر من الحدیث المتواتر
‘‘ رکھا ۔‘‘
ابو الفیض جعفر کتانی نے اس کتاب میں ۳۱۰ احادیث جمع کی ہیں
اور تقریبا ساری کی ساری متواتر معنوی کا درجہ رکھتی ہیں ،سب سے پہلے انما الاعمال
بالنیات کا تذکرہ کیا ، یہ لفظاً متواتر نہیں بلکہ غریب حدیث ہے ۔آپ بحوالہ ’’الترغیب‘‘
للمنذری لکھتے ہیںکہ بعض متاخرین کا خیال ہے کہ یہ حدیث حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے،
حالانکہ ایسا نہیں ۔اس حدیث کو محمد بن ابراہیم تیمی سے روایت کرنے میں یحییٰ بن سعید
انصاری متفرد ہیں پھر یحییٰ بن سعید انصاری سے خلق کثیر نے روایت کیا ہے۔ (الکتانی،
نظم المتناثر، ص: ۱۷-۱۸) … لہٰذا یہ حدیث غریب ٹھہری نہ کہ متواتر لفظی۔
No comments:
Post a Comment