ماہِ صفر اور بدشگونیاں
تحریر: جناب نعیم الغفور
بد شگونی سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کوئی کام کرنے کا پختہ ارادہ
کر چکا ہو ،پھر کوئی چیز دیکھ کر یاکوئی بات سن کر وہ کام نہ کرے ۔جاہلیت کے زمانے
میں کوئی شخص جب کسی کام کے لئے گھر سے نکلتا تو وہ ایک پرندے کو اڑا کر دیکھتا ،اگر
وہ دائیں طرف اڑتا تو روانہ ہو جاتا۔اگر بائیں طرف اڑتا تو اس سے بد شگونی لیکر واپس
آجاتا۔ دین اسلام نے اس طرح کی بد شگونی سے منع کیاہے ،بلکہ بدشگونی لینے اور فال
نکالنے کو شرک قرار دیا ہے ۔کیونکہ جو شخص اس طرح کرتا ہے وہ گویا اللہ پر توکل نہیں
کرتا بلکہ وہ اس چیز پر توکل کرتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمرw سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
’’جس شخص کوبد شگونی
کسی کام سے روک دے تو اس نے یقینا شرک کیا۔‘‘ (صحیح الجامع للالبانی: ۶۲۶۴)
بعض لوگ کسی شخص سے بدشگونی لیتے ہیں ،مثلاً صبح سویرے اپنے
کا روبار کے لئے کہیں جاتے ہوئے اگر کوئی مسکین یا مانگنے والا مل جائے تو کہتے ہیں
کہ صبح سویرے ہی اس سے واسطہ پڑ گیا، آج خیر نہیں۔ یا گھر میں اگر کوئی نقصان ہو جائے
تو کہتے ہیں کہ اس منحوس عورت کی وجہ سے ہوا ہے یا اپنی اولاد میں سے کسی ایک سے بد
شگونی لیتے ہوئے کہیں گے کہ اس نقصان کا سبب
یہ ہے۔ اس طرح کسی شخص سے بد شگونی لینا جائز نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںجہاں پہلی قوموں کا ذکر کیا وہاں
کئی اقوام کے بارے میں بتا یا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بد شگونی لیتے تھے اور جب کوئی
مصیبت نازل ہوتی تو وہ کہتے کہ یہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے۔
مثلاً سیدنا موسیٰu کی قوم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس جب انہیں کوئی
اچھی چیز ملتی تو کہتے کہ ہم تو ہیں اس کے
حقدار۔اور اگر ان کا کوئی نقصان ہو جاتا تو موسیٰu اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے۔ یاد رکھو کہ ان
کی قسمت اللہ ہی کے پاس ہے، لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔‘‘ (الاعراف: ۱۳۱)
اسی طرح دیگر اقوام کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہی طرز عمل ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے نبیوں
سے اور ان پرایمان لانے والوں سے بد شگونی لیتے اور انہیں منحوس سمجھتے تھے ۔(نعوذباللہ)
بالکل اسی طرح جو ماہ ِصفر ہے اس کو کئی لوگ منحوس سمجھتے ہیں
اور اس ماہ میں کسی کام کی ابتدا ء کرنا درست نہیں سمجھتے کیونکہ ان لوگوں کا عقیدہ
ہے کہ جو کام اس مہینے میں شروع کیا جائے اس میں کوئی خیر و برکت نہیں ہوتی، وہ کام
آخر کار ناکام ہو جاتا ہے‘ یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ اس مہینے میں خسارہ ہی خسارہ ہے‘
وہ لوگ اس مہینے کو منحوس خیال کرتے ہیں ۔مہینے سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کے ہی ہیں
اور ہر مہینہ میں نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ماہِ صفر کی بد شگونی کے
متعلق نبی کریمe کا
ارشاد مبارک ہے:
’’کوئی بیماری خود
بخود متعدی نہیں ہوتی ،نہ بدشگونی لینا درست ہے اور نہ ہی کسی پرندے کو منحوس سمجھنا
درست ہے، اور نہ ہی ماہِ صفر سے بد شگونی لینا درست ہے۔‘‘ (صحیح البخاری: ۵۷۱۷)
لہٰذا مسلمانوں کو ایسا جاہلانہ عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے بلکہ
صرف اللہ تعالیٰ پر ہی اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہیے کہ ہر نفع و نقصان اسی کے قبضہ
قدرت میں ہے اور نفع و نقصان کا کسی مہینے سے کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان
ہے:
’’(اے پیغمبر)آپ
کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔
اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو میں بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے
کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔میں تو صرف ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کیلئے
جو ایمان لائے ہیں۔‘‘ (الاعراف: ۱۸۸)
اس آیت کریمہ میں غور کیجئے کہ جب امام الانبیاء حضرت محمدe اپنے
نفع و نقصان کے مالک بھی نہیں تو ان سے کم تر کیسے نفع و نقصان کے مالک ہو سکتے ہیں؟
جن سے لوگ حصولِ نفع کی امید رکھتے ہیں اور ان کی طرف سے نقصان
پہنچنے کا خوف کھاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’(اے پیغمبر)آپ
کہہ دیجئے کہ تمہارا کیا خیال ہے جن معبودوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ
مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا وہ اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نقصان کو دور کر
دیں گے ؟ یا وہ مجھے اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک لیں گے
؟ آپ کہہ دیں کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے ،بھروسہ کرنے والے صرف اسی پر بھروسہ کرتے
ہیں۔‘‘ (الزمر: ۳۸-۳۹)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا ہے کہ اگر کسی بھی
غیر اللہ کے پاس نفع و نقصان کا اختیا ر ہے تو جس کو اللہ تعالیٰ نقصان پہنچانا چاہے،وہ
اُس نقصان سے بچا کر دکھائے ،یا جس کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازنا چاہے تو اُس
سے رحمت کو روک کر دکھائے۔یقینا ایسا کوئی نہیں کر سکتا۔ جب کوئی ایسا نہیں کر سکتا
تو اس کے پاس نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار بھی نہیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے:
’’اللہ جورحمت لوگوں
کے لئے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ۔اور جسے وہ روک دے اس کے بعداسے کوئی جاری
رکھنے والا نہیں۔ وہ سب پہ غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ (فاطر: ۴)
اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ کسی اور کو پکارنے سے منع
فرمایا ۔ارشاد ربانی ہے:
’’اور اللہ کو چھوڑ
کر کسی اور کو مت پکارنا جو تجھے نہ نفع پہنچا سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے ۔اگر آپ
نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے اور اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کوئی نقصان
پہنچائے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ آپ کو کوئی خیر پہنچانا
چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے
نچھاور کر دے اور وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (یونس: ۱۰۶-۱۰۷)
خلاصہ آیت یہ ہے کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی
ذات مبارک ہے حتیٰ کہ اگر آپ e کو
بھی کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دورنہیں کر سکتا ۔ذرا سوچیں
اگر سرور کائنات جناب محمدe کو
سوائے اللہ کے کوئی اور نقصان سے بچانے والا نہیں تو عام مسلمانوں میں سے کسی شخص کو
سوائے اللہ کے کون بچا سکتا ہے ؟
مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں
کسی سے بد شگونی لے یا کسی کو منحوس خیال کرے۔ بلکہ اسے نقصان ہونے سے پہلے بھی اس
بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نقصان نہیں ہو سکتا ۔اور
نقصان ہو جانے کے بعد بھی وہ یہی کہے کہ یہ اللہ کی طرف سے لکھا ہو اتھا اور یہ ہو
کر رہنا تھا ۔
بعض لوگ ستاروں کے ذریعے فال نکالتے ہیں مثلاً کسی کے بارے میں
یہ کہتے ہیں کہ تمہارا ستارہ فلاں ہے اور آج کل وہ گردش میں ہے ،اِس لئے تم جو کارو
بار اب شروع کرو گے اس میں خسارہ ہو گا یا اگر اب تم شادی کرو گے تو اس میں برکت نہیں
ہو گی۔ حالانکہ کسی کی قسمت کافیصلہ یا اس کے مستقبل کے امور کا ستاروں سے کوئی تعلق
نہیں۔رسول اکرم e کا
ارشاد مبارک ہے:
’’جاہلیت کے کاموں
میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہوں گے: جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوںگے ،حسب
(قومیت) کی بنیاد پر فخر کرنا ،کسی کے نسب میں طعنہ زنی کر نا ،ستاروں کے ذریعے قسمت
کے احوال معلوم کرنا ،او ر نوحہ کرنا۔‘‘ (صحیح مسلم: ۲۱۶۰)
نجومیوں کے بارے میں رسول اکرم e نے واضح طور پر فرما دیا کہ ان کا اسلا م اور مسلمانوں
سے کوئی تعلق نہیں ۔اس طرح وہ بھی جو ان کے پاس جائے اور ان کے سامنے اپنی مشکلات بیان
کرے تا کہ وہ ستاروں کے ذریعے ان کا حل ڈھونڈیں ۔ ارشار نبویe ہے:
’’وہ شخص ہم سے نہیں
جو بد شگونی لے یا جس کے لئے بد شگونی لی جائے ۔یا جو ( علم نجوم کے ذریعے) کہانت کر
ے یا جس کیلئے کہانت کی جائے، یا جو جادو کرے یا جس کے لئے جادو کا عمل کیا جائے۔‘‘
(السلسلۃ الصحیحۃ: ۱۰۸۹)
اس لئے ان لوگوں کے پاس جانا اور ان سے قسمت کے احوال کے بارے
میں سوال کرنا شرک ہے جو ستاروں کے ذریعے یا ہاتھوں کی لکیروںکودیکھ کر قسمت کے احوال
کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس جانا اور ان سے اس طرح کے سوالات
کرنا اتنا سنگین جرم ہے کہ ایسا کرنے والے کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔
رسول اللہ e کا
ارشار مبارک ہے:
’’جو شخص کسی کاہن
یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوا ل کرے تو اس کی چالیس راتوں کی
نماز قبو ل نہیں ہوتی ‘‘(صحیح مسلم)
لہٰذا ایسے لوگوں کے پاس جا کر دین کاسوداہر گز نہیں کرنا چاہیے
اور دین کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ نہ ہم ایسے لوگوں کے پاس جائیں اور نہ ہی ان سے
کوئی سوال کریں۔ بلکہ تما م معا ملات میں اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ رکھیں اور نفع
و نقصان کا مالک اکیلے اللہ تعالیٰ کو تصور کریں ۔یہ اسلامی عقیدے کا بڑا ہم مسئلہ
ہے جس میں آج بہت سارے مسلمان بھٹک چکے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور ہمیں عقیدہ
و عمل کی اصلاح کی توفیق دے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment