ابوحفص عثمانی ... میرے محسن ومربی
(تیسری قسط) تحریر: الشیخ مولانا ارشاد الحق اثری﷾
حدیث قرطاس:
آنحضرتe نے
اپنی آخری بیماری کے ایام میں فرمایا تھا کہ ’’کاغذ لاؤ میں تمہیں کچھ ایسی باتیں
لکھوا دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘(بخاری: ۱۱۴‘ ۴۴۳۱ وغیرہ)
مگر یہ تحریر نہ لکھوائی گئی۔ رافضی حضرات اس حدیث کے تناظر
میں صحابہ کرام] پر بالعموم اور سیدنا عمرt پر بالخصوص طعن کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرتe کے
حکم کی مخالفت کی تھی۔ علمائے اہل سنت نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں اور بعض حضرات
نے مستقل طور پر اسے موضوع بحث بنایا ہے۔ مولانا عثمانیa کے
ایک مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی اس موضوع پر مستقل رسالہ لکھا تھا جیسا
کہ آئندہ وہ مکتوب ہم نقل کریں گے۔ ان شاء اللہ! مگر افسوس کہ وہ شائع نہ ہو سکا اور
اس کے بارے میں مزید معلومات بھی میسر نہ آسکیں۔
مولانا مرحوم نہایت درجہ خود دار اور غیور عالم دین تھے‘ انہوں
نے خطابت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ سرکاری بس سروس (جی ٹی ایس) میں بطور کلرک
ملازمت کی اور اسے اپنی عزت وعظمت کے منافی نہ سمجھا۔
محسن جماعت جناب میاں فضل حق (مرحوم) کو ان کے علم وفضل کا علم
ہوا تو وہ ڈیرہ غازیخاں تشریف لے گئے۔ مولانا عثمانی سے ملے اور کہا کہ ہمیں آپ کی
خدمات کی ضرورت ہے۔ مولانا عثمانی اس بارے میں مشورہ کے لیے مولانا عبدالکریم ڈیروی
کے پاس موضع یارو کھوسہ‘ جو ڈیرہ غازیخاں سے ۱۶ کلومیٹر بجانب شمال
واقع ہے تشریف لے گئے تو انہوں نے فرمایا: مولانا! آپ کو دینی اور جماعتی خدمات کے
لیے جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم وفضل عطا فرمایا ہے اسے دوسروں تک پہنچائیں
اور لوگ آپ کے علم سے فائدہ اٹھائیں۔
بالآخر مولانا مرحوم نے آمادگی کا اظہار فرمایا تو میاں فضل
حق (مرحوم) انہیں پہلی فرصت میں خوشاب لے گئے۔ وہاں جامع مسجد اہل حدیث میں خطابت کے
فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ‘ خوشاب میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم بھی رہے۔ بعد
ازاں میاں صاحب نے ۱۹۶۲ء میں انہیں جامعہ سلفیہ کا مدیر ومہتمم مقرر کر دیا۔ مولانا
عثمانی ایک بہترین منتظم ومدبر انسان تھے اور انتظامی امور میں سخت گیر بھی تھے۔ بڑھاپے
کے آثار نمایاں تھے‘ کمر بھی کچھ جھک گئی تھی اور فرمایا کرتے تھے: میں ٹیڑھا‘ میری
لاٹھی بھی ٹیڑھی‘ ٹیڑھوں کو سیدھا کرتی ہے۔ نظم کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ناگزیر ہے‘
اگر نرمی اختیار کی جائے تو بسا اوقات نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی
بھی نہیں کہ ہر معاملے میں وہ لاٹھی چلاتے اور ناروا سختی کرتے تھے ہرگز نہیں بلکہ
اس کا مظاہرہ وہاں ہی ہوتا جہاں ضرورت محسوس کرتے تھے۔
اسی حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ مولانا عثمانیa نظامت
کے اعتبار سے بہت سخت تھے۔ ایک مرتبہ جامعہ سلفیہ میں مولانا عثمانی نے مولانا محمود
احمد غضنفر آف لاہور کو کسی بنا پر جامعہ سے خارج کر دیا۔ مولانا محمد اسحاق چیمہa جامعہ
میں تشریف لائے اور انہوں نے مولانا محمود احمد غضنفر کی سفارش کی لیکن مولانا عثمانیa نے
ان کی سفارش قبول نہ کی۔ (مولانا عبدالتواب محدث ملتانی‘ حیات وخدمات: ص ۱۶۱)
لیکن یہ بات بالکل درست نہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں‘
راقم ۱۹۶۴ء میں جامعہ سلفیہ حاضر ہوا۔ مولانا محمود احمد غضنفر‘ مولانا
حافظ عبدالستار حسنS اور
خاکسار اکٹھے کھانا کھاتے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں مولانا غضنفر جامعہ سلفیہ میں تھے‘ وہیں سے انہوں نے سند فراغت حاصل کی۔
اس لیے جامعہ سے ان کے نکالے جانے اور دوبارہ انہیں جامعہ میں آنے کی اجازت نہ ملنے
کی بات قطعاً درست نہیں۔
طلبہ کو عموماً مختلف بہانوں سے رخصت لینے کی عادت ہوتی ہے۔
چھٹی کے معاملے میں مولانا مرحوم سخت گیر تھے۔ کسی عزیز کی بیماری پر اگر کوئی رخصت
لینا چاہتا تو مولانا عثمانی فرماتے کہ تم ڈاکٹر تو نہیں ہو؟ یہاں دعا کرو اور دعا
کراؤ‘ اللہ تعالیٰ انہیں شفا عطا فرمائے گا۔ عید الاضحی پر چھ چھٹیاں ہوتی تھیں۔ چار
عید کی اور دو آنے جانے کے لیے‘ ساتویں روز حاضری ضروری ہوتی تھی۔
مولانا عثمانی مرحوم نے جامعہ میں اپنی انتظامی مصروفیتوں کی
وجہ سے باقاعدہ تدریس نہیں کی البتہ ابتدائی کلاسوں کو پڑھانے والے اساتذہ کرام میں
سے اگر کوئی رخصت پر ہوتے تو مولانا مرحوم طلبہ کو پڑھاتے۔ اس ناطے دو تین مرتبہ ہماری
کلاس کو بھی انہوں نے پڑھایا‘ ناغہ نہیں ہونے دیا۔
مجتہد العصر‘ مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی ۲۰ اگست ۱۹۶۴ء میں فوت ہوئے‘ اسی روز عصر کی نماز کے بعد مولانا عثمانی نے اس خبر سے اساتذہ
اور طلبہ کو آگاہ کیا۔ حافظ صاحب کی خدمات اور ان کے علم وفضل کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ
محمد انور شاہ کشمیری کی کتاب ’’فصل الخطاب‘‘ پھر اس کے جواب میں حافظ صاحب کی کتاب
’’الکتاب المستطاب فی جواب فصل الخطاب‘‘ کا ذکر بڑے اچھوتے انداز سے کیا اور فرمایا
کہ حافظ صاحب نے جواب کے علاوہ فصل الخطاب میں ان کی ساٹھ اغلاط کو بھی اجاگر کیا جو
علمی وادبی اصولوں کے منافی ہیں۔
مولانا عثمانی کی دینی حمیت اس قدر تھی کہ ان کے دوست چوہدری
محمد یوسف سابق ضلعی ناظم جمعیۃ اہل حدیث نے اپنے فرزند چوہدری محمد نسیم کی نکاح خوانی
کے لیے مولانا عثمانی کو مدعو کیا۔ مگر انہوں نے نکاح پڑھانے سے اس لیے انکار کر دیا
کہ محمد نسیم نمازی نہیں۔ چوہدری نسیم کا بیان ہے کہ میری والدہ کا انتقال ہوا تو مولانا
عثمانی نے پانچ تکبیرات کے ساتھ جہرا نماز جنازہ پڑھائی اور میں بے حد متاثر ہوا اور
خیال آیا کہ اگر میں بے نماز دنیا سے چلا گیا تو مولانا میرا جنازہ ہرگز نہیں پڑھائیں
گے۔ اس تصور سے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نمازی بن گیا۔ (الاعتصام: ۱۴ اکتوبر ۲۰۱۱ء)
اس سے مولانا عثمانی a کی دینی غیرت وحمیت کا پتہ چلتا ہے۔
اپنی کہانی:
اب آتے ہیں اپنی کہانی کی طرف‘ ۱۹۶۱ء میں بطل حریت مولانا محمد داؤد غزنویa علیل تھے۔ جامعہ سلفیہ کمیٹی کا اجلاس ہوا تو حضرت غزنویa کی
بجائے جناب میاں فضل حق کو جامعہ سلفیہ کی کمیٹی کا صدر بنا دیا گیا۔ اس وقت مولانا
محمد اسحاق چیمہ مرحوم مدیر الجامعہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ میاں صاحب
اور مولانا چیمہ کے ما بین فکری ہم آہنگی نہ تھی تو میاں صاحب مرحوم نے مولانا چیمہ
صاحب کو مدیر الجامعہ کے منصب سے فارغ کر دیا اور ۱۹۶۲ء میں ان کی جگہ مولانا ابوحفص عثمانیa کو مدیر الجامعہ مقرر کر دیا۔
مولانا عثمانی ان ایام میں خوشاب جامع مسجد کے خطیب اور جمعیۃ
اہل حدیث خوشاب کے ناظم اعلیٰ تھے اور میاں صاحب کے ساتھ ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔
مولانا عثمانی نے ’’مسائل عید قربان‘‘ رسالہ لکھا تواس کو شائع کروانے کا اہتمام میاں
مرحوم نے کیا تھا جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔
۱۹۶۵ء میں خاکسار جامعہ
سلفیہ حاضر ہوا تو پہلی ملاقات مولانا ابوحفص عثمانی سے ہوئی اور مجھے جامعہ میں داخلہ
مل گیا۔ میں لیاقت پور کے مدرسہ قاسم العلوم سے کچھ پڑھ کے آیا تھا۔ یہ مدرسہ دیوبندی
مکتب فکر کا تھا‘ گھر کا ماحول بھی یہی حنفی دیوبندی تھا۔ جبکہ جامعہ کا ماحول میرے
لیے بالکل نیا تھا۔ فکری وعملی اختلاف کے باوجود میں اس میں رہ رہا تھا اور اپنے پہلے
آبائی اور مدرسہ کے طریقہ وعمل کو اپنائے ہوئے تھا۔ اساتذہ کرام اور مدیر محترم یہ
سب جانتے ہوئے بھی مجھ سے کوئی تعرض نہیں کرتے تھے۔ صبح کی نماز میں اگر کبھی تاخیر
ہو جاتی اور جماعت کھڑی ہو جاتی‘ نمازیں عموماً شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد عبداللہ
بڈھیمالوی پڑھاتے اور صبح اور ظہر کی نماز میں طویل قیام کرتے۔ جماعت ہونے لگتی تو
خاکسار وضو کر کے جامعہ کے پلاٹ میں جا کے صبح کی دو سنتیں پڑھتا‘ واپس آتا تو حافظ
صاحب پہلی رکعت میں ہوتے اور مجھے پہلی رکعت مل جاتی۔
اسی اثناء میں اپنی ڈھارس باندھنے اور کچھ معلومات حاصل کرنے
کے لیے میں نے جناح کالونی جامع مسجد میں لدھیانہ خاندان کے مولانا مفتی محمد نعیم
کی خدمت میں بھی ایک دو بار حاضری دی‘ وہ جو باتیں ارشاد فرماتے ان کے بارے میں اپنے
ہم سبق ساتھیوں سے بات کرتا تو وہ ترکی بہ ترکی مجھے جواب دیتے۔ ان حالات میں میں پریشان
تو تھا مگر اسباق کے اعتبار سے مطمئن تھا کہ وہ بحمد اللہ خوب ہو رہے ہیں۔
میرے لیاقت پور کے ایک ساتھی مولوی عبدالکریم صاحب تھے جو خیر
المدارس ملتان میں دورہ کے اسباق پڑھ رہے تھے۔ ایک روز فرصت پا کے میں نے انہیں خط
لکھا اور اپنے احوال سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے رفع الیدین کے موضوع سے متعلق رہنمائی
چاہی۔ انہوں نے مجھے پہلے سے یہ کہہ رکھا تھا کہ خیال کرنا غیر مقلدین کے مدرسہ میں
جا رہے ہو اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو مجھے خط لکھنا ہمارے یہاں خیر المدارس مولانا
محمد شریف کشمیری بڑے فاضل محدث ہیں۔ میں ان کی رہنمائی میں تمہیں جواب لکھ دیا کروں
گا۔
میں نے تین پیسے والے کارڈ پر انہیں اپنے احوال سے آگاہ کیا
اور حماقت یہ ہوئی کہ واپسی اپنا پتہ تو لکھ دیا مگر ان کا پتہ خط پر نہ لکھا۔ ان دنوں
جامعہ کا ڈاکخانہ نشاط آباد میں تھا۔ البتہ یہ سہولت تھی کہ جامعہ کے باہر دروازے پر
ڈاکخانہ کی طرف سے لیٹر بکس آویزاں تھا۔ ڈاک بھیجنی ہو تو خطوط اس لیٹر بکس میں ڈال
دیئے جاتے۔ وقت مقرر پر ڈاکیا آتا وہ ڈاک بھی لے آتا اور لیٹر بکس سے خطوط نکال کر
بھی لے جاتا۔ بعد میں جامعہ کو ڈاکخانہ کی سہولت مل گئی تھی۔
مجھے خط ارسال کیے دوسرا روز ہی گذرا تھا کہ ظہر کی نماز اول
صف میں پڑھی‘ ایک دو طالب علم بائیں جانب اور امام کے پیچھے تیسرے نمبر پر مولانا عثمانی
مرحوم نے نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’نماز
سے فارغ ہو کر میرے پاس دفتر میں آؤ۔‘‘
ان دنوں ان کا کسی طالب علم کو بلانا گویا نواب محمد خان نواب
آف کالا باغ گورنر پاکستان کا بلانا سمجھا جاتا تھا۔ دائیں بائیں طلبہ نے بھی مجھے
حیرت سے دیکھا اور میں پریشان ہو گیا کہ الٰہی ماجرا کیا ہے؟
چنانچہ بقیہ سنتیں پڑھ کر میں ان کے دفتر میں حاضر ہوا تو انہوں
نے اپنے تکیے کے نیچے سے میرا خط مجھے دیتے ہوئے دریافت فرمایا: ’’یہ تمہارا خط ہے؟‘‘
یقین جانیے میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ سکتہ میں آگیا ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘
کا حال تھا کہ آج پکڑا گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے دھیمی آواز میں اقرار کیا کہ جی ہاں یہ
میرا خط ہے۔ انہوں نے فرمایا: ’’ہم کس مرض کا علاج ہیں جس مسئلہ کی ضرورت ہو مجھ سے
پوچھیے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے جامع ترمذی اور غالباً ساتھ سنن ابوداؤد منگوائی۔ سیدنا
عبداللہ بن مسعودt اور
سیدنا براء بن عازبt کی
حدیث‘ ان کی اسانید پر نقد وجرح میزان الاعتدال اور علامہ الخزرجی کی خلاصۃ تذہیب الکمال
دکھلائیں۔ یہ دنیا میرے لیے بالکل نئی تھی‘ اسی مجلس کے نتیجہ میں دل میں یہ بات بیٹھ
گئی کہ جب تک احادیث کی اسانید ورجال کی تحقیق نہ ہو تب تک احادیث مبارکہ سے کما حقہ
آگاہی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ راقم نے ملتان بیرون بوہڑ گیٹ ایک مکتبہ سے رابطہ کیا تو
اس نے خلاصۃ تذہیب الکمال بذریعہ ڈاک بھیج دی۔ میرے اس نسخہ پر ۱۹۶۴ء کی تاریخ درج ہے جو اس کے خریدنے کا سال ہے۔
جامعہ سے چھٹیوں کے ایام میں جب گھر پہنچا تو مدرسہ قاسم العلوم
میں حضرت مولانا مفتی عبدالرحمن سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم جامعہ سلفیہ
غیر مقلدین کے مدرسہ میں پڑھتے ہو‘ تمہیں اپنے مذہب حنفی کو جاننے اور فقہی مسائل کو
سمجھنے کے لیے علامہ نیموی کی آثار السنن لے لینی چاہیے۔ چنانچہ خاکسار نے مکتبہ امدادیہ
ملتان سے آثار السنن بذریعہ ڈاک منگوائی۔ میرے اسی نسخہ پر اس کی قیمت سات روپے اور
خریداری کی تاریخ ۱۳ مارچ ۱۹۶۵ء لکھی ہوئی ہے۔ میں اپنے لیے اس کتاب کو ایک مضبوط ڈھال سمجھتا تھا۔ کتاب کو اپنے
بکس میں رکھتا اور ہم جماعت ساتھیوں کی آنکھوں سے بچ کے اس کا مطالعہ کرتا تھا۔ اس
کے بعد تو میں اپنے ساتھیوں سے مختلف فیہ مسائل میں دھڑلے اور پورے اعتماد سے بات کرتا۔
جامعہ میں جمعرات کو بزم ادب جمتی تھی۔ طلبہ اس میں خوب حصہ لیتے۔ اس کے ساتھ ساتھ
مرحوم مولانا محمود احمد غضنفر‘ جو ان ایام میں آخری کلاس میں پڑھتے تھے‘ نے چاہا کہ
عربی زبان میں تقریر کرنے کی بھی بزم ادب ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس کی طرح ڈالی لیکن
سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔
جامعہ میں صبح وشام کا کھانا ہم چار ساتھی اکٹھے کھاتے تھے۔
ایک مولانا محمود احمد غضنفر‘ دوسرے مولانا حافظ عبدالستار حسن‘ یہ میرے ہم جماعت بھی
تھے اور تیسرے حافظ عبدالغفار صاحب۔ اس طرح کھانا کھانا ہماری قربتوں کا باعث بنا۔
ایک بار مولانا غضنفر سے بھی کہا کہ تم بھی بزم عربی میں حصہ
لو اور تقریر کرو۔ میں نے عرض کیا کہ اردو میں تو کچھ کچھ گذارا کر لیتا ہوں مگر عربی
میں گفتگو کی نہ صلاحیت پاتا ہوں نہ اس کا حوصلہ ہوتا ہے۔ مگر ان کے محبت آمیز اصرار
سے مجبور ہو گیا اور تقریر کرنے کا وعدہ کر لیا۔ اب ہوا کیا کہ جمعرات کو ظہر کی نماز
کے بعد یہ بزم سجی‘ میں نے اپنی باری پر نماز کو گفتگو کا موضوع بنایا‘ اس سے متعلقہ
کچھ آیات مبارکہ اور کچھ احادیث پاک پڑھیں پھر نماز میں ہاتھ باندھنے کے مسئلہ کو لے
بیٹھا اور آثار السنن کی رہنمائی میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے موقف کو راجح اور
سینہ پر ہاتھ باندھنے کو مرجوح قرار دیتے ہوئے اس کی روایات پر نقد کیا۔
صدر بزم ادب عربی حافظ کرامت اللہ نے اپنے صدارتی خطاب میں میری
تردید کی۔ ان کے جواب میں اب میں نے اردو کا سہارا لیا اور بات بگڑ گئی۔ ہم ایک کمرہ
میں آگئے۔ صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے راوی مؤمل بن اسماعیل پر میں نے اجلاس میں جرح
کی تو انہوں نے اس کا حوالہ طلب کیا۔ چنانچہ میں اپنے کمرے سے ہی خلاصۃ تذہیب الکمال
لے آیا اور مؤمل بن اسماعیل کا ترجمہ نکال کے کتاب ان کے ہاتھ میں دے دی۔ اب آپ یہ
لطیفہ بھی جانیے مگر پہلے مؤمل کے ترجمہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
[مؤمل بن اسماعیل العدوی مولاہم ابوعبدالرحمن البصری عن شعبۃ والثوری
وجماعۃ، وعنہ احمد واسحاق وابن المدینی وطائفۃ، وثقہ ابن معین، وقال البخاری: منکر
الحدیث مات سنۃ ست ومائتین]
یہ ترجمہ دیکھ کر جواب دیا گیا کہ امام بخاریa کی
جرح مؤمل پر نہیں اس سے پہلے جس کا نام ہے اس کے بارے میں ہے۔ لا حول ولا قوۃ الا
باللہ۔ مجھ سے یہ برداشت نہ ہو سکا تو کہا جناب! اس فن سے واقف نہیں تو اس میں ٹانگ
کیوں اڑاتے ہیں؟ یہ کہنا تھا کہ کمرے کا ماحول سختی میں تبدیل ہو گیا۔ میں نے چھلانگ
لگائی اور کمرے سے باہر آکے عافیت محسوس کی۔ کتاب حافظ کرامت اللہ کے پاس تھی‘ وہ نہایت
نیک اور عبادت گذار اور ذاکر وشاکر انسان تھے اور مجھے حوصلہ تھا کہ کتاب ضائع نہیں
ہو گی۔
دوسرے روز نماز عصر کے بعد جب اپنے کمرہ میں جا رہا تھا تو برآمدہ
میں کھڑے ہوئے حافظ کرامت اللہ صاحب نے مجھے آواز دی اور اپنے کمرہ سے کتاب لا کر مجھے
دی اور فرمایا کہ میں نے اس سارے معاملے کا ذکر مولانا ابوحفص عثمانی صاحب سے کیا ہے۔
انہوں نے تمہارے موقف کی تائید کی ہے کہ امام بخاریa کی جرح مؤمل بن اسماعیل پر ہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی
فرمایا کہ اُس سے نہ الجھیں اسے پڑھنے دیں۔ حافظ صاحب نے ناصحانہ انداز میں فرمایا
کہ آپ پڑھیں ابھی تمہاری ابتدا ہے آگے آگے پڑھو گے تو ان شاء اللہ حقیقت منکشف ہو جائے
گی۔
اب اس کے ساتھ ایک قصہ یہ بھی جانیے کہ مدرسہ قاسم العلوم لیاقت
پور میں ان دنوں مولانا حبیب اللہ گمانوی کی خدمات حاصل کر لی گئی تھیں۔ رخصتوں کے
ایام میں جب قاسم العلوم حاضری دی تو مولانا موصوف کی زیارت ہوئی۔ میرے بارے میں انہیں
بتلایا گیا کہ یہ دوسال یہاں پڑھنے کے بعد آج کل جامعہ سلفیہ میں پڑھ رہا ہے۔ تو مولانا
بڑے متعجب ہوئے کہ ادھر غیر مقدلین کے مدرسہ میں چلے گئے ہو؟
مولانا گمانوی بستی گمانو‘ موضع صادق آباد نزد اوچ شریف میں
رہائش پذیر تھے اور دار العلوم دیوبند میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری‘ مولانا
علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر اعیان سے انہوں نے کسب فیض کیا تھا۔ ان کا کچھ تذکرہ
مولانا محمد رفیق اثری شیخ الحدیث جامعہ دار الحدیث محمدیہd نے مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری کی سوانح حیات
میں کیا ہے کیونکہ وہ بھی حضرت جلالپوری کے ابتدائی مشائخ میں سے تھے۔
مولانا حبیب اللہ مرحوم نے مجھے فرمایا کہ وہاں اگر اپنے مذہب
کے بارے کوئی اشکال ہو تو مجھے لکھنا میں اس کا جواب دیا کروں گا۔ یوں مجھے حوصلہ دیا
اور حنفی مذہب پر قائم رہنے کی تاکید بھی کی۔ چنانچہ ایک روز فرصت پاکے میں نے ان کی
خدمت میں ایک عریضہ فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ سے متعلق لکھا جس کا جواب انہوں نے اپںے
صاحبزادہ سے ۱۰ ستمبر ۱۹۶۵ء کو لکھوا کے مجھے ارسال کیا جو سات صفحات پر مشتمل تھا۔ ابتداء میں انہوں نے
لکھا:
’’محترم المقام عزیز من وعلیکم السلام‘ آپ کا رقیمہ کریمہ ۵ ستمبر کو ملا‘ یاد آوری کا شکریہ۔ اللہ کا احسان ہے کہ آپ ایسے
لوگوں کے پاس زیر تعلیم ہونے کے باوجود صحیح متبعین کتاب وسنہ احناف کرام کے زمرہ میں
سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ استقامت اور مزید توفیق بخشے۔‘‘
اس کے بعد اس موضوع سے متعلقہ میرے سوالات کا جواب ہے اور آخر
میں یہ ’’نوٹ‘‘ بھی لکھوایا کہ
’’اس خط کو محفوظ فرمائیے اور آئندہ اس کے پیش نظر خط وکتابت یا بات
چیت کیجیے ضروری تاکید ہے۔‘‘
یہ خط بحمد اللہ اب بھی موجود ہے‘ خاکسار نے مزید تشفی کے لیے
یکم اکتوبر ۱۹۶۵ء کو دوبارہ ان کی خدمت میں خط لکھا اور ان کے مکتوب پر کچھ
اشکالات کا اظہار کیا۔ مگر افسوس کہ اس کا کوئی جواب انہوں نے نہ دیا۔
چھٹی پر جب گھر حاضر ہوا تو مدرسہ قاسم العلوم میں حضرت مولانا
حبیب اللہ(a) سے ملاقات ہوئی۔
عصر کی نماز پڑھ کر ہم اکٹھے مسجد سے باہر مدرسہ کے صحن میں آئے تو اس فقیر نے جسارت
کرتے ہوئے عرض کیا کہ میں آپ کے گرامی نامہ کا انتظار کرتا رہا معلوم نہیں میرا عریضہ
آپ تک پہنچا ہے یا نہیں؟ مولانا مرحوم وہیں کھڑے ہو گئے اور بڑے محبت آمیز لہجہ میں
فرمایا کہ ہماری سرائیکی زبان میں کہا جاتا ہے کہ گھڑا بھرا ہوا ہو اس پر مزید پانی
ڈالیں تو وہ نیچے بہہ جائے گا۔ گھڑے میں نہیں پڑے گا۔ تمہارا خط پڑھ کے میں نے محسوس
کیا اب مزید کچھ کہنے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ان کی اعتدال پسندی کی انتہا تھی۔ وہ
مجھے ڈانٹ ڈپٹ کر سکتے تھے۔ مناظرانہ اسلوب میں جواب دے کر مجھے مطمئن کرنے کی کوشش
کر سکتے تھے مگر انہوں نے اسے غیر مناسب سمجھا اور میرے ساتھ شفقت ومحبت کا اظہار فرمایا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں جنت الفردوس عطا کرے اور ہم سب کی
لغزشوں سے صرف نظر فرمائے۔ آمین! ……… (جاری)
No comments:
Post a Comment