ختم نبوت ... مسلم حکمرانوں کا کردار
(دوسری قسط) تحریر: صاحبزادہ برق التوحیدی
7 متحدہ ہندوستان میں ریاست بھوپال بہت اہمیت
کی حامل مسلمان ریاست تھی جس کی والیہ بیگم شاہجباں کی نواب صدیق حسن خاںa سے
شادی خانہ آبادی ہوئی۔ نواب صدیق حسن خاں علوم نقلیہ وعقلیہ کے جامع اور مسلک سلف
کے پیر وکار تھے‘ ان کی علمی حیثیت و شہرت مسلمہ ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے دیگر
والیان ریاست کی طرح نواب صدیق حسن خاںa کو بھی اپنی دعوت کے دام تزویر میں پھنسانے کی کوشش
کی لیکن اس کوشش کا کیا نتیجہ نکلا اور ایک مسلمان حکمران اور والی ریاست کی حیثیت
سے نواب صاحب مرحوم نے کر دار ادا کرکے خدام ختم نبوت میں شامل ہو کر قصر ختم نبوت
کے تحفظ و دفاع میں مسلمان حکمرانوں کے عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری اور حفاظت کے تسلسل
میں ایک قابل ِ تقلید سنہری باب کا اضافہ کیا۔ نواب صاحب مرحوم کے اس کر دار کے متعلق
خود مرزا قادیانی اپنے مرید عباس علی لدھیانوی کے نام ایک خط میں لکھتا ہے :
آپ کی کوششوں سے دل بار بار خوش ہوتا ہے اور بار بار آپ کے
لیے اور آپ کے معاونوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے‘ خداوند کریم نہایت مہر بان ہے
… جب یہ کتاب چھپنا شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لیے لکھا گیا
بلکہ کتابیں ساتھ بھیجی گئی تھیں … دوسروں نے اول توجہ ہی نہیں کی ، اگر کسی نے کچھ
وعدہ بھی کیا تو اس کا ایفاء نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خاں نے بھوپال سے ایک نہایت
مخالفانہ خط لکھا۔ (مکتوبات احمدیہ: ج۱ ص ۲۷-۲۹ بحوالہ تحریک ختم نبوت: ج۱۶ ص۱۰۳)
مرزا کے بقول اس نے ایک سو پچاس کتابیں مختلف امیروں اور دولت
مندوں کو بھیجیں اور اسی قدر خطوط بھی لکھے لیکن مرزا کذاب کو شکوہ رہا کہ
’’مگر باستثنا ء
دو تین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی، نہ خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس
آئیں‘ مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدانخواستہ کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو
سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان ہوگا ۔‘‘
(تحریک ختم نبوت: ج ۱۶ ص ۱۰۳)
لوگوں کی جیبوں پر نظر جمائے اس مال و دولت کے لالچی جعلی نبی
کو اس میدان میں کس قدر سخت دقت پیش آئی یا نقصان ہوا اور مالی نقصان کے ساتھ کتنی
ذہنی تکلیف پہنچی اور کس نے پہنچائی اس کا جواب مؤرخ احمدیت دوست محمد کے قلم سے سنیے
:
نواب صدیق حسن خان صاحب کا براہین کے متعلق نا روا طرز عمل : ان حضرات میں سب سے زیادہ ناروا طرز عمل نواب صدیق
حسن خاں صاحب نے دکھایا ۔ نواب صاحب موصوف اہل حدیث فرقہ کے مشہور عالم تھے جنہیں ان
کے بعض عقیدت مندان کی وسیع اسلامی خدمات اور عالمانہ شان کی وجہ سے ’’ مجدد وقت
‘‘ بھی قرار دیتے تھے ۔ چونکہ اُنہوں نے والیہ ریاست نواب شاہ جہاں بیگم سے شادی کر
لی تھی اس لیے پوری ریاست کی باگ ڈور عملاً انہی کے سپر د تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ
الصلوٰ ۃ والسلام نے انہیں ایک درد منددل رکھنے والے مسلمان رئیس کی حیثیت سے اعانت
کی طرف جب پہلی مرتبہ توجہ دلائی تو اُنہوں نے پہلے تو رکھ رکھائو کا طریق اختیار کرتے
ہوئے پندرہ بیس نسخوں کی خرید پر آمادگی کا اظہار کیا مگر پھر دو بارہ یاد دہانی پر
محض گورنمنٹ برطانیہ کے خوف سے دست کش ہو گئے اور یہ مصلحت آمیز جواب دیا کہ ’’ دینی
مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا اُنہیں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے
۔ اس لیے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں۔‘‘ اسی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے
اُنہوں نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کا پیکٹ وصول کرنے کے بعد اسے چاک کرکے آپ کو واپس کر
دیا ۔ (حافظ حامد علی صاحب کا بیان ہے کہ ) جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت اقدس
اپنے مکان میں چہل قدمی کر رہے تھے ۔ کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اور
نہایت بری طرح اس کو خراب کیا گیا ہے ۔ حضور کا چہرہ مبارک متغیر اور غصہ سے سرخ ہو
گیا ۔ عمر بھر میں حضور کو ایسے غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا گیا۔ (تاریخ احمدیت: ج۱ ص ۱۸۸)
ان اعتراضات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت نواب والا جاہ
صدیق حسن خاںa نے
ایک مسلمان اور صاحب ِ ایمان ہونے کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ والی ریاست ہونے کے اعتبار
سے کس قدر اہم کر دار ادا کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی بہت سے علماء مرزا قادیانی
کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا تھے اور براہین احمدیہ کی تعریف کر رہے تھے کہ وہ دفاع
اسلام میں لکھی گئی ہے مگر نواب صدیق حسن مرحوم نے مومنانہ بصیرت سے مرزا قادیانی میں
چھپے فتنہ کو بھانپ کر اس سے یہ سلوک کیا جس پر مرزا قادیانی سخت رنجیدہ خاطر ہوا کہ
اس کی امید بر نہ آسکی ۔
جبکہ قادیانی
مؤلف کا یہ تأثر بالکل غلط ہے کہ ’’ وہ گورنمنٹ بر طانیہ کے خوف سے دست کش ہو گئے
‘‘ کیونکہ گورنمنٹ بر طانیہ سے خوف کا تقاضا تو یہ تھا کہ و ہ گورنمنٹ بر طانیہ کے
اس خود کاشتہ پودے کی آبیاری کرتے اور گورنمنٹ کے لیے کئی الماریاں کتابیں لکھ کر
اظہار وفاداری کرنے والے اس برطانوی گماشتہ سے بھر پور تعاون کرتے لہٰذا یہ نواب صاحب
مرحوم کے متعلق محض بہتان ہے‘ نواب صاحب مرحوم نے بر طانوی حکومت کا خوف یا قادیانیت
کی سر پرستی میں کسی لالچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اپنے ایمان و اسلام اور محبت
ِ رسول e کی
آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا اور قادیانیت کے تعاقب بلکہ
ردو نقد میں بھرپور کر دار ادا کیا ۔ بلکہ اسے حسنِ اتفاق کہنا چاہیے کہ تحفظ عقیدہ
ختم نبوت اور دفاع قصر ختم نبوت میں نواب صدیق حسن خاں‘ سیدنا ابو بکر صدیقt کے
نقش قدم چلے جو اس کا مصداق و مظہر ہے کہ الا رواح جنود مجندۃ ۔
8 ہمارے ہمسایہ
میں اسلامی ریاست افغانستان ہے ۔ افغانستان کی اپنی قومی اقدار و روایات ہیں جس کی
وہ قوم بڑی سختی سے کار بند ہے ۔ ان کی ان قومی روایات و اقدار سے اتفاق و اختلاف سے
قطع نظریہ حقیقت ثابتہ ہے کہ وہ بہت حد تک اسلامی شعائر اور دینی اقدار کے کار بند
اور ان کے متعلق بڑے حساس اور نازک جذبات رکھتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ کیسے ممکن ہو
سکتا ہے کہ کوئی شخص اس ماحول میں اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت کی بغاوت کرے یا
درس بغاوت دے تو وہ خاموش رہیں یا وہ حکومت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع میں کوئی
اقدام نہ اُٹھائے ۔ چنانچہ جب برصغیر کے دجال و کذاب قصر ختم نبوت کے نقب زن مرزا قادیانی
نے اپنی جھوٹی اور جعلی نبوت کا دعوی کیا تو اپنے مبلغ ریاست افغانستان بھی بھیجے
۔ ادھر قصر ختم نبوت کے چوکیدار اپنی عقابی نگاہوں سے اس فتنہ کے تعاقب میں تھے۔ بالخصوص
تحریک ختم نبوت کے سرخیل ، سفیر ختم نبوت حضرت مولانا محمد حسین بٹالویa جو
شب وروز اسی لگن میں مگن تھے ان کو جب اس فتنہ کی سر زمین افغانستان میں تخم ریزی کا
علم ہوا تو فوراً کابل کی طرف رخت ِ سفر باندھا اور والی کابل سے ملاقات کرکے مرزا
قادیانی کے دعوی نبوت سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی فتنہ سا ما نیوں سے مطلع کیا اور قادیانیت
کا علمی محاسبہ پیش کرکے قادیانیت کے خلاف اس کی ذہن سازی کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا
کہ مرزائیت و قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت پر نہ صرف پابندی عائد کی گئی اور نہ صرف کہ
مرزا قادیانی کا خط لے جانے والے عبدالرحمن قادیانی کا سر قلم کیا گیا بلکہ مرزائیت
کے دو مبلغوں کو بھی سر عام قتل کردیا گیا۔ پھر مرزا قادیانی کوشش کر تا رہا کہ کسی
نہ کسی طرح والی کابل کو اپنے دام تزویر میں پھنسا سکے لیکن ہر مرتبہ یہی جواب ملتا
کہ یہاں آکر مجھے بالمشا فہ اپنا پیغام سنائیں۔ مرزا کو چونکہ معلوم تھا کہ وہاں جانے
سے اس کا انجام کیا ہوگا اس لیے اسے کابل جانے کی کبھی جرأت نہ ہو سکی ۔
قادیانیت کا افغانستان میں ناطقہ بند ہونے اور مرزا کے وہاں
جانے سے خو فزدہ رہنے کا بنیادی سبب بھی مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ تعالیٰ
کا رد ِ قادیانیت میں وہ کر دار ہے جس کی ایک کڑی اور اہم مرحلہ مولانا محمد حسین بٹالویa کی
والی کابل سے ملا قات ہے۔ اس ملا قات نے کیا رنگ دکھا یا بلکہ کیا رنگ جمایا اس کا
اندازہ خود آنجہانی مرزا قادیانی کی درج ذیل عبارت سے لگائیے‘ لکھتا ہے:
گورنمنٹ نے اس حاسد (محمد حسین ) کی باتوں کی طرف کچھ توجہ نہ
کی تو پھر اپنی قوم کو اُکسانا شروع کیا اور میری نسبت یہ فتوی شائع کیا کہ اس شخص
کا قتل کرنا موجب ثواب ہے‘ چنانچہ اس فتوی کو دیکھ کر اور کئی مولویوں نے بھی قتل کا
فتوی دے دیا ۔ پس بلا شبہ یہ سچ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے یہ شخص بار بار مجھے
امیر کا بل کی دھمکی دیتا رہا ہے کہ وہاں چلو تو پھر زندہ نہ آئو گے‘ یہ تو معلوم
تھا کہ یہ شخص امیر کا بل کے پاس ضرور گیا تھا مگر یہ بھید اب تک نہیں کھلا کہ امیر
نے اس شخص کو میرے قتل کی نسبت کیوں اور کس وجہ سے وعدہ دیا۔ (روحانی خزائن: ج ۱۴ ص ۴۳۵)
قادیانی مورٔخ دوست محمد اس واقعہ کے متعلق لکھتا ہے:
امیر کابل کے نام تبلیغی خط:
سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مارچ یا اپریل ۱۸۹۶ء مطابق شوال ۱۳۱۳ھ میں والئی کابل امیر عبدالرحمن خاں (۱۸۴۴ء-۱۹۰۱ء) کے نام ایک تبلیغی خط بھیجا۔ یہ خط حضرت مولوی عبدالرحمن
صاحب شہید لے کر گئے تھے۔ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ایک مرتبہ اپنے اخبار
’’مناوی‘‘ میں لکھا تھا کہ امیر کابل نے اس خط کے موصول ہونے پر فقط یہ جواب دیا کہ
’’اینجا بیا‘‘ اور مقصد یہ تھا کہ کابل میں آکر دعویٰ کرو تو نتیجہ معلوم ہو جائے
گا ۔ لیکن اس کا کوئی قطعی ثبوت معلوم نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات
سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بعد کو جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کابل گئے تو اُنہوں
نے امیر کابل کو مشتعل کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ۔ چنانچہ مولوی صاحب نے
واپس آنے کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آ سکیں
گے۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ امیر کابل کو جب حضرت مسیح موعود کا
تبلیغی خط پہنچا تو اُنہوں نے کہا:
’’… عمر باید نہ
عیسیٰ۔ عیسیٰ درزمان خود چہ کردہ بود کہ بار دیگر آمد خواہد کرد۔‘‘
یعنی ہمیں سیدنا عمر فاروقt کی ضرورت ہے۔ سیدنا عیسیٰ کی ضرورت نہیں۔ اُنہوں نے
بعثت اولیٰ میں کیا کامیابی حاصل کی تھی؟‘‘ (تاریخ احمدیت: ج ۱ ص ۵۴۸)
الغرض اسلامی ریاست کے والی ہونے کے اعتبار سے عقیدہ ختم نبوت
کے تحفظ و دفاع میں جو کر دار والی کا بل نے انجام دیا وہ اسی تسلسل کا حصہ ہے جس کا
آغاز سیدنا نا ابوبکر صدیقt کے
دور ِ خلافت سے شروع ہوا اور یقینا تحریک ختم
نبوت میں والی کا بل کا یہ اقدام مثالی کر دار ہے جس کے پس منظر میں والی ریاست بھوپال
نواب صدیق حسن خاںa کا
کر دار مولانا محمد حسینa کی
عقیدہ ختم ِ نبوت کے تحفظ و دفاع میں خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔
9 ہم نے پہلے
عرض کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت ہے کہ وہ جس سے چاہے اپنے دین اسلام کے
تحفظ و دفاع کا کام لے‘ اس کے لیے کسی کے علم و فضل یا تقوی و زہد کی ضرورت نہیں‘ یہ
تو حمیت دینی اور حرارت ایمانی کا معاملہ ہے جس کے مقابلہ میں مومن ہر قسم کے اپنے
مفاد کو قربان کرنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ حالات کیسے ہی سنگین اور نا گفتہ بہ ہوں لیکن
وہ بہرحال ایمان کی آواز پر لبیک کہتا ہے۔ چنانچہ قادیانیت کے خلاف اولین فتوی جاری
کرنے والے شیخ الکل محدث ہند مسند شاہ ولی اللہ کے وارث سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ
تعالیٰ کے دبستان سے وابستہ اور قادیانیت کے تعاقب میں شب و روز مجاہدانہ کر دار اور
قصر ختم نبوت کے تحفظ و دفاع میں شمیر بے نیام حضرت مولانا محمد حسین بٹالویa وکیل
ختم نبوت حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیa اور مناظر ختم نبوت فاتح قادیان شیر پنجاب حضرت مولانا
ثناء اللہ امرتسریa سے
نسبت عقیدہ و عقیدت رکھنے والے غازی علم دینa کوئی عالم وفاضل تو نہ تھے‘ کسی منبر و محراب کی زینت
تو نہ تھے‘ کسی مسند تدریس و تعلیم کے وارث تو نہ تھے مگرجب مقدر نے یاوری کی تو بقول
سید عطاء اللہ شاہ بخاری a ؎
’’ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا۔‘‘
بہرحال اس کر دار کی ایک زندہ مثال یہ بھی ہے کہ برصغیر میں
برٹش حکومت کا سور ج چمک رہا تھا‘ مرزا قادیانی اس کی وفاداری میں چاپلوسی کی ہر حد
عبور کرکے اپنی جعلی نبوت کے تحفظ کا متلاشی تھا اور حکومت برطانیہ بھی قادیانیت کے
اس اپنے خود کاشتہ پودے کی آبیاری اور نگہداشت کر رہی تھی۔ اسی دوران ۱۹۳۲ء کو بہاولپور میں ایک مشہور مقدمہ زیرِ سماعت آیا کہ قادیانی چونکہ کافر ہیں
لہذا کسی مسلمان خاتون سے ان کا نکاح درست نہیں‘ اگر کوئی نکا ح ہے تو وہ اختلاف دین
کی بنا پر فسخ ہو گا۔ یہ مشہور مقدمہ ۱۹۳۲ء سے شروع ہو کر
۷ فروری ۱۹۳۵ء تک زیر سماعت رہا‘ بالآخر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا اور قادیانیوں کو غیر
مسلم قرار دے کر فسخ نکاح کا حکم دیا گیا۔ اس مقدمہ کی پوری کاروائی مطبوع ہے‘ دوران
سماعت مقدمہ میں ایک اہم اور بڑا نازک مرحلہ تب آیا جب انگریزی حکومت نے قادیانیت
کو تحفظ دینے کے لیے نواب آف ریاست بہاولپور پر دبائو ڈالنا شروع کیا کہ وہ جج سے
رابطہ کرکے مقدمہ ختم کروا دیں جو بالواسطہ قادیانیوں کی حمایت تھی۔ یقینا نواب آف
بہاولپو ر مجموعی طور پر حکومت بر طانیہ کے ماتحت تھے اور ان کے ریاستی مفادات بھی
ان سے وابستہ تھے تو ایسے حالات میں ایک طرف بر طانوی حکومت کا قادیانیت کے حق میں
دبائو تھا تو دوسری طرف عقیدہ ختم ِ نبوت پر ایمان کا دبائو تھا۔ اب ایک کڑا امتحان
اور آزمائش تھی کہ اس رزم حق و باطل میں، چراغ مصطفوی اور شرارہ بو لہبی کے مقابلہ
میں کون فاتح بنتا ہے۔ ان پریشان کن حالات میں نواب آف بہاولپور نے اپنے دوست اور
ہمعصر نواب عمر حیات ٹوانہ نواب آف کا لا باغ سے مشور ہ کیا کہ:
’’انگریز گورنمنٹ
کا مجھ پر دبائو ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرادیں۔ اب مجھے کیا کرنا
چاہیے؟‘‘
اس کے جواب میں بظاہر ایک دنیا دار نواب آف کالا باغ سر عمر
حیات ٹوانہ نے جو کچھ کہا آب ِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ:
ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر
دین و ایمان اور محبت رسالت مآب e کا تو ان سے سودا نہیں کیا آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں
کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلے میں اس پر دبائو ڈالنا نہیں چاہتا۔
(فیصلہ مقدمہ بہاولپور بروایت مولانا محمد علی جالندھری ص۳۲)
ان الفاظ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایمان کی حرارت موجود
ہو تو پھر بندہ مومن ہر قسم کے خطرات کو بالائے طاق رکھ کر اور تمام قسم کے مفادات
کو قربان کرکے اپنے عقیدہ کا تحفظ و دفاع کرتا ہے اس سلسلہ میں ان مسلمان حکمرانوں
اور والیان ریاست ہائے اسلامیہ کا یہ کر دار نہ صرف قابل رشک بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔
0 آگے بڑھیں
تو اس تسلسل میں ایک اور کر دار نظر آتا ہے کہ جب پاکستان میں ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء ربوہ میںقادیانی غنڈہ گردی کے نتیجہ میں مرزائیت کے خلاف ایک عوامی زور پکڑنے
لگا ، بالآخر تحفظ عقیدہ ختم نبوت او ر اس کے دفاع میں چلنے والی یہ تحریک نتیجہ خیز
ہوئی اور ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ قادیانیوں (احمدی، لاہور ی) کو غیر مسلم قرار دے
دیا گیا۔ بلا شبہ اس وقت بھی حکومت ِ وقت پر بالخصوص وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم
پر قادیانیوں کے تحفظ میں بین الا قوامی دبائو بھی تھا اور ہر قسم کا لالچ بھی لیکن
حکومت ِ وقت بالخصوص وزیر اعظم بھٹو نے ہر قسم کے دبائو یا لا لچ کو پایہ حقارت سے
ٹھکرا کر قوم ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کی آواز پر لبیک کہا۔ قومی اسمبلی میں ایک آئینی
ترمیم کے ذریعہ قادیانیوں (احمدی، لاہوری) کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
! اس فیصلہ کے
بعد مرزائیت کی ریشہ دوانیوں اور زیرِ زمین اسلام اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں اضافہ
ہو گیا اور نہ صرف کہ اُ نہوں نے خود کو دستور کے تابع بنانے سے انکار کیا بلکہ اپنی
تبلیغی و دعوتی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا جس پر پاکستانی حکومت اور قوم کو بجا طور
پر تشویش تھی۔ جس کے نتیجہ میں بالآخر صدر مملکت ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیت سے ملک
و ملت کو لاحق خطرات کو بھانتے ہوئے دستور میں مزید دفعات پر مبنی ۱۹۸۴ء کو آرڈیننس جاری کیا جس کے نتیجہ میں قادیانیت کے مسئلہ کو بڑی حد تک قانونی
اور دستوری طور پر حل کر دیا گیا ۔
اس وقت بھی صدر مملکت ضیاء الحق مرحوم پر بہت دبائو ڈالا گیا
اور بہت سی غیر مسلم اور صیہونی قوتوں نے بھرپور زور لگایا کہ مرزائیت کو تحفظ فراہم
کیا جائے لیکن ضیاء الحق مرحوم نے ایک مرد مومن کا کر دار ادا کیا اور اپنے ایمان و
عقیدہ کے مقابلہ میں کسی قسم کے دبائو یا لا لچ کی پروا کیے بغیر آرڈیننس جار ی کیا
اور اس کو بھرپور عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ۔ تلک عشرۃ کا ملۃ ۔
ہم نے مشتے نمونہ از خروارے مسلم حکمرانوں کے یہ واقعات اس لیے
عرض کیے ہیں کہ باغیان ختم نبوت جس طرح آج اسلام اور اُمت مسلمہ کے خلاف متحرک ہیں
اور پورا طاغوت جس انداز میں ان کی پشت پر ہے ان حالات میں ہمارے علماء و عوام سے بڑھ
کر ہمارے مسلم حکمرانوں کو اپنا کر دار ادا کرنا چاہیے بلکہ آج بھی لوگ کہیں گے کہ
[ان الناس قد جمعوا
لكم فا خشوهم]
اوریہ کہ
[ان نتبع الهدی معك
نتخطف من أرضنا]
’’اگر ہم نے آپ
کی پیروی کی تو ہم سے ہمارا ملک چھن جائے گا ۔ ‘‘
لیکن ہمارے حکمرانوں کو خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقt کا
کر دار سامنے رکھنا چاہیے جب آپ نے آج کے مقابلہ میں کہیں زیادہ خوفناک حالات میں
فرمایا تھا کہ
اللہ کی قسم! کچھ بھی ہو جائے جس جھنڈ ے کو نبی اکرم e نے لہرایا ، اُسے کبھی سر نگوں نہ ہونے دونگا ۔
خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقt نے کہا تھا کہ
’’ہم نے ان کو جزیہ
دے کر اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت اس لیے تو نہیں دی کہ وہ ہمارے پیغمبر e کی
گستا خیاں کریں۔‘‘
اور حضرت امام مالکa نے فرمایا تھا :
[ماذا للأمة بعد
نبیها۔]
’’اگر پیغمبر e محفوظ
نہیں تو پھر اُمت کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے!!‘‘
کم از کم نواب عمر حیات ٹوانہ مرحوم کے الفاظ ہی کو آئیڈیل
بنا لیجیے کہ ایمان بالرسول اور ان سے محبت و عقیدت کا تقاضا ہے ۔
{لَا تَجِدُ قَوْمًا
یَّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰه وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰه وَرَسُوْلَه
وَلَوْكانُوْا اٰبَائَهمْ اَوْ اَبْنَآئَهمْ اَوْ اِخْوَانَهمْ اَوْ عَشِیْرَتَهمْ
اُوْلٰٓپك كتَبَ فِیْ قُلُوْبِهمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَهمْ بِرُوْحٍ مِّنْه}
’’آ پ کسی قوم کو
ایسا نہیں پائیں گے کہ وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور پھر اللہ اور اس کے
رسول e سے
دشمنی رکھنے والوں سے محبت بھی کریں خواہ ان کے والدین ہوں یا بیٹے ، بھائی ہوں یا
رشتہ دار ان ہی کے دلوں میں (اللہ نے) ایمان لکھا ہے اور ان ہی کی روح القدس سے مدد
کی۔‘‘
چنانچہ اگر ہم اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنے ایمان وعقیدہ کو
محفوظ بنالیں بلکہ دوسروں کے ایمان کو لا حق خطرات سے بھی نمٹ لیں تو اس سے بڑی کوئی
سعادت نہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ ایمان و توکل کی قوت کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت
نہیں کر سکتی‘ جب ایمان و کفر کا معرکہ ہوتا ہے تو وہاں عددی قلت و کثرت فیصلہ نہیں
کرتی بلکہ وہاں فیصلہ ایمان کی قوت پر ہوتا ہے کہ :
{كمْ مِّنْ فِئَة
قَلِیْلَة غَلَبَتْ فِئَة كثِیْرَة بِاِذْنِ اللّٰه}
’’کتنی ہی کم جماعتیں
بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں۔‘‘
تاریخ اسلامی تو ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے جن سے ہمارے مسلم
حکمرانوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان مسلم حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے جنہوں
نے باغیان ختم نبوت کی کسی نہ کسی طرح سر کوبی کی اور قصرِ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع
میں ہر قسم کے خوف و خطر اور امید ورجا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ایمان و عقیدہ
کی آواز پر لبیک کہا ۔
No comments:
Post a Comment