درسِ قرآن
اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کا تقاضا
ارشادِ باری ہے:
﴿لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ١ؕ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْۤ
اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ﴾ (البقرۃ)
’’آسمانوں اور زمین
میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے۔تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ بہرحال
ان کا حساب تم سے لے لے گا۔‘‘
اللہ خالق و مالک نے اس وسیع کائنات کو پیدا فرمایا اور وہی
مالکِ زمین و آسمان ہے اور ان تمام چیزوں کا مالک ہے جو آسمان و زمین میں ہیں، تمام چیزوں کا اللہ ہی
کی ملک ہونا، یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جو دین اسلام کی اولین بنیاد ہے۔اس حقیقت کو تسلیم
کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس رب کائنات
کے آگے سرِ اطاعت جھکا دے۔انسان کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا عمل جائز اور
روا نہیں ہو سکتا، کیونکہ جو کچھ آسمانوں
اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا تو ہے۔آیت کریمہ کا یہ ٹکڑا اپنے اندر بیک وقت تین
مفہوم رکھتا ہے۔ایک تو یہ کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے، دوسرا یہ کہ ہر چیز
اسی کے اختیار و تصرف میں ہے، تیسرا یہ کہ بالآخر ہر چیز کا مرجع اللہ سبحانہ وتعالیٰ
ہی ہے۔
اس کے بعد رب کریم نے مزید توضیح کے ساتھ فرمادیا کہ ہر انسان
فرداً فرداً اپنے خالق کے سامنے ذمہ دار اور
جواب دہ ہے۔اور یہ بھی کہ جس بادشاہ زمین و آسمان کے سامنے انسان جواب دہ ہے، وہ غیب
و شہادت کا علم رکھنے والا ہے، حتیٰ کہ دلوں کے چھپے ہوئے ارادے اور خیالات تک اس سے
پوشیدہ نہیں ہیں۔
﴿وَ اِنْ تُبْدُوْا
مَا فِيْۤ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْکُمْ بِهِ اللّٰهُ﴾
’’تم اپنے دل کی
باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو اس لیے جانتا ہے کیونکہ وہ خالق
کائنات ہے اورانسان بھی دوسری تمام مخلوقات کی طرح اس کا مملوک و محکوم ہے لیکن یہ مخلوق بعض خصوصیات
و امتیازات کی حامل ہے۔اسے کائنات میں ایک مخصوص حیثیت عطا کی گئی ہے۔اس کا ایک امتیاز
یہ ہے کہ وہ کائنات کی دوسری موجودات کی تسخیر اور ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال
کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اس امتیازی حیثیت کے عین تقاضے کے مطابق انسان کو اپنے خالق
کے حضور ذمہ دار اور جوابدہ بھی گردانا گیا ہے۔ کائنات میں ان قوتوں اور صلاحیتوں کے
استعمال کے جو وسیع مواقع حاصل ہیں، ان سے استفادہ کرنے میں انسان اپنے مالک کے حضور
جوابدہ ہے۔اسی حقیقت کو قرآن کریم میں محاسبہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یعنی جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن امور سے بچنے
کی تلقین کی گئی ہے ان میں انسان کا کیا رد عمل رہا؟ اور کیا انسان نے اللہ کی احکامات
کو دل سے تسلیم کیا یا کہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطرصرف نام کا مسلمان رہا اور دل میں
نفاق کو چھپائے رکھا، اسلام کا نام لیوا تو
رہا ،لیکن علماء اسلام سے بغض و عداوت برتتا
رہا، ان پوشیدہ خیالات و اعمال کے بارہ میں باز پرس ہی محاسبہ ہے۔ جو انسان اپنے اندر
اپنے محاسبہ کا خوف رکھتا ہے تو وہ زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے اور کسی
بھی عمل سے پہلے اس بات کی یقین دہانی کرتا ہے کہ اس پر خالق کا کیا حکم ہے۔ البتہ
اگر غلطی سے کسی برے عمل کا خیال انسان کے دل میں آجائے اور اس پر وہ عمل بھی نہ کرسکے
او ر پھر اس خیال کے آنے پر اسے ندامت بھی ہوتو ایسے وساوس اور خیالات پر اللہ عفو
و درگزر کا معاملہ فرمائیں گے۔
درسِ حدیث
کسی کی طرف اسلحہ سیدھا کرنا
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيّ
ﷺ، قَالَ: "لَا يُشِيرُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ".]
(متفق عليه)
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے وہ نبی کریمe سے
روایت کرتے ہیں آپe نے
فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی طرف اسلحہ نہ لہرائے۔‘‘
اپنی حفاظت یا شکار کے لیے اسلحہ رکھنا جائز ہے مگر اس کی سرعام
نمائش کرنا سخت منع ہے۔ ضرورت کے وقت اسلحہ ساتھ بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن اسے چھپا
کر رکھا جائے۔ اپنے اسلحہ سے کسی شخص کو ڈرانا اور مذاق میں اس کی طرف تان لینا خلاف
شریعت ہے۔ بعض اوقات غلطی سے اسلحہ چل سکتا ہے‘ اگر وہ کسی کی طرف رخ کر کے پکڑا گیا
ہے یا اسے ڈرانے کے لیے اس کی طرف کیا گیا ہے تو نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات وواقعات
سامنے آتے رہتے ہیں کہ مذاق مذاق میں اسلحہ چل جاتا ہے اور دوستوں کے ہاتھوں دوست
زخمی ہو جاتا ہے اور بعض اوقات موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
شریعت کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے لہٰذا حضور اکرمe نے
تعلیم فرمائی ہے کہ کوئی کسی کی طرف اسلحہ تان کر اسے خوفزدہ نہ کرے۔ اسلحہ تو دور
کی بات ہے چھری بھی دوسرے کی طرف سیدھی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چھری کسی شخص کو پکڑانے
کا ادب یہ ہے کہ اس کا پھل یعنی تیز دھار اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دستی اسے پکڑائی جائے
تا کہ غلطی سے بھی کوئی نقصان نہ ہو۔
آجکل اسلحہ لوگوں کے پاس عام ہے‘ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی
اپنا اسلحہ ساتھ لے کر چلنا شروع کر دیتے ہیں جس کا بعض دفعہ نقصان بھی ہوتا ہے۔ شادی
بیاہ کے موقعوں پر ایسے حالات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اسلحہ تیار کرنا اس کی خرید وفروخت
اور اپنے تحفظ کے لیے رکھنا درست ہے۔ جبکہ غرض یہ ہے کہ میں اس سے اپنے دشمن کے خلاف
جہاد کروں گا‘ ملک کی حدود کی حفاظت کروں گا اور قانون کی پاسداری کروں گا لیکن نمائش
کے لیے یا اپنی برتری ظاہر کرنے کے لیے کسی بھی قسم کا اسلحہ رکھنا نقصان دہ ثابت ہو
سکتا ہے۔
قرآن نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف ہر قسم کی تیاری کرنے
کا حکم دیا ہے مگر آپس میں محبت‘ یگانگت اور رواداری کی تعلیم دی ہے۔ حکومتوں نے اسلحہ
کے لائسنس جاری کر رکھے ہیں تا کہ کوئی غیر قانونی کارروائی نہ کر سکے۔ اس کے باوجود
ہشتگرد غیر قانونی اسلحہ استعمال کرتے ہیں‘ اس سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے
عناصر کا کھوج لگا کر انہیں غیر مسلح کیا جائے اور امن وامان کو بحال رکھنے کی ہر ممکن
کوشش کی جائے۔
No comments:
Post a Comment