اقوامِ
متحدہ سے لا حاصل امیدیں
ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان اس وقت امریکہ میں جاری اقوام متحدہ کے اجلاس میں
شریک ہیں اور ہفت روزہ اہل حدیث کی اشاعت سے پہلے یعنی ۲۷ ستمبر کو وہ اقوام عالم سے خطاب کریں گے۔ ان کے خطاب کو تاریخی خطاب قرار دیا جا
رہا ہے جس سے کشمیر کے مسئلے پر ان کی پالیسی واضح ہو گی۔ اقوام اس سنگین مسئلہ پر
ہمارا کس قدر ساتھ دیتے ہیں اور بھارت کی ظالمانہ اور دہشت گردانہ رویوں کی مذمت میں
عملا ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟ اس حوالے سے امریکہ کا کردار تو بہت واضح ہو چکا ہے۔
ہوسٹن شہر جہاں بھارتی وزیر اعظم نے امریکہ کی آشیر باد سے بہت بڑا جلسہ کیا اور اس
کے اس جلسہ میں امریکی صدر ٹرمپ کی شرکت سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔
کوئی بھی صاحب دیدہ وبینا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرے گا کہ اس وقت بھارت نہیں بلکہ
امریکہ انڈیا کی گود میں بیٹھا ہے اور بھارت کی ہر ظالمانہ حرکت پر اس کی پیٹھ تھپتھپا
رہا ہے۔
مودی نے اس جلسے میں اپنے خبث باطن کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ امریکہ میں
۱۱/۹ اور ممبئی میں ۱۱/۲۶ کے حملے کرنے والوں کے کُھرے کہاں جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسلامی دہشت گردی
کرنے والوں اور اس کی حمایت کرنے والوں کے خلاف مل کر جنگ لڑی جائے۔ اس کے بعد اس نے
کہا کہ امریکہ کے وائیٹ ہاؤس میں ہندوستان کا سچا دوست موجود ہے۔ اس کے جواب میں صدر
ٹرمپ نے بھی مودی کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر لہراتے ہوئے اسے امریکہ کا انتہائی وفادار
دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بے گناہ ہندوستانیوں کو انتہا پسندوں اور اسلامی دہشت
گردوں سے بچانا ہے۔ اسی دوستی کو نبھانے اور اسلامی دہشت گردی کی آڑ میں پاکستان پر
دباؤ ڈال کر اسے کشمیریوں کی حمایت سے دستبردار کرانے کے لیے امریکہ نے نومبر میں
پاکستان کی سرحد کے قریب امریکہ بھارت مشترکہ فوجی مشقوں کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ قارئین
کو شاید ماضی کے اوراق یاد ہوں کہ یہی بھارت کبھی سوویت یونین کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں
کرتا تھا اور بھارت روس کو پاکستان کے گرم پانیوں تک لانے کی راہیں ہموار کرتا تھا
مگر آج وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کشمیر کے قضیے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرنا چاہتا
ہے۔
مودی اور ٹرمپ کے عزائم سے یہ بات واضح ہو گئی اور کسی کو اس میں شک وشبہ بھی نہیں
ہونا چاہیے کہ امریکہ اس وقت مظلوم کشمیریوں کے ساتھ نہیں اور نہ ہی وہ انصاف کے ساتھ
ہے بلکہ وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہی مودی جس کی گجرات
میں درندگی کی وجہ سے امریکہ نے اسے جنگی جرائم کا مجرم ڈیکلیئر کر کے اس پر امریکہ
میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی مگر آج یہی مودی ٹرمپ کا منظور نظر ہے۔
بھارت نے جو کشمیریوں پر ظلم وستم کی سیاہ رات طاری کر رکھی ہے آج وہاں کرفیو کو
تقریبا دو مہینے ہونے کو ہیں۔ کشمیریوں کی جنت زار کو ہندوستانی دہشت گرد فوج نے جہنم
میں بدل دیا ہے۔ آئینی شق ۳۷۰ کے خاتمے کے اعلان سے پہلے وہاں سات لاکھ بھارتی
فوج تھی مگر آج وہاں نو لاکھ بھارتی درندے موجود ہیں جن کی بندوقیں کشمیری نوجوانوں
کے آزادی مانگنے کے جرم میں سینے چھلنی کر رہی ہیں۔ جن کی بہنوں‘ بیٹیوں کی عزتوں کو
پامال کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی اسلام دشمنی کے سبب اسے اسلامی دہشت گردی
تو نظر آ رہی ہے مگر ہندوستان کے اندر گائے ذبح کرنے پر مسلمانوں کو ذبح کرنے اور کشمیر
میں انتہائی وحشت ودرندگی اور ہندو دہشت گردی نظر نہیں آ رہی۔ یہ سب ذمہ داری کس کی
تھی کہ دنیا کے سامنے کشمیر اور ہندوستانی مسلمانوں کا کیس مضبوط بنیادوں پر لڑتے؟
یہ ہماری ذمہ داری تھی لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس میں عافیت سمجھی کہ مسئلہ کشمیر ہمیشہ
زندہ رہے اور ان کے اقتدار کی راہ ہمورا ہوتی رہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ستر کی دہائی میں بھٹو نے کشمیر ایشو پر ایسی شاندار جذباتی تقریر
کی تھی کہ کشمیریوں کے دل میں اتر گئی لیکن کیا کشمیر آزاد ہوا یا اس کی طرف کوئی پیش
رفت ہوئی؟ کچھ بھی نہیں ہوا۔موجودہ حکومت بھی یہی دعوے کر رہی ہے اور خان صاحب اپنی
تقریر سے کشمیر کی تقدیر بدلنے کے دعویدار ہیں۔ دوسری طرف کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ دنیا
کے ۵۸ ممالک ہمارے ساتھ ہیں لیکن ہم یونائیٹڈ نیشنز
ہیومن رائٹس کونسل میں کشمیر پر قرار داد لانے میں پندرہ ممالک کو بھی ساتھ نہ ملا
سکے۔ جبکہ ہندوستان کے ظلم کے ساتھ اس وقت تمام دنیائے کفر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی
ہے۔ ان حالات میں ہمارا ایمان قرآن کی صداقت پر مزید پختہ ہو گیا ہے کہ ’’یہودی عیسائی
اور مشرکین کبھی بھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تم انہی جیسے ہو جاؤ۔‘‘
… یہ اقوام متحدہ بھی انہی کفار کی لونڈی ہے۔ یو این ہو‘ سلامتی کونسل ہو یا کوئی اور
ادارہ یہ سب مسلمانوں کو دبا کر رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اگر مسئلہ ایسٹ تیمور
کا ہو یا سوڈان کا تو ساری دنیا کفر اور یہ ادارے لمحوں میں انڈونیشیا اور سوڈان کو
توڑ دیتے ہیں لیکن یہ سب غاصب اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لہٰذا جناب وزیر
اعظم صاحب یو این میں اپنا موقف ضرور رکھیں لیکن ان کافروں سے کبھی امید نہ رکھیں کہ
کشمیر آپ کو آزاد کرا دیں گے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ یہ اسے اپنے زور بازو سے لیا جا
سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment