امام مالکa ... ایک تعارف
تحریر: جناب حافظ خضر حیات
اسم گرامی ونسب نامہ اور کنیت ولقب:
ابوعبداللہ مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمرو بن الحارث
بن غیمان بن خیل بن عمرو الحمیری الاصبحی المدنی التیمی القرشی۔ (طبقات ابن سعد: ۵/۴۶۵‘ وفیات الاعیان لابن خلکان: ۴/۱۳۵)
ولادتِ با سعادت:
امام صاحب کے سن ولادت کے متعلق تین اقوال ہیں: ۹۳ھ‘ ۹۴ھ اور ۹۲ھ لیکن خود امام
صاحب نے اپنی تاریخ ولادت ۹۳ھ بیان کی ہے لہٰذا
امام ذہبیa نے
اسی بات کو ترجیح دی ہے۔ (الثقات لابن حبان: ۷/۴۵۹‘ سیر اعلام النبلاء: ۷/۱۵۰‘ تاریخ الاسلام للذہبی: ۴/۷۱۹)
پرورش ونشو نما:
امام صاحب علم وفضل سے معمور گھرانے میں پیدا ہوئے‘ آپ کے دادا
ابوعامرt شرف
صحابیت سے فیض یافتہ تھے۔ (الاصابۃ لابن حجر: ۷/۲۴۸) جبکہ والد محترم کا شمار صحابہ کرام] کے کبار تلامذہ میں ہوتا ہے۔ (مشاہیر علماء الامصار
لابن حبان: ۲۱۲)
آپ کے ایک بھائی بھی پختہ عالم دین تھے‘ امام صاحب بیان فرماتے
ہیں:
’’ابن شہاب زہری
کے ہم عمر میرے ایک برادر تھے۔ والد محترم نے ہمارا امتحان لینے کے لیے ایک دن سوال
پوچھا۔ بھائی نے صحبح جواب دیا‘ جبکہ مجھ سے غلطی ہو گئی تو والد محترم نے فرمایا:
تمہیں کبوتروں نے طلب علم سے غافل کر دیا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات
بہت ناگوار گذری۔ میں نے علم حاصل کرنے کا عزم باندھا اور سات آٹھ سال تک ابن ہرمز
کی شاگردی اختیار کیے رکھی۔ میں تھیلی میں کھجوریں ڈال کر ان کی اولاد کو دے دیتا اور
کہتا کہ اگر کوئی شیخ کے بارے میں پوچھے تو کہہ دیں کہ مشغول ہیں۔ ایک دفعہ شیخ نے
خادمہ سے کہا کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟ اس نے دیکھا کہ مالک کھڑے ہیں‘ برہم ہو کر
بولی: وہی اشقر (سفید بالوں اور آنکھوں والا) ہے اور تو کوئی نہیں۔ شیخ نے کہا: اس
کو آنے دو‘ یہ لوگوں میں عالم کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ (ترتیب المدارک للقاضی عیاض: ۱/۱۱۵)
امام صاحب سترہ سال کی عمر میں نافع مولیٰ عمر‘ سعیدالمقبری‘
ابن شہاب زہری اور ابن دینار جیسے اجل علماء سے شرفِ تلمذ حاصل کر چکے تھے۔ (تہذیب
الاسماء واللغات للنووی: ۲/۷۵‘ تاریخ الاسلام للذہبی:
۴/۷۱۹) اور اکیس سال کی عمر میں باقاعدہ درس وتدریس اور مسند افتاء
سنبھال لی تھی اور پھر اطراف واکناف عالم سے علماء وطلبہ آپ کے پاس حاضر ہونا شروع
ہوئے۔ یہ سلسلہ ابوجعفر المنصور کی خلافت سے لے کر ہارون الرشید کے زمانہ تک عروج کو
پہنچا اور آپ کی وفات تک جاری وساری رہا۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی: ۷/۱۵۴)
خود امام صاحب سے طلب علم یا درس وتدریس کے لیے سفر کرنا منقول
نہیں۔ آپ ساری عمر مدینہ منورہ میں ہی مقیم رہے۔ سوائے حج کے مکہ مکرمہ کے علاوہ کہیں
سفر نہیں کیا۔ بلکہ ایک بار خلیفہ مہدی نے آپ کو بغداد لے جانے کی خواہش ظاہر کی‘ آپ
نے درج ذیل حدیث نبوی پڑھ کر یہ پیشکش ٹھکرا دی:
[المدینة خیر لهم
لو كانوا یعلمون] (مسلم)
’’کاش! لوگ جان لیں
کہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے۔‘‘
سر پائے مبارک اور عادات وخصائل:
امام صاحب طویل قد‘ بھاری جسم کے مالک تھے۔ سر اور داڑھی کے
بال سفید تھے‘ لباس بھی عمدہ سفید زیب تن کیا کرتے۔ انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنتے‘
خضاب وغیرہ استعمال نہ کرتے اور مونچھوں کو حلق کرنے کو عیب شمار کرتے تھے۔ آپ کی مجلس
انواع واقسام کے قالین وغیرہ سے مزین انتہائی پر تکلف ہوتی۔ شور وغل اور قیل وقال کی
ذرا گنجائش نہ تھی۔ سب ادب واحترام اور ہیبت سے خاموش رہتے۔ سوال کرنے کی ہمت نہ تھی۔
باہر سے آنے والے اجنبی اور مہمان لوگ بعض دفعہ حدیث وغیرہ کے متعلق سوال کر لیا کرتے
تھے۔ حبیب نامی آپ کے ایک کاتب تھے‘ وہی آپ کی کتابوں کی قراء ت کرتے‘ باقی سب سماعت
فرماتے۔ اگر کہیں غلطی ہوتی تو امام صاحب خود ہی وضاحت فرماتے۔ (الطبقات لابن سعد:
۵/۴۶۵‘ ۴۶۸‘
۴۶۹)
راوی بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب درس حدیث کے لیے باوضوء ہو
کر بہترین لباس زیب تن کر کے‘ بالوں کو سنوار کر اور بہترین خوشبو لگا کر نکلتے اور
فرماتے: یہ حدیث رسولe کی
تعظیم وتوقیر کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی بآواز بلند بولتا تو یہ آیت مبارکہ پڑھتے:
{لَا تَرْفَعُوْٓا
اَصْوَاتَكمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ}
اور فرماتے:
’’نبی کریمe کی
حدیث کے پاس رفع صوت آپe کے
پاس رفع صوت کے مترادف ہے۔‘‘ (تہذیب الاسماء واللغات: ۲/۷۷)
شیوخ واساتذہ اور تلامذہ:
امام صاحب اساتذہ وشیوخ کے انتخاب میں حد درجہ احتیاط کیا کرتے
تھے۔ بہت سارے نیک اور صالح لوگوں کو صرف اس لیے چھوڑ دیا کرتے تھے کہ ان کی علمی قد
وقامت امام صاحب کے ذوق ومزاج کے مطابق نہ ہوتی۔ امام صاحب نے وقت کے جلیل القدر اور
اکابر علماء ومحدثین سے ہی استفادہ کیا جن میں سے چند مشاہیر کے نام یوں ہیں: نافع
مولیٰ ابن عمر‘ سعید المقری‘ نعیم المجمر‘ وہب بن کیسان‘ زہری‘ ابن المنکدر عبداللہ
بن دینار‘ ایوب سختیانی‘ ابوالزناد اور ربیعۃ الرائے (الرأی) جیسے علمائے مدینہ۔
(تاریخ الاسلام للذہبی: ۴/۷۱۹)
امام صاحب کے تلامذہ میں شافعی‘ ثوری‘ ابن عیینہ‘ شعبہ‘ یحییٰ
انصاری‘ یحییٰ القطان‘ ابن مہدی اور ابن مبارک جیسے جلیل القدر ائمہ‘ محدثین اور فقہاء
کی ایک طویل فہرست کتب تراجم میں موجود ہے۔ (تہذیب الاسماء واللغات: ۲/۷۵)
عقیدہ ومسلک:
امام صاحب حدیث وسنت‘ عقیدہ وفقہ کے امام ہیں۔ آپ ان جلیل القدر
تبع تابعین میں سے ہیں جو بطور اُسوہ ونمونہ امت میں مشہور ہوئے۔ مذاہب اربعہ میں سے
دوسرا مذہب آپ کی طرف منسوب ہے۔ امام شاطبیa نے امام مالک بن انس کا ایک عظیم الشان قول نقل فرمایا
ہے:
[قبض رسول اللهﷺ
وقد تم هذا الأمر واستكمل، فینبغی أن تتبع آثار رسول اللهﷺ وأصحابه، ولا یتبع الرأی،
فإنه متی ما اتبع الرأی جاء رجل آخر أقوی فی الرأی منك فاتبعته، فكلما غلبه رجل اتبعه،
أری أن هذا بعد لم یتم۔] (الاعتصام للشاطبی: ۱/۱۴۰ و۲/۶۶۰)
’’نبی کریمe دین
کو مکمل کر کے گئے‘ لہٰذا نبی کریمe اور آپ کے صحابہ کرام] کی ہی اتباع کریں۔ رائے اور قیاس کی طرف نہ جائیں کیونکہ
عقل پرستی کوئی معیار نہیں۔ آپ کوئی عقلی نکتہ لائیں گے‘ کل کو کوئی دوسرا اس کا توڑ
لے آئے گا اور عقل تو عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے‘ لہٰذا انسان کسی ایک بات اور موقف
پر مطمئن نہ ہو سکے گا۔‘‘
امام صاحب کا ایک اور قول ہے جو ضرب المثل کی حد تک مشہور ہے‘
فرماتے ہیں:
[السنة سفینة نوح
من ركبها نجا ومن تخلف عنها غرق] (ذم الكلام للهروی: ص ۲۱۰)
’’سنت تو سفینۂ
نوح ہے‘ جو اس میں سوار ہو گا محفوظ رہے گا‘ اس سے محروم رہنے والا غرق ہو گا۔‘‘
ہیثم بن جمیل بیان فرماتے ہیں کہ میں نے امام صاحب سے پوچھا:
کچھ لوگ عمر فاروقt اور
ابراہیم نخعیa کے
اقوال ذکر کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم ابراہیم کے قول کو لیتے ہیں۔ کیا یہ درست
ہے؟!
امام صاحب نے پوچھا: کیا عمرt کا موقف صحیح سند سے ثابت ہوتا ہے؟ کہا: جی تو فرمایا:
’’ایسے لوگوں سے
اس منہجی انحراف سے توبہ کروائی جائے جو صحابہ کی بات چھوڑتے ہیں۔‘‘
امام صاحب اتباع کتاب وسنت کا درس دیا کرتے تھے:
[قال معن بن عیسی:
سمعت مالكا یقول: إنما أنا بشر أخطئ وأصیب، فانظروا فی رأیی، فكل ما وافق الكتاب والسنة
فخذوا به، وكل ما لم یوافق الكتاب والسنة فاتركوه] (جامع بیان العلم وفضله لابن عبدالبر:
۱/۷۷۵)
’’معن بن عیسیٰ بیان
کرتے ہیں‘ امام مالکa نے
فرمایا: میں ایک انسان ہوں‘ جس سے درست کے ساتھ ساتھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ میرے موقف
کو پرکھو‘ جو کتاب وسنت کے مطابق ہو اس کو لو اور کتاب وسنت کے مخالف کو چھوڑ دو۔‘‘
امام صاحب بسا اوقات یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے:
وخیر أمور الدین ما كان سنة
وشر الأمور المحدثات البدائع
(الاعتصام للشاطبی: ۱/۱۱۵)
’’بہترین دینی کام
وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو اور بدترین وہ جو بدعات وخرافات پر مشتمل ہو۔‘‘
علمی مقام اور تعریف وتوصیف:
معن بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ مالک ثقہ‘ ثبت‘ مامون‘ پرہیز گار‘
عالم وحجت تھے۔ (الطبقات لابن سعد: ۵/۴۶۹)
امام شافعیa فرماتے
ہیں:
’’سنت واثر میں مالک
کی حیثیت ایک ستارے سی ہے‘ اگر مالک اور ابن عیینہ نہ ہوتے تو حجاز علم سے محروم رہتا۔
مالک کو کسی حدیث میں ذرا شک ہوتا‘ تو مکمل طور پر اس سے کنارہ کشی کر لیتے۔‘‘ پھر
فرمایا: ’’مالک میرے معلم ہیں‘ انہی سے ہم نے علم حاصل کیا ہے۔‘‘
راوی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعیa‘ امام مالکa پر کسی کو برتری دینے کے قائل نہ تھے۔
وہب بن خالد کا بیان ہے:
’’مشرق ومغرب میں
مالک سے بڑھ کر حدیث نبوی کا کوئی امین موجود نہیں۔‘‘ (تہذیب الاسماء واللغات: ۲/۷۶)
ایک مشہور حدیث ہے:
[یوشك ان یضرب الناس
اكباد الابل یطلبون العلم فلا یجدون احدا اعلم من عالم المدینة] (ترمذی: ۵/۴۷، باب
ما جاء فی عالم المدینة)
’’لوگ علمی سیرابی
کے لیے دور دراز کے سفر کریں گے‘ لیکن انہیں عالم مدینہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہ ملے
گا۔‘‘
سفیان بن عیینہ وعبدالرزاق فرماتے ہیں:
’’یہاں عالم مدینہ
سے مراد امام مالک بن انس ہیں۔‘‘ (ترمذی: ۵/۴۷)
ابن عیینہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ
’’مالک سے بڑھ کر
راویوں میں احتیاط کرنے والا اور ان کا علم رکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل
لابن ابی حاتم: ۸/۲۰۴)
امام احمدa سے
پوچھا گیا کہ زہری کے تلامذہ میں روایت حدیث میں سب سے زیادہ پختہ کون ہے؟ فرمایا:
’’مالک بن انس‘ جو ہر چیز میں پختگی رکھتے ہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ۸/۲۰۵)
حماد بن زید خود بہت بڑے محدث ہیں۔ امام مالکa کی
وفات کی خبر ملی‘ بے ساختہ گویا ہوئے: ’’اللہ رحم کرے‘ اب ان جیسا کوئی نہیں رہا۔‘‘
(تہذیب الاسماء واللغات: ۲/۷۷)
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
’’فقہائے مدینہ میں
رواۃ کی جانچ پڑتال کی داغ بیل ڈالنے والے مالک ہیں‘ جنہوں نے صحیح وضعیف میں امتیاز
کا منہج قائم کیا اور اسی کو امام شافعیa نے آگے بڑھایا۔‘‘ (الثقات لابن حبان: ۷/۴۵۹)
امام ذہبی کی وسعت مطالعہ امام کی شان میں نذرانۂ عقیدت یوں
پیش کرتی ہے:
’’امام مالکa کو
کچھ ایسی فضیلتیں حاصل ہوئی ہیں کہ میرے علم کی حد تک دیگر لوگ ان سے محروم رہے ہیں۔
ایک: طول عمر اور علو روایت۔ دوسرا: ذہن رسا وفہم عمیق اور وسعت علم۔ تیسرا: تمام علماء
کا ان کے حجت وصحیح الروایہ ہونے پر اتفاق۔ چوتھا: امام کی دیانت وعدالت اور اتباع
سنت پر یک زبان ہونا۔ پانچواں: فقہ وفتویٰ اور اصول استدلال میں ان کی مہارت کا اعتراف
کرنا۔‘‘ (تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ۱/۱۵۷)
تالیفات:
موطأ امام کی شہرۂ آفاق تصنیف ہے‘ اس کے علاوہ بھی رسالۃ فی
القدر‘ رسالۃ فی النجوم ومنازل القمر اور الاقضیہ اور اجماع اہل المدینہ کے ناموں سے
ان کے رسائل کا ذکر ملتا ہے۔ (ترتیب المدارک وتقریب المسالک للقاضی عیاض: ۲/۹۰)
مالکیوں نے امام کے علوم وفنون سے متعلق کئی ایک مجموعے ترتیب
دیئے ہیں جن میں المدونہ سب سے معروف ہے۔
آزمائش اور صبر وثبات:
کئی ایک جلیل القدر علماء کلمہ حق کہنے کی پاداش میں وقت کے
حکمرانوں کے زیر عتاب رہے‘ امام مالک بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ جبری طلاق نہیں ہوتی‘
امام کا مشہور فتویٰ ہے۔ یہ حاکم وقت کو پسند نہیں تھا۔ جس کے سبب امام صاحب کو بہت
مشقت واذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعہ کی تمام تفصیلات قاضی عیاض نے ترتیب المدارک
(۲/۱۳۰) میں ذکر کی ہیں‘ حافظ عبداللہ محدث روپڑیa نے
اس کا ذکر اپنی کتاب حکومت اور علمائے ربانی (ص ۲۵ تا ۲۹) میں بھی کیا ہے‘ وہیں سے خلاصۃً اسے یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
’’بعض فقہاء نے ایک
ایسا فتویٰ دے دیا کہ امراء وسلاطین کی عیاشی وشہوت رانی کے لیے انتہائی زبردست دلیل
اور بہترین حربہ ہونے کے ساتھ نصوص شرعیہ کے بالکل خلاف ومنافی تھا‘ فتویٰ کے الفاظ
یہ تھے: اگر کسی مرد سے زبردستی یا ڈرا دھمکا کر (قتل وغیرہ کا خوف دلا کر) اس کی عورت
سے طلاق حاصل کر لی جائے تو ایسی طلاق بالکل حق وصواب اور جائز وصحیح ہے۔‘‘
جب یہ فتویٰ امام دار الہجرہ کے روبرو پیش ہوا تو آپ نے [لا طلاق ولا عتاق فی إغلاق] (سنن ابی داؤد: ۲/۲۵۸، ابن ماجہ: ۱/۶۰۰۔ امام البانیa نے
اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔) والی حدیث کے پیش نظر علی الاعلان اس کی تردید وتکذیب
کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ [طلاق المكره لیس بشیء] ’’یعنی جبر واکراہ سے حاصل کردہ طلاق بالکل لغو وباطل ہے۔‘‘
ایسی مطلقہ عورت سے نکاح کرنا ویسے ہی حرام وناجائز ہے جیسا کہ عام منکوحہ عورتوں سے
شریعت نے حرام وناجائز قرار دیا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ عالم مدینہ اس حدیث سے یہ فتویٰ بھی دیتے کہ
جس طرح طلاق المکرہ غلط وباطل ہے‘ ویسے ہی بزور شمشیر بیعت خلافت حاصل کرنے والے خلیفہ
کی بیعت بھی شرعا جائز وصحیح نہیں۔
منصور کی بیعت خلافت چونکہ جبر واکراہ پر مبنی تھی اس لیے عالم
مدینہ کے دونوں اعلانات بظاہر حکومت کو کھلا چیلنج تھے۔ اس طرح طرہ یہ ہوا کہ ان دنوں
مدینہ منورہ کا گورنر جعفر بن سلیمان تھا جو منصور عباسی کا چچا زاد بھائی تھا۔ جب
دونوں اعلانات اس نے سنے تو شاہی قرابت اور حکومت کے نشہ سے سرشار اس نے امام صاحب
کو انتباہی نوٹس دیا کہ اپنے فتویٰ سے رجوع کریں یا کم از کم آئندہ ایسا فتویٰ نہ دیں۔
حضرت امام مالکa کا
وجود ہی فطرتاً کتاب وسنت کی نشر واشاعت کے لیے مختص تھا‘ بنا بریں آپ نے گورنر جعفر
بن سلیمان کے انتباہی نوٹس کی ایک ذرہ پروا نہ کی‘ بلکہ مزید جوش وخروش سے رد وتردید
کرتے ہوئے کھلم کھلا اعلان کرتے رہے: [طلاق المکرہ لیس بشیء] یعنی ’’جبر واکراہ سے حاصل کردہ طلاق غلط وباطل ہے۔‘‘
جعفر شاہی آرڈر کی توہین دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اور پولیس
کو حکم دیا کہ امام صاحب کو اخلاقی مجرم کی حیثیت سے انتہائی ذلیل کن حالت میں پیش
کیا جائے۔ امام صاحب کو لایا گیا‘ جعفر نے اپنا مطالبہ دہرایا۔ امام صاحب نے پھر اسی
شان سے اسے ٹھکرا دیا اور فرمایا:
’’اگر تمہارے مفتیوں
کے پاس کوئی نص قطعی موجود ہے تو پیش کرو‘ ورنہ ہم فتویٰ کو واپس لینے یا اس سے باز
رہنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔‘‘
والی مدینہ نے زچ ہو کر امام صاحب کو مار پیٹ کا حکم دے دیا۔
امام صاحب کوڑوں کی ضرب سے چلانے کی بجائے [طلاق المکرہ لیس بشیء] کے نعرے بلند کرتے جاتے۔ اپنی خفت وندامت کو مٹانے کے لیے ظالم
وقت نے حکم دیا کہ اس باغی کا منہ کالا کر کے پورے شہر میں گھمایا جائے۔ امام صاحب
وہاں بھی سرعام یوں فرمانے لگے:
’’مجھے جاننے والے
تو خوب جانتے ہیں‘ جو نہیں جانتا وہ سن لے کہ میں مالک بن انس اصبحی ہوں اور ڈنکے کی
چوٹ پر کہتا ہوں کہ جبر واکراہ کی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘
والی مدینہ کو خبر کی گئی کہ تم نے امام کو ذلیل ورسوا کرنے
کا پلان کیا تھا لیکن امام الٹا حکومت کے ظلم وغصب کی داستان گلی کوچوں میں بیان کر
رہے ہیں تو والی مدینہ نے کہا کہ امام صاحب کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ حکومتی
کارندوں سے خلاصی پاتے ہی امام صاحب مسجد نبوی گئے وہاں بطور شکرانہ دوگانہ ادا کیا۔
خلیفہ منصور کو جب یہ صورت حال پہنچی تو بہت برہم ہوا اور والی مدینہ جعفر کو کہلا
بھیجا کہ تمہاری بیوقوفی کی یہ سزا ہے کہ ابھی فورا گدھے پر سوار ہو کر دار الخلافہ
بغداد حاضری دو‘ خلیفہ منصور نے جعفر بن سلیمان کو معزول کر دیا اور خود مدینہ حاضری
دے کر امام صاحب سے معذرت خواہ ہوا۔
یہ تھا وقت کے امام مالک بن انس کا وقت کے حکمران سے تعامل‘
ان کی شجاعت وبہادری اور کلمہ حق سے دین کا سربلند ہوا اور وقت کے حکمران کو ذلت وپستی
کا سامنا کرنا پڑا۔
وفات:
علم وعمل اور اشاعت کتاب وسنت سے بھر پور ۸۵ سالہ زندگی گزار
کر امام مالک ۱۴ ربیع الاول ۱۷۹ھ میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ یہ خلیفہ ہارون الرشید کا زمانہ تھا۔ مدینہ کے
والی عبداللہ بن محمد بن ابراہیم عباسی تھے۔ انہوں نے امام صاحب کا جنازہ مسجد نبوی
میں پڑھایا اور آپ کو مسجد نبوی سے ملحق بقیع الغرقد قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
(طبقات ابن سعد: ۵/۴۶۹‘ الثقات لابن حبان: ۷/۴۵۹)
No comments:
Post a Comment