Saturday, October 12, 2019

پگڑی اور جرابوں پر مسح کا جواز 38-2019


پگڑی اور جرابوں پر مسح کا جواز

تحریر: جناب مولانا ابومعاویہ حیدری
اسلام ایک ایسا آسان دین ہے اسے اللہ رب العزت نے انسانی طبیعت اور حالات کے عین مطابق نازل فرمایا ہے‘ مصلحت سے قریب اور مشقت سے دور۔ اللہ کریم نے فرمایا:
{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ}
’’اللہ تعالیٰ تم پر آسانی چاہتا ہے اور ہرگز تنگی نہیں چاہتا۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۵)
نبی کریمe نے فرمایا: [اَلدِّیْنُ یُسْرٌ] ’’دین بہت آسان ہے۔‘‘ (بخاری: ۳۹)
یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبe کی کمزور امت پر کسی بھی معاملے میں مشقت نہیں ڈالی بلکہ آسانیاں ہی آسانیاں رکھی ہیں۔ جن امور شرعیہ میں اللہ تعالیٰ نے آسانیاں رکھیں اور رخصتیں دی ہیں ان آسانیوں اور رخصتوں سے فائدہ اٹھانا زیادہ فائدہ مند اور باعث فضیلت ہے‘ کیونکہ ان رخصتوں پر عمل کرنا اللہ اور اس کے رسولe کو بہت پسند ہے۔ (صحبح ابن حبان: ۳۵۴)
وضوء میں اصل حکم تو سر کے مسح اور پاؤں دھونے کا ہے۔ لیکن رؤف رحیم نبی کریمe نے اپنے کمزور امتیوں پر آسانی کرتے ہوئے حکم ربانی سے انہیں پگڑی‘ موزوں اور جرابوں پر (مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن اور رات تک) مسح کرنے کی رخصت عنایت فرمائی ہے۔ (مسلم: ۲۷۶)
موزوں پر مسح کرنا تو بالاتفاق جائز ہے لیکن عمامے اور جرابوں پر مسح عند المتأخرین مختلف فیہ ہے۔
محدثین کرام نے پگڑی یعنی عمامے پر مسح کے متعلق مستقل ابواب قائم کیے ہیں: مثلاً [باب المسح علی الناصیۃ والعمامۃ] (مسلم) [باب المسح علی العمامۃ] (ابوداؤد‘ نسائی)
سیدنا بلال t فرماتے ہیں: ’’بے شک رسول اللہe نے موزوں اور عمامے (پگڑی) پر مسح کیا۔‘‘ (مسلم: ۲۷۵)
خلیفہ برحق سیدنا عمر فاروقt نے فرمایا: ’’اگر چاہو تو عمامے پر مسح کرو اور اگر نہ چاہو تو اتار دو۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۲۲۵)
حنفی محدث مولانا انور شاہ کشمیریa کہتے ہیں:
’’میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ عمامے پر مسح کرنا احادیث سے ثابت ہے۔ اس کا ثبوت کیسے ممکن نہ ہو جبکہ اس نظریے کی طرف ائمہ ثلاثہ گئے ہیں۔ اگر اس کی دین میں کوئی اصل نہ ہوتی تو وہ اسے اختیار نہ کرتے‘ کیونکہ وہ لوگ دین سے ہدایت یافتہ اور اس کے نشان تھے اور ہمارے پاس دین انہی کی وجہ سے پہنچا۔ لہٰذا ان پر بدظنی نہیں بلکہ کلی اعتماد ہے۔‘‘ (فیض الباری: ۱/۳۰۴)
نوٹ: عمامے پر مسح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حالت وضوء میں پہنا ہو۔ محدثین عظام نے مسح علی العمامہ کی طرح مسح علی الجوربین وغیرہ پر بھی مستقل ابواب بندی فرمائی ہے‘ مثلاً [باب المسح علی الجوربین] (ابوداؤد) [باب الرخصۃ من المسح علی الجوربین] (ابن خزیمہ) وغیرہ۔
 جراب کا معنی ومفہوم:
اصل بات سے پہلے جراب کے معنی ومفہوم کو سمجھنا نہایت ضروری ہے جس کی بنا پر امت مسلمہ میں غلط فہمیاں پیدا کی گئیں یا پھر خود ساختہ شرائط لگا کر تاویلی راستوں سے انکار کر دیا گیا۔ دراصل جورب (جراب) کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو پاؤں کو ڈھانپنے اور گرم رکھنے کے لیے ٹخنوں کے اوپر تک پہنی جائے۔ چاہے وہ اون‘ روئی‘ بال یا کسی اور چیز سے بنی جائے۔ (عارضہ الاحوذی: ۱/۱۲۴‘ تاج العروس: ۱/۱۸۱‘ قاموس: ۱/۴۶)
 حدیث ثوبانؓ:
سیدنا ثوبانt فرماتے ہیں کہ آپe نے مجاہدین کے لشکر کو پگڑیوں اور تساخین (موزوں) پر مسح کا حکم دیا۔ (سنن ابوداؤد: ۱۴۶)
وضاحت: لفظ تساخین موزوں اور پاؤں کو گرم رکھنے والی چیز پر بولا جاتا ہے۔ اگر پہلا مطلب لیا جائے تو بھی صحیح ہے کیونکہ جراب موزہ ہی کی ایک قسم ہے۔ (جیسا کہ آگے آئے گا۔) اور اگر دوسرا معنی لیا جائے تو ظاہر ہے جرابیں بھی اسی مقصد کے لیے پہنی جاتی ہیں۔
 حدیث مغیرہؓ:
سیدنا مغیرہt فرماتے ہیں: بلاشبہ نبی کریمe نے وضو کیا پھر جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ (سنن ابوداؤد: ۱۵۹)
یہ واحد حدیث اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن بہت سے شواہد واجماع صحابہ وتابعین اس کے مؤید ہیں اور حنفی اصولوں کے مطابق بھی صحیح ہے۔ موزوں پر مسح احادیث متواترہ سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ جرابیں موزوں ہی کی ایک قسم ہے۔ امام ابن ابی شیبہa نے اس پر ایک مستقل باب باندھا ہے: [باب من قال الجوربان بمنزلۃ الخفین] اور اس کے تحت آثار صحابہ وتابعین نقل کیے ہیں جو مذکورہ مقام پر دیکھے جا سکتے ہیں تابعی کبیر (استاد امام ابوحنیفہa) عطاء بن ابی رباحa فرماتے ہیں: جرابوں پر مسح موزوں پر مسح کے قائم مقام ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۹۹۱)
 عمل صحابہؓ:
خلیفہ برحق سیدنا علی t نے وضوء کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ (الاوسط لابن منذر: ۴۷۷‘ مصنف ابن شیبہ: ۱۹۸۶)
سیدنا براء بن عازبt نے وضوء کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۹۸۴‘ مصنف عبدالرزاق: ۷۷۴)
نوٹ: جو اقوال مصنف عبدالرزاق میں ہوں (عند الاحناف) مستند وقابل اعتبار ہوتے ہیں۔ (احسن الکلام: ۳۹۲ از مولانا سرفراز صفدر)
 عمل تابعین:
امام الزہد والتقویٰ سعید بن مسیبa جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۹۸۳)
شمس الائمہ امام نافع a (شاگرد ابن عمرw) بھی جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۹۹۲)
 پوری امت کا اتفاقی عمل:
امام ابن قدامہ وامام ابن راہویہ نے صحابہ کرام] تابعین وائمہ کا اتفاق نقل کیا ہے اور امام ابوداؤد‘ امام ترمذی وامام ابن حزمS نے ائمہ ومحدثین کے نام بھی بتائے ہیں جو جرابوں پر مسح کے قائل وفاعل تھے۔ امام ابوحنیفہa پہلے جرابوں پر مسح کے قائل نہ تھے لیکن اپنی وفات سے ۳ یا ۷ یا ۹ دن قبل اپنے شاگردوں (محمد بن شیبانی وقاضی ابویوسف) کے فتوے (مسح علی الجوربین) کی طرف رجوع کر لیا تھا اور جرابوں پر مسح کر کے فرماتے تھے کہ ’’میں نے آج ایسا کام کیا ہے جس سے لوگوں کو پہلے منع کرتا تھا۔‘‘ (الہدایہ: ۱/۶۰)
دیوبندی علماء میں سے مولانا مودودیa‘ مولانا عبدالحق حقانیa اور مولانا خادم حسین شجاع آبادیa جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ یاد رہے کہ حقانی صاحب کی کتاب مولانا نانوتوی اور مولانا کاشمیری صاحب کو بہت پسند تھی۔
 ضروری وضاحت:
ان جرابوں سے مراد عرف عام میں موٹی کہلائی جانے والی جرابیں ہیں نہ کہ کوئی خاص جرابیں‘ چاہے وہ کسی بھی چیز سے بنائی گئی ہوں۔ پتلی یعنی باریک جراب جس میں پاؤں نظر آتے ہوں‘ ان پر ہرگز مسح جائز نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی قائل ہے‘ ابن القطان نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ دیکھیے: (الاقناع فی مسائل الاجماع‘ وجامع الترمذی) مزید دیکھیے: (فتاویٰ اسلامیہ: ۱/۳۱۳ وتحقیقی اصلاحی وعلمی مقالات: ۶/۷۵)
اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)