ائمہ وخطباء کرام سے چند گذارشات
تحریر: جناب مولانا حبیب الرحمن
یزدانی
دورحاضر میں انتہائی کم تنخواہ پر امامت وخطابت کے فرائض اداکرنا
یقیناایک بڑا جہاد ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اگر آئمہ اورخطباء عظام میں خشیت الٰہی‘ تقویٰ
اور خودداری جیسی عظیم خوبیاں بھی ہوں تو پھر’’سونے پہ سہاگہ‘‘ والی بات ہوگی۔امامت
وخطابت ایک مقدس مشن ہے۔ میں اسے پیشہ نہیں کہوں گا کیونکہ جب یہ مقدس مشن پیشہ بنتاہے
تویہ منصب بے توقیر ہوجاتاہے۔ لیکن جب امامت وخطابت ایک مشن ہوگا تولوگ پیچھے چلیں
گے اور پھر لوگوں کے دلوں میں عزت ہوگی۔ ہماراایمان ہے کہ رزق اللہ تعالیٰ نے مقدر
میں لکھ دیا ہے۔ وہ جس کا چاہتاہے رزق وسیع کرتاہے اور جسکا چاہتاہے تنگ کر دیتا ہے۔
لہٰذا اس کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ میرے پیارے اور قابل احترام آئمہ اور
علماء کرام! دنیا سے بے نیاز ہو جائیں۔ نبی کریم e کا مقدس مشن سمجھ کر تبلیغ دین اور لوگوں کی اصلاح کیلئے
جُت جائیں۔ اپنے مشن کے ساتھ مخلص ہوجائیں اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ آپ کی مددکیسے
کرتاہے۔ کبھی کسی سے اپنی کم تنخواہ کاگلہ نہ کریں۔احساس کمتری کاشکار نہ ہوں۔ بلکہ
یقین کرلیں کہ آپ بہت خوش قسمت ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قابل بنایا ہے کہ آپ
لوگوں کے امام ہیں۔ یہ معمولی منصب نہیں۔ بڑے بڑے عہدوں والے، دولتمند، جاگیردار اور
سرمایہ دار آپ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔آپ کا وعظ سنتے ہیں۔ آپکی عزت کرتے ہیں۔آپ
کو استادصاحب‘ قاری صاحب اور مولانا صاحب کہہ کرپکارتے ہیں۔ آپ منبر پر کھڑے ہوکر
وعظ کرتے ہیں۔ خطبہ دیتے ہیں۔ تمام لوگ متوجہ ہوکر آپکی بات سنتے ہیں۔ لہٰذا آپ دولتمندوں
یاعہدیداروں کو دیکھ کر مرعوب نہ ہوجایاکریں۔ان میں سے کبھی کسی سے کسی قسم کا طمع
یا لالچ نہ کریں اور کسی کے سامنے اسکی بے جا خوشامد بھی نہ کریں۔ اور ہاں دین کی دعوت
بڑی حکمت، دانائی اوربہترین نصیحتوں کے ساتھ کریں۔ اپنے پیارے نبیe کی
سنت مطہرہ پر عمل پیراہوتے ہوئے تحمل، برداشت، حوصلہ ،ہمت اور میٹھی میٹھی گفتگو جیسی
اخلاقی صفات اپنے اندر پیداکریں۔ اپنی مسجد کے نمازیوں کا خاص خیال رکھیں۔ انکے ساتھ
اچھے تعلقات قائم کریں۔انکی غمی اورخوشی میں شرکت ،بیماروں کی تیماداری کریں۔ اگر آپ
مسجد میں بچوںکو قرآن مجید کی تعلیم بھی دیتے ہیں تو اس ذمہ داری کو اچھے طریقے سے
ادا کریں۔ بہت شفقت کیساتھ بچوںکو پڑھائیں تاکہ مسجد کے ساتھ اور قرآن مجید کے ساتھ
ان کا تعلق قائم رہے۔ اگر سختی کریں گے توممکن ہے وہ قرآن کی تعلیم سے باغی ہوجائیں
اور مسجدسے بھی دورہوجائیں۔
مسجد انتظامیہ
کے ساتھ تعاون:
مسجد کی انتظامیہ کیساتھ مکمل تعاون کرناچاہیے۔ انکی طرف سے
اگرکوئی سخت بات ہوبھی جائے تو برداشت کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اسکا اچھا اجرعطافرمائے
گا۔میرے پیارے علماء کرام! زیادہ تنخواہ کے لالچ میں ایک مسجد چھوڑکردوسری مسجد میں
نہیں جاناچاہیے اور نہ ہی انتظامیہ کے سامنے اسکا ذکر کرنا چاہیے کہ مجھے فلاں مسجد
والوں کی طرف سے زیادہ تنخواہ کی پیشکش ہوئی ہے۔ آپ میری تنخواہ بڑھائیں نہیں تو میں
چلاجائوںگا۔یہ بات ہمارے منصب کے شایانِ شان نہیں‘ اگرآپ میری اس بات پر عمل کریں
گے تو اس کے ثمرات آپ خود دیکھیں۔
ہاں! مسجد کی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ حالات کے مطابق امام
وخطیب کو تنخواہ اچھی دیں‘ انکی ضروریات کا خیال رکھیں‘ اللہ تعالیٰ آپکو اسکا بہترجزا
عطافرمائے گا۔ اس دور میں مساجد پر خرچ کرنا ، انکو آبادکرنا اور مساجد کی تمام ضروریات
اچھے طریقے سے پوری کرنا بہت بڑا مالی جہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور توفیق
عطافرمائے۔
وقت کی قدر کریں:
فارغ وقت کوکارآمدبنانا اور وقت کی قدرکرنا ایک بہترین عمل
ہے۔ رسول اللہe نے
فرمایا: اکثر لوگ دونعمتوں کی قدر نہیں کرتے یعنی صحت اور فراغت۔ آئمہ مساجد وخطباء
کرام کو اس بات کا خاص خیال رکھناچاہیے ۔ خاص کروہ علماء کرام جو صرف خطبہ جمعہ ہی
ارشاد فرماتے ہیں‘ ان کے پاس تویوم الجمعۃ کے علاوہ ہفتہ بھرفراغت ہے اور آئمہ مساجد
کے پاس بھی کافی وقت فارغ ہوتاہے۔نماز فجر اور صبح بچوں کی تدریس کے بعد نماز ظہر تک
بہت لمباوقت مل جاتاہے۔ تقریباً سات سے آٹھ گھنٹے بنتے ہیں۔ موسم گرما میں تو ظہراور
عصرکے درمیان اور پھر عصر اور مغرب کے درمیان بھی وقفہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان اوقات
کو اپنے لیے کارآمد بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کے اردگرد بیسیوں پرائیویٹ سکولز
اور کالجز ہونگے‘ اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق آپ ان میں اسلامیات، اردو اور قرآن
مجید کی تدریس کرسکتے ہیں۔ وہاں سے آپ کو اچھی تنخواہ مل سکتی ہے۔ اس سے جہاں آپ
کی معاشی حالت اچھی ہوگی وہاں آپ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگااوربہت سارے بچوں کی اچھی
تربیت کرنے کا موقع بھی مل سکتاہے۔ اسی طرح آپ مختلف بکڈپواور سکولز سے رابطہ کرکے
کتابوں کی جلدسازی کا کام کرکے اپنے لیے اچھا روزگار بناسکتے ہیں۔اپنے قریب کوئی دکان
کرائے پر مل جائے تو وہاں موقع اور حالات کے مطابق چھوٹی سی دکان بنالیں۔ اسی طرح ان
کے علاوہ کوئی اور کام بھی کرکے اپنے وقت کو قیمتی بناسکتے ہیں اور بڑے اچھے طریقے
سے دین کی خدمت کرسکتے ہیں۔
مطالعہ کرتے رہیں:
قرآن و حدیث کا مطالعہ تو روزانہ کی بنیادپر کرناچاہیے۔ اس
کے علاوہ مختلف ہفت روزے، ماہنامے‘ دینی رسائل
اور سیاسی جریدے اپنے زیرمطالعہ رکھیں‘ روزانہ کسی ایک اخبار کا مطالعہ بھی کریں تاکہ حالات سے باخبر رہاجائے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے:
علماء چونکہ واعظ ہوتے ہیں‘ انہوں نے قوم کی تربیت کرنا ہے
۔ عام لوگ ہمارے کردار پر نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں دینی احکامات پر عمل کرنے کی کوشش
کرنی چاہیے۔ اعمال صالحہ میں عام لوگوں سے دو قدم آگے ہوں۔ گناہوں سے حتی الوسع بچنے
کی کوشش کرنی چاہیے۔حتی کہ صغائر گناہ سے بھی پرہیز کرنے کی کوشش کریں ۔ نماز کی پابندی
کے ساتھ نوافل وسنن، تہجدواشراق کا اہتمام بھی پابندی کے ساتھ کریں۔روزانہ تلاوت قرآن
اپنا معمول بنائیں۔ صبح وشام کے مسنون اذکار سے کبھی غافل نہ ہوں۔ نجی یا عام مجلسوں
میں لوگوں کے ساتھ ٰغیر سنجیدہ ہنسی مذاق سے پرہیزکرناچاہیے۔ لوگوں کے ساتھ اچھا برتائوخصوصاً
رشتہ داروں‘ اپنے بہن بھائیوں، والدین کے ساتھ معاملات احسن ہونے چاہیں۔ صلہ رحمی کریں‘
دوسرے علماء کا ادب و احترام کریں۔ کبھی کسی مجلس میں کسی بھی عالم دین کی غیبت نہ
کریں اور نہ دوسرے سے سنیں۔ ہمیشہ سنجیدہ رہیں۔ سنجیدہ سلجھی ہوئی گفتگوکریں۔مولانا
اسحق بھٹی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کے حالات بارے بہت کتابیں لکھی ہیں‘ انکی تمام کتب
زیرمطالعہ رکھیں‘ بہت مفید کتابیں ہیں۔
میرے پیارے علماء کرام! دین کی تبلیغ، مسجد کی خدمت، امامت،
خطابت مشن سمجھ کر کریں۔مسجد کی ملازمت کا خیال دل میں نہ آنے دیں۔وعظ ونصیحت کرتے
ہوئے یقین کرلیں کہ یہ انبیاء وصلحاء کا مشن ہے ۔ لہٰذا اس راستے میں آنے والی تکلیفوں
کو برداشت کریں اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں۔ اے میرے پیارے رب تعالیٰ! ہمارے
علماء کرام کی محنتیں قبول فرما۔دنیا وآخرت میں اس کا اچھا اجر عطا فرما اور دین حقہ
دین اسلام پر ثابت قدمی نصیب فرما۔ اٰمین!
No comments:
Post a Comment