خطبۂ حرم ... اچھی توقع رکھنے
کی اہمیت
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر المعیقلی d
ترجمہ: جناب محمد عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اے مؤمنو! اللہ سے یوں ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ کھلے اور
پوشیدہ کاموں میں اس سے ڈرتے رہو۔ تنہائی میں اور سب کے سامنے اس کی خشیت سے پیچھے
نہ ہٹو۔ اسے اس یقین کے ساتھ یاد رکھو کہ وہ تمہیں دیکھتا اور سنتا ہے، وہ تمہارے رازوں
اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘
اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
(الحشر: ۱۸)
اے امت اسلام! ایک قابل تعریف صفت جو رضا مندی اور امید پیدا
کرتی ہے، جو دلوں میں خوشی اور مسرت پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ اس میں اللہ کے بارے میں
اچھا گمان بھی ہوتا ہے اور اس پر کامل توکل بھی ہوتا ہے، یہ صفت اچھی توقع اور بھلی
امید رکھنے کی صفت ہے، مستقبل کے بارے میں اچھی توقعات رکھنا ہے، چاہے آزمائشیں اور
سختیاں بہت بڑھ کیوں نہ جائیں‘ شدت اور تنگی کا زمانہ طویل ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اچھی
توقع رکھنے والا ہمیشہ اپنے پروردگار سے راضی ہوتا ہے، اس کی تقدیر پر ایمان رکھتا
ہے، اس کی حسن تدبیر اور حکمت کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ
اللہ اسے آزمائشوں کے مقابلے اور صبر پر اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
’’ہوسکتا ہے کہ ایک
چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند
ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے،
تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۱۶)
اے مؤمنو! جو انبیاء اور رسولوں کی سیرت میں نظر دوڑاتا ہے،
وہ ان کی سیرتوں میں اچھی توقع کو ہر جگہ پاتا ہے۔ چاہے وہ اچھی توقع قوم کی ہدایت
کے بارے میں ہو، یا اللہ کی نصرت کے بارے میں ہو، یا آزمائشیں اور پریشانیوں کے خاتمے
کے حوالے سے ہو۔ نوحu اپنی
قوم کو نو سو پچاس سال تک دعوت دیتے رہے، کبھی ان کی دعوت اور قبولیت سے مایوس نہ ہوئے۔
اسی طرح یعقوبu کئی
سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے بیٹے یوسفu کو دیکھنے کی توقع اپنے دل میں لیے ہوئے تھے۔ اسی لیے
انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا:
’’میرے بچو! جا کر
یوسفu اور
اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر
ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘ (یوسف: ۸۷)
رہی بات امام الانبیاء والمرسلینe کی، تو وہ تو سب سے بڑھ کر صبر کرنے والے تھے، سب سے
زیادہ پر امید اور اچھی توقع رکھنے والے تھے۔ جب انہیں اسلام کے نور کے ساتھ مبعوث
کیا گیا تو ان کے قریب ترین لوگوں نے بھی انہیں خوب ستایا، انہیں ان کے سب سے پسندیدہ
شہر سے نکال دیا گیا، انہیں جھٹلایا گیا اور ان کے ساتھ جنگ کی گئی۔ مگر پھر بھی رسول
اللہe اللہ
تعالیٰ کی نصرت پر پورا یقین رکھتے تھے۔ امید رکھتے تھے کہ یہ دین وہاں تک پہنچے گا
جہاں تک دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا پہنچتا ہے۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ جب رسول
اللہe طائف
سے لوٹے تو چند دن نخلہ کے مقام پر گزارے۔ تب زید بن حارثہt نے
ان سے کہا: اب آپ ان کے پاس کس طرح جائیں گے، انہوں نے تو آپ کو نکال دیا تھا؟ یعنی
قریش نے۔ آپe نے
فرمایا: زید! یہ حالات جو تم دیکھ رہے ہو، اللہ تعالیٰ ان سے نکلنے کا راستہ ضرور بنائے
گا اور انہیں بدل ڈالے گا۔ اللہ اپنے دین کی مدد ضرور فرمائے گا۔ اپنے نبی کو ضرور
غالب کرے گا۔ اس طرح آپe صحابہ
کرام] کے دلوں میں امید پیدا کرتے تھے اور انہیں اچھی توقع رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔
اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی، اس پر کما حقہ بھروسہ کرنے کی اور اسی سے توقع
وابستہ رکھنے کی تعلیم دیتے تھے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہe نے عدی بن حاتم طائی کو اسلام میں داخل ہونے کے حوالے
سے متردد پایا تو آپe نے
فرمایا: عدی! کیا تم نے حیرہ کا مقام دیکھا ہے؟ اس نے کہا: دیکھا تو نہیں، مگر اس کے
بارے میں سنا ہے۔ فرمایا: اگر تمہیں لمبی عمر ملی تو تم دیکھو گے کہ ایک سوار حیرہ
سے بیت اللہ کے طواف کے لیے آئے، اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا۔ اگر تمہیں
لمبی عمر ملی تو کسریٰ کے خزانے بھی مسلمانوں کے ہاتھ آ جائیں گے، اس نے کہا: کیا کسریٰ
بن ہرمز کے؟ آپe نے
فرمایا: جی ہاں! کسریٰ بن ہرمز کے۔ اگر تمہیں لمبی عمر ملی، تو تم دیکھو گے کہ ایک
شخص ہاتھ بھر کر سونا یا چاندی نکالے گا، تلاش کرے گا کہ کوئی اس سے وہ صدقہ لے لے
مگر کوئی اس سے صدقہ نہیں لے گا۔ عدی فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ایک سوار حیرہ سے
نکل کر بیت اللہ کے طواف کے لیے آتی ہے، اور اس کے دل میں اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں
ہوتا۔ ان لوگوں میں میں بھی شامل تھا جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے اپنے قبضے میں
کیے تھے۔ اگر تمہیں لمبی عمر ملی تو تم ابو القاسمe کے فرمان کو سچ پاؤ گے۔
ایمانی بھائیو! نیک امید رکھنا اور اچھی امید رکھنا، نیکی، بھلائی
اور حالات کی درستی کی امید کرنا اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھے گمان کا حصہ ہے۔ اسی
میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔ اسی سے انسان کو نیکی کرنے بلکہ ہر عمل کو بہترین طریقے
سے کرنے کی ہمت ملتی ہے۔ چنانچہ نبی اکرمe کی زندگی اچھی امید سے بھری نظر آتی ہے۔ اسی پر آپe نے
صحابہ کرام] کی تربیت کی۔ اپنے قول وعمل سے یہ مفہوم ان کے دلوں میں راسخ کیا۔ جب آپe کوئی
اچھا نام سنتے، یا کوئی بھلا بول سنتے، یا کسی اچھی جگہ سے گزرتے تو آپe کا
دل خوش ہو جاتا، جس کام کا عزم کیا ہوتا، اس کے حوالے سے اچھی توقع کا اظہار کرتے،
خوش ہوجاتے اور پر امید ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھتے۔
سیدنا انس بن مالکt روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہe کسی
کام کے لیے نکلتے تو انہیں یہ سن کر بڑی خوشی ہوتی: اے کامیاب ہونے والے! اے کامران
ہونے والے! (ترمذی)
رسول اللہe نے
ایک شخص سے کوئی بات سنی تو آپe کو
بہت اچھی لگی۔ آپe نے
فرمایا:
’’ہم نے تمہاری اچھی
توقع تمہاری زبان ہی سے معلوم کر لی ہے۔ ہم نے تمہاری اچھی توقع تمہاری زبان ہی سے
معلوم کر لی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
یعنی: تمہارے اچھے بول کو سن کر ہمارے اندر اچھی توقع پیدا ہو
گئی ہے۔
سفر ہجرت میں جب نبی اکرمe مدینہ پہنچے تو مدینہ کی بلند جگہ پر رکے، تاکہ آپe کا
دین بھی بلندی حاصل کرے۔ جب آپe استسقاء
کی نماز پڑھاتے تے تو خطبے کے بعد اپنی چادر الٹی کر لیتے، امید کرتے کہ خشکی بارشوں
اور ذرخیزی میں بدل جائے گی۔
جب حدیبیہ میں سہیل بن عمرو آپe کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئے تو رسول اللہe نے
اچھی توقع کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: آپ کا معاملہ آسان ہو گیا ہے۔ آپ کا معاملہ آسان
ہو گیا ہے۔ اور معاملہ ویسے ہی تھا، کیونکہ سہیل بن عمرو کا آنا اسلام اور اہل اسلام
کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا۔ بلکہ آپe اچھی توقع کے منافی ناموں کو بھی تبدیل کر دیتے تھے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ عمر کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ(نافرمان) تھا۔ آپe نے
اس کا نام جمیلہ(خوبصورت) رکھ دیا۔
جب آپe نے
ہجرت کی تو مدینہ کو یثرب کہا جاتا تھا، یہ لفظ اچھا نہیں تھا، چنانچہ آپe نے
اسے بدل دیا اور اس کا نام طابہ، اور طیبہ رکھ دیا۔ اب وہ قیامت تک پاکیزہ اور بابرکت
رہے گا۔
اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ جب ابن المسیب کے دادا آپe پاس
گئے تو آپe نے
کہا: آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: حزن (سخت مزاج)۔ آپe نے
فرمایا: بلکہ تم تو سہل(نرم مزاج) ہو۔ اس نے کہا: نہیں! میں وہ نام کبھی نہ بدلوں گا
جو میرے باپ نے رکھا ہے۔ ابن مسیب بیان کرتے ہیں: پھر ہمارے اندر حزونت (سختی) کبھی
ختم نہیں ہوئی۔ حزونت طبیعت اور مزاج کی سختی کو کہتے ہیں۔
ابن تیمیہa فرماتے
ہیں: جو فال آپe کو
پسند تھی وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے کوئی کام کرے اور پھر کوئی
اچھا لفظ سن لے تو اس سے خوش ہو جائے، جیسا کہ اے کامران ہونے والے! اے کامیاب ہونے
والے! اے خوش ہونے والے! اے نصرت پانے والے! وغیرہ۔ آپe بھلائی
کو پسند کرتے تھے اور اس کی توقع رکھتے تھے، جب کوئی اچھا بول سنتے تو آپ کو اچھی توقع
رکھنا بڑا پسند تھا۔ آپe برے
ناموں کو ناپسند کرتے، مگر انہیں منحوس نہیں سمجھتے تھے، اچھے ناموں کو پسند کرتے تھے،
اور ان سے اچھی توقع رکھتے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہوتی، کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی۔ مجھے اچھا
فال بڑا پسند ہے اچھا فال، یعنی اچھا بول۔‘‘ رسول اللہe کسی
چیز کو منحوس نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ایسا کرنے کو ناپسند کرتے تھے، کسی چیز کے بارے
میں نحوست کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ فرماتے: جب کوئی شخص یہ کہتا ہے: ’’لوگ تو ہلاک
ہو گئے، تو وہ سب سے پہلے ہلاک ہونے والا ہے۔‘‘ (مسلم)
یعنی: وہ سب سے پہلے ہلاک ہونے والا ہے، کیونکہ اس نے مایوسی
اپنائی اور بری توقع رکھی۔ لوگوں کو حقیر سمجھا اور ان کی تنقیص کی۔ خود کو ان سے برتر
اور بہتر سمجھا۔
مایوسی اور بری توقع ایسی بری صفات ہیں، جن سے ایمان کمزور ہوتا
ہے، رحمٰن ناراض ہوتا ہے۔ حسرت اور ندامت کا سامنا ہوتا ہے۔ جو اپنے پروردگار کے بارے
میں برا سوچتا ہے، اور اپنی باتوں میں بھلائی کا راستہ نہیں اپناتا، اسے اپنے برے گمان
اور برے الفاظ کی سزا ملتی ہے۔ کیونکہ آزمائشیں عمومًا باتوں سے ہی جڑی ہوتی ہیں۔ صحیح
بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباسw بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe ایک
اعرابی کی عیادت کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ فرماتے ہیں: جب آپe کسی
کی عیادت کے لیے جاتے تو کہتے: ’’کوئی بات نہیں! ان شاء اللہ یہ بیماری گناہوں سے پاک
کر دے گی۔‘‘ تو آپe نے
اس اعرابی سے بھی یہی کہا کہ ’’کوئی بات نہیں! ان شاء اللہ یہ بیماری گناہوں سے پاک
کر دے گی۔‘‘ لیکن اس بدو نے کہا: کیا کہا؟ پاکیزہ؟ نہیں! بلکہ یہ تو سڑتا اور جلتا
بخار ہے، جس نے ایک بوڑھے پر حملہ کیا ہے، اور جو اسے قبر تک لے جائے گا۔ تو آپe نے
فرمایا: اچھا! تو پھر ایسا ہی سہی۔
یعنی: اگر تم نے موت کو پسند کیا ہے تو پھر تمہارے لیے وہی ہے
جو تم پسند کرتے ہو۔ ابن حجرa فتح
الباری میں کہتے ہیں: وہ بدو صبح سے پہلے ہی مر گیا۔
اللہ کے بندو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ اسی پر بھروسہ کرو۔ خوب
محنت کرو۔ عمل کرو۔ اللہ کی توفیق اور اس کی نصرت کی امید رکھو۔ اس کی تقدیر پر ایمان
رکھو۔ جو اس پر بھروسہ کرتا ہے، اس کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے، مستقبل کے بارے
میں اچھی توقع رکھتا ہے، اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہے، وہی نیکی اور کامیابی
کے راستے پر ہوتا ہے۔ اس کا دل ایمان سے مطمئن ہوتا ہے، اس کا نفس رحمٰن سے راضی ہوتا
ہے۔ آزمائشیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی، ان کی سختی سے اس کا ایمان مزید مضبو ہو
جائے گا، اس کا توکل بڑھ جائے گا اور وہ مزید پر امید ہو جائے گا۔
صحیح حدیث میں ہے: رسول اللہe نے ابن عباسw سے فرمایا: ’’یاد رکھنا کہ نصرت صبر کے ساتھ ملتی ہے،
آسانی سختی کے بعد ضرور آتی ہے، مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے۔‘‘
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے مؤمنو! مایوسی اور ناامیدی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ ابن مسعودt فرماتے
ہیں: بڑے گناہوں میں شرک کرنا، اللہ کی سزا سے بے فکر رہنا، اس کی رحمت سے مایوس ہونا،
اور اس سے نا امید ہونا شامل ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
’’میرے رب کی رحمت
سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘ (الحجر: ۵۶)
جو لوگ ملکوں کی تعمیر کرتے ہیں، تہذیبوں کو بناتے ہیں، وہ سب
سے زیادہ پر امید اور اچھی توقع رکھنے والے ہوتے ہیں۔ رہی بات بری توقعات رکھنے والوں
کی، تو وہ نہ زمین کو تعمیر کرتے ہیں، نہ ملک بناتے ہیں اور نہ تہذیب قائم کرتے ہیں۔
اچھی توقع اور امید پیدا کرنے میں معاون چیزوں میں دل میں ایمان کی مضبوطی شامل ہے۔
یہ کام اللہ تعالیٰ کے حسین ناموں اور شان دار صفات جانے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایمان
بڑھانے کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، اس کی آیات پر غور کرنا چاہیے، اللہ
کے وعدوں پر یقین رکھنا چاہیے، کثرت سے اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ نفل عبادتیں بھی کرنا
چاہئیں۔ نبی اکرمe کی
سیرت پر بھی غور کرنا چاہیے۔
اللہ کے بندو! اللہ کے بارے میں بھلا گمان رکھو۔ اچھی امید رکھو۔
بھلی توقعات رکھو۔ اپنے دلوں سے مایوسی نکال دو۔
صحیح حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے
ساتھ اس کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں۔ وہ جو چاہے میرے بارے میں سوچے۔
امام قرطبیa نے
اپنی کتاب مفہم میں کہا ہے: گمان سے مراد یہ ہے کہ جب دعا کی جائے تو قبولیت کی توقع
رکھی جائے، جب توبہ کی جائے تو بھی قبولیت کی امید رکھی جائے۔ جب معافی مانگی جائے
تو معافی کی امید رکھی جائے۔ جب عبادت کی شرائط پوری کر کے عبادت ادا کی جائے تو جزا
کی توقع رکھی جائے۔
چنانچہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کما حقہ ادا کرے،
پھر یقین رکھا جائے کہ اللہ قبول فرمائے گا اور معاف فرما دے گا۔ کیونکہ اس نے یہی
وعدہ کیا ہے۔ وہ پاکیزہ ہے اور وہ وعدہ خلاف نہیں کرتا۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ
اس کی عبادت قبول نہیں کرے گا، یا اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو وہ اللہ کی رحمت
سے مایوس ہونے والا ہے۔ یہ کام بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور جو اسی حال میں فوت ہو جائے
وہ اپنے گمان کے سپرد کر دیا جائے گا۔
تو اے اللہ! ہمیں شکر گزار بنا، ذکر کرنے والا بنا، اپنے سے
ڈرنے والا بنا۔ اپنے سامنے جھکنے والا بنا۔ اپنی طرف لوٹنے اور رجوع کرنے والا بنا۔
اے پروردگار! ہماری توبہ قبول فرما! ہمارے گناہ دھو دے۔ ہماری دعا قبول فرما! ہماری
دعا قبول فرما! ہماری حجت قائم فرما! ہمارے دلوں کو ہدایت عطا فرما! ہماری زبانوں کو
درست فرما! ہمارے دلوں کی کدورتیں دور فرما!
اے اللہ! ہم تجھ سے نعمتوں کے زوال سے، عافیت کے خاتمے سے، اچانک
آنے والی پکڑ سے اور تجھے ناراض کرنے والی ہر چیز سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔
اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، اپنا شکر کرنے اور بہترین طریقے سے
اپنی عبادت میں ہماری مدد فرما۔ آمین!
No comments:
Post a Comment