احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
جنت میں نیند
O دنیا
میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ مثلاً کھانا‘ پینا‘ رہنا
سہنا اور چلنا پھرنا وغیرہ‘ نیند بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے‘ کیا جنت میں
بھی اہل ایمان نیند سے دو چار ہوں گے؟!
P نیند‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا سربستہ راز ہے
جسے انسان ابھی تک اس کی حقیقت وماہیت کو نہیں پا سکا۔ نیند کے دوران کونسی چیز کم
ہو جاتی ہے کہ اس کے حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسان کام کاج کرنے کے بعد تھکن
سے دو چار ہو جاتا ہے جب تک اسے گہری نیند نہ آئے اس کی تھکاوٹ دور نہیں ہوتی اور نہ
ہی وہ مزید کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نیند کو اپنی نشانی
قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمہارا رات اور دن کو نیند کرنا اور اس کا فضل
تلاش کرنا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔‘‘ (الروم: ۲۳)
جنت میں اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وہ نعمت عطا کرے گا جس سے فرحت
وانبساط اور لذت وسرور میں اضافہ ہو‘ بلکہ قرآن کریم میں ہے: ’’وہاں جنت میں اہل جنت
جو کچھ چاہیں گے انہیں ملے گا بلکہ ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی موجود ہے۔‘‘ (ق: ۳۵)
مزید فرمایا کہ ’’وہاں تمہارا جو جی چاہے گا تمہیں ملے گا اور
جو کچھ مانگو گے وہ تمہارا ہو گا‘ یہ اللہ بخشنے والے مہربان کی طرف سے مہمانی ہو گی۔‘‘
(حم السجدہ: ۳۲)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مکان جنت میں وہ
سب کچھ موجود ہو گا جو دلوں کو بھائے اور آنکھوں کو لذت بخشے۔‘‘ (الزخرف: ۷۱)
دنیا کی کچھ نعمتیں ایسی بھی ہیں جن کی اہل جنت وہاں چاہت ہی
نہیں کریں گے کیونکہ ان میں کسی نہ کسی پہلو سے عیب اور نقصان وابستہ ہو گا۔ مثلاً
کھانے پینے کے بعد بول وبراز بھی اللہ کی نعمت سے ہے لیکن جنت میں ایسا نہیں ہو گا
جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ چنانچہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جنت میں اہل جنت بول وبراز سے دو چار نہیں
ہوں گے۔‘‘ (بخاری‘ بدء الخلق: ۳۲۴۵)
اسی طرح نیند کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ جنت میں اہل جنت
کو نیند نہیں آئے گی‘ چنانچہ سیدنا جابر بن عبداللہt بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہe سے
دریافت کیا‘ آیا اہل جنت نیند کریں گے؟ آپe نے فرمایا: ’’نیند موت کی بہن ہے اور اہل جنت کو موت
نہیں آئے گی۔‘‘ (شعب الایمان: ج۹‘ ص ۳۹)
علامہ البانیa نے
اس حدیث کے الفاظ کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’چونکہ نیند موت کی بہن ہے اس لیے اہل جنت
نیند سے دو چار نہیں ہوں گے۔‘‘ (الاحادیث الصحیحہ: ج۳‘ ص ۷۴) … موصوف نے اس حدیث کے تمام طرق پر بحث کر کے اسے صحیح قرار دیاہے۔
(صحیح الجامع‘ رقم: ۶۶۸۴)
اس میں کوئی شک نہیں کہ نیند آدھی موت ہے‘ اللہ تعالیٰ موت کی
حالت میں بھی روح انسانی کو قبض کرتا ہے اور نیند کی حالت میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ سوتے وقت ہمیں جو دعا سکھلائی گئی ہے وہ یہ ہے: [اَللّٰہُمَّ بِاِسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیٰ] ’’اے اللہ! میں تیرے نام سے ہی مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے
زندہ ہو جاؤں گا۔‘‘
اور بیدار ہوتے وقت درج ذیل دعا سکھلائی گئی ہے: [اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیٓ اَحْیَانَا بَعْدَ مَآ اَمَاتَنَا
وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ] ’’سب طرح کی تعریف
اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھا دیا اور ہم نے اسی کے
حضور حاضر ہونا ہے۔‘‘
نیند بھی ایک طرح سے موت سے مشابہہ ہے لہٰذا جنت میں نیند نہیں
ہو گی جیسا کہ وہاں موت نہیں آئے گی۔ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اہل جنت کو کہا جائے
گا: ’’اے اہل جنت! تم نے ہمیشہ رہنا ہے‘ تمہیں موت نہیں آئے گی۔‘‘ (بخاری‘ الرقائق:
۶۵۴۵)
بہرحال حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ جنت میں اہل جنت نیند
سے دو چار نہیں ہوں گے۔ ویسے عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ جنت میں حاصل ہونے والی
لذت وفرحت اور سرور وانبساط دائمی ہو گا جبکہ نیند کی حالت میں کچھ نہیں ہوتا جو دوام
کے خلاف ہے۔ نیز نیند کا سبب تھکاوٹ یا بیماری ہوتی ہے۔ جنت میں نہ کسی کو تھکاوٹ ہو
گی اور نہ ہی کوئی بیمار ہو گا جو نیند وغیرہ کا حاجت مند ہو۔ واللہ اعلم!
نماز جنازہ میں چوتھی تکبیر بھول جانا
O ہمارے
ہاں ایک جنازہ ہوا‘ امام صاحب نے تیسری تکبیر کے بعد دعائیں پڑھ کر چوتھی تکبیر نہیں
کہی‘ بلکہ سلام پھیر دیا‘ کیا ایسا کرنے سے جنازہ ہو جاتا ہے؟ یا اس کی تلافی کرنا
ہو گی؟ پھر وہ تلافی کس طرح کی جائے گی؟!
P نماز جنازہ دوسری نمازوں کی طرح ہے‘ اس کے وہی آداب
وشرائط اور ارکان وواجبات ہیں جو دوسری نمازوں کے ہیں اگرچہ اس میں رکوع وسجود نہیں۔
نماز میں داخل ہونے کے لیے تکبیر تحریمہ کہی جاتی ہے۔ اسی طرح نماز جنازہ کے لیے تکبیر
تحریمہ ہے۔باقی تین تکبیریں جنازہ میں زائد ہیں۔ سیدنا انسt سے
کسی نے سوال کیا کہ ایک آدمی نماز جنازہ میں تین تکبیریں کہتا ہے تو اس کے لیے کیا
حکم ہے؟ تو آپe نے
فرمایا کہ ’’اصل تو نماز جنازہ کی تین ہی تکبیریں ہیں۔ پہلی تکبیر تو آغاز نماز کی
ہے جو باقی نمازوں کے لیے بھی ہے۔‘‘ (فتح الباری: ج۳‘ ص ۲۴۵)
بہرحال تکبیر تحریمہ شامل کر کے اس کی چار تکبیریں ہیں‘ رسول
اللہe سے
بھی نماز جنازہ کے لیے چار تکبیریں ہی ثابت ہیں۔ چنانچہ رسول اللہe نے
جب نجاشی a کا
جنازہ پڑھایا تو اس وقت بھی چار تکبیریں کہی تھیں۔ (بخاری‘ الجنائز: ۱۳۳۳)
اگرچہ بعض صحابہ کرام] سے نو تکبیریں کہنا بھی ثابت ہے لیکن جمہور اہل علم
امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبلS نے چار تکبیروں کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجرa نے
لکھا ہے کہ نماز جنازہ پر چار اور پانچ تکبیریں کہی جاتی تھیں۔ سیدنا عمرt نے
لوگوں کو چار تکبیریں کہنے پر جمع کر دیا۔ (فتح الباری: ج۳‘ ص ۲۵۸)
صورت مسئولہ میں اس امر کی وضاحت ہونا چاہیے کہ امام نے شاید
آہستہ چوتھی تکبیر کہی ہو جسے لوگوں نے یوں کہہ دیا کہ امام نے مطلق طور پر چوتھی تکبیر
نہیں پڑھی۔ اگر واقعی اس نے آہستہ اور جہری نہیں پڑھی تو اس کی دو صورتیں حسب ذیل ہو
سکتی ہیں:
\ لوگ منتشر ہو
گئے ہیں۔ ان کا دوبارہ جمع ہونا ممکن نہیں تو ایسے حالات میں نماز جنازہ صحیح ہے‘ اس
میں چنداں حرج نہیں۔
\ اگر وہیں کھڑے
کھڑے یاد آگیا تو امام کو چاہیے کہ قبلہ رو ہو کر چوتھی تکبیر کہے اور مقتدی حضرات
بھی ایسا کریں۔ پھر سلام پھیر دیں جیسا کہ امام بخاریa نے سیدنا انسt کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ نماز جنازہ
پڑھائی تو تین تکبیریں کہیں پھر سلام پھیر دیا۔ ان سے اس کے متعلق کہا گیا تو وہ قبلہ
رو ہوئے اور چوتھی تکبیر کہی پھر سلام پھیرا۔ (بخاری‘ الجنائز: باب نمبر ۶۴)
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ لوگوں کے توجہ دلانے پر انہوں
نے صف بندی کی‘ چوتھی تکبیر کہی پھر سلام پھیرا۔ (مصنف عبدالرزاق: ج۳‘ ص ۴۸۶)
اگر تکبیر رہ جائے تو اس کی تلافی ترک کردہ تکبیر دوبارہ کہنے
اور پھر سلام پھیرنے سے ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم!
قعدہ اور جلسہ استراحت میں فرق
O نماز
میں قعدہ اور جلسۂ استراحت کیا ہوتا ہے؟ کیا ان کی مشروعیت کتاب وسنت سے ثابت ہے؟
نیز ان میں کونسی دعائیں پڑھی جاتی ہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت سے بیان کریں۔
P دو سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنے کو قعدہ کہا جاتا
ہے اور طاق رکعات یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں آخری سجدے سے فراغت کے بعد اٹھنے سے
پہلے اچھی طرح سیدھے ہو کر بیٹھنے کو جلسۂ استراحت کہتے ہیں۔ یہ دونوں ہی مسنون ہیں۔
امام بخاریa نے
دونوں کو ثابت کرنے کے لیے الگ الگ باب قائم کیے ہیں۔ چنانچہ قعدہ کے متعلق بایں الفاظ
باب قائم کیا ہے: ’’دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنے کا بیان۔‘‘ (بخاری‘ الاذان‘ باب نمبر
۱۴۰)
پھر متعدد احادیث سے اسے ثابت کیا ہے‘ پھر جلسۂ استراحت کے
لیے یوں باب قائم کیا ہے: ’’جو شخص اپنی نماز کی طاق رکعات میں سیدھا ہو کر بیٹھے پھر
کھڑا ہو۔‘‘ (بخاری‘ الاذان‘ باب نمبر ۱۴۲)
اس کیفیت کو بھی سیدنا مالک بن الحویرثt سے
مروی حدیث سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہe جب طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک سیدھے
ہو کر اچھی طرح بیٹھ نہ لیتے۔ (بخاری‘ الاذان: ۸۲۳)
جلسۂ استراحت میں رسول اللہe سے کوئی دعا پڑھنا منقول نہیں البتہ قعدہ میں دعاء پڑھنا
ثابت ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:
\ [اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاہْدِنِیْ
وَارْزُقْنِیْ] (ابوداؤد‘ الصلوٰۃ:
۸۵۰)
\ [رَبِّ اغْفِرْ لِیْ، رَبِّ اغْفِرْ لِیْ] (ابوداؤد‘ الصلوٰۃ: ۸۷۴)
No comments:
Post a Comment