خطبۂ حرم ... اچھی توقع رکھنے
کی اہمیت
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر المعیقلی d
ترجمہ: جناب محمد عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! مجھے اور آپ کو کی جانے والی نصیحت پرہیز گاری
کی نصیحت ہے۔ خلوت اور جلوت میں اس سے ڈرنے کی نصیحت ہے۔ باتوں اور کاموں میں اس سے
ڈرنے کی نصیحت ہے۔ غصے اور خوشی میں اس سے ڈرنے کی نصیحت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اُس کی جناب میں بار یابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ
میں جدوجہد کرو، شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو جائے۔‘‘ (المائدہ: ۳۵)
اللہ کے بندو! مجموعی طور پر لوگ اپنے معامات بڑی آسانی اور
آزادی کے ساتھ نمٹاتے رہتے ہیں، یہ آسانی اور آزادی انہیں باہمی الفت، مودت اور رحم
دلی سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جب گندی، تیز زبانیں
اور بے وجہ تنگ کرنے والے ہاتھ میدان میں آ جاتے ہیں تو معاملہ مختلف ہو جاتا
ہے۔ کیونکہ زبان اور ہاتھ ضرب لگانے والے کدال ہیں۔ ان میں معاشرے کی عمارت کی اینٹیں
توڑنے اور اس کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کی طاقت ہوتی ہے۔ معاشرے میں ان دو ہتھیاروں
کا منفی استعمال جتنا کم ہو گا، اتنا ہی نفسیاتی اور علمی سکون پایا جائے گا۔ یہی وجہ
ہے کہ رسول اللہe نے
لوگوں پر بالعموم اور افراد پر بالخصوص زبان اور ہاتھ کو انتہائی مؤثر قرار دیا ہے۔
آپe نے
یہ بھی بتایا کہ مسلمان ہونے کے ناتے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ آپe کا
فرمان ہے:
’’مسلمان وہ ہے جس
کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور
مال کو محفوظ سمجھیں۔‘‘ (مسند احمد ایک حصہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ہے۔)
اللہ کے بندو! جب ہمیں زبان اور ہاتھ کا خطرہ معلوم ہو گیا ہے
تو یہ بھی معلوم ہو جانا چاہیے کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں ایک اخلاق سے گری ہوئی حرکت
رونما ہوتی ہے، جو انتہائی بری خصلت کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور جس کا بیج بس کسی کالے
دل میں ہی پایا جا سکتا ہے۔ یہ حرکت دوسروں کو بلیک میل کرنا، ان کی کمزوری کو اپنی
خبیث مرادیں اور اخلاق سے گری ہوئی خواہشات پوری کرنے کا زینہ بنانا ہے۔
اللہ کے بندو! یہ بد ترین حرکت بلیک میلنگ کی حرکت ہے۔ یہ ایک
انتہائی خطرناک اسلحہ ہے جس کا سہارا کسی کمزور اور بزدل کے سوا کوئی نہیں لے سکتا۔
وہی اپنے شکار کو مادی یا اخلاقی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ ہتھیار دفاعی ہتھیار
نہیں بلکہ دھوکہ بازی کا ہتھیار ہے۔ اسے کبھی دلیر، طاقتور اور عقلمند لوگوں کے اسلحوں
میں نہیں گنا جا سکتا۔
اللہ کے بندو! بلیک میلنگ ایک پر تشدد عمل ہے جس کی بنیاد سخت
خود پسندی ہے۔ جس کا مقصد کسی شخص کو راز فاش کرنے کی دھمکی دے کر اس کی آزادی سلب
کر لینا اور اسے غیر قانونی کام کرنے پر مجبور کر دینا یا کوئی ذاتی مفاد لینے کی کوشش
کرنا۔ اس طرح بلیک میلنگ کا شکار ہونے والا شخص خود کو رسوائی سے بچانے کے لیے اور
راز فاش ہونے کے ڈر سے گھٹنے ٹیک دیتا ہے، کیونکہ اسے بلیک میل کرنے والا خبیث انسان
خوب جانتا ہے کہ اس شکار پر حملہ کہاں سے ہو سکتا ہے۔ اللہ کی قسم! یہی وہ بد ترین
اور مذموم غلبہ ہے جس سے رسول اللہe نے
پناہ مانگی ہے۔ فرمایا:
’’اے اللہ! میں تیری
پناہ چاہتا ہوں، پریشانی اور غم سے، بے بسی اور سستی سے، بزدلی اور کنجوسی سے، قرض
کے بوجھ اور لوگوں کے بوجھ تلے دبنے سے۔‘‘ (بخاری)
بلیک میلنگ ایک مذموم اخلاق ہے، بد ترین کام ہے، نفس کی خباثت
سے پردہ ہٹاتا ہے، گندگی سے بھرے دل کا پیغام دیتا ہے، کمزور اور بے بس لوگوں پر جرم
کا پنجہ مارتا ہے، اس میں بڑی سختی پائی جاتی ہے، انتقام خوب نظر آتا ہے اور اس میں
دوسروں کا نا جائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس کے ذریعے پائی جانے والی
کامیابی جعلی کامیابی ہے۔ بلیک میلنگ ایسا جرم ہے جس کا کوئی دین نہیں۔ جس کا کوئی
مذہب نہیں۔ اس کا سہارا لینے والے کسی کمزور پر رحم نہیں کرتے، کسی رشتہ داری کا پاس
نہیں رکھتے اور کسی تعلق کا لحاظ نہیں کرتے۔
اللہ کے بندو! بلیک میلنگ کا میدان بہت بڑا میدان ہے۔ جس میں
طرح طرح کے لوگ گھسے ہوئے ہیں۔ اس میں اخلاق سے گرے ہوئے لوگ، تند خو اور تشدد پسند
لوگ کثرت سے دکھائی دیتے ہیں جو دوسروں کے کندہوں پر اوپر چڑھنا چاہتے ہیں۔ صرف دشمن
ہی ایک دوسرے کے خلاف اس کا سہارا نہیں لیتے، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی
کے خلاف اسے استعمال کرتے، بھائی اپنے بھائی کے خلاف کرتے، اور دوست اپنے دوست کے خلاف
کرتے ہیں۔ کیونکہ نفس جب گندا ہو جاتا ہے تو اسے روکنے والی کوئی لگام نہیں رہتی۔ اس
کے لیے پھر دوست اور دشمن برابر ہو جاتے ہیں۔ ہاں! اگر اللہ کسی پر رحم فرمائے تو وہ
اس روش سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس روش سے محفوظ وہی ہو سکتا ہے جو نبی کریمe کے
فرمان کو سن لے اور ٹھیک طرح سمجھ بھی لے اور آپe کے فرمان کو پلے باندھ لے۔ ابن عمرw سے
روایت ہے کہ
رسول اللہe ایک
مرتبہ منبر پر چڑھے تو بلند آواز سے فرمانے لگے: ’’اے زبانی مسلمان ہونے کا اقرار کرنے
والو! اے وہ لوگو جن کے دل میں ابھی ایمان نہیں بیٹھا! مسلمانوں کو اذیت نہ دو، انہیں
گالی نہ دو، ان کے عیبوں کی کھوج نہ لگاؤ۔ کیونکہ جو اپنے بھائی کے عیب کے پیچھے پڑ
جاتا ہے، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑ جاتا ہے، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے ہو، تو
وہ اسے اس کے گھر میں رسوا کر چھوڑتا ہے۔‘‘ (ترمذی ودیگر )
اللہ کے بندو! ہمارے دور میں زیادہ تر بلیک میلنگ اخلاق اور
عزتوں سے کی جاتی ہے۔ یہ وہ خطرناک دروازہ ہے جس کے ذریعے بیلک میل کرنے والا اپنے
شکار کی طرف جاتا ہے۔ خاص طور پر اس دور میں کہ جب سوشل میڈیا اپنے عروج پر ہے، جہاں
گھات لگا کر بیٹھے لوگ، دوسروں کو تنگ کرنے والے اور فریبی کثرت سے نظر آتے ہیں، جہاں
پاگل بھیڑیے اور دوسروں کی دیواروں پر چڑھنے والے لوگ کثرت سے نظر آتے ہیں۔ اللہ کے
بندو! یقینا! عزت آبرو کی حفاظت ایسی چیز ہے کہ جس کی اشد ضرورت پر تمام ادیان متفق
ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ بلیک میل کرنے والا اس قلعے پر حملہ کرتا ہے،
اور معاشرے کا اخلاقی امن وامان تباہ کرتا ہے۔ بلیک میلر ایک چور ہے، بد ترین ڈکیت
ہے۔ ابن قیمe اور
دیگر علماء نے اس کے متعلق بات کی ہے۔ فرماتے ہیں: خواہش اس کا امام ہوتی ہے، لذت اس
کا قائد ہوتی ہے، جہالت اس کا رہنما ہوتی ہے۔ غفلت اس کی سواری ہوتی ہے۔ وہ دنیاوی
مفاد حاصل ہو جانے کے دھوکے میں ہوتا ہے، خواہش کے نشے اور جلد بازی کے خمار میں مست
ہوتا ہے۔ ہر سر کش شیطان کی پیروی کرتا ہے۔
اللہ کے بندو! یہ ہے بلیک میلر کی حقیقت۔ بڑا مفاد پرست انسان،
جسے بس اپنے مفاد کی فکر ہوتی ہے چاہے اس کی وجہ سے کسی دوسرے کا شدید نقصان ہی کیوں
نہ ہو جائے، وہ خود جانتا ہے کہ وہ اتنا نیک اور قابل نہیں کہ وہ خود اپنی تمنائیں
پوری کر سکے۔ یا بلیک میلنگ کا سہارا لیے بغیر قانونی طریقے سے اپنے مقاصد پورے کرے۔
اس لیے وہ بھوکا بھیڑیا بن کر مفاد پرستی اور بلیک میلنگ کے دانت دکھانے لگتا ہے ۔
بلیک میلر انسانیت کے درجے سے گرا ہوا شخص ہوتا ہے۔ بلکہ وہ انسان کی شکل میں ایک شیطانِ
مردود ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو! بلیک میلنگ کا نقصان قابل پھیلاؤ ہوتا ہے۔ یہ
دوسرے جرائم کی سیڑھی ہے، جو شاید مالی نقصان سے شروع ہوتے ہیں اور جسمانی اذیت پر
ختم ہوتے ہیں۔ بلیک میلنگ کی مثال نمکین پانی کی ہے، اس سے جتنا زیادہ پیا جاتا ہے،
پیاس اتنی ہی بڑھتی ہے۔ بلیک میلر ایک مرتبہ جرم کرنے پر اکتفا نہیں کرتا، حالانکہ
اس کا شکار یہ سمجھ کر گھٹنے ٹیک دیتا ہے کہ شاید یہ پہلی اور آخری مرتبہ اس کا شکار
ہو رہا ہے۔ مگر بلیک میلر پھر کسی اور جانب سے حملہ کرتا ہے۔ اور جتنی مرتبہ حملہ کرتا
جاتا ہے، اس کی پیاس اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ بلیک میلر کی خواہشات اور جرائم کی کوئی
حد نہیں ہوتی جہاں پہنچ کر اس کے جرائم ختم ہو جائیں، بلکہ وہ اپنے جرم میں آگے بڑھتا
جاتا ہے، اور شکار کو برباد کر کے چھوڑتا ہے۔
بلیک میلنگ کے مقدمات اگرچہ بڑے متنوع اور کثیر ہیں، مگر ان
میں زیادہ تعداد لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کی ہے۔ لڑکا اپنی جوانی
کو ہتھیار بناتا ہے اور لڑکی کے جذبات کو نشانہ بناتا ہے۔ جذبات جوانی کا مقابلہ بھلا
کس طرح کر سکتے ہیں؟ بلکہ قیدی قید کرنے والے کی قید کس طرح کھول سکتا ہے؟ جذبات ابھارنے
والے جھوٹے وعدوں کی بھرمار ہوتی ہے اور مذموم طریقے سے دھوکہ دہی کا سلسلہ چلتا ہے۔
اگرچہ غلطی نوجوان لڑکے کی ہوتی ہے، مگر پھر بھی لڑکی کو بری الذمہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
کیونکہ وہ اپنے جذبات اور بھروسے کو ایسے شخص کے سپرد کر دیتی ہے جس کے نہ وہ اخلاق
جانتی ہے، نہ دین اور نہ امانت۔ اسی نے بیماری سے پھولے شخص کو صحتمند سمجھا ہوتا ہے،
ماسک کے پیچھے چھپے شخص کو قابل بھروسہ سمجھ لیا ہوتا ہے۔ تو کوئی شک نہیں کہ اسی کے
ہاتھوں نے لکڑیاں اکٹھی کی ہوتی ہیں اور اسی کے منہ نے آگ تیز کرنے کے لیے پھونک ماری
ہوتی ہے۔ جو اپنے گھر کے دروزاے پر نگاہ نہیں رکھتا، وہ اسے چوروں کے لیے کھلا چھوڑ
دیتا ہے۔ بلیک میلنگ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بلیک میلر اپنے شکار کو اپنے سے کم تر اور
کمزور سمجھتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اسے نشانہ ہی نہ بناتا۔ کیا بلیک میلر کی
یہ برائی کم ہے کہ اس کے دل میں شر کا اتنا زور ہو کہ وہ لوگوں کی عزت آبرو اور ان
کی چیزوں کی سودے بازی کرنے لگے؟ برا انسان سب سے پہلے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے
لگتا ہے، پھر ان کی عزت و آبرو کو بے حیثیت سمجھنے لگتا ہے۔ جس طرح نبی اکرمe نے
فرمایا:
’’انسان کے برے ہونے
کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان کے لیے دوسرے
مسلمان کی ہر چیز محترم ہے، اس کی جان، اس کا مال اور اس کی عزت آبرو۔‘‘ (مسلم)
بلیک میلنگ کی تمام شکلیں اور قسمیں، جہاں بھی پائی جائیں، بہر
حال اہل دانش اسے اذیت کے دائرے سے خارج نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جو لوگ مومن مردوں
اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال
اپنے سر لے لیا ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۵۸)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے۔ بہترین طریقہ نبی اکرمe کا
طریقہ ہے۔ ایجاد کردہ عبادتیں بد ترین کام ہیں۔ ہر ایجاد کردہ عبادت بدعت ہے اور ہر
بدعت گمراہی ہے۔ مسلمان جماعت کے ساتھ جڑے رہو۔ کیونکہ اللہ کے ہاتھ جماعت کے ساتھ
ہیں۔ جو اس سے الگ ہوتا ہے وہ جہنم میں جا گرتا ہے۔
یاد رکھو کہ ماہرین نے بلیک میلنگ کے بارے میں بات کی ہے۔ کچھ
لوگوں نے اس کے بارے میں زیادہ لکھا ہے اور کسی نے کم۔ کچھ نے اسے ایک مسئلہ قرار دیا
ہے، کسی نے اسے ایک رویہ قرار دیا ہے۔ بہر حال، بلیک میلنگ کے جرم ہونے میں تو کوئی
شک نہیں۔ یہ ایسا عیب ہے جس کے بارے میں مسلمان معاشرے کے اہل علم کو غور وفکر کرنا
چاہیے، یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس کا علاج تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب دوا کا صحیح
انتخاب کیا جائے، اس کے اسباب کا ازالہ کیاجائے اور اسے بھڑکانے چیزوں کو دفنایا جائے۔
اسی طرح یہ بھی جان لینا چاہیے کہ بلیک میلنگ کا مقابلہ کسی ایک شخص کی ذمہ داری نہیں،
بلکہ یہ سارے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا
کرے۔ فیملی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے متعلقین کو اس خطرے سے آگاہ کرے۔ مدرسہ بھی
ذمہ دار ہے، دانشور طبقہ بھی ذمہ دار ہے، قانون کے محافظ بھی ذمہ دار ہیں۔ بلیک میلنگ
کا علاج قانونی بھی ہو سکتا ہے، اخلاقی بھی اور تربیتی بھی۔ یہ سارے علاج ایک دوسرے
کی تکمیل کرتے ہیں۔ محض قانونی علاج کافی نہیں ہو سکتا، نہ اخلاقی اکیلا کام کر سکتا
ہے اور نہ تربیتی علاج ہی بطور خود کار گر ہو سکتا ہے۔ قانونی علاج بلیک میلنگ واقع
ہونے کے بعد کام آتا ہے جبکہ اخلاقی اور تربیتی علاج اس سے بچاؤ کے ذرائع ہیں۔ اگر
بچاؤ نہ ہو سکے تو بعد از وقوع اس کا ازالہ ضروری ہے۔ مگر اہل عقل کا اتفاق ہے کہ بچاؤ
علاج سے بہتر ہے۔
اے اللہ! ہمارے نفس کو پرہیز گار بنا۔ اسے پاکیزہ فرما! تو ہی
اسے بہترین طریقے سے پاک کرنے والا ہے۔ تو ہی اس کا ولی اور مولیٰ ہے۔ اے اللہ! ہر
جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! ہمارے
حکمرانوں اور اماموں کی اصلاح فرما! اے پروردگار عالم! ہماری حکمرانی ایسے لوگوں کے
ہاتھوں میں دے جو تجھ سے ڈرنے والے اور پرہیز گار ہوں اور اے پروردگار عالم! جو تیری
خوشنوی کے طالب ہوں۔ آمین یا رب العالمین!
No comments:
Post a Comment