دعوتِ دین‘ سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں
تحریر: جناب حافظ محمد فیاض الیاس
اثری
داعی اعظم جناب محمد کریمe کی حیاتِ طیبہ ہر اعتبار سے امت مسلمہ کے لیے اسوہ حسنہ
ہے۔ آپ نے زندگی کے ہر شعبہ میں امت کی رہنمائی فرمائی۔ اپنے ماننے والوں کواسلامی
ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کا لائحہ عمل اور شرعی سیاست سکھلائی۔ معاشی،معاشرتی اور
سماجی امور کی اصلاح بارے نوعِ انسانی کو بے مثل ہدایات فرمائیں۔ آپ نے اپنے قول و
عمل سے تمام شعبہ ہائے زندگی کے متعلق وافر تعلیمات سے نوازا۔ رسول اللہe کی
بے مثل تعلیمات کی بدولت ہی عرب معاشرہ اس قدر امن کا گہوارا بنا کہ دنیا اس کی مثال
بیان کرنے سے عاجز ہے، اپنے بیگانے سبھی آپ کے اس عظیم و بے مثل کارنامے کے معترف ہیں۔
آج بھی اگر عالم انسانی میں امن قائم کیا جاتا سکتا ہے اور نوعِ انسانی کو حقیقی کامیابی
کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے تو وہ واحد راستہ اسلام کا نفاذ اور اسلامی ریاست
کا قیام ہے۔
رسول اللہe نے
قیامِ امن اور مخلوق کو خالق و مالک کا حقیقی فرمانبردار بندہ بنانے کے لیے جو جہد
مسلسل فرمائی آج بھی اسی کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی امور کی بہتری
کا واحد راستہ تعلیمات نبویہ کو اختیار کرنا ہی ہے۔ اخلاق و کردار کی بہتری، فکری و
عملی تربیت ، اسلامی معاشرے کا قیام ، اسلامی اخوت و بھائی چارگی کی ترویج اور امت
مسلمہ کی عالمی سطح پر کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے نفاذِ اسلام کے لیے آنحضرت
کی سعی پیہم کا مطالعہ اور اس کے مطابق دین کی محافظ امت کی تیاری۔
داخلی اور خارجی سطح پر امت کی کامیابی، حقیقی اسلامی ریاست
کا قیام اور تہذیبی ، سماجی اور سیاسی سطح پر غلبہ دین بھی اسی طریق سے ممکن ہے ۔ اس
کے لیے نبوی منہج اصلاح اور دعوت و تبلیغ کے لیے آنحضرت e کے اختیار کردہ اصول و آداب اور اسلوب و طریقہ کار سے
واقفیت انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ امر اس قدر اہم ہے کہ خود پروردگار عالم نے مبلغ اعظم
جناب محمد مصطفیe کو
دعوت کے اسلوب و آداب کی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
{اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ
رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ … بِالْمُھْتَدِیْن} (النحل: ۱۲۵)
’’اے نبی! آپ اپنے
رب کے راستے کی طرف دعوت دیں، حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، لوگوں سے مباحثہ بھی کریں
تو بہترین طریقے سے ، آپ کا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا
ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔‘‘
پُر حکمت دعوت، موعظہ حسنہ اوربطریقہ احسن مباحثہ میں تمام وہ
امور شامل ہیں جو دعوت دین کے لیے مفید ہو سکتے ہیںا ور جن کے ذریعے دعوت کو مؤثر
ترین انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔ اندازِ گفتار، نفسیات کا لحاظ، مناسب مواقع کا
انتخاب، مفید ترین ذرائع ابلاغ کا استعمال اور موقع محل کی مناسبت سے موزوں ترین موضوع
کا انتخاب جیسے تمام امور دعوت میںملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
دعوتی اسلوب سے مراد بات کرنے کا طریقہ ، انداز بیان اور طرزِ
تکلم ہے۔ جسے داعی اپنی دعوت آگے پہنچانے کے لیے اختیار کرتاہے۔ دعوت میں مرکزی کردار
اگرچہ داعی کا ہوتاہے لیکن دعوت کی کامیابی کا انحصار دعوتی اسلوب و ڈھنگ پر ہوتا ہے۔
باطل ادیان تمام طرح کی خرابیوں کے باوجود اگر آج غالب ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ان
کا حسن اسلوب، دلنشین انداز گفتگو اور اعلیٰ ترین ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال ہے۔
دعوت و تبلیغ اور ابلاغ حق کے لیے اللہ عزوجل کی مقدس کلام میں
اور رسول اللہe کی
سیرت طیبہ میں متعدد اسلوب اختیار کیے گئے ہیں اور انتہائی آسان، واضح اور دل نشین
انداز میں رب تعالیٰ کی توحید و الوہیت کی معرفت کرائی گئی اور دعوت و جہاد کی تعلیم
دی گئی ہے ۔ توحید و رسالت کی تفہیم اور عبادت و ریاضت کی تعمیل کے لیے مختلف اسلوب
اختیار کیے گئے ہیں ،جن سے داعیان اسلام کی آگہی انتہائی ناگزیر ہے جیسے:
۱۔ ترغیب و ترہیبـ:
ترغیب سے مقصود امورِ خیر انجام دینے پر ابھارنا ، ان کا شوق
دلانا اور اجر و ثواب کی بشارتیں دینا، جب کہ ترہیب کا مطلب کفر و شرک کے انجامِ بد
سے ڈرانا،توحید و رسالت کے انکار کا جرم اور گناہ بتلانا، اللہ عزوجل کی نافرمانی کی
وجہ سے عذاب قبر، عذاب آخرت اور حشر ونشر کی ہولناکیوں سے آگاہ کرنا۔
اللہ عزوجل نے عمومی طور پر جنت و جہنم ،کفر و ایمان اور اپنی
رحمت و عذاب کا اکٹھا تذکرہ کیا ہے تاکہ جس نے بھی جو راستہ اختیار کرناہے اس پر کوئی
پہلو مخفی نہ رہے۔ توحید و رسالت کے اقرار پر ملنے والے انعام واکرام بارے بھی اسے
معلوم ہوا اور ایمانیات و اخلاقیات سے روگردانی کی صورت میں لاحق عذاب و مصائب بارے
بھی اسے واقفیت ہو،جو آدمی جو بھی راستہ اختیار کرے علی وجہ البصیرۃ کرے، تاکہ اس کا
کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اہل ایمان اور اہل کفر کا اکٹھا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
{اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا
لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ
وَّ اَجْرٌ کَبِیْرٌ} (فاطر:۳۵/۷)
’’اہل کفر کے لیے
شدید عذاب ہے جب کہ اہل ایمان اور اعمال صالحہ کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجرِ کبیر
ہے۔‘‘
اسی طرح فرمایا:ـ
{فَاَمَّا مَنْ طَغٰی٭
وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا٭ فَاِِنَّ
الْجَحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰی٭ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ
عَنِ الْھَوٰی٭ فَاِِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی٭} (النازعات: ۷۹/۳۷۔۴۱)
’’جس نے بھی سرکشی
کی اور دنیا کو ترجیح دی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہے لیکن جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے
سے ڈر گیا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا اس کا ٹھکانا تو جنت ہی ہے۔‘‘
اسی طرح اپنے عذاب و عقاب اور مغفرت و رحمت کا اکٹھا تذکرہ کرتے
ہوئے فرمایا:
{اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ
الْعِقَابِ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} (الاعراف: ۱۶۷)
انبیائے کرام کی بعثت کے انذار و تبشیر دونوںمقصدبیان کیے گئے
ہیں۔ دعوت میں ترغیب و ترہیب ، انذار و تبشیر اور اہل جنت وجہنم میں سے کسی کا بھی
پہلے تذکرہ کیا جا سکتا ہے ۔ ایک ہی موقع پر اگرچہ دونوں کا اکٹھا تذکرہ لازمی نہیں لیکن دونوں کا اہتمام کرنا مقصودِ
شرع ہے۔ دونوں میں توازن بھی ہونا چاہیے۔
ترغیب و تبشیر میں بے جا رخصتوں اور سہولتوں والے انداز سے پرہیز
ضروری ہے۔ اس سے اعمال میں کوتاہی اور عبادت میں سستی واقع ہوتی ہے۔
اسلاف کے ہاں خوف و ڈر کا پہلو غالب تھا۔ رسول اللہe نے
بھی اپنی علانیہ دعوت کا آغاز (أَنْقِذُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ) سے فرمایا کیونکہ اللہ عزوجل نے آپ کو اسی کا حکم دیتے ہوئے
فرمایا تھا۔
{وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ
الْاَقْرَبِیْنَ} (الشعرا:۲۱۴)
یہی نہیں، تبلیغ و رسالت کا حکم دیتے ہوئے دوسری وحی ہی میں
آنحضرت eکو تبشیرکے بجائے انذار کا حکم دیاگیا۔ فرمایا :
{یٰٓاََیُّھَا الْمُدَّثِّرُ٭
قُمْ فَاَنْذِرْ٭} (المدثر: ۱،۲)
کمال یہ دیکھیں کہ یہ تمام کی تمام سورت ہی انذار و ترہیب ،
قیامت کی ہولناکی، اہل جہنم کے تذکرے اور حشر و نشر کی نقشہ کشی پر مشتمل ہے۔
۲۔ مکالمہ و مباحثہ:
توحید و رسالت سے واقفیت اور رب تعالیٰ کی حاکمیت کے نفاذ کی
دعوت کے لیے مباحثہ کا اسلوب بھی ہے۔ اخلاق کے دائرے میں رہ کر فریقین میں سے ہر کوئی
اپنے اپنے موقف کے دلائل پیش کرے اور حق تک رسائی کی جستجو کی جائے۔ دونوں طرح کے موقف
ایک ہی جگہ پر سامنے آنے سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور لوگوں کو حق سمجھنے میں
مدد ملتی ہے۔ قرآنِ کریم میں سیدنا موسیٰ اور فرعون، سیدنا ابراہیم اور نمرود او ر
دیگر انبیائے کرامo کی
اپنی امتوں سے مکالمے کے کثیر واقعات موجود ہیں۔
مکالموں میں بھی موضوع عقائد و ایمانیات اور رسالت و آخرت ہونا
چاہیے۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہu نے
فرعون کو لاجواب کردیا۔ سیدنا موسیٰuاور فرعون کا باہمی مباحثہ بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا
گیا ہے۔ سیدنا موسیٰuانتہائی خوش اسلوبی سے اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ رب کی ربوبیت
کا درس دیتے ہیں اور آخر فرعون کو فیصلہ کن مرحلے کے لیے تیار کرلیتے ہیں ۔ اس مکالمے
کے دوران فرعون نے سیدنا موسیٰuپر طرح طرح کے الزامات لگائے ، اپنے حواریوں کو طیش دلانے کی
بھرپور کوشش کی، لیکن سیدنا موسیٰuنے اسے اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ فرعون انھیں
مجنون کہتا ہے، رجم کیے جانے کی دھمکی دیتا ہے اور جادوگر کہتا ہے۔ لیکن سیدنا موسیٰu نے
اس مباحثے میں اس کے کسی الزام کا جواب نہیں دیا۔ پس اپنی دعوت ہی پیش کرتے رہے کہ
زمین و آسمان اوران کے درمیان سب کچھ کا رب صرف ایک ہے۔ تمہارے اور تمہارے آباء و اجداد
کا بھی وہی رب ہے۔ مشرق و مغرب اور ان کے درمیان واقع تمام چیزوں کا بھی وہی رب ہے۔
اس کے بعد آخر ناکامی بھی فرعون ہی کا مقدر بنی۔
کفار و مشرکین اور رسول اللہe کا متعدد بار مباحثہ ہوا۔ بار بار آپ نے مذاکرات کی
دعوت، پیش کی، لیکن آپ اپنا اصل موقف توحید و آخرت اور عقیدہ ہی بیان کرتے جس پر وہ
بدکتے اور بھاگ جایا کرتے۔ نہ آپ نے اپنے موقف میں لچک دکھائی ، نہ اپنی دعوت چھپائی
اور نہ ہی اس بارے مخالفین سے سمجھوتہ کیا۔ لیکن حکمت و دانائی، حسن اخلاق اور خیر
خواہی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔
۳۔خیر خواہانہ اسلوب:
دعوت کے اسالیب میں سے ایک خیرخواہانہ اندازِ تبلیغ بھی ہے۔ا
س میں دعوت دیتے ہوئے مخاطب کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ میں تمہاری خیر و بھلائی
کا متمنی ہوں اور تمہارے لیے اچھائی مجھے مطلوب ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ داعی اپنے
ان خیرخواہانہ جذبات کا باقاعدہ الفاظ سے اظہار کرے، بلکہ اندازِ دعوت ایسا ہو کہ اس
سے ہمدردی جھلک رہی ہو اور مخاطب خود اسے محسوس کرنے لگے۔ بے لوث جستجو ، بغیر معاوضہ
دعوت اور انتھک لگن سے متصف داعی الی اللہ اسی اسلوب کو اختیار کیے ہوتا ہے۔
دعوت جیسے عظیم فریضہ سے منسلک مسلمان کا جس قدر مشن عظیم ہو
گا، اللہ عزوجل اور قیامت و آخرت پر ایمان مضبوط ہو گا ، اسی قدر خیر و بھلائی اس کا
مطلوب ہو گی اور اسی قدر وہ دین کے رستے میں آنے والے مصائب برداشت کرنے کا حامل ہو
گا کیونکہ اس کا اس سے بھی مقصود رضائے الٰہی ہوگی۔ اللہ عزوجل نے انسانیت کی خیر خواہی
کی غرض ہی سے ان میں انبیائے کرامo مبعوث
کیے اور ان کے واسطے سے اپنی مخلوق کو رشد وہدایت کا رستہ بتلایا اور انہیں خیرو بھلائی
کے امور سے آگاہ فرمایا۔
موقع محل کی مناسبت سے خیرخواہانہ جذبات کا اظہار کرنا بھی پیغمبرانہ
سنت ہے۔ حکمت و دانائی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایسے پاکیزہ جذبات کا اظہار بھی مفید
ہو سکتا ہے۔ یہ تب زیادہ مفید و مناسب ہو سکتا ہے جب مخاطبین داعی کی تمام تر کوشش
کے باوجوداس پر ظلم ہی کرتے جا رہے ہوں اوروہ اسے اپنے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہوں۔بہت
ہی اہم موقع پر ایسے جذبات کا باقاعدہ اظہار مفید ہوتا ہے۔
سورۃ اعراف میں سیدنا نوح، سیدنا ھود، سیدنا صالح اور سیدنا
شعیبo کی
طرف سے باقاعدہ ان جذبات کا ذکر ہے۔ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تھاکہ جو ہم تمہیں
حکم ربانی پہنچا رہے ہیںاور بداعمالیوں سے منع کر رہے ہیں اس سے ہمارا مقصود تمہاری
خیر خواہی ہی ہے۔ لیکن ان کی قوموں نے جب ان کے ان پاکیزہ جذبات کی بھی قدر نہ کی تو
ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا ٹھہرے۔
پیغمبر آخر الزماں جناب محمد کریمu کی اسی خوبی کا تذکرہ رب تعالیٰ نے یوں فرمایا:
{لَقَدْ جَآئَکُمْ
رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ} (التوبۃ: ۱۲۸)
’’تمہارے پاس تو
ایسے پیغمبر آئے ہیں جو خود تمہی میں سے ہیں۔ تمہارا نقصان ان پر شدید شاق گزرتا ہے
اور تمہاری فلاح و کامیابی کے وہ بہت ہی حریص ہیں۔ ایمان والوں کے لیے تووہ خاص مشفق
اور ہمدرد ہیں۔‘‘
رسول اللہe کی
یہاں بیان کردہ چاروں کی چاروں صفات ہی امت کی ہمدردی اور خیر خواہی کی آئینہ دار ہیں۔
بغیر خیر خواہی کے نہ تو کسی کو دوسرے کا حزن و ملال ہوتا ہے ، نہ کوئی دوسرے کی تکلیف
کواپنے لیے پریشانی کا سبب سمجھتا ہے اور نہ ہی وہ کسی پر شفقت اور رحمت کا حامل ہوتا
ہے، جبکہ آپ ان تمام صفات سے بدرجہ اتم متصف تھے۔
رسول اللہe کی
یہ بھی اپنی امت سے ہمدردی ہی تھی کہ زندگی بھر انہیں صرف رب کی عبادت و ریاضت کی تلقین
کرتے رہے اور ہر ایک کو حقوق و فرائض کی تلقین فرمائی ۔ آپ کی خیر خواہی کا تو یہ عالم
تھا کہ لوگوں کی عدم ہدایت پر اس قدر رنجیدہ رہتے کہ اللہ رب العزت اس کیفیت کو بیان
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
{لَعَلَّکَ بَاخِعٌ
نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُو ْا مُؤْمِنِیْنَ} (الشعرا: ۳)
’’شاید آپ تو ان
لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے خود کو ہلاک کرلیں گے۔‘‘
دوست احباب ، عزیز و اقربا ، واقف کار اور اجنبی کو شب و روز
دعوت دین دینا آپ کے انہی مخلصانہ جذبات کی بنا پر تھا۔ رسول اللہe نے
اپنی امت کے بارے میں ہمدردانہ جذبات کا یوں بھی اظہار فرمایا کہ میری اور لوگوں کی
مثال اس آدمی کی سی ہے جس کے آگ جلانے پر پروانے خود سے اس میں آگرتے ہیں ، بچانے کے
باوجود بچ نہیں پاتے، میں بھی تمہاری کمر سے پکڑ کر تمہیں جہنم میں گرنے سے بچا رہا
ہوں لیکن تم ہو کہ زبردستی اس میں کودے جا رہے ہو۔ (صحیح البخاری:۶۴۸۳، صحیح مسلم: ۲۲۸۴)
آج کے داعی الی اللہ کو بھی اس عظیم وصف سے متصف ہونے کی ضرورت
ہے‘ اس کے بغیر دعوت دین کا فریضہ حقیقی معنوں میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔
۴۔ اظہارِ ناراضی:
اپنے چاہنے والوں سے اظہار ناراضی اور تعلق داروں سے وقتی قطع
تعلقی بھی اصلاح و دعوت کا ایک اسلوب ہے۔ اس کے لیے افراد کی نفسیات اور جذبات سے واقفیت
بھی انتہائی اہم ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جس کی اصلاح کے لیے وقتی ناراضی کا اظہار کیا جائے
وہ اپنی اصلاح کی بجائے مزید خرابی کا مرتکب ہو جائے اور داعی کی ناراضی کی اس کے ہاں
کوئی اہمیت ہی نہ ہو بلکہ دوبارہ تعلقات کی بحالی اور صلح صفائی کے لیے دیگر لوگوں
کی خدمات حاصل کرنا پڑیں، داعی کی قدر واہمیت پہلے سے بھی کم ہو جائے۔
رسول اللہe کی
محبت و احترام کیونکہ اہل ایمان کے ہاں سب سے بڑھ کر تھا اوروہ آپ کی ناراضی تو کیا
صرف آپ کی خاموشی بھی اپنے لیے عظیم آزمائش سمجھتے اور پریشانی خیال کرتے تھے، آپ نے
بھی بعض مرتبہ اصلاح و دعوت کے لیے ترک تکلم اور ناراضی کا طریقہ اختیار فرمایا اور
اس کا فائدہ بھی ہوا۔
ہادئ عالمe نے
اپنی ازواج مطہراتg سے
ماہ بھر کے لیے لاتعلقی فرمائی۔ امہات المومنینg کو آپ کی ناراضی کا شدید صدمہ ہوا اور زندگی بھر آپ
کو کسی طرح سے بھی پریشان نہ کرنے کا اپنے رب سے اور آپ سے وعدہ فرمایا۔ تاحیات آپ
کی زوجیت ہی میں زندگی بسر کرنے کو بخوشی قبول کیا اورکسی دنیوی مفاد کابھی مطالبہ
نہ کرنے کا ہمیشہ کے لیے وعدہ کیا۔
شریف زادیوںاور شرم و حیا کی پیکر اہل ایمان شادی شدہ خواتین
کی اصلاح کے لیے بھی ایک یہی اسلوبِ اصلاح اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے جسے اللہ
عزوجل نے {وَ اھْجُرُوْھُنَّ
فِی الْمَضَاجِعِ} سے تعبیر فرمایا
ہے ۔
ایک انصاری مسلمان
کاآپ نے اسراف پر مبنی بڑا سا خیمہ لگا دیکھا ،جسے آپ نے اچھا نہ سمجھا، اسی صحابی
نے جب آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر سلام کیا تو آپ نے جواب نہ دیا، بار بار سلام
کے باوجودآپ کااعراض ان پر شدید شاق گزرا،آپ کے اسی عمل کا انہوں نے اپنے ساتھیوں
سے تذکرہ کیا تو انہوں نے حقیقت حال اور آپ کی وجہ ناراضی سے آگاہ کیا۔ یہ سنتے ہی
انہوں نے اسی وقت خود سے وہ خیمہ گرا دیا اور رسول اللہe کی
ناراضی مول لینا کسی طرح بھی گواراہ نہ کیا۔ (سنن ابی داود: ۵۲۳۷)
غزوۂ تبوک سے بغیر کسی شرعی عذر کے پیچھے رہنے والے تین اصحاب
سے آپ نے قطع کلامی فرمائی اور وہ بھی پچاس دن ،ان کے اہل خانہ کو بھی ان سے الگ ہونے
کا حکم فرمایا ،دیگر اہل ایمان اور دوست احباب بھی ان سے بات نہ کرتے تھے ،پچاس دن
کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے متعلق قرآن نازل ہوا تو آپ نے انہیں قبولیتِ
توبہ کی بشارت بھی دی اور دیکھ کر تبسم بھی فرمایا۔(صحیح البخاری: ۴۴۱۸، صحیح مسلم: ۲۷۶۹)
اسی حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجرa نے رقم کیا ہے کہ اصلاح کی خاطر مجرم اور گناہ گار کے
سلام کا جواب نہ دینا اور تین دن سے زیادہ قطع کلامی اور ترک تعلق کیے رکھنا بھی جائز
ہے۔ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کی ممانعت تب ہے جب قطع تعلقی شریعت کی خاطر نہ ہو۔
…… (جاری)
No comments:
Post a Comment