نبی کریمﷺ کے شمائل وفضائل کا دفاع
امام الحرم المکی الشیخ
ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس d
ترجمہ: جناب عاطف
الیاس ………………… نظر ثانی: جناب
محمد ہاشم یزمانی
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کی عظمت ووحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اس سے ڈرو۔ اس سے ایسی محبت کرو جس کے
سر پر وفاداری کا تاج سجا ہو۔ اہلِ تقویٰ ہی شاہراہِ نبوت کے راہی ہیں، جن کی شان ہمیشہ
سے بلند اور راہِ عروج پر گامزن ہے۔
’’اور کامیاب وہی
ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے
بچیں۔‘‘ (النور: ۵۲)
یہ پڑھیں: خطبہ جمعہ حرم مدنی ... سورۃ الضحیٰ کے معانی پر غور وفکر ... الشیخ عبدالباری الثبیتی﷾
جب کوئی خوفِ خدا اپنا کر فرمان برداری کی راہ پر چل پڑتا ہے، تو اس کے ہاتھ عمدہ
اور بلند مرتبہ کاموں میں لگ جاتے ہیں۔
جب کوئی خشیتِ الٰہی میں راسخ ہو جاتا
ہے، تو دو تاج اس کے سر کی زینت بن جاتے ہیں، ایک سکینت کا اور ایک وقار کا۔
اے مسلمانو! زندگی کی سختیوں اور مصیبتوں کے بیچ اور دنیا کے بوجھ اور مشقتوں کے
درمیان ایک بات بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آ جاتی ہے، بلکہ بڑی صفائی اور کمال سے کھل
جاتی ہے کہ ہماری عظیم شریعت نے اپنے خوبصورت احکام اور حیرت انگیز مقاصد میں اخلاق
وکردار کی تعمیر اور روح اور نفس کی پاکیزگی کو خوب اہمیت دی ہے، تاکہ اسے اعلیٰ درجے
کے احساس تک پہنچا دے، ایمان کے خالص بادلوں تک لیجائے اور اسے گلشنِ احسان کا پُر
لطف سایہ نصیب کر دے، جس کی بدولت اعلیٰ مقامات تک رسائی اور مضبوط عمارتوں کی تعمیر
ممکن ٹھہرتی ہے۔ یہ سبھی چیزیں ہمیں خاتم الانبیاء، سید الاصفیاء، ہمارے پیارے نبی
اور رہبر سیدنا محمد e کے
قول وعمل اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں نمایاں اور بدرجہ اتم نظر آتی ہیں۔
مؤمن بھائیو! سردارِ رُسل e کی
بعثت کو چودہ صدیوں سے زیادہ وقت گزر گیا، مگر آپ e کے دلفریب اور منوّر اخلاق اب بھی اپنے جاہ وجلال کے
جوہر، تقوی و جمال اور اقوال واعمال میں کمال درجے کی دانائی کی بدولت ملکوں اور شہروں
کو معطّر کر رہے ہیں۔
جب سربلندی اپنی بلندی پر فخر کرنے لگتی ہے تو ہمارے محبوب کی بہترین خصلتیں اور
بھی بلند نظر آتی ہیں۔ جب عزت ورفعت کی صدا بلند ہوتی ہے، تو لوگوں میں سب سے معزز
ہستی کی صدا اور بھی بلند لگتی ہے۔
اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو آپ e پر۔
جن خصوصیات، فضائل، شمائل اور خوبیوں سے
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم e کو
نوازا ہے اور سارے جہاں میں سے انہیں منتخب کیا ہے، اسے فقط اہلِ قلم کے قلم، کاغذ
اور صحیفے ہی بیان نہیں کرتے، بلکہ تسلسل کے ساتھ میناروں سے بھی اس کی صدائیں بلند
ہو رہی ہیں اور اسے سلامِ تعظیم پیش کرتے ہیں اور منبروں کی لکڑیاں بھی ان کے ذکر سے
جھوم اٹھتی ہیں۔آپ e کے
لیے اللہ تعالیٰ کا کیا یہ فرمان کم ہے:
’’اور ہم نے تمہاری
خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کر دیا۔‘‘ (الشرح: ۴)
آپ e کے
شمائل کا ذکر ہوتا ہے تو دلوں میں زندگی آ جاتی ہے، بالکل ویسے جیسے زمین پر بارش
کی بوندیں پڑنے سے اس میں بھی زندگی آ جاتی ہے۔ آپ کے اخلاق کے کیا کہنے! آپ کے
فضائل بھی کیا خوب ہیں! آپ کے جامع الفاظ کے فوائد کیسے شاندار ہیں! یوں کہہ لیجیے
کہ جب آپ لب کھولتے تھے تو موتی بکھیرتے تھے۔
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی ... نیکیوں میں سبقت کی فضیلت ... الشیخ فیصل بن جمیل الغزاوی﷾
آپ e کے
شمائل میں ساری خیر ہی خیر ہے، ہر چھوٹی اور
بڑی نیکی ان میں پائی جاتی ہے، مکمل ہدایت ہے اور کامل عدالت ہے۔ آپ e کی
تخلیق بھی خوب تھی اور اخلاق بھی شاندار تھے۔ تخلیق کی بات کی جائے تو آپ کا رنگ صاف
اور چمکدار تھا، چہرے پر روشنی صاف نظر آتی تھی، ہنس مکھ، انتہائی خوبصورت، حسن وجمال
میں اپنی مثال آپ، آنکھوں کی سفیدی خوب سفید اور سیاہی خوب سیاہ، پلکوں کے گھنے اور
لمبے بال، نرم وخوشگوار آواز، لمبی گردن، کالے اور سیاہ بال۔ جب خاموش ہوتے وقار بڑھ
جاتا، جب گفتگو کرتے تو حسن وجمال میں اضافہ ہو جاتا، دور سے دیکھیں تو سب سے حسین
وجمیل، قریب سے دیکھیں تو خوبصورت اور واضح نقش والے۔ میٹھا بول بولنے والے، بھلی بات
کرنے والے، نہ بہت خاموش اور نہ فضول بولنے والے، الفاظ ایسے کہ گویا موتی بکھر رہے
ہوں۔ درمیانے قد کے، نہ اتنے چھوٹے کہ کوئی نظر انداز کر جائے اور نہ اتنے لمبے کہ
آنکھوں کو عجیب لگے۔ گھنی داڑھی والے، چوڑے سینے والے، ہاتھ اور پاؤں کشادہ، نہ غیر
معمولی لمبے اور نہ غیر معمولی چھوٹے، قدرے گھنگھریالے بال، جب بولتے تو یوں لگتا کہ
دندان مبارک سے نور نکل رہا ہے۔
امام بخاریa نے
سیدنا براء بن عازبt سے
بیان کیا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا: کیا رسول اللہe کا چہرہ تلوار کی مانند چمکدار تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں!
بلکہ چاند کی طرح خوب صورت تھا۔
اسی طرح انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ e درمیانے قد کے تھے، چوڑے سینے والے، پیشانی سے کانوں
تک گھنے بالوں والے تھے۔ (بخاری)
سیدنا علی بن ابی طالبt بیان
کرتے ہیں: رسول اللہ e نہ
لمبے قد کے تھے اور نہ چھوٹے قد کے، ہاتھ اور پاؤں خوب بھرے اور مضبو ط گرفت والے،
بڑے سر اور موٹے جوڑ، سینے سے ناف تک باریک بال، بھرپور چال، گویا کہ کسی بلندی سے
اتر رہے ہوں۔ آپ جیسا نہ میں نے آپ سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ آپ کے بعد۔ میرے
ماں باپ آپ e پر
قربان!
سیدنا جابر بن سمرہt بیان
کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ e کو
ایک چاندنی رات میں دیکھا تو حسن وجمال میں ان کا اور چاند کا مقابلہ کرنے لگا۔ مجھے
تو آپe چاند
سے بھی زیادہ خوبصورت لگے۔
سیدنا حسان بن ثابتt کا
بھی اللہ بھلا کرے، جو شاعرِ رسول تھے۔ وصفِ نبوی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تجھ سے حسین میری
آنکھوں نے نہیں دیکھا، تجھ سے خوبصورت بچے کو کسی عورت نے جنم ہی نہیں دیا۔ آپ ہر
عیب سے پاک پیدا ہوئے ہیں، گویا کہ اپنی مرضی کے مطابق بنائے گئے ہوں۔ ‘‘
برادرانِ اسلام! اے احبابِ سید کونین! جہاں تک آپ کی گفتار اور کلام کی بات ہے،
تو آپ e طویل
خاموشی والے تھے۔ ضرورت کے بغیر کبھی نہ بولتے۔ بات کو اللہ کے نام سے شروع کرتے اور
اسی کے نام پر ختم کرتے۔ جامع الفاظ استعمال کرتے۔ آپ کی باتیں دو ٹوک ہوتیں۔
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی ... قول وعمل کی اذیت رسانی ... الشیخ سعود الشریم﷾
ام المؤمنین سیدہ عائشہr بیان
کرتی ہیں: رسول اللہe تمہاری
طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے بلکہ آپ ایسی گفتگو کرتے جس میں ٹھہراؤ ہوتاتھا، جو
آپ کے پاس بیٹھا ہوتاوہ اسے یاد کر لیتا۔ (ترمذی)
رسول اللہ e صحابہ
کرام] اور
اپنے ساتھ بیٹھنے والوں سے اکثر مسکرا کر بات کرتے۔ سیدنا عبد اللہ بن حارثt بیان
کرتے ہیں: میں نے کسی کو رسول اللہe سے بڑھ کر مسکراتے نہیں دیکھا۔
نیز بیان کرتے ہیں: آپ e کا
ہنسنا مسکراہٹ ہی ہوتی تھی۔
اسی طرح جریر بن عبد اللہt بیان
کرتے ہیں: قبولِ اسلام سے آج تک، رسول اللہ e نے مجھے اپنی ملاقات سے کبھی نہیں روکا، بلکہ میں جب
بھی ملا تو آپe مسکرا
کر ملے۔ (بخاری)
سیدنا ابوہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو ہم سے ہنسی مذاق بھی کر لیتے ہیں!؟
آپ نے فرمایا: مگر میں تب بھی حق بات ہی کرتا ہوں۔
آپ e سب
سے بڑھ کر تواضع اپنانے والے تھے۔ سیدنا انسt بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت آکر رسول اللہ e سے
کہنے لگی: اللہ کے رسول!مجھے آپ سے کام ہے۔ آپ e نے فرمایا: اے ام فلاں! دیکھو، جس گلی میں چاہتی ہو،
بیٹھ جاؤ، میں وہاں آ کر تمہاری بات سن لیتا ہوں۔ بیان کرتے ہیں: وہ عورت بیٹھ گئی
اور آپe بھی
اس کے پاس بیٹھ گئے اور اس کا کام کر دیا۔ (مسند احمد)
اسی طرح سیدنا انسt سے
روایت ہے کہ رسول اللہ e بیماروں
کی تیمار داری کرتے، جنازوں کے ساتھ جاتے، گدھے پر سواری بھی کر لیتے، غلام کی دعوت
بھی قبول کر لیتے۔ یہ سب آپ e کی
تواضع کی شکلیں ہیں۔ بنو قریظہ والے دن آپ e ایک گدھے پر سوار تھے، جس کی لگام کھجور کی چھال کی
رسی کی تھی اور زین بھی چھال ہی کی تھی۔ (ترمذی)
اے فضائلِ محمد e کو
جمع کرنے کی تمنا کرنے والے! یاد رکھ کہ آپ e کے فضائل کا شمار ممکن نہیں ہے۔ اگر تم کہو کہ ریت کے
ذروں کے برابر، یا کنکریوں کے برابر یا بارش کے قطروں کے برابر، تو ہم یہی کہیں گے:
بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
اے امتِ اسلام! یہ رسولِ اطہر e کے
اوصاف واخلاق کے بڑے سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ گھنے بادلوں کی موسلا دھار بارش کی ایک
بوندہے۔ آپ حیران کن راستے کی رہنمائی کرنے والے تھے۔ گلاب سی مہک والے اخلاق کے حامل
تھے۔ اللہ تعالیٰ بھی بہترین صفات اور بلند شان کے ذریعے آپe سے
مخاطب ہوا۔ آپe کو
اعلیٰ ترین صفات اور بلند ترین فضیلتوں سے نوازا۔ آپ کے شمائل ایک سرچشمہ ہیں، پاکیزہ
اور صاف پانی کی نہر ہیں، جس سے دینا وآخرت کی سلامتی کے طالب سیراب ہوتے ہیں۔ بلکہ
یہ تو موتیوں کی حسین لڑی ہے، بلکہ چمکتے ستاروں کا مجموعہ ہے۔ اس سے بھی آگے یہ تو
روشن سورج ہے، بلکہ پھیلا ہوا نور اور پُر نور مشعل ہے۔
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی ... پرندوں کی تخلیق میں چند نشانیاں ... الشیخ فیصل بن جمیل الغزاوی﷾
اگرچہ بہت سے لوگ اپنی نظروں سے آپ e کے دیدار سے محروم ہیں، مگر آپ کے شمائل کے مطالعے
سے انہیں انس اور تسلی ملتی ہے۔ کیونکہ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے اگرچہ آپ کی ذات
کے ساتھی تو نہ بن سکے، مگر آپ کے اخلاق وشمائل کے ساتھی ضرور بن گئے۔
اگر آنکھوں کے دیدار سے محروم ہو تو آپ سے اوصاف سے جاہل تو نہ رہو۔ یہ ہیں آپ
e کے
شمائل! تخلیق واخلاق میں کامل ومکمل۔ صفات بھی خوب۔ آپ کے فضائل وشمائل شمار سے زیادہ
ہیں۔
سنو! اللہ سے ڈرو! اپنے نبی محمد e کے
اخلاق اپناؤ، کیونکہ یہی محبتِ رسول کی علامت ہے۔ محبتِ رسول چند ظاہری رسوم وروایات
سے بہت آگے کی چیز ہے، اس کی حقیقت اور مقاصد وقتی محافل واجتماعات سے کہیں بلند ہیں۔
قصوں کہانیوں، نعتوں اور خوبصورتی کے گن گانے سے بہت بڑھ کر ہے۔ یہ چیزیں تو محبت کی
سب سے چھوٹی اور معمولی شکل ہیں۔
حقیقی پیار کے بارے میں پوچھو انہیں! وہ تمہیں سچی محبت کے قصے سنائیں گے۔ محبتِ
رسول شریعتِ کاملہ کی پوشیدہ وظاہری پیروی کا نام ہے۔ محبتِ رسول صفاتِ رسول سے گہرے
تعلق کا نام ہے۔ محبت رسول اخلاقِ رسول کو اپنانے کا نام ہے۔
اس سے بہتر اور اعلیٰ کلام فرمانِ مولیٰ تباک وتعالیٰ ہے:
’’اے نبی! لوگوں
سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو،
اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا
اور رحیم ہے۔‘‘ (آل عمران: ۳۱)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اللہ کی مخلوق میں سب سے افضل ہستی کے اخلاق اپناؤ۔
ایسا کرو گے تو عزت تمہارا نصیب بن جائے گی۔ نصرت اور کامیابی تمہارا مقدر بن جائے
گی۔
ایمانی بھائیو! امت اسلامیہ کی اپنے رسول اور شفیعe کے ساتھ اور آپ کی سیرت وشمائل کے ساتھ وابستگی اور
محبت کسی وقت یا موقع کی محتاج نہیں ہے۔ بلکہ یہ تعلق ایک گہرا تعلق ہے جو ہر طرح کے
حالات اور موت تک زندگی کے تمام تر معاملات میں قائم رہنے والا تعلق ہے۔ اس بابرکت
منبر سے، خیر، حق اور سلامتی کے اس منبر سے ہم سبھی جہان والوں کو سچے دل سے پکارتے
ہیں کہ رسولوں کے اخلاق اپنا لیجیے، بطورِ خاص ہمارے پیارے نبی محمد e کے
اخلاق اپنا لیجیے۔ جو جامع وشامل سلامتی کی طرف بلانے والے تھے۔ مختلف شریعتوں کے پیروکاروں
میں ہم آہنگی اور باہمی شفقت ونرمی کے داعی تھے، جس میں کوئی تکلیف یا نفرت نہ ہو،
جس میں کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے اور نہ اشاروں کنایوں سے کسی کو نشانہ بنایا جائے۔
بطورِ خاص دینی شخصیات کی تحقیر نہ کی جائے، جن میں سر فہرست اللہ کے تمام رسول اور
تمام انبیاءo ہیں۔
’’ہم اللہ کے رسولوں
کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۸۵)
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مدنی ... سیرت رسول ﷺ کے چند اہم واقعات ... الشیخ عبداللہ البعیجان﷾
ہم ایک ارب اسّی کروڑ مسلمانوں کی طرف سے سخت ترین الفاظ میں مقامِ نبوت ورسالت
پر دست درازی کی شدید مذمت کرتے ہیں، بالخصوص خاتم الانبیاء، نبیِّ ہدایت ورحمت، ہمارے
پیارے نبی، سفارشی، رہنما، سیدنا محمد e کی
شان میں گستاخی کی مذمت کرتے ہیں۔ گستاخانہ خاکے اور گھناؤنے جرائم دہشتگری کے ایک
شکل نہیں تو اور کیا ہیں؟ یہ تو نفرت اور نسل پرستی پھیلانے والی انتہا پسندی کی ایک
شکل ہیں۔ یہ آزادی اظہار رائے نہیں ہے کہ دوسروں کی توہین کی جائے، یا مقدس ہستیوں
اور دینی رہنماؤں کا مذاق اڑایا جائے۔ یہ تمام تر آداب اور روایات سے تجاوز ہے، ایسے
کام کو کسی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ آزادی اظہارِ رائے میں انسانی اقدار
کا خیال رکھنا ضروری ہے، جن میں اولین چیز دوسروں کے جذبات کاخیال رکھنا ہے۔ اظہار
رائے اگر ان اصولوں سے باہر نکل جائے، تو وہ تمام تر مذاہب، اخلاق، تہذیبوں اور آزادیوں
کی حرمت پامال کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی حرکتوں کا فائدہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو انتہاپسندانہ
افکار پھیلانا چاہتے ہیں اور انسانی معاشروں میں نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام ان سب برائیوں سے بری ہے۔ بلکہ یہ تو دہشتگردی
کے اس وصف سے بھی بری ہے چیز جسے ظالمانہ طور پر اس کے ساتھ چپکا دیا گیا ہے۔ یہ تو
رواداری کا دین ہے، رحم دلی کا دین ہے، اتحاد واتفاق کا دین ہے۔ اس میں نہ دہشتگری
ہے اور نہ انتہا پسندی، نہ تخریب کاری ہے،
نہ کسی کا مذاق اڑانا ہے اور نہ ہی
استہزاء ہے۔ بلکہ اس میں اللہ کے نبیوں اور رسولوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح ہم جوش وجذبات کو قابو میں کرنے کی نصیحت بھی کرتے ہیں۔ سوچے یا سمجھے
بغیر کسی حرکت یا ردِ عمل سے دوسروں کو ابھارنے سے بچا جائے۔ بلکہ نتائج اور عواقب
پر نظر رکھنی چاہیے۔ ان گستاخیوں سے مقامِ
نبوت کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اللہ تم کو لوگوں
کے شر سے بچانے والا ہے۔‘‘ (المائدۃ: ۶۷)
اللہ کی مدح نے آپ کو ساری کائنات کی مدح سے بے نیاز کر دیا ہے۔ سورہ قلم کی پہلی
آیات ہی پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اللہ نے آپ e کے اوصاف کی تکمیل کی ہے۔ آپ کا نام احمد رکھا ہے۔
بھلا کوئی مذاق اڑانے والا ان کی فضیلت کم کر سکتا ہے؟ یا ان کا نور پھیلنے کے بعد
بجھا سکتا ہے؟ ہماری جانیں ان پر قربان ہیں اور ہمارے والدین بھی آپ e پر
قربان ہیں۔ آپ پر نہ کریں گے، تو ہماری جانیں کس پر نچھاور ہوں گی؟
ان وقتی بلبلوں کے حوالے سے مسلمان مطمئن ہو جائیں، کیونکہ ان کا نقصان خود ان
گستاخوں کو ہی ہونے والا ہے۔
’’تم نے اگر نبی
کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد کر چکا ہے۔‘‘ (التوبہ: ۴۰)
’’تمہاری طرف سے
ہم اُن مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘ (الحجر: ۹۵)
’’اللہ اپنا کام
کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘ (یوسف: ۲۱)
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی ... وبائی بیماریوں سے بچنے کے لیے چند مشورے ... الشیخ عبداللہ عواد الجہنی
سنو! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! درود وسلام بھیجو اس ہستی پر جو جلالت سے بلندیوں
تک پہنچ گئی، آپ کی خوبصورتی سے کائنات کھل اٹھی، آپ کی تمام تر صفات ہی پاکیزہ ہیں۔
آپ e پر
درود وسلام بھجو۔ اللہ نے بھی آپ کو یہی حکم دیا ہے۔ بلند وبرتر ذات نے اپنی کتاب
میں فرمایا:
’’اللہ اور اس کے
ملائکہ نبی e پر
درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘ (الاحزاب:
۵۶)
رسول اللہ e کا
فرمان ہے: جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔
اللہ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوتی رہیں جب تک آسمان پر ستارے موجود ہیں، جب تک
ماؤں کے دلوں میں رحم ہے۔ اللہ آپ کی آل کو بھی اپنی خوشنودی کے ساتھ جنت میں اعلی
مقام عطا فرمائے۔
ان سب پر ایسا درود ہو جو کسی کان
پر بھاری نہ پڑے، جسے دہرانے سے کوئی زبان نہ تھکے۔
اے اللہ! رحمتیں اورسلامتی نازل فرما اپنے بندے اور رسولِ مختار اور حبیب محمد
e پر۔
اے اللہ! اہل بیت اطہار سے راضی ہو جا۔ مہاجر وانصار نیک سیرت صحابہ کرام سے بھی راضی
ہو جا۔ اے اللہ! چاروں خلفاء راشدین، نیک اماموں سے بھی راضی ہو جا، بلند مقام والے،
اعلیٰ مرتبے والے، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی] سے بھی راضی ہو جا۔ اے سب سے بڑھ کر مغفرت اور درگزر
فرمانے والے! تابعین سے اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔
اے سب سے بڑھ کر کرم فرمانے والے! اپنے فضل وکرم سے ہم سب سے بھی راضی ہو جا۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! شرک اور مشرکوں کو تباہ وبرباد فرما!
دشمنانِ دین کو تباہ وبرباد فرما! اس ملک کو اور تمام مسلمان ممالک کو امن وسلامتی
نصیب فرما!
اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما! اے
اللہ تمام مسلمان حکمرانوں کو کامیاب فرما! اے اللہ! انہیں اپنی شریعت نافذ کرنے والا
بنا۔ اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! ہمیں
نبی e کی
نصرت اور اپنے اولیاء کی حمایت کرنے والا بنا۔
اے اللہ! ہمارے بیماروں کوشفا عطا فرما! اے اللہ! ہمارے بیماروں کوشفا عطا فرما!
ہمارے فوت شدگان کی مغفرت فرما! اے پروردگار
عالم! اپنی تائید اور توفیق سے ہمیں کامیاب فرما!
اے اللہ! اے پروردگار عالم! اپنے دین، اپنی کتاب، سنت نبی e اور
اپنے نیک اور مؤمن بندوں کی مدد فرما!
اے زندہ وجاید! اے رب ذو الجلال! ہم تیری رحمت کی پناہ میں آتے ہیں۔ ہمیں لمحہ
بھر کے لیے بھی ہمارے اپنے نفس کے حوالے مت کرنا، ہمارے تمام معاملات درست کر دے۔
اے اللہ! ہمیں مہنگائی، وبائی امراض، سود، زنا، زلزلوں، آزمائشوں اور فتنوں سے
محفوظ فرما! چاہے وہ کھلے ہوں یا پوشیدہ۔ اے اللہ! اے رب ذو الجلال! اے بلندی والے!
اے نعمتیں عطا فرمانے والے! ہمیں بیماریوں، پھلبہری، پاگل پن، کوڑھ کے مرض اور کورونا
سے بچا لے۔ تمام موذی امراض سے محفوظ فرما۔
اے اللہ! اس امت سے سیاہ بادل ہٹا دے۔
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی ... اسلام میں نرمیاں اور آسانیاں ... الشیخ عبدالرحمن السدیس
اے اللہ! پریشان حال لوگوں کی پریشانیاں دور فرما! مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں
دور فرما! قرض داروں کے قرض ادا فرما۔ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے بیماروں کو شفا عطا
فرما! اللہ ہمارے لیے کافی اور وہی بہترین حمایتی ہے۔ ان لوگوں سے بچانے کے لیے جو
ہمیں اذیت دیتے ہیں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ اے اللہ! مسلمانوں کے مقدسات
کی حفاظت فرما! اے اللہ! مسجد اقصیٰ کو بچا لے اور اسے قیامت تک عزت وسربلندی نصیب
فرما۔
’’اے ہمارے رب! ہمیں
دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘
(البقرۃ: ۲۰۱)
اے اللہ! تو ہی اللہ ہے! تیرے سوا
کوئی الٰہ نہیں! تو بے نیاز ہے اور ہم فقیر ومحتاج ہیں۔ ہم پر بارش نازل فرما اور ہمیں
مایوس نہ فرما! اے اللہ! ہم پر بارشیں نازل فرما! اے اللہ! ہمارے دلوں پر ایمان ویقین
کی برکھا برسا اور ہمارے ملکوں پر پانی کی بارش نازل فرما!
’’اے ہمارے رب، ہم
سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (البقرۃ:
۱۲۷)
یہ پڑھیں: خطبہ حرم مکی ... اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک ’الفاتح‘ کے معانی وفضائل ... الشیخ فیصل بن جمیل الغزاوی﷾
ہماری توبہ قبول فرما! یقینا! تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
ہمیں، ہمارے والدین کو اور تمام زندہ ومردہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ یقینًا!
تو سننے والا، قریب ہے اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔
وآخر دعوانا ان
الحمد للہ رب العالمین!
No comments:
Post a Comment