توہین رسالت
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رُشد وفلاح کے لیے انبیاء ورسل کا پاکیزہ سلسلہ اس دنیا
میں جاری فرمایا۔ حالانکہ اس زمین پر بسنے والے تمام انسانوں سے اُن کی تخلیق اور اُن
کے زمین پر آباد ہونے سے قبل ہی عالم ارواح میں اپنی بندگی اور فرمانبرداری کا وعدہ
رب کائنات نے لے لیا تھا۔ ہم سب اسی عہد الست کے پابند ہو کر پیدا کرنے والے کی بندگی
کے ذمہ دار ہیں۔
یہ پڑھیں: مدیر اعلیٰ کی یاد میں تعزیتی ریفرنس
لیکن خالق کائنات نے انسانوں پر مہربانی فرمائی کہ اس وعدے کو یاد کرانے کے لیے
اپنے بندوں میں سے بعض کو چن لیا‘ منتخب فرمایا۔ چنیدہ اور برگزیدہ کر لیا‘ جنہیں انبیاء
ورسل کہا جاتا ہے اور ان کی فرماں برداری بھی اپنے بندوں پر لازم کر دی۔
اس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیe ہیں جنہیں ختم نبوت کا تاج عطا کر دیا گیا اور جن کی اطاعت ہی باعث نجات اُخروی
قرار دی گئی۔
ریاستوں اور حکومتوں کے ذمہ داران عموماً مذہب سے جڑے ہوتے ہیں اور مذاہب ریاستوں
کے توسط سے مضبوط ہوتے ہیں۔ سیدنا ابراہیمu کے خلاف شاہِ وقت کا اعیان حکومت کے ساتھ مل کر آگ میں ڈالے جانے کا فیصلہ
ریاستی کہلا سکتا ہے۔ سیدنا مسیح u کے خلاف چالیں علماء کی جیوری کا فیصلہ بھی ریاستی حمایت کا شاخسانہ تھا۔
رسول اکرمe کے خلاف مکہ مکرمہ میں ریاست کے انداز میں چالیں چلی گئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ
کی مدد ہمیشہ اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ رہی۔ انبیاء کرامo کی پہچان اور معرفت عموما سب کو حاصل تھی۔ جو کور چشم منکر ہوئے محض عناد اور
تعصب کی بنیاد پر ہوئے۔
خاتم النبیینe تو قیامت تک کے لیے اور دنیا بھر کے انسانوں کے لیے پیغمبر بن کر آئے‘ آپe کی نبوت ورسالت امکنہ‘ ازمنہ نیز اقوام کی حد بندیوں سے بہت بلند اور اعلیٰ
ہے۔ پھر آپe کا کردار‘ جد وجہد اور کوشش محض انسانیت کی بہتری کے لیے تھی۔ انبیاء کرامo کے معاصر مخالفین زیادہ تر
اپنی ریاست بچانے کے لیے مخالف ہوئے۔ رسول اکرمe کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے آپe کو پہلے انبیاءo کے منکرین کے واقعات کا علم اسی لیے عطا کیا تھا کہ آپe جمع خاطر رکھیں اور دل گرفتہ نہ ہوں۔
اسلام کے مفتوحات اور مقبوضات میں سے جن حکمرانوں کی ریاستیں ہاتھ سے گئیں وہ اور
ان کے مصاحبین ہمیشہ اسلام کے خلاف چالیں چلتے رہے اور ان کی سب سے بڑی چال رسول اکرمe کی ذات پر حرف گیری ہے۔
اس کے لیے کئی حربے آزمائے گئے۔ ایک علمی اور فکری زعم پیدا کرنے کا حربہ استشراق
بھی ہے۔ مستشرقین نے مشرقی علوم‘ عربی واسلامیات میں بتکلف مہارت حاصل کی لیکن وہ حقائق
کو مروڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بلکہ بعض اللہ کی توفیق سے مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
یہ پڑھیں: بڑھے چلو!
اب ایک ملک کے سربراہ کی طرف سے ذاتِ رسالت مآب e کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی ہے۔ اس کا مقصد اس کے زعم میں آپe کی شان میں کمی کرنا ہے اس کی کوشش اور مقصد دونوں ہی نہایت مذموم ہیں۔
دنیا بھر میں اس حوالے سے مسلمانوں میں بہت تحریک دیکھنے کو ملی ہے۔ عالم کفر اگر
یہ سمجھتا ہے کہ اہل اسلام کے دل سے صاحب ختم نبوت کی شان وعظمت کو کم کیا جا سکتا
ہے یا نکالا جا سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ یہ محبت اور الفت جب دلوں میں جگہ
پکڑتی ہے تو اسے کسی طرح بھی نکالا نہیں جا سکتا۔
یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ خواجۂ یثرب کی عزت پر کٹ مرنا باعث سعادت ہے۔ اس سعادت
کو حاصل کرنا ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔
منکرین ومخالفین میں سے کئی دنیا میں نشانۂ عبرت بنے کہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ جو
رسول اللہe کو ایذاء پہنچائے اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اہل ایمان کو اس حوالے سے جہاں
اپنے ایمان کی تقویت کے لیے پر جوش ہونا چاہیے‘ وہیں پر ایسے لا علم اور جاہلوں کو
تنبیہ ہے کہ وہ اپنی آخرت برباد نہ کریں۔
مستشرقین کے قبیل سے کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ذاتِ رسالت مآبe کے خلاف کہی گئی باتوں پر معذرت کر لی اور انہوں نے اپنی کتب میں کھلے لفظوں
میں اس پر معافی مانگی ہے۔
یہ پڑھیں: سیرت کا پیغام
موجودہ اشاعت میں ایک مضمون اس متعلق بعض حوالے پیش کرتا ہے اور یہ بات مستقل طور
پر قابل ذکر ہے کہ اصحاب انصاف وسیع النظر لوگوں نے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے
ہو‘ انہوں نے آپe کی شان میں نظم ونثر میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے اور جو مخالف ہیں وہ محض کم
ظرف اور کوتاہ بین ہیں ؎
گر نہ بیند بر روز شب پرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ!
No comments:
Post a Comment