گناہوں کا کفارہ ممکن مگر کیسے؟!
تحریر: جناب مولانا مزمل حسین
انسان خطا کا پتلا ہے۔اس سے دانستہ لغزشیں ہوتی رہتی ہیں۔ یقینا
یہ فطرتی امر ہے‘ یہ اتنی عیب کی با ت نہیں جتنی خطا ہوجانے کے بعد اس غلطی کا احساس
تک نہ ہونا اور اسکی تلافی نہ کرنا یا معافی نہ مانگنا‘ یہی بڑی معیوب ہے۔ اللہ تعالی
کو اپنے وہی بندے پسند ہیں جو غلطی ہوجانے کے بعد معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ سب سے
بڑی غلطی شرعی معاملات میں کوتاہی کرنا ہے جسے گناہ کہا جاتا ہے ۔یہ گناہ انسان کے
لیے نہ صرف معاشی تنگیوں اور بے شمار مصائب ومشکلات کا باعث بنتے ہیںبلکہ اخروی فوز
وفلاح اور جنت کے حصول میں بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔لہٰذا مسلمان کے لیے ہر دو زندگیوں
میں فلاح ، راحت و کامیابی اور کامرانی پانے کے لیے گناہوں سے حتی الوسع (طاقت وقدرت)
پاک ہونا ضروری ہے۔ جسکا پہلا ذریعہ تو اللہ تعالی سے اپنے گناہوں سے پکے وسچے دل سے
اور خلوص سے معافی مانگتے رہنا ہے اور دوسرا ذریعہ ان اعمال کو اپنانا ہے جو گناہوں
کا باعث بنتے ہیں ۔
اس مضمون میں ہم احادیث صحیحہ سے اخذ کر کے ان اعمال کا تذکرہ
کریں گے جن کے ذریعے گناہوں کا کفارہ ہوتاہے۔ ان اعمال کو ’’کفارات‘‘ س لیے کہا جاتا
ہے کیونکہ یہ گناہوں کو چھپالیتے، اور ان پر پڑدہ ڈال دیتے ہیں (لسان العرب: ۵/۱۴۸)
جیسے قسم توڑنے کا کفارہ ،ظہار کا کفارہ اور قتل خطاوغیرہ کا
کفارہ ادا کرنے پر اس خطا کی تلافی ہو جاتی ہے اسی طرح ان اعمال کے اہتمام سے گناہوں
کی معافی ہوجاتی ہے‘ گویا کفارہ گناہوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (النھایۃ فی غریب ا لحدیث
والاثر: ۴/۱۸۹۔ مفردات الفاظ القرآن: ۷۱۷)
توحیدکے ذریعے
گناہوں کا کفارہ:
سیدنا انس بن مالکt بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہe کو
فرماتے سنا:
[یا ابن آدم إنك
ما دعوتنی ورجوتنی غفرت لك علی ما كان فیك ولا ابالی، یا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عنان
السماء ثم استغفرتنی غفرت لك، ولا ابالی، یا ابن آدم إنك لو اتیتنی بقراب الارض خطایا
ثم لقیتنی لا تشرك بی شیئا لاتیتك بقرابها مغفرة۔] (سنن الترمذی: ۳۵۴۰)
’’اللہ تبارک و تعالی
فرماتے ہیں: اے ابن آدم! تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گااور مجھ سے مغفرت کی امید
رکھے گا میں تب تک تجھے بخشتا رہوں گا ۔خواہ تجھ میں جوبھی برائی ہو ،مجھے کوئی پروا
نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے مغفرت
مانگے تو میںمعاف کر دوں گا،اور کوئی مجھے پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگرزمین بھر کر
بھی گناہ لے کر میرے پاس آجائے لیکن مجھ سے ایسی حالت میں ملے کہ تونے میرے ساتھ کسی
کو بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو میں تجھے زمین بھر کر مغفرت سے نوازوں گا۔‘‘
نیکیاں گناہوں
کو مٹا دیتی ہیں
سیدنا ابو ذرt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
مجھ سے فرمایا:
[اتق الله حیثما
كنت، واتبع السیئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن۔]
’’اور تم جہاں کہیں
بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو،برائی کے بعد نیکی کرو،وہ اسے مٹادیتی ہے اور لوگوں کے ساتھ
اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘ (سنن الترمذی: ۱۹۸۷)
اچھی طرح وضو
کرنے سے گناہوں کا کفارہ :
سیدنا عثمانt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[من توضأ فاحسن الوضوء
خرجت خطایاه من جسده، حتی تخرج من تحت اظفاره۔]
’’جس شخص نے وضو
کیا اور اچھی طرح وضو کیا، اس کے جسم سے اسکے گناہ خارج ہوجاتے ہیں ،یہاں تک کہ اس
کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم: ۲۴۵)
کامل وضوکے بعدفرض نماز پڑھنے سے گناہوں کا کفارہ
سیدنا عثمانt بیان
کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہe کو
فرماتے سنا:
[لَا یَتَوَضَّأُ
رَجُلٌ مُسْلِمٌ فَیُحْسِنُ الْوُضُوئَ فَیُصَلِّی صَلَاة إِلَّا غَفَرَ الله لَه مَا
بَیْنَه وَبَیْنَ الصَّلَاة الَّتِی تَلِیها۔] (بخاری: ۱۶۰، مسلم: ۲۲۷)
’’جو بھی مسلمان
آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس نماز اور اگلی نماز
کے درمیان میں ہونے والے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔‘‘
نماز کے لیے جانا گناہوں کی معافی،بلندء درجات اور اجرو ثواب
کا ذریعہ:
سیدنا ابو ہریرہt فرماتے
ہیںکہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[صلاة الرجل فی الجماعة
تضعف علی صلاته فی بیته وفی سوقه خمسة وعشرین ضعفا، وذلك انه إذا توضا، فاحسن الوضوء
، ثم خرج إلی المسجد، لا یخرجه إلا الصلاة، لم یخط خطوة إلا رفعت له بها درجة، وحط
عنه بها خطیئة۔]
’’آدمی کی باجماعت
نمازکو اس کے گھر یا بازار میں نماز پڑھنے پر پچیس گنا فضیلت حاصل ہے اور یہ فضیلت
تب حاصل ہوتی ہے جب آدمی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر مسجد کی جانب روانہ ہوجائے‘
اسے صرف نماز (کے ارادے)نے ہی (گھر سے)نکالا ہو تو وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے اسکے بدلے
میں اسکا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ ختم کردیا جاتا ہے۔‘‘
نماز پنجگانہ
گناہوں کو دھو ڈالتی ہیں:
سیدنا ابو ہریرہt سے
مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[الصلوات الخمس والجمعة
إلی الجمعة كفارة لما بینهن ما لم تغشاه الكبائر۔]
’’پانچ نمازیں اور
ایک جمعے سے دوسرا جمعہ؛ ان کے درمیانی عرصے میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں،جب
تک کہ ان میں کبیرہ گناہوں کی ملاوٹ نہ ہو ۔‘‘
فرض نماز کے
بعد اذکار کے اہتمام سے گناہ کا خاتمہ:
سیدنا ابو ہریرہt سے
مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[من سبح الله فی
دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثین، وحمد الله ثلاثا وثلاثین، وكبر الله ثلاثا وثلاثین، فتلك
تسعة وتسعون، وقال: تمام المائة، لا إله إلا الله وحده لا شریك له، له الملك وله الحمد
وهو علی كل شیء قدیر غفرت خطایاه وإن كانت مثل زبد البحر۔] (مسلم: ۵۹۷)
’’جو شخص ہر نماز
کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ‘
۳۳ مرتبہ الحمدللہ،
۳۳ مرتبہ اللہ اکبر
پڑھتا ہے جو کہ کل ننانوے بن جاتے ہیں اور پھر سو کا عدد پور ا کرنے کے لیے ایک مرتبہ
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر پڑھ لیتا
ہے تو اسکے گناہوں کو بخش دیا جاتاہے خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔‘‘
نوافل کی ادائیگی
سے گناہ معاف ہوتے ہیں:
سیدنا ثوبانt بیان
کرتے ہیں کہ ر سول اللہe نے
فرمایا:
[علیك بكثرة السجود؛
فإنك لا تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة، وحط عنك بها خطیئة۔]
’’اللہ کے لیے کثرت
سے سجدے کرنا خود پر لازم کر لوکیونکہ تم جو بھی اللہ کوسجدے کرتے ہو اس کے بدلے میں
اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور ایک گناہ ختم کردیتا ہے ۔‘‘
صلاۃ التوبہ کی ادائیگی سے گناہوں کی معافی:
سیدنا ابو بکر صدیقt بیا ن کرتے ہیںکہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[ما من عبد یذنب
ذنبا فیحسن الطهور ثم یقوم فیصلی ركعتین، ثم یستغفر الله إلا غفر الله له۔]
’’جس بندے سے بھی
گناہ سرزد ہوجاتا ہے پھر وہ وضو کرتا ہے اور کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتا ہے پھر
اللہ تعالی سے مغفرت مانگتا ہے تو اس کو بخش دیا جاتا ہے۔‘‘
پھر آپe نے
یہ آیت پڑھی :
{وَالَّذِیْنَ اِذَا
فَعَلُوْا فَاحِشَة اَوْظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ۔۔۔الخ}
’’اور وہ لوگ کہ
جب ان سے کوئی فحش کام سرزد ہوجاتا ہے (یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے)وہ اپنے اوپر ظلم
کر بیٹھے ہیں تو فورا انہیں اللہ کی یاد آجاتی ہے پھر وہ اپنی گناہوں کی مغفرت مانگتے
ہیں،کیونکہ اللہ کے سوااورکون ہے جو معاف کر سکتا ہے۔‘‘
ماہ ر مضان کے صیام وقیام سے گزشتہ گناہوں کا کفارہ:
سیدنا ابوہریرہt سے
مروی ہے کہ نبیe نے
فرمایا:
[مَنْ صَامَ رَمَضَانَ،
إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه۔] (البخاری: ۳۸)
’’جس شخص نے ایمان
کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے‘ اس کے گزشتہ گناہ معاف
کردیے جاتے ہیں۔‘‘
[مَنْ قَامَ لَیْلَة
القَدْرِ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه۔] (البخاری:
۱۹۰۱)
’’اور جس نے ایمان
کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے لیلۃالقدر کاقیام کیاتو اس کے بھی گزشتہ گناہوں کو بخش
دیا جاتاہے ۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہt سے
مروی ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا:
[مَنْ قَامَ رَمَضَانَ
إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه۔] (البخاری: ۳۷)
’’جس شخص نے ایمان
کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا قیام کیا،اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے
جاتے ہیں۔‘‘
قیام اللیل سے درجات بلنداور گناہ معاف ہو جاتے ہیں:
سیدنا ابو امامہt بیان
کرتے ہیںکہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[عَلَیْكمْ بِقِیَامِ
اللَّیْلِ فَإِنَّه دَاَبُ الصَّالِحِینَ قَبْلَكمْ، وَإِنَّ قِیَامَ اللَّیْلِ قُرْبَة
إِلَی الله، وَمَنْهاة عَنِ الإِثْمِ، وَتَكفِیرٌ لِلسَّیِّئَاتِ، وَمَطْرَدَة لِلدَّاء
ِ عَنِ الجَسَدِ۔] (سنن الترمذی: ۳۵۴۹)
’’قیام اللیل (نماز
تہجد)کا التزام کیا کرو،کیونکہ یہ تم سے پہلے لوگوںکی پختہ عادت تھی اور بلاشبہ قیام
اللیل،اللہ کی قربت پانے کا ذریعہ،گناہوںسے روکنے کاباعث‘ برائیوں کاکفارہ اور جسم
سے بیماری کے خاتمہ کا سبب ہے۔‘‘
نماز جمعہ خطاؤں کے کفارے کی موجب:
نماز جمعہ کے آداب کو ملحوظ رکھنا گناہوںکی مغفرت کا ذریعہ
ہے۔سیدنا ابوہریرہt سے
مروی ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا:
[مَنِ اغْتَسَلَ؟
ثُمَّ اَتَی الْجُمُعَة، فَصَلَّی مَا قُدِّرَ لَه، ثُمَّ اَنْصَتَ حَتَّی یَفْرُغَ
مِنْ خُطْبَتِه، ثُمَّ یُصَلِّی مَعَه، غُفِرَ لَه مَا بَیْنَه وَبَیْنَ الْجُمُعَة
الْاُخْرَی، وَفَضْلُ ثَلَاثَة اَیَّامٍ۔]
’’جس نے غسل کیا،
پھر جمعہ پڑھنے آیااور جس قدر ہوسکی نمازپڑھی ،پھر خطبہ جمعہ سے فارغ ہونے تک خاموشی
اختیار کی ،پھرامام کے ساتھ نماز ادا کی تو اسکے اس جمعہ سے لے کر اگلے جمع تک کے گناہ
اور مزید تین دن کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم: ۸۵۷)
مصائب پر صبر کرنے سے گناہوں کی مغفرت:
سیدنا ابوہریرہt سے
مروی ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا :
[مَا یُصِیبُ المُسْلِمَ،
مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ همٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ اَذًی وَلاَ غَمٍّ، حَتَّی
الشَّوْكة یُشَاكها، إِلَّا كفَّرَ اللَّه بِها مِنْ خَطَایَاه۔] (البخاری: ۵۶۴۱)
’’مسلمانوں پرجو
بھی پریشانی اور مصیبت‘ رنج وغم اور تکلیف وملال آتاہے،یہاں تک کہ اسے کانٹا بھی چھبتا
ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں بھی گناہوںکا کفارہ فرمادیتا ہے۔‘‘
صدقہ ،گناہوں
کی بخشش کاباعث:
سیدنا معاذt بیان
کرتے ہیںرسول اللہe نے
فرمایا:
[الصَّدَقَة تُطْفِئُ
الْخَطِیئَة كمَا یُطْفِئُ الْمَاء ُ النَّارَ۔]
’’صدقہ گناہوں کو
اس طرح ختم کردیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔‘‘ (الترمذی)
حج مبرور اور عمرے سے گناہوںکا کفارہ:
سیدنا ابو ہریرہt فرماتے
ہیںکہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[من حج لله فلم یرفث،
ولم یفسق، رجع كیوم ولدته امه۔] (البخاری: ۱۵۲۱)
’’جوشخص اللہ کی
رضا کے لیے حج کرے پھرنہ ہی گناہ اور فسق کا کوئی کام کرے تو اس طرح (گناہ سے پاک ہوکر)
واپس آتاہے جیسے وہ اس دن (گناہوں سے پاک) تھاجب اسکی ماں نے اسے جنم دیاتھا۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہt سے
مروی ہے کہ نبیe نے
فرمایا:
[العمرة إلی العمرة،
كفارة لما بینهما، والحج المبرور، لیس له جزاء ، إلا الجنة۔] (ابن ماجه: ۲۸۸۸)
’’ایک عمرہ دوسرے
عمرہ تک کے دوران ہونے والے گناہوںکا کفارہ بن جاتا ہے اور حج مبرور کی جزاء جنت کے
سوا کچھ نہیں۔‘‘
ذکر الٰہی کی مجالس گناہوں کی بخشش کاباعث:
سیدنا انس بن مالکt سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: جو لوگ بھی جمع ہوکراللہ کا ذکر کرتے ہیںاور ان کی اس سے غرض صرف رضاے الٰہی
کا حصول ہو تو انہیں آسمان سے ایک آوازلگانے والا (فرشتہ)آواز لگاتا ہے کہ تم اس
حالت میں اٹھوگے کہ تمہیں بخش دیا گیا ہوگا اور تمہاری برائیوں کونیکیوںمیں تبدیل کردیا
گیا ہوگا۔
کھانے اور لباس کی دعا سے گناہوں کی مغفرت:
سیدنا معاذ بن انس جہنیّt بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جوشخص کھاناکھائے اوریہ دعا پڑھے:
[الحمد لله الذی
اطعمنی هذا، ورزقنیه من غیر حول منی، ولا قوة، غفر له ما تقدم من ذنبه۔]
’’تمام تعریفیں اللہ
کے لیے ہیںجس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیرمیری قوت وطاقت کے مجھے یہ عنایت فرمایاتو
اسکے گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
[من لبس ثوبا فقال:
’الحمد لله الذی كسانی هذا الثوب ورزقنیه من غیر حول منی ولا قوة۔‘]
’’تمام تعریفیں اللہ
کے لیے ہیںجس نے مجھے یہ لباس پہنایااور بغیرمیری قوت وطاقت کے مجھے یہ عنایت فرمایا۔‘‘
تو اسکے گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔
آمین بالجہر سے گناہوں کی مغفرت:
سیدنا ابو ہریرہt سے
مروی ہے کہ نبیe نے
فرمایا:
[وَإِذَا قَرَاَ
{غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهمْ وَلَا الضَّآلِّینَ} فَقُولُوا: آمِینَ فَإِنَّه إِذَا
وَافَقَ قَوْلُ اَهلِ السَّمَاء ِ قَوْلَ اَهلِ الْاَرْضِ غُفِرَ لِلْعَبْدِ مَا مَضَی
مِنْ ذَنْبِه۔] (مسلم: ۴۱۰)
’’جب امام {غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْهمْ وَلَا الضَّالِّینَ} پڑھتا ہے تو تم آمین کہا کرو، کیونکہ یقیناجسکا آمین کہنا
فرشتوں کے آمین کہنے سے مواقفت اختیار کر گیا اسکے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
ایک کلمے سے
گناہ معاف:
سیدنازید t سے
مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریمe کو
فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص نے
[اَسْتَغْفِرُ اللَّه
الْعَظِیمَ الَّذِی لَا إِلَه إِلَّا هوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ، وَاَتُوبُ إِلَیْه
ثَلَاثًا، غُفِرَتْ لَه ذُنُوبُه، وَإِنْ كانَ فَارًّا مِنَ الزَّحْفِ۔]
’’میں اس اللہ سے
مغفرت طلب کرتا ہوںجس کے سواء کوئی معبود نہیں وہ ہمیشہ زندہ رہنے اور تھامے رکھنے
والی ذات ہے ،اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘
تین مرتبہ پڑھا اس کو بخش دیا جاتا ہے، خواہ وہ میدان جہاد سے
بھاگا ہو۔‘‘ (مستدرک حاکم: ۱۸۸۴)
مسلمان بھائی سے مصافحہ کرنامغفرت کا باعث:
سیدنا براءt بیان
کرتے ہیں کہ نبیe نے
فرمایا:
’’جب بھی دو مسلمان
شخص ملاقات کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے پہلے
انہیں بخش دیاجاتاہے۔‘‘
ناراضگی ختم کرنے پر گناہوں کا کفارہ:
سیدنا ہشام بن عامرt سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ
اَنْ یُصَارِمَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلَاثِ لَیَالٍ، فَإِنَّهمَا مَا صَارَمَا فَوْقَ
ثَلَاثِ لَیَالٍ، فَإِنَّهمَا نَاكبَانِ عَنِ الْحَقِّ مَا دَامَا عَلَی صِرَامِهمَا،
وَإِنَّ اَوَّلَهمَا فَیْئًا یَكونُ كفَّارَة لَه سَبْقُه بِالْفَیْء ِ، وَإِنْ همَا
مَاتَا عَلَی صِرَامِهمَا لَمْ یَدْخُلَا الْجَنَّة جَمِیعًا۔] (ادب المفرد: ۴۰۷)
’’کسی مسلمان کے
لیے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ تک بول چال ترک کر دے، اس لیے
کہ جب تک وہ ناراض رہتے ہیںتب وہ حق سے برگشتہ رہتے ہیں،ا ن دونوں میںسے جس نے پہلے
ناراضگی کو ختم کیا اس کایہ عمل گزشتہ گناہوںکا کفارہ بن جاتا ہے۔ اگر ان دونوں کو
اسی حالت میں موت آجائے تو یہ دونوں جنت میں داخل نہیںہوسکیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت ہرگناہ کا کفارہ:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصt سے مروی ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا:
[الْقَتْلُ فِی سَبِیلِ
الله یُكفِّرُ كلَّ شَیْئٍ، إِلَّا الدَّیْنَ۔] (مسلم: ۱۸۸۶)
’’اللہ کی راہ میں
شہادت پاناقرض کے سوا ہر چیز کا کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘
توبہ تمام گناہوں پر معافی کاقلم پھیر دیتی ہے:
سیدناعبداللہt سے
مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[التائب من الذنب،
كمن لا ذنب له۔]
’’گناہ سے توبہ کرنے
والا ایسا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔‘‘ (ابن ماجہ: ۴۲۵۰)
مجلس کی دعا پڑھنے سے گناہوں کی معافی:
سیدنا جبیر بن مطعمt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: جو شخص کسی مجلس میںبیٹھے اور اس میں اس سے بہت سی فضول باتیں ہوجائیںتو وہ
اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ کلمات پڑھ لے تو اس مجلس میںسرزد ہونے والی تمام کوتاہیاں
بخش دی جائیںگی:
[سبحانك اللهم وبحمدك،
اشهد ان لا إله إلا انت استغفرك واتوب إلیك۔] (الترمذی: ۳۴۳۳)
’’اے اللہ! تو پاک
ہے اپنی تعریف سمیت‘ میںگواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میںتجھ سے مغفرت
طلب کرتا ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔‘‘
درود پڑھنے سے گناہوں کی معافی اور نیکیوں کا حصول:
سیدنا ابو طلحہ انصاریt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe ایک
روز بہت خوش دکھائی دے رہے تھے اور آپe کہ چہرے مبارک سے خوشی کے آثار جھلک رہے تھے، لوگوں
نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آج آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں اور چہرے سے بھی خوشی کے
آثار واضح ہورہے ہیں۔ آپe نے
فرمایا: جی ہاں، آج میرے پاس میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا (یعنی فر شتہ
)آیا اور اس نے کہا کہ آپ کی امت میں سے جو بھی شخص آپ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا
اللہ تعالی اس کے بدلے میںاسکی دس نیکیاں لکھ دے گا،اس کے دس گناہ مٹادے گا اور اس
کے دس درجات بلند فرمادے گا۔ (مسند احمد: ۱۶۳۵۰)
No comments:
Post a Comment