سلسلہ سیرت النبی ﷺ
نبی کریم ﷺ کا بچپن
تحریر: جناب ڈاکٹر
عبدالغفار حلیم
﴿لَقَدْ
كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب)
نبی پاکؐ نے یتیمی کے صدمات برداشت کیے یہاں تک کہ داداعبدالمطلب کی وفات نے آپ
کو پریشان کیا۔ سردارعبدالمطلب نے آخری وقت میں آپ ؐ کوآپؐ کے تایازبیر کی کفالت
میں دیااور اُسے وصیت کی کہ اس بچے کی کفالت وتربیت میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔لیکن
تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ بھی اللہ کوپیارے ہوگئے۔ تایا زبیر نے آپ ؐ کی کفالت کی ذمہ
داری آپؐ کے چچا ابوطالب(عبدمناف)کےذمہ لگائی کہ وہ اپنی اولاد سے بڑھ کرمحمدؐ کی
کفالت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں۔یادرہے کہ آپ ؐ کے چچائوں میں صرف ابوطالب ہی تھے
جو حضرت عبداللہ کے ماں کی طرف سے بھی سگے بھائی تھے۔ ابوطالب نے اپنے بھتیجے کی کفالت
کا حق اداکردیا۔آپؐکو اپنی اولادمیں نہ صرف شامل کیا بلکہ اپنی اولاد سے زیادہ اہمیت
دی۔آپؐ کو شفقت ،اعزازواحترام سے پالا۔زندگی بھر اپنی حمایت کا سائبان قائم کیے رکھا۔
یہ پڑھیں: سیرت النبی ﷺ... بعثت سے قبل (پہلی قسط)
ابوطالب نے آپؐ کی صفات سے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ یہ میرا بھتیجا غیرمعمولی
انسان ہے کیونکہ محمدؐ بچوں جیسی عادات سے مبرا تھے۔آپؐ کے چچا ابوطالب کا بیان ہے:
میں نے محمدؐ کوجھوٹ
بولتے، بےجا ہنستے، جاہلیت کی باتیں کرتے، بچوں میں کھیلتے نہیں دیکھا۔ کوئی نبی ایسا
مبعوث نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
آپؐ نے رضاعی بھائیوں کے ساتھ مل کرحلیمہ سعدیہ کی بکریاں چرائیں۔(ابن ہشام)۔مکہ
میں ابوطالب کی کفالت کے دورانیے میں آپؐ نے اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں۔(بخاری)۔ابن
عساکر اس حوالہ سے ایک روایت لائے ہیں جسے شیخ عبداللہ مختصرسیرت اور مولاناصفی الرحمان
مبارکپوری نے الرحیق المختوم میں نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ مکہ میں قحط سالی ہوگئی،لوگ
بھوک سے پریشان تھے،ابوطالب اپنے بھتیجے محمدؐ کودعا کے لیے لے کرنکلے۔ابوطالب نے آپؐ
کا ہاتھ پکڑکرآپ ؐ کی کمر دیوارِ کعبہ سے ٹیک دی اورآپ ؐ سے دعا کروائی۔ اسی دوران
آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا آیا۔دیکھتے ہی دیکھتے بادل گہرے ہوگئے اور موسلا دھاربارش ہوئی، مکہ کی
شادابی واپس لوٹ آئی۔
جب آپؐ کی عمر 12سال ہوئی تو آپ ؐ کے چچا ابوطالب آپؐ کو تجارتی سفر میں شام
لے گئے۔ شام کے شہر بُصری میں ایک عیسائی راہب جرجیس رہتا تھا جو بحیرہ کے لقب سے معروف
تھا۔ابوطالب کے قافلہ نے راہب کے علاقہ میں پڑائو کیا۔ راہب اپنے گرجاسے نکل کرقافلے
میں آیا اور قافلہ والوں کی میزبانی کی چونکہ راہب نے آپؐ کو آخری رسول کی نشانیاں
دیکھ کر پہچان لیا تھا۔ اس نے آپ کا ہاتھ پکڑ کرکہا یہ سیدالعالمین ہے۔اللہ انہیں
رحمت للعالمین بناکربھیجے گا۔ ابوطالب نے راہب سے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا تو اس
نے جواب دیا کہ جب تم لوگ گھاٹی سے اس جانب آرہے تو کوئی بھی درخت اور پتھر ایسا نہ
تھا جو تعظیماََ جھک نہ گیا ہو۔ پھر میں نے مہرِ نبوت کو بھی دیکھا ہے یہ نشانیاں ہماری
کتابوں میں موجود ہیں۔ بحیرہ راہب نے ابوطالب کو مزید کہا کہ انہیں مکہ مکرمہ واپس
لے جائو، ملکِ شام نہ لے جانا کیونکہ یہود سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ چنانچہ آپؐ کو
واپس مکہ مکرمہ بھیج دیا گیا۔ (مختصر سیر ت الرسول الشیخ عبداللہ، الرحیق المختوم)
یہ پڑھیں: سیرت النبی ﷺ ... ولادت با سعادت (دوسری قسط)
جنگ فجار اور آنحضرتﷺ کی شجاعت
آپؐ کی عمر جب پندرہ برس ہوئی تو جنگ فجار پیش آئی۔اس جنگ میں قریش اور بنوکنانہ
ایک طرف اور قیس وعیلان حلیف تھے۔ نبی ؐ نے بنفسِ نفیس اس جنگ میں حصہ لیا۔ آپؐ تیر
لالاکر اپنے تیراندازوں کو دیتے تھے اس جنگ میں قریش اوربنوکنانہ کو فتح حاصل ہوئی۔
حلف الفضول
جنگِ فجار کے بعد ذی قعدہ میں حلف الفضول معاہدہ کیا گیا۔ اس میں چند قبائل ِ قریش
(بنی ہاشم، بنی اسدبن عبدالعزی، بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تیم بن مرہ ) شامل تھے۔یہ قبائل عبداللہ بن جدعان تیمی کے مکان
پرجمع ہوئے کیونکہ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا۔قبائل نے درج ذیل شرائط پر اتفاق کیا۔
1 ہم مظلوموں کا
اس وقت تک ساتھ دیں گے جب تک ان کا حق ادا نہ کردیا جائے خواہ ان کا تعلق کسی بھی قبیلہ
سے ہو۔
2 ملک میں ہرطرح
کا امن و امان قائم کریںگے۔
3 مسافروں کی حفاظت
کریں گے۔
4 غریبوں کی امداد
کرتے رہیں گے۔
5 کسی ظالم یا غاصب
کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
جب یہ معاہدہ ہوا تو آپؐ کی عمر بیس سال تھی۔آپؐ اس معاہدہ میں باقاعدہ رُکن
تھے۔
تجارت
بیس بائیس سال کی عمر میں آپ ؐ نے تجارت شروع کی کیونکہ مکہ کے اکثر لوگوں کا
پیشہ تجارت تھا۔ چونکہ آپ ؐکی امانت ،دیانت اور صداقت مسلمہ تھی اس کی وجہ سے آپ
کی تجارت میں بہت نفع ہونے لگا۔البدایہ والنہایہ کے حوالہ سے آپ ؐ کی دیانت کا ایک
سنہری واقعہ ملاحظہ کریں۔ایک مرتبہ آپؐ شام کےتجارتی سفر پر تھے ، آپ ؐ کے اونٹوں
میں سے ایک اونٹ کی ٹانگ میں کوئی نقص تھا۔اتفاق سے آپ ؐ کو کسی دوسری جگہ جانا ہوا
تو آپؐ نے اپنے غلام سے کہا کہ کوئی گاہک آئے تو اسے اس اونٹ کے عیب سے مطلع کرنا،
اس کی الگ قیمت طے کرنا۔ آپؐ کے جانے کے بعد گاہک آیا اور غلام نےسارے اونٹوں کا
سودا کرلیا ، غلام کو آپؐ کی بات یاد نہ رہی۔ آپؐ واپس لوٹے ،خریدارمال لے کرچلے
گئے، غلام نے بتایا کہ اونٹ فروخت ہوگئے ہیں۔ آپؐ نے غلام سے پوچھا جو اونٹ عیب دار
تھا اس سے متعلق گاہکوں کو بتایا تھا؟ غلام نے کہا مجھے یاد نہیں رہا۔آپؐ نے مع غلام
تیز سواری پر خریداروں کا پیچھاکیااور ایک دن کی مسافت طے کرکے ان تک پہنچے۔آپؐ نے
ان سے کہا کہ تم نے اونٹ کس سے خریدے۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے مکہ کے تاجرمحمدؐ سے
شام کے شہر میں اونٹ خریدے ہیں۔آپؐ نے فرمایا میں محمد ہوں، میرے غلام سے آپؐ نے
جانور خریدے تھے، ایک اونٹ میںعیب تھا جو میراغلام آپ کو بتانہیں سکا۔ وہ اونٹ ہمیں
واپس کردیں اور رقم واپس لے لیںیا اس کی نصف رقم آپ واپس لے لیں۔ چنانچہ انہوں نے
نصف رقم واپس لے لی۔
یہ پڑھیں: سیرت النبی ﷺ ... تاریخ ولادت (تیسری قسط)
حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح
آپؐ کی امانت ، صدقات اوربرکات کے چرچے زبان زدعام ہونے لگے ۔حضرت خدیجہ ؓبنتِ
خویلد جو ایک معزز مالدارتاجر خاتون تھیں نے رسول اللہ ؐ کی راست گوئی ،امانت داری
،اعلیٰ اخلاق اور آپ ؐ کی تجارت میں دوسروں کی نسبت زیادہ منافع سے متعلق سنا۔انہوں
نے آپ ؐ کو پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال لے کرتجارت کے لیے شام جائیں۔دوسرے تاجروں
سے بہتر اجرت آپ ؐ کو دوں گی۔ آپ ؐ نے یہ پیش کش قبول کی اورحضرت خدیجہؓ کا مال لے
کر ان کے غلام میسرہ کے ہمراہ شام تشریف لے گئے۔جب آپ تجارتی سفرکے بعد مکہ واپس تشریف
لائے تو حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے مال میں ایسی امانت و برکت دیکھی جو اس سے قبل کبھی
نہ دیکھی تھی۔اس پر مستزادان کے غلام میسرہ نے آپؐ کے شیریں اخلاق، بلند پایہ کردار،
موزوں اندازِفکر،راست گوئی اورامانت دارانہ طور طریقے سے متعلق اپنے مشاہدات بیان کیے۔حضرت
خدیجہ کو اپنا گم گشتہ گوہرِ مطلوب دستیاب ہوگیا۔سفرِشام سے واپسی کے دوماہ بعد حضرت
خدیجہ ؓ نے اپنی سہیلی نفیسہ بنت منبہ کے ذریعے آپؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔اس سے
پہلے بڑے بڑے سردار اوررئیس ان سے نکاح کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے کسی کو پسند
نہ کیا اس لیے کہ وہ نسب ،دولت ،حسن وجمال، عقل ودانش کے لحاظ سے اپنی قوم کی سب سے
معزز اورافضل خاتون تھی۔دونوں طرف سے مشورہ کے بعد آپؐ کا حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح ہوگیا۔نکاح
میں بنی ہاشم اور روسائے مضر شریک ہوئے۔یہ
پہلی خاتون تھیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے شادی کی اوران کی وفات تک کسی عورت سے شادی نہیں
کی۔آپؐ کے بیٹے ابراہیم کے علاوہ آپؐ کی ساری اولاد انہیں کے بطن سے پیدا ہوئی۔ سب
سے پہلے قاسم پیداہوئے،انہیں کے نام پر آپؐ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ پھر زینبؓ،رقیہؓ،
ام کلثومؓ، فاطمہؓ اور عبداللہ ؓ پیدا ہوئے۔ عبداللہ کا لقب طیب اورطاہر تھا۔آپ کے
تینوں بیٹے بچپن میں وفات پاگئے جبکہ بیٹیوں میں سے ہراک نے اسلام کا زمانہ پایا۔ مسلمان
ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں۔سب شادی شدہ تھیں۔حضرت فاطمہؓ کے سوا بقیہ تینوں
بیٹیوں کا انتقال آپؐ کی زندگی میں ہی ہوگیا۔ حضرت فاطمہ ؓ کی وفات آپؐ کی وفات کے
چھ ماہ بعد ہوئی۔
یہ پڑھیں: سیرت النبی ﷺ ... عظمتِ مصطفیﷺ (چوتھی قسط)
تعمیرِ کعبہ اورحجرِاسود کی تنصیب
آپ ؐ کی زندگی کا پینتیسواں سال تھا۔خانہ کعبہ کی دیواریں بوسیدہ ہونے کہ وجہ
سے قریش نے تعمیرِخانہ کعبہ کا فیصلہ کیا کیونکہ خطرہ تھا کہ کسی وقت بھی دیواریں زمین
پر آسکتی ہیں۔ قریشِ مکہ نے فیصلہ کیا کہ رنڈی کا مال، سودکی دولت اور غصب شدہ مال
خانہ کعبہ کی تعمیر میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔تعمیر کے آغاز میں تمام قبائل مکہ
کے لیے الگ الگ حصہ مقررکیا گیا تھا۔جب عمارت حجرِ اسودکی جگہ تک بلند ہوچکی تو جھگڑااٹھ
کھڑا ہوا کہ حجرِ اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کا شرف وامتیاز کس قبیلہ کو ملے گا۔ہرقبیلہ
یہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اسے ہی ملے۔یہ تنازعہ پانچ روز تک رہا اور اس قدر شدت اختیارکرگیا
کہ کسی وقت بھی حرم میں اس معاملہ پر سخت جھگڑا ہوسکتا تھا لیکن ابوامیہ مخزومی نے
یہ کہہ کرفیصلہ کی ایک صورت پیدا کردی کہ جو اگلی صبح بیت اللہ کے دروازے سے سب سے
پہلے داخل ہو اسے ہم اپنے جھگڑے کا حکم(فیصل) مان لیں۔ تمام قبائل نے یہ تجویز منظورکرلی۔
اللہ کی مشیت کہ اگلی صبح سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، لوگوں نے آپؐ کو دیکھا
تو پکار اٹھے:
[ھذا محمدھذا الامین
رضینا.]
یہ محمد ہیں،یہ امین ہیں ہم ان کے فیصلہ سے راضی ہیں ۔آپ ؐ نے اپنی چادر بچھائی،
چادرکے درمیان میں حجرِ اسودرکھااور قبائل کے سرداروں سے کہا کہ چاروں پلوئوں سے پکڑ
کر اوپر اٹھائیں۔جب چادر حجرِ اسود کے مقام تک پہنچ گئی تو آپ نے اپنے دستِ مبارک
سے حجرِ اسودکو اس کی مقررہ جگہ پر رکھ دیا۔یہ فیصلہ سب کے نزدیک مقبول اور قابل تحسین
تھا۔
فَقَدْ جَاءَنَا
ھَذَا الْاَمِیْنُ مُحَمَّدٌﷺ
فَقُلْنَا رَضِیْنَا
بِالْاَمِیْنِ مُحَمَّدﷺ
بِخَیْرِ قُرَیْشِ
کُلِّھَا اَمْرِ شَحِیْمَۃ
وَفِی الْیَوْمِ
مَعَ مَا یُحْدِثُ اللّٰہ فِیْ غدٖ
فَجَاءَ بِاَمْرِ
لَمْ یَری النَّاسُ مِثْلَہ
اَعَمُّ وَ اَرْضٰی
فِی الْعَوَاقِبِ وَالْیَد
وَکُلّ رَضِیْنَا
فِعْلَہ وَ صَنِیْعَہ
فَاعْلَمُ بِہٖ مِنْ رَای ھَادِ
وَ مُھْتَدٖی
(ابن ہشام)
جو فلسفیوں سےکھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
یہ پڑھیں: سیرت النبی ﷺ ... نبی کریمﷺ کا بچپن (پانچویں قسط)
شرک ورذائل سے اجتناب
انبیا پیدائشی طور پر ہدایت یافتہ ہوتے ہیںبایں وجہ آپؐ نے نہ کبھی بتوں کی پوچا
کی نہ شرک کیا۔کبھی بھی شراب نہیں پی۔آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا اوربتوں کے میلوں
میں کبھی شرکت نہ کی۔آپ کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے
بڑھ کرکوئی چیز آپ ؐ کی نظرمیں مبغوض نہ تھی حتی کہ لات و عزی کی قسم سننا بھی آپ
کو گوارا نہ تھی۔اس بات میں شبہ نہیں کہ تقدیر نے آپؐ پر حفاظت کا سایہ ڈال رکھا تھا
اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی عمر کی قسم کھائی ’’لعمرک‘‘ ابنِ اثیر کی روایت
ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےکہا مجھے اپنے لڑکپن میں بکریاں چراتے ہوئے دومرتبہ مغنیہ کاگاناسننے
کا شوق ہوا۔میں ابھی شادی والے گھر پہنچا ہی تھا کہ اللہ نے میرا کان بندکردیا اور
میں سوگیا اور پھر صبح سورج کی تمازت سے ہی میری آنکھ کھلی۔ اسکے بعد کبھی مجھے ایسا
خیال نہیں آیا۔
نبی کریم ﷺ اپنی قوم میں اعلیٰ کردار،بہترین اخلاق، کریمانہ عادات کے لحاظ سے ممتاز
تھے۔چنانچہ آپ ﷺ سے زیادہ بامروت ،خوش اخلاق ،دوراندیش، سب سے زیادہ راست گو، سب زیادہ
رقیق القلب، سب سے زیادہ پاک نفس، خیر میں سب سے کریم، عہد میں پابند اور سب سے زیادہ
امانت دارتھے۔یہاں تک کہ آپ کے محاسن کی وجہ سے آپ کی قوم نے آپ ؐ کا لقب صادق اور
امین رکھ دیا تھا کیونکہ آپ اعمالِ صالح اور خصالِ حمیدہ کا پیکرتھے۔ اللہ جل شانہ
نے آپ ؐ کی عمر کو دنیا کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ
فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾
جہاں نظر نہیں پڑی
وہاں ہے رات آج تک
وہیں وہیں سحر ہوئی
جہاں جہاں گزر گیا
قدم قدم پہ رحمتیں
نفس نفس پہ برکتیں
جہاں جہاں سے وہ
شفیع عاصیاں گزر گیا
No comments:
Post a Comment