Saturday, October 26, 2019

احکام ومسائل 40-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

بالوں کا رنگنا
O ہمارے ہاں کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ داڑھی اور سر کے بال اگر سفید ہو جائیں تو ان کا رنگنا ضروری ہے۔ بالوں کو رنگنے کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔ نیز انہیں رنگنے کے لیے کونسا رنگ مشروع ہے؟
P سیدنا ابوہریرہt سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’یہود ونصاریٰ اپنے بالوں کو رنگ نہیں کرتے تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘ (بخاری‘ اللباس: ۵۸۹۹)
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سفید بالوں کو رنگنا ضروری ہے خواہ زندگی بھر میں ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو‘ لیکن جمہور اہل علم نے اس امر کو استحباب پر محمول کیا ہے۔ یعنی رنگنا بہتر ہے لیکن بالوں کو سفید رکھنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ سیدنا انسt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے اپنے بالوں کو نہیں رنگا جبکہ چند سفید بال آپ کی داڑھی اور کنپٹی میں تھے۔ نیز تھوڑے سے سفید بال آپ کے سر مبارک میں بھی تھے۔ (مسلم‘ الفضائل: ۲۳۴۱)
چند ایک صحابہ کرام] بھی ایسے تھے جن کی داڑھی اور سر کے بال سفید تھے۔ جیسا کہ امام شعبی a بیان کرتے ہیں:
’’میں نے سیدنا علیt کو دیکھا کہ ان کے سر اورداڑھی کے بال سفید تھے۔‘‘ مصنف ابن ابی شیبہ: ج۸‘ ص ۲۵۶)
سیدنا عبداللہ بن عمروw کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ (طبقات ابن سعد: ج۷‘ ص ۱۲)
سیدنا عمران بن سعیدt کے متعلق بھی روایات میں ہے کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ (طبقات ابن سعد: ج۵‘ ص ۲۹)
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی سفید بال رکھتا ہے تو اس میں جواز کا پہلو ہے اگرچہ سفید بالوں کو رنگنا مستحب اور تاکیدی حکم ہے۔
رنگنے کے متعلق شرعی ہدایت یہ ہے کہ سیاہ رنگ سے اجتناب کیا جائے جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر سیدنا ابوبکرt کے والد گرامی سیدنا ابوقحافہt کو لایا گیا تو ان کے سر اور داڑھی کے بال ثغامہ پودے کی طرح بالکل سفید تھے تو رسول اللہe نے فرمایا: ’’انہیں کسی رنگ سے بدل دو مگر سیاہ رنگ سے پرہیز کرنا۔‘‘ (مسلم‘ اللباس: ۵۵۰۹)
اس حدیث پر امام نوویa نے بالوں کو سیاہ کرنے کی حدیث کا عنوان قائم کیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’آخر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو سیاہ رنگ سے اپنے بال رنگیں گے جیسے کبوتروں کے سینے ہوتے ہیں‘ یہ لوگ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الترجل: ۴۲۱۲)
اس پر امام نسائی نے یہ عنوان قائم کیا ہے: ’’کالا خضاب کرنے کی ممانعت۔‘‘ (نسائی‘ الزینہ‘ باب نمبر ۱۵)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سر اور داڑھی کے بالوں کو سیاہ رنگ کرنا حرام ہے۔ یہ ممانعت مردوں اور عورتوں سب کے لیے یکساں ہے۔ لہٰذا بالوں کو رنگنے کے لیے سیاہ پتھر کا استعمال بھی ناجائز ہے۔ بالوں کو مہندی سے رنگا جائے یا اس میں کتم بوٹی کے پتے ملا لیے جائیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’بہترین وہ چیز جس سے تم اپنے سفید بالوں کو رنگین کرو وہ مہندی اور کتم ہے۔‘‘ (نسائی‘ الزینہ: ۵۰۸۳)
واضح رہے کہ مہندی اورکُتم ملانے سے رنگ خالص سیاہ نہیں ہوتا بلکہ سرخی مائل ہو جاتا ہے‘ آج کل بازار میں مختلف قسم کی ’’کریم‘‘ مل جاتی ہے جو خضاب کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بہرحال سیاہ رنگ کے علاوہ کوئی بھی رنگ بالوں کو لگایا جا سکتا ہے۔
بالوں کو رنگنے کے حوالے سے ہم اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ نصیحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ دور حاضر میں یہ مختلف قسم کی بے اعتدالیوں کا شکار ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بالوں کو ڈائی کرایا جاتا ہے یعنی جیسا لباس ویسے ہی بالوں کی رنگت۔ اسی طرح آنکھوں میں ڈائی شدہ بالوں اور لباس کی مناسبت سے لینز ڈالے جاتے ہیں۔ یہ کام نہ صرف ناجائز ہیں بلکہ ان میں کفار کی عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ نیز اسے روشن خیالی تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں اللہ کی تخلیق کو بدلنے کی قباحت بھی ہے۔ لہٰذا ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی بہو بیٹیوں اور دیگر متعلقہ خواتین کو اس قبیح کام سے روکیں۔ نیز انہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول eکی صریح مخالفت سے باز رکھیں۔ ہم روز بروز دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولاد کو اس دنیوی اور اُخروی خسارے سے محفوظ فرمائے اور قیامت کے دن انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین!
عام حالات میں نماز قصر
O قرآن کریم میں جہاں نماز قصر کا بیان ہے وہاں سفر کے ساتھ دشمن کے اندیشہ کا بھی ذکر ہے۔ یعنی نماز قصر جنگی حالات کے ساتھ خاص معلوم ہوتی ہے۔ جبکہ ہم ہر قسم کے سفر میں قصر کرتے ہیں خواہ پر امن حالات ہی کیوں نہ ہوں؟ اس کی کیا وجہ ہے وضاحت فرما دیں۔
P قرآن کریم نے نماز قصر کے متعلق بایں الفاظ وضاحت کی ہے: ’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز مختصر کرنے میں کوئی حرج نہیں‘ جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں تشویش میں ڈال دیں۔‘‘ (النساء: ۱۰۱)
قرآن کریم کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے لیکن رسول اللہe کی سنت سے ثابت ہے کہ ہر قسم کے سفر میں نماز قصر کی جا سکتی ہے۔ سوال میں جس شبہ کا ذکر کیا گیا ہے یہ کوئی نیا نہیں بلکہ ہمارے اسلاف کو بھی اس طرح کی پریشانی ہوئی تھی جیسا کہ سیدنا لیلیٰ بن امیہt کہتے ہیں: ’’میں نے ایک دفعہ سیدنا عمرt سے عرض کیا‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اگر تمہیں کافروں کا خوف ہو تو نماز میں قصر کرو۔‘‘ جبکہ ہم حالات امن میں بھی قصر کرتے ہیں۔ تو سیدنا عمرt نے جواب دیا: اس بات پر میں نے بھی رسول اللہe کے سامنے اظہار تعجب کیا تھا تو آپe نے فرمایا تھا: یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا ہے۔لہٰذا تم اس صدقہ کو قبول کرو۔‘‘ (ترمذی‘ التفسیر: ۳۰۳۴)
ایک دوسری حدیث میں سیدنا حارثہ بن وہب کا بیان ہے کہ رسول اللہe نے بحالت امن منٰی میں ہمیں دو رکعت پڑھائی تھیں۔ (بخاری‘ ابواب التقصیر: ۱۰۸۳)
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ دوران سفر بحالت امن بھی قصر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ آیت کریمہ میں اندیشہ دشمن کا ذکر غالب احوال کی بناء پر ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت پورا جزیرۂ عرب دار الحرب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ حافظ ابن قیمa نے اس اشکال اور بحث کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
’’قصر کی دو اقسام ہیں: Ý قصر ارکان: یعنی نماز کی ہیئت اور ارکان میں تخفیف کر دی جائے۔ Þ قصر عدد: یعنی رکعات نماز میں تخفیف کر دی جائے‘ چار کی بجائے دو۔ جب خوف اور سفر دونوں ہوں تو مطلق قصر جیسا کہ قرآن کریم میں ہے یعنی قصر ارکان اور قصر عدد کیا جائے گا۔ جب خوف اور سفر دونوں نہ ہوں تو نماز کو پورا پڑھنا ہو گا‘ جیسا کہ عام حالات میں ہوتا ہے۔ جب خوف تو ہو لیکن سفر نہ ہو تو قصر ارکان سے نماز پوری پڑھی جائے گی یعنی رکعات کی تعداد میں کمی نہیں ہو گی‘ جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر ہوا تھا۔ جب خوف نہیں صرف سفر ہے تو تعداد میں کمی ہو سکتی ہے۔ ارکان کی کمی جائز نہیں۔ اسے صلوٰۃ امن کہا جا تا ہے۔ البتہ رکعات میں کمی کے اعتبار سے اسے نماز قصر بھی کہتے ہیں۔ ارکان کے اعتبار سے یہ نماز پوری ہے جیسا کہ سیدنا عمر t نے فرمایا تھا: ’’سفر کی نماز دو رکعت‘ جمعہ بھی دو رکعت‘ اسی طرح عیدین کی نماز بھی دو رکعت یہ نماز پوری ہے‘ قصر نہیں۔ رسول اللہe کی زبان سے ایسا ہی ثابت ہے۔ (مسندا مام احمد: ج۱‘ ص ۳۷)
تفصیل کے لیے زاد المعاد (ج۱‘ ص ۴۶۶) کا مطالعہ مفید رہے گا۔
قرآنی سورتوں کی تقسیم
O کتب احادیث میں سبع طوال‘ مثانی اور مفصل کی اصطلاحات آئی ہیں‘ جہاں رسول اللہe کی قراء ت کا بیان ہوتا ہے۔ ان اصطلاحات سے کیا مراد ہے؟
P قرآن کی سورتوں کو چھوٹی بڑی ہونے کی حیثیت سے محدثین کرامs نے حسب ذیل چار اقسام میں تقسیم کیا ہے:
\          سبع طوال: سات لمبی سورتیں‘ اس سے مراد سورۂ بقرہ سے سورۂ توبہ تک سات سورتیں ہیں۔ واضح رہے کہ مضمون کے اعتبار سے سورۂ انفال اور سورۂ توبہ کو ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔
\          مئین: اس سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کی آیات کم از کم سو یا اس سے زائد ہوں‘ یہ سورۂ یونس سے سورۂ طٰہٰ تک ہیں۔
\          مثانی: وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کم ہوں‘ یہ سورتیں سورۂ انبیاء سے سورۂ فتح تک ہیں۔
\          مفصل: اس سے مراد وہ سورتیں ہیں جن میں بکثرت بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ذریعہ سے فاصلہ آیا ہے‘ ان کی تین اقسام ہیں:
b طوال مفصل: سورۂ حجرات سے سورۂ عم یتسائلون تک
b اوساط مفصل: سورۂ نازعات سے سورۂ والضحیٰ تک
b قصار مفصل: سورۂ الم نشرح سے سورۂ الناس تک‘ یہ تقسیم اجتہادی ہے منصوص نہیں۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)