خطبۂ حرم ... مال.. نعمت بھی‘
فتنہ بھی
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن حُمَید d
ترجمہ: جناب محمد عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
لوگو! میں خود کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ خاموشی فتح کے وقت خود اعتمادی
کی دلیل ہے، غضب کے وقت قوت ہے اور عمل کے دوران کامیابی کا ذریعہ ہے۔ جب مذاق اڑایا
جا رہا ہو، اس وقت خاموشی بلندی کا سبب ہے، نصیحت کے وقت یہ ادب ہے، پریشانی کے وقت
یہ صبر اور احتساب ہے۔ فقیر وہ نہیں جو سونا چاندی سے محروم ہو بلکہ حقیقی فقیر وہ
ہے جو ادب سے محروم ہو۔ اللہ حق اور باطل کو الگ الگ کر دیتا ہے، وہ فسادیوں اور اصلاح
پسندوں کو خوب جانتا ہے، وہ حق کو ظاہر اور باطل کو رسوا کرتا ہے۔ وہی برائی سے روکنے
والے اصلاح پسندوں کو ہر برائی سے محفوظ رکھتا ہے۔
’’جو لوگ راہِ راست
اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مریم: ۷۶)
’’ایمان لانے والوں
کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور
ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے‘ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔‘‘ (ابراہیم: ۲۷)
اے مسلمانو! ایک عجیب چیز ہے، اللہ کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ
اسی پر زندگی کی بنیاد رکھ دی جائے، اسی سے زندگی مکمل ہو، اسی سے سعادت ملے اور اسی
سے عزت نصیب ہو۔ ایک ایسی چیز سے جس کے ذریعے انسان کھاتا پیتا ہے، جسے استعمال کر
کے وہ پہنتا اور زندگی بسر کرتا ہے، جس سے وہ اپنی غذا اور لباس کو بناتا ہے، اپنے
مکانوں اور اسلحے کو تیار کرتا ہے۔ جس کی ضرورت ہر چیز میں ہوتی ہے، صحت اور تعلیم
میں، تعمیر وترقی میں، قوت میں اور حکومت میں۔ یہ چیز مال ہے۔ اللہ کے بندو! اللہ کا
اصول یہی ہے کہ مال زندگی کی بنیاد ہو اور زندہ لوگوں کا معاش ہو۔ مال کو اللہ تعالیٰ
نے زندگی بہتر کرنے کا ذریعہ بنایا، فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور اپنے وہ مال
جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو۔‘‘
(النساء: ۵)
کسی چیز کے قیام کا ذریعہ وہی ہوتا جس سے اسے حفاظت اور درستی
ملے۔ تو مال معاش کے قیام کا ذریعہ ہے۔ اسی سے ذاتی اور اجتماعی مفادات پورے ہوتے ہیں۔
اللہ کے بندو! یہی وجہ ہے کہ مال کی حفاظت شریعت الٰہی کا ایک
اہم مقصد ہے۔ یہ ان پانچ بنیادی ضرورتوں میں سے ہے جن کی حفاظت کے لیے دین اسلام بنایا
گیا ہے۔
قرآن کریم میں مال کا ذکر اسّی سے زیادہ بار آیا ہے۔ مختلف مقامات
پر اللہ تعالیٰ نے مال کو خیر کہا ہے:
’’اور وہ خیر کی
محبت میں بری طرح مبتلا ہے۔‘‘ (العادیات: ۸)
اسی طرح فرمایا:
’’لوگ پوچھتے ہیں
کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو خیر بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں
پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ
اس سے باخبر ہوگا۔‘‘ (البقرۃ: ۲۱۵)
اللہ پاک کا فرمان ہے:
’’تم پر فرض کیا
گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے خیر چھوڑ رہا ہو،
تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔‘‘
(البقرۃ: ۱۸۰)
پیارے بھائیو! دوسروں کے مال کا احترام ضروری ہے۔ صحیح حدیث
میں ہے:
کسی مسلمان کے لیے دوسرے کا مال جائز نہیں ہے، الّا یہ کہ وہ خوش دلی سے اسے دے
دے، جو جان بوجھ کر کسی مسلمان کا مال کھانے کے لیے جھوٹی قسم کھاتا ہے، وہ اللہ کو
اس حال میں ملے گا کہ وہ اس سے ناراض ہو گا۔ (بخاری ومسلم سیدنا ابن مسعودt سے
روایت کیا ہے)
اسی طرح جو اپنے مال کے دفاع میں قتل ہو جائے، وہ شہید ہے (اسے
امام ابوداؤد نے سیدنا سعید بن زیدt سے
روایت کیا، پھر فرمایا: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔)
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مال عطا فرما کر ان
پر احسان کیا ہے۔ اسے بہتری اور بھلائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور یہ صرف اسی کا احسان
اور کرم نوازی ہے۔ اللہ تعالیٰ نوحu کے
متعلق بیان کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا:
’’میں نے کہا اپنے
رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں
برسائے گا۔ تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے
لیے نہریں جاری کر دے گا۔‘‘ (نوح: ۱۰-۱۲)
اسی طرح اللہ پاک کا فرمان ہے:
’’جو کوئی اللہ سے
ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا
اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔‘‘ (الطلاق: ۲-۳)
بلکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمe پر احسان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور تمہیں نادار
پایا اور پھر مالدار کر دیا۔‘‘ (الضحیٰ: ۸)
رسول اللہe نے
سیدنا عمرو بن عاصt سے
کہا: ’’نیک بندے کا اچھا مال بہترین مال ہے۔‘‘ (مسند احمد)
اسی طرح آپe نے
فرمایا: ’’مجھے کسی کے مال سے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا ابو بکر کے مال سے پہنچا
ہے۔‘‘ (مسند احمد وابن حبان اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے اور اس کی سند امام بخاری
اور امام مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔)
اسی طرح صحیح حدیث میں ہے: مال دار لوگ سارا اجر کما گئے۔ (بخاری
ومسلم)
اسی طرح دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (بخاری ومسلم)
قرآن کریم کی سب سے طویل آیت مالی معاملات کے اصول وضوابط کے
بارے میں ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اسے کس طرح استعمال کیا جائے، حساب کتاب لکھا
جائے، منظم طریقے سے استعمال کیا جائے اور اس کی حفاظت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا
ہے:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘
(البقرۃ: ۲۸۲)
اللہ کے بندو! دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اپنے احسان کا
ذکر فرمایا ہے، فرمایا:
’’پھر ذرا انسان
اپنی خوراک کو دیکھے۔ ہم نے خوب پانی لنڈھایا۔ پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا۔ پھر اُس
کے اندر اگائے غلے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغ اور
طرح طرح کے پھل اور چارے۔ تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست کے طور
پر۔‘‘ (عبس: ۲۴-۳۲)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور آسمان سے ہم
نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے اور بلند و بالا کھجور کے
درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بر تہ لگتے ہیں یہ انتظام ہے بندوں
کو رزق دینے کا۔‘‘ (ق: ۹-۱۱)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین میں رزق کی تلاش میں نکلنے والوں
کا مجاہدین فی سبیل اللہ کے ساتھ ملا کر ذکر فرمایا۔ پاکیزہ ناموں والے کا فرمان ہے:
’’کچھ دوسرے لوگ
اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔‘‘
(المزمل: ۲۰)
علامہ ابن قیمa نے
مال کے مقام ومرتبے کے حوالے سے بڑے جامع الفاظ لکھے ہیں، فرماتے ہیں: خوب جان لو کہ
اللہ تعالیٰ نے مال کو نفس کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ پھر اس کی حفاظت کا حکم دیا
ہے، اسے نادان لوگوں کے ہاتھ میں دینے سے منع کیا ہے، چاہے وہ مرد ہوں، عورتیں ہوں،
بچے ہوں یا کوئی اور ہو۔ رسول اللہe نے بھی اس کی تعریف فرمائی ہے۔ فرمایا: نیک بندے کا
حلال مال بہترین مال ہے۔ ابن مسیبa بیان کرتے ہیں: اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہو سکتی جو
لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنے کے لیے، صلح رحمی کرنے کے لیے اور صدقہ دینے کے
لیے حلال ذرائع سے مال کمانے کی چاہت نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح ابن اسحاق سبیعیa فرماتے
ہیں: ہمارے بڑے سمجھتے تھے کہ مال میں کشادگی دینداری پر معین ہوتی ہے۔ اسی طرح محمد
بن منذرa فرماتے
ہیں: وہ مال داری بڑی خوب ہے جو نیکی پر معاون ہو۔ سفیان ثوریa فرماتے
ہیں: اس زمانے میں مال اہل ایمان کا ہتھیار ہے۔ یوسف بن اسباطa فرماتے
ہیں: جب سے زمین وآسمان بنے ہیں، مال کبھی بھی اتنا اہم نہیں تھا جتنا وہ ہمارے اس
زمانے میں اہم ہے۔ مال بہترین سواری کی طرح ہے۔ اس سے کسی کو پردہ پوشی ملتی ہے اور
کسی کو اس سے گناہ ہوتا ہے۔
اے مسلمانو! ابن قیمa مال کے فوائد میں بیان کرتے ہیں کہ یہ نیکی اور فرماں
برداری پر مددگار ہے، اسی کی بنیاد پر حج اور جہاد ہوتے ہیں، اسی سے واجب اور مستحب
صدقہ دیا جاتا ہے، اسی سے اللہ کی راہ میں چیزیں وقف ہوتی ہیں، اسی سے مسجدیں بنتی
ہیں، اسی سے عمارتیں وغیرہ بنتی ہیں۔ اسی سے اچھے اخلاق کا بازار گرم ہوتا ہے، اسی
سے سخاوت اور فیاضی جیسی اقدار ظاہر ہوتی ہیں اور اسی سے عزت آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔
اسی سے بھائیوں اور دوستوں کا پتہ چلتا ہے۔ اسی سے نیک لوگ بلند درجوں تک پہنچتے ہیں۔
اسی کے ذریعے ان لوگوں کی رفاقت نصیب ہو سکتی ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔
یہ وہ زینہ ہے جس سے لوگ جنت کے کمروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ اسی سے بعض لوگ اسفل
سافلین تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ مال ہی وہ چیز ہے جس سے کامیاب لوگوں کی بلندی برقرار
رہتی ہے۔ بزرگ کہتے تھے: بلندی اچھے کاموں سے ہی مل سکتی ہے اور اچھے کام مال کے ذریعے
ہی ہو سکتے ہیں۔ کچھ بزرگ یہ بھی کہتے تھے: اے اللہ! میں تیرے ان بندوں میں سے ہوں
جنہیں مال داری ہی سدھار سکتی ہے۔
اے مسلمانو! مال اللہ کی رضا کمانے کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ لیکن
اسی کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی بھی مل سکتی ہے۔ یہ ساری باتیں امام ابن القیمa ہی
کی ہیں۔ فرماتے ہیں: ابو بکر، عمر، عثمان، زبیر، عبد الرحمن بن عوف اور دیگر صحابہ] جو
مال دار تھے، دین کے قیام میں ان کا کردار اہل صفہ سے زیادہ مؤثر تھا۔ رسول اللہe نے
مال ضائع کرنے سے منع کیا اور بتایا کہ اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑنا، انہیں فقیری
اور محتاجی کے عالم میں چھوڑنے سے بہتر ہے۔ اسی طرح آپe نے
بتایا کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے جو بھی صدقہ دیتا ہے، اس سے اس کا درجہ بڑھتا
ہے اور اسے سربلندی ملتی ہے۔
اے مسلمانو! زندگی کے نظام میں مال کا کردار انتہائی اہم ہے۔
زندگی چلانے میں اور تعمیر وترقی میں اس کا کردار بڑا اہم ہے۔ مال نہ ہو تو زندگی کا
نظام درہم برہم ہو جائے، اس کا فائدہ ختم ہو جائے اور اس کی عمارت گر جائے۔
اے مسلمانو! جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ مال کا مقام ومرتبہ بہت
بلند ہے، مگر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ہر شخص اپنے مال کا ذمہ دار ہے۔ کہاں سے کمایا
اور کہاں خرچ کیا؟ مال بذات خود مقصود نہیں‘ بلکہ اسے حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ
کی رضا اور اس کی خوشنودی کی خاطر اسے خرچ کیا جائے، تجارت اور سرمایہ کاری کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تاکہ وہ تمہارے
مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔‘‘ (الحشر: ۷)
مال ہے تو اللہ کی ملکیت۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’اور ان کو اللہ
کے اُس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔‘‘ (النور: ۳۳)
مگر اللہ تعالیٰ نے یہ مال امانت کے طور پر انسان کے ہاتھ میں
دے دیا ہے۔ فرمایا:
’’اُن چیزوں میں
سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔‘‘ (الحدید: ۷)
جو مال حلال ذائع سے کمایا جاتا ہے، اسی میں اللہ تعالیٰ برکت
ڈالتا ہے۔ مال بذات خود مذموم نہیں، بلکہ اس میں بڑی خیر اور برکت ہو سکتی ہے۔ نبی
اکرمe نے
فرمایا: دنیا تو بس چار لوگوں کی ہے: اس شخص کی جسے اللہ نے مال اور علم دیا ہو، وہ
اپنے پروردگار سے ڈرتا ہو، صلہ رحمی کرتا ہو، اپنے مال میں اللہ کے حق کو پہچانتا ہو۔
یہ شخص تو سب سے بلند مقام پر ہے۔ (مسند احمد وترمذی)
دنیا میں محنت صرف آخرت کے لیے ہی نہیں ہوتی، بلکہ معاش آخرت
کی کمائی کا بہترین ذریعہ ہے، اچھا معاش آخرت کمانے میں معاون ہوتا ہے۔ دنیا آخرت کی
کھیتی اور اس کا زینہ ہے۔ ابو سلیمان دارانیa فرماتے ہیں: ہمارے یہاں عبادت یہ نہیں کہ دوسروں کی
کمائی پر جی کر نمازیں پڑھی جائیں۔ بلکہ عبادت یہ ہے کہ پہلے اپنی روٹی کا بندوبست
کیا جائے، پھر عبادت کی جائے۔ کیونکہ مال دین اور دنیا کی عظیم ترین نعمتوں میں سے
ہے۔
اللہ کے بندو! چند ذرائع ہیں جو مال کی حفاظت کا سبب بنتے ہیں۔
ان میں سے چند یہ ہیں کہ مال میں سے اللہ کا حق ادا کیا جائے۔ زکوٰۃ اور صدقہ دیا جائے،
احسان اور صلہ رحمی کی جائے، مسکینوں اور حاجتمندوں کی مدد کی جائے۔ میانہ روی کے ساتھ
خرچ کیا جائے، اسراف یا کنجوسی سے کام نہ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اے نبی! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور
(نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دعا
ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ (التوبہ: ۱۰۳)
اسی طرح فرمایا:
’’جو خرچ کرتے ہیں
تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر
قائم رہتا ہے۔‘‘ (الفرقان: ۶۷)
صحیح حدیث میں ہے: صدقے سے کبھی کسی مال میں کمی نہیں آتی۔
(مسلم)
اللہ کے بندو! مال کی حفاظت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ حرام
کھانے اور کمائی کے حرام ذرائع سے بچا جائے۔ چوری، لوٹ مار، خیانت، رشوت، دھوکہ، چھین
جھپٹ، ذخیرہ اندوزی اور جوئے سے بچا جائے۔ جان بوجھ کر مال کو تلف کرنے، فساد بازی
کرنے اور حرام ذرائع سے مال کمانے سے گریز کیا جائے۔ مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی
ہر چیز محترم ہے، اس کی جان، اس کا مال اور اس کی عزت آبرو۔ مال بھی اتنا ہی محترم
ہے جتنی انسان کی جان اور اس کی عزت آبرو۔ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال کی حفاظت کرنے
کا حکم دیا اور بتایا کہ جو ان کا مال کھاتا ہے تو گویا کہ وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتا
ہے۔
’’رشتہ دار کو اس
کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق‘ فضول خرچی نہ کرو‘ فضول خرچ لوگ شیطان کے
بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘‘ (الاسراء: ۲۶-۲۷)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے مال کو بدن کی حفاظت کا ذریعہ بنایا
ہے، بدن کی حفاظت سے نفس کی حفاظت ہوتی ہے اور نفس اللہ کو پہنچانتا ہے، ایمان اسی
میں ہوتا ہے، رسولوں کی تصدیق اور اللہ کی محبت اسی میں ہوتی ہے اور یہی اللہ کی طرف
رجوع بھی کرتا ہے۔ تو مال دنیا وآخرت کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔ برا صرف اس مال کو
کہا جا سکتا ہے جو ناحق طریقے سے کمایا جائے اور نامناسب جگہ پر خرچ کیا جائے، جس کا
مالک اس کا غلام بن جائے، اس کے دل پر حاوی ہو جائے، اسے اللہ اور روز آخرت سے مشغول
کر دے۔ اس مال کی مذمت کی جا سکتی ہے جس سے برے مقاصد حاصل کیے جائیں اور جو اچھے مقاصد
سے دور کرے۔ یعنی مذمت ان کاموں کی ہے جو برے ہیں، ان کا ذریعہ بننے والے مال کی نہیں۔
اے مسلمانو! مال کی اس عظیم اہمیت اور اثرات کی وجہ سے اسے بہت
بڑا فتنہ بھی قرار دیا گیا۔ قرآن کریم میں مال کے ساتھ تعامل کا بہترین طریقہ بتلایا
گیا۔ عزت والے کا فرمان ہے:
’’ہرگز نہیں، انسان
سرکشی کرتا ہے اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔‘‘ (العلق: ۶-۷)
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
’’تمہارے مال اور
تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے۔‘‘ (الانفال:
۲۸)
اسی طرح فرمایا:
’’لہٰذا جہاں تک
تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو،
یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے
ہیں‘ اگر تم اللہ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں
سے درگزر فرمائے گا، اللہ بڑا قدردان اور بردبار ہے حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا
ہے، زبردست اور دانا ہے۔‘‘ (التغابن: ۱۶)
اسی طرح فرمایا:
’’تباہی ہے ہر اُس
شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے
جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا‘ جو سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے دنیا میں
ہمیشہ رکھے گا۔‘‘ (الہمزۃ: ۱-۳)
یعنی انسان مال جمع کرنے والا اور اس کے معاملے میں کنجوسی کرنے
والا ہے۔
’’اور جب بھلائی
پہنچے تو روک رکھنے والا۔‘‘ (المعارج: ۲۱)
سنو! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ اپنے مال کی حفاظت
کرو، کمائی کے مناسب ذرائع اپناؤ۔ اپنے لیے بہترین چیز خرچ کرو۔
اے اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین کو کامیاب فرما۔ اپنی فرمان
برداری سے اسے عزت عطا فرما! اس کے ذریعے اپنے کلمے کو سربلند فرما! اسے اسلام اور
مسلمانوں کی نصرت کا ذریعہ بنا! اسے، اس کے ولی عہد کو، اس کے بھائیوں کو اور اس کے
مدد گاروں کو ان کاموں کی توفیق عطا فرما جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔ انہیں نیکی
اور پرہیزگاری کی طرف لا۔
اے اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو کتاب وسنت پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرما! رسول اللہe کی
سنت سے مستفید فرما۔ انہیں اپنے مؤمن بندوں پر رحم کرنیوالا بنا۔ اے پروردگار عالم!
انہیں حق، ہدایت اور سنت پر اکٹھا فرما!
No comments:
Post a Comment