سیرۃ النبی ﷺ ... ایک عالمگیر اور دائمی نمونۂ عمل
تحریر: جناب سید سلمان
ندویa
حضراتِ گرامی! وہ سیرت یا نمونۂ حیات جو انسانوں کے لیے ایک
آئیڈیل سیرت کا کام دے، اس میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: تاریخیّت‘ کاملیّت‘
جامعیّت اور عملیّت۔
تاریخیّت:
اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک کامل انسان کے جو حالاتِ زندگی پیش
کیے جائیں، وہ تاریخی لحاظ سے مستند ہوں، ان کی حیثیت قصوں اور کہانیوں کی نہ ہو۔ خیالی
اور مشتبہ سیرتیں خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں پیش کی جائیں، طبیعتیں ان سے دیرپا
اور گہرا اثر نہیں لیتیں اوران پر کوئی انسان اپنی عملی زندگی کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔
سب سے قدیم ہونے کا دعویٰ ہندوؤںکو ہے مگر ان میںسے کسی کو
تاریخی ہونے کی عزت حاصل نہیں۔ رامائن کی زندگی کے کن واقعات کو تاریخ کہہ سکتے ہیں؟
یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ واقعات کس زمانہ کے ہیں۔
قدیم ایرانی مجوسی مذہب کا بانی زرتشت جوآج بھی لاکھوں لوگوں
کا مرکز ِعقیدت ہے، اس کے حالات ِ زندگی محققین کی متضاد آراء سے اتنے مشکوک ہیں کہ
کوئی انسان ان کے بھروسے پر اپنی زندگی کی بنیاد قائم نہیںکر سکتا۔
قدیم ایشیا کے سب سے وسیع مذہب بدھ کا ہندوستان میں برہمنوں
اور وسطی ایشیا میں اسلام نے خاتمہ کیا تھا۔ایشیاے اقصیٰ میں بدھ مت کی حکومت، تہذہب
اور مذہب قائم ہیں۔ لیکن یہ چیزیں بدھ کی سیرت کو تاریخ میں محفوظ نہ رکھ سکیں۔ چین
کے کنفیوشس کی ہمیں بدھ سے بھی کم واقفیت ہے، حالانکہ ان کے پیروکارکروڑوں میں ہیں۔
سامی قوم کے سینکڑوں پیغمبروں کے ناموں کے سوا تاریخ کچھ نہیں
بتاتی۔ سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا ہود، سیدنا صالح، سیدنا اسمٰعیل، سیدنا اسحق،
سیدنا یعقوب، سیدنا زکریااور سیدنا یحییٰ علیہم السلام کی سیرتوں کے چند حصوں کے علاوہ
ان کی زندگیوں کے ضروری اجزا تاریخ سے گم ہیں۔ قرآن کے سوا، یہودیوں کے اَسفار میں
ان پیغمبروں کے درج حالات کی نسبت محققین کو شکوک ہیں۔ ان شکوک سے صرف ِ نظر کرنے کے
باوجود ان بزرگوں کی مقدس زندگیوں کے ادھورے اور نامربوط حصے ایک کامل انسانی زندگی
کی پیروی کا سامان نہیں کر سکتے۔
کاملیّت:
عزیز قارئین!کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونۂ عمل بننے کے لیے
یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تمام حصے روزِ روشن کی طرح دنیا کے سامنے ہوں تاکہ معلوم
ہو سکے کہ اس کی سیرت کہاں تک انسانی معاشرہ کے لیے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی
ہے۔
آج بدھ مت کے پیروکار دنیا کی چوتھائی آبادی پر قابض ہیں،
مگر تاریخی حیثیت سے بدھ کی زندگی صرف چند قصوں اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر اسے
تاریخ کا درجہ دے کر بدھ کی زندگی کے ضروری اجزا تلاش کریں تو ہمیں ناکامی ہوگی۔ یہی
حال زرتشت کا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (گیارہواں ایڈیشن) کے آرٹیکل زراسٹر کے
مضمون نگار نے لکھا ہے:
’’اس کی جائے پیدائش
کی تعیین سے متعلق شہادتیں متضاد ہیں … زرتشت کے زمانے سے ہم قطعاً ناواقف ہیں۔‘‘
انبیاے سابقین میں سب سے مشہور زندگی سیدنا موسیٰu کی
ہے۔ موجودہ تورات کے مستند یا غیر مستند ہونے سے قطع نظر، تورات کی پانچوں کتابوں سے
ہمیں ان کی زندگی کے کس قدر اجزا ملتے ہیں؟ تورات کی پانچویں کتاب میں جو کچھ لکھا
ہے، وہ سیدنا موسیٰu کی
تصنیف نہیں۔ دنیاآپ کے اس سوانح نگار سے واقف نہیں۔ سیدنا موسیٰu نے
۱۲۰ سال عمر پائی۔ اس
طویل سوانح کے ضروری اجزا ہمارے پاس کیا ہیں: پیدائش، جوانی میں ہجرت، شادی اور نبوت
پھر چند لڑائیوں کے بعد ۱۲۰ برس کی عمر میں
ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ انسان کو اپنی سوسائٹی کے عملی نمونہ کے لیے جن اجزا کی ضرورت
ہوتی ہے، وہ اخلاق و عادات اور طریقِ زندگی ہیں، اور یہی اجزا سیدنا موسیٰu کی
سوانح عمری سے گم ہیں۔
اسلام کے سب سے قریب العہد پیغمبر سیدنا عیسیٰu کے
پیرو آج یورپین مردم شماری کے مطابق تمام دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے زیادہ ہیں۔مگر
اسی پیغمبرکے حالاتِ ِزندگی تمام دوسرے مشہوربانیانِ مذاہب کے سوانح سے سب سے کم معلوم
ہیں۔ انجیل کے مطابق آپ کی زندگی ۳۳ برس تھی۔ موجودہ
انجیلوں کی روایتیں اوّلاً تو نامعتبر ہیں اور جو کچھ ہیں، وہ آپ کے آخری تین سالوں
کی زندگی پر مشتمل ہیں۔ آپ پیدا ہوئے، پیدائش کے بعد مصر لائے گئے، لڑکپن میں ایک
دو معجزے دکھائے، اس کے بعد وہ غائب ہو جاتے ہیں اورپھر اچانک تیس برس کی عمر میں بپتسمہ
دیتے اور پہاڑوں اور دریائوں کے کنارے ماہی گیروں کو وعظ کہتے اوریہودیوں سے مناظرے
کرتے نظر آتے ہیں، یہودی اُنہیں پکڑوا دیتے ہیں اور رومی عدالت اُنہیں سولی دے دیتی
ہے۔ (حالانکہ وہ زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے۔) تیسرے دن ان کی قبر ان کی لاش سے
خالی نظر آتی ہے۔ تیس برس اور کم از کم پچیس برس کا زمانہ کہاں اور کیسے گزرا؟ دنیا
اس سے ناواقف ہے اور رہے گی…!
جامعیّت:
میرے دوستو! کسی سیرت کے عملی نمونہ بننے کے لیے تیسری ضروری
شرط جامعیت ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ مختلف طبقات ِ انسانی یاایک فرد ِ انسان کو اپنی
ہدایت اور ادائیگی فرائض کے لیے جن مثالوں اور نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب اس آئیڈیل
زندگی میں موجود ہوں۔اللہ اور بندے اور بندوں کے مابین فرائض اور واجبات کو تسلیم اور
اُنہیں ادا کرنے کا نام مذہب ہے۔ہر مذہب کے پیروؤں پر فرض ہے کہ وہ ان حقوق و فرائض
کی تفصیلات اپنے اپنے بانیوں کی سیرتوں میں تلاش کریں۔
جو مذاہب خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے،جیسے بدھ مت اور جین مت
کے متعلق کہا جاتا ہے، تو ان کے بانیوں میں محبت ِ الٰہی اور توحید پرستی وغیرہ کی
تلاش ہی بیکار ہے۔ جن مذاہب نے خدا کو کسی نہ کسی رنگ میں تسلیم کیا ہے، ان کے بانیوں
کی زندگیوں میں بھی خدا طلبی کے واقعات مفقود ہیں۔ توحید اور اس کے احکام اور قربانی
کی شرائط کے علاوہ تورات کی پانچوں کتابیں یہ نہیں بتاتیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام
کے تعلقات ِ قلبی، اطاعت و عبادت اوراللہ کی صفات ِ کاملہ کی تاثیر ان کے قلب اَقدس
میں کہاں تک تھی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کاآئینہ انجیل ہے۔ انجیل میں ایک
مسئلہ کے علاوہ کہ خدا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تھا، ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ
اس دنیاوی زندگی میں باپ اور بیٹے میں کیا تعلقات تھے؟
اب حقوق العباد کو لیجئے، بدھ اپنے اہل و عیال، دوست اور حکومت
وسلطنت کے بارِ گراںکو چھوڑ کر جنگل چلے گئے۔ اسی لیے بدھ کی زندگی اس کے ماننے والوں
کے لیے قابلِ تقلید نہیں بنی، ورنہ چین، جاپان، سیام، وانام، تبت اور برماکی سلطنتیں،
صنعتیں اور دیگر کاروباری مشاغل فوراً بند ہوجاتے اور بجاے آباد شہروں کے صرف سنسان
جنگل رہ جاتے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جنگ و سپہ سالاری کا پہلو
نمایاں ہے۔اس کے علاوہ ان کے پیروکاروں کے لیے دنیاوی حقوق و فرائض کا کوئی نمونہ موجود
نہیں۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ سیدنا موسیٰu کا
پیغمبرانہ طرز ِ عمل یقینا ہر حرف گیری سے پاک ہوگا، مگر ان کی موجودہ سیرت کی کتابیں
ان اَبواب سے خالی ہیں۔
سیدنا عیسیٰu کی
والدہ تھیں، انجیل کے مطابق ان کے بھائی بہن بلکہ مادی باپ تک بھی تھا۔ مگر اُن کی
سیرت اِن رشتہ داروں سے آپ کا طرزِ عمل اور سلوک نہیں بتاتی۔ دنیا ہمیشہ انہی تعلقات
سے آباد رہی ہے اور رہے گی۔ آپ نے محکومانہ زندگی بسر کی، اس لیے ان کی سیرت حاکمانہ
فرائض کی مثالوں سے خالی ہے۔
عملیّت:
آئیڈیل لائف کا آخری معیارعملیت ہے۔یعنی بانئ مذہب جو تعلیم
دیتا ہے، اس پر خود عمل کرکے اس تعلیم کو قابلِ عمل ثابت کیا ہو۔ انسانی سیرت کے کامل
ہونے کی دلیل اس کے نیک اَقوال و نظریات نہیں بلکہ اس کے اعمال و کارنامے ہوتے ہیں۔
قارئین! جس نے اپنے دشمن پر قابو نہ پایا ہو، وہ معاف کرنے کی
عملی مثال کیسے دکھا سکتا ہے۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو، وہ غریبوں کی مدد کیسے کر سکتا
ہے۔ جو بیوی بچے اور عزیز واحباب نہ رکھتا ہو، وہ انہی تعلقات سے آباد دنیا کے لیے
مثال کیونکر بن سکتا ہے۔ جسے دوسروں کو معاف کرنے کا موقع نہ ملا ہو، اس کی زندگی غصہ
آور لوگوں کے لیے نمونہ کیسے بنے گی۔ اس معیار پر بھی سیرت ِ محمدی eکے سوا کوئی دوسری
سیرت پوری نہیں اتر سکتی۔ آئیڈیل اور نمونۂ اتباع شخصیت کی سیرت میں یہ چار باتیں
پائی جانی چاہئیں:
’’تاریخیّت، جامعیّت،
کاملیّت اور عملیّت‘‘
میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں
اِن خصوصیات سے خالی تھیں، بلکہ اُن کی سیرتیں جو عام انسانوں تک پہنچیں، وہ اِن خصوصیات
سے خالی ہیں۔ ایسا ہونا مصلحت ِ الٰہی کے مطابق تھا تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ وہ انبیا
محدود زمانہ اور متعین قوموں کے لیے تھے، اس لیے ان کی سیرتوں کو آئندہ زمانہ تک محفوظ
رکھنا ضروری نہیں تھا۔ صرف سیدنا محمدe تمام
اقوام کے لیے اور دائمی نمونۂ عمل بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی سیرت کوہر حیثیت سے
مکمل اور ہمیشہ کے لیے محفوظ رہنے کی ضرورت تھی۔یہی ختم نبوت کی سب سے بڑی عملی دلیل
ہے۔
آئیے! اب اِن چاروں معیاروں کے مطابق پیغمبر اسلام سیدنا محمد
eکی سیرتِ مبارکہ پر نظر ڈالیں:
سیرتِ محمدی
ﷺکی تاریخیت:
سب سے پہلی چیز تاریخیت ہے۔ مسلمانوں نے اپنے پیغمبراور ہر اس
چیز اور اس شخص کی جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپe کی ذات ِ مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی ہے اس پر دنیا
حیرت زدہ ہے۔آپ e کے
اقوال، افعال اور متعلقاتِ زندگی پر مشتمل سرمایۂ روایت ضبط ِتحریر ہو چکا تو اسے
روایت کرنے والے صحابہ]، تابعین، تبع تابعینS اور
بعد کے چوتھی صدی ہجری تک کے راویوں کے نام، حالات اور اخلاق و عادات کو بھی لکھا گیا۔جن
کی تعداد جرمن ڈاکٹر اسپرنگر کے نزدیک پانچ لاکھ ہے۔
حیات ِ نبوی eکے آخری سال حجۃ الوداع میں حاضر صحابہ کرام] کی
تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی جن میںسے گیارہ ہزار کے نام و اَحوال آج تحریری شکل میں
محفوظ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول معظمe کے اقوال و افعال اور واقعات میں سے کچھ نہ کچھ حصہ
دوسروں تک پہنچایا ہے۔ ہزاروں صحابہ] نے جو کچھ دیکھا اور جانا، وہ سب دوسروں کو بتایا۔ صحابہ
کرام] کے
بعد فوراً ہی دوسری نسل اِن معلومات کی حفاظت کے لیے کھڑی ہو گئی۔
پیغمبر ِاسلام eنے اپنی احادیث دوسروں تک پہنچانے کی تاکید کے ساتھ یہ تنبیہ
بھی کر دی تھی کہ ’’جو کوئی میرے متعلق قصداً جھوٹ منسوب کرے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے‘‘۔اس
اعلان کا اثر تھا کہ بڑے بڑے صحابہ] روایت
ِحدیث کرتے وقت کانپتے تھے۔
عربوں کا حافظہ تیز تھا۔یہ فطری قاعدہ ہے کہ جس قوت سے جتنا
کام لیا جائے، اتنا ہی وہ ترقی پاتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین نے قوت ِ حفظ
کو معراجِ کمال تک پہنچایا۔ایک ایک محدث کو کئی کئی ہزار اور کئی کئی لاکھ احادیث یادتھیں۔
ابتدا میں صحابہ] نے
احادیث کولکھنابوجوہ مناسب نہ سمجھا، مثلاً:
\ آغاز میں رسول
اللہ e نے
قرآن کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرمایا تھا تاکہ قرآن اور غیر قرآن آپس میں
مل نہ جائیں۔ ازاں بعد قرآن مکمل محفوظ ہونے پر احادیث لکھنے کی اجازت مل گئی۔
\ صحابہ رضوان
اللہ علیہم اجمعین کواس بات کا اندیشہ تھا کہ تحریری مجموعہ پاس ہونے سے لوگ حفظ کرنے
سے جی چرانے لگیں گے۔
\ عربوں میں ابھی
تک کوئی واقعہ لکھ کر محفوظ رکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ کوئی چیز تحریر کر بھی
لیتے تھے تو اسے چھپائے رکھتے تھے۔
قارئین! عہد ِ نبوی ہی میں احادیث کا تحریری سرمایہ جمع ہونا
شروع ہو چکا تھا۔ فتح مکہ پر رسول اللہ e کا خطبہ لکھا گیا۔آپ نے مختلف حکمرانوں کو تحریری خطوط
روانہ کیے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاصt نے خود آپ سے سن کر احادیث لکھی تھیں۔ سیدنا ابوبکرصدیقt، سیدنا ابوبکر بن
عمرو بن حزمw اور
متعدد اشخاص کے پاس زکوٰۃ کے احکام لکھے ہوئے تھے۔ سیدنا علیt کے
پاس ایک صحیفہ تھا۔رسول اللہe نے
عمرو بن حزمt جو
یمن کے گورنر تھے، اُنہیں میراث، صدقات اور دِیت سے متعلق ہدایات لکھ کر دیں۔ سیدنا
وائل بن حجرt اپنے
وطن واپس ہوئے تو آپe نے
اُنہیں ایک تحریر لکھوا دی جس میں نماز، روزہ، سود، شراب اور دیگر احکام تھے۔ غالباً
ملکِ یمن سے سیدنا معاذبن جبلt نے
پوچھا تو رسول اللہe نے
تحریری جواب دیا کہ سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ سیدنا عمرt کے
پوچھنے پر سیدنا ضحاکt نے
بتایا:رسول اللہ e نے
ہمیں لکھوایا کہ شوہر کی دِیت میں بیوی کا حصہ ہے۔
سیدنا ابن عباسw سے
روایات کا ایک تحریری مجموعہ اہل طائف کے پاس تھا۔ سیدنا جابرt سے
روایتوں کا ایک مجموعہ وہب نے اور دوسرا سلیمان بن قیس نے تیار کیا تھا۔ سیدنا سمرۃ
بن جندبt سے
اُن کے بیٹے ایک نسخہ روایت کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ حافظِ حدیث سیدنا ابوہریرہt تھے۔
سیدنا انسt دوسرے
صحابی ہیں جن سے بکثرت احادیث مروی ہیں۔ سیدنا ابن عباسw رسول
اللہ e کے
غلام ابورافعt سے
آپ کے کارنامے لکھا کرتے تھے۔آپ کے خادم سیدنا ابن مسعودt یہ
کہتے تھے کہ لوگ اُن سے سنتے اور پھر جا کر اسے لکھ لیتے ہیں۔ ان کے بیٹے عبدالرحمن
ایک کتاب لائے اور قسم کھا کر کہا کہ یہ سیدنا عبداللہ بن مسعودt نے
خود لکھی ہے۔
دوستو! اگر تحریر ہی قابلِ وثوق ہے تو عہدِ نبوی میں صحابہ] نے
احادیث لکھیں۔ صحابہ] ہی
کی زندگی میں زہری رحمہ اللہ، ہشام رحمہ اللہ، قیس رحمہ اللہ، عطا رحمہ اللہ، سعید
بن جُبَیر رحمہ اللہ اور سینکڑوں تابعین نے یہ تمام روایات تحقیق کرکے ہمیں فراہم کر
دیں۔ صرف امام زہری رحمہ اللہ ہی کا تحریری مواد اتنا تھا کہ کتابیں جانوروں پر لاد
کر لائی گئیں۔ بطورِ مثال امام زہری رحمہ اللہ نے اتنی محنت سے احادیث ِ نبوی جمع کیں
کہ وہ مدینہ کے ایک ایک شخص حتی کہ پردہ نشین خواتین سے جا کر رسول اللہe کے
اقوال و حالات پوچھتے اور اُنہیں قلمبند کرتے تھے۔
یہ غلط ہے کہ تدوین و تحریرِ حدیث کا کام ایک سو برس بعد تابعین
نے شروع کیا۔ تابعین وہ شخصیات ہیں جنہیں رسول اللہ e سے ملاقات نصیب نہیں ہوئی مگروہ صحابہ کرام] سے
مستفید ہوئے، خواہ وہ رسول اللہe کے
زمانہ میں ہوں یا آپ کی رحلت (۱۱ھ) کے بعد پیدا ہوئے، وہ سب تابعین ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں تابعین کا عہدکم از
کم ۱۱ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔ لہٰذا جو کام ۱۱ھ میں شروع ہوا، کہا جا سکتا ہے کہ اس کا آغاز تابعین نے کیا۔
مسلمانوں کے فن سیرتِ نبوی کا پہلا اُصول یہ تھا کہ واقعہ اس
شخص کی زبان سے بیان ہو جو خود شریکِ واقعہ تھا، ورنہ شریکِ واقعہ تک تمام درمیانی
راویوں کے نام بالترتیب بتائے جائیں۔ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ وہ کون تھے، ان کے مشاغل
اور چال چلن کیسی تھی، ثقہ تھے یا غیر ثقہ، نکتہ رس تھے یا سطحی الذہن اور عالم تھے
یا جاہل؟ ہزاروں محدّثین نے اپنی عمریں اس کام میں کھپا دیں، ہزاروں میلوں کا سفر کیا
اور لاکھوں لوگوں سے ملے۔
پھر عقلی اعتبارسے روایات پرکھنے کے اُصول الگ ترتیب دئیے۔راویوں
کی چھان بین میں اتنی دیانتداری دکھائی کہ وہ واقعات اسلام کا فخر ہیں۔ راویوں میں
بڑے بڑے حکمران اور اُمرا بھی تھے مگر محدّثین نے بلاخوف سب کو وہی درجہ دیا جو اُنہیں
مل سکتا تھا۔ وکیع رحمہ اللہ کے والد سرکاری خزانچی تھے مگر جب وکیع رحمہ اللہان سے
روایت کرتے تو اُن کی تائید میں ایک اور راوی کو ضرور شامل کرلیتے، یعنی تنہا اپنے
باپ کی روایت تسلیم نہ کرتے۔ معاذ رحمہ اللہ بن معاذکو دس ہزار دینار پیش کیے گئے کہ
وہ ایک شخص کے متعلق خاموش رہیں اور اسے معتبر یا غیر معتبر کچھ نہ کہیں۔ معاذ رحمہ
اللہ نے اَشرفیوں کا توڑا حقارت سے ٹھکرا دیا۔
محدّثین نے جھوٹی اور ضعیف روایتیں بھی محفوظ کیں تاکہ مخالفین
یہ کہہ نہ سکیں کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی کمزوریاں چھپانے کے لیے کئی روایتیں
غائب کر دیں۔ محدّثین نے اپنے نبیe کی
طرف منسوب صحیح و غلط سارا مواد لا کر سامنے رکھ دیا اور اُصول مقرر کرکے ان دونوں
کے درمیان فرق بتا دیا۔ یہ تمام روایات آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہیں اور انہی اصولوں
کے تحت ہر واقعہ پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment