Saturday, November 02, 2019

اقتصادی ترقی کا ایجنڈا 41-2019


اقتصادی ترقی کا ایجنڈا

تحریر: جناب حافظ مقصود احمد
ملکی انتخابات کی مہم میں ہر سیاسی جماعت اپنا اپنا منشور قوم کے سامنے رکھتی ہے اور سر فہرست اقتصادی ترقی کا وعدہ ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کی تو گردان ہی یہ تھی کہ ملک کو قرضوں سے نجات دلا کر اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ معیشت اتنی مضبوط کریں گے کہ بیرون ملک سے لیبر پاکستان میں کام کرنے کے لیے آئے گی۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی سطح کو بہت نیچے لے کر آئیں گے اور یوتھ کو ایک کروڑ ملازمتوں کا تحفہ پیش کریں گے۔ ان بلند بانگ وعدوں کی بنیاد پر زمامِ اقتدار ہاتھ میں آگئی اور اقتصادی ترقی کے وعدے پورے کرنے کا وقت بھی آپہنچا تو حکومت نے سب سے پہلے دو کام کیے:
Ý          کرپشن کے خاتمے کے لیے تدابیر
Þ          ٹیکس کے نظام میں توسیع
ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ حکومت کی ان پالیسیوں سے ملک کو معاشی طور پر کس قدر استحکام نصیب ہوا؟ کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومت نے صرف اتنا کام کیا کہ سابق حکمرانوں میں سے چند ایک کو نیب کے ذریعے قابو کر کے جیل میں بند کر دیا۔ جبکہ ملک دس بیس افراد کی کرپشن کی وجہ سے قرضوں میں نہیں ڈوبا۔ کرپشن میں تو نیچے سے لے کر اوپر تک ملازمین‘ بیوروکریسی‘ بڑے بڑے بزنس مین اور سیاستدان ملوث ہیں جن کی تعداد لاکھوں سے بھی متجاوز ہے۔ سیاستدانوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں بیورو کریٹ جو اصل مجرم ہیں آج بھی اپنے عہدوں اور مناصب پر کام کر رہے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جو احتساب ہو رہا ہے اگر اسے احتساب برائے انتقام کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ نیب کے موجودہ احتساب کو احتساب برائے ملک اور احتساب برائے معیشت یا احتساب برائے معیشت یا احتساب برائے انسداد کرپشن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ لاکھوں میں سے صرف بیسیوں افراد کا احتساب کرنے سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ نہ اس سے ملکی معیشت کو کوئی استحکام نصیب ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے کرپشن کے خاتمے کے ساتھ معیشت کی ترقی کا جو خواب دیکھا تھا وہ چکنا چور ہو چکا ہے۔ ملکی معیشت انحطاط کا شکار ہے اور ترقی کے خواہشمندوں کی امیدوں پر اوس پڑ چکی ہے۔ اس احتساب سے تو ہزار درجے یہ بہتر تھا کہ وزیر اعظم اعلان کر دیتے کہ اس سے پہلے جو کرپشن ہو چکی ہے اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں اس سے قبل ملک کی باگ ڈور تھی۔ نہ میں ان سے انتقام لوں گا اور نہ ان کے خلاف کیس کروں گا۔ آج کے بعد خبردار اگر کوئی شخص کرپشن کا مرتکب ہوا تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اگر اپنے برسر اقتدار آنے کے بعد ہی (جو ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے) کرپشن کا دروازہ بند کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو ملکی معیشت کو بڑی حد تک سہارا مل چکا ہوتا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اداروں کی حالت پہلی سی ہے۔ کسی شعبے میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ سیاستدان جو دوسری جماعتوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں کیا وہ کرپشن نہیں کرتے رہے؟ اگر کرتے رہے ہیں تو ان کا احتساب کیوں نہیں کیا جا رہا؟!
وزیر اعظم صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو اقتصادی ترقی کے اتنے بڑے بڑے وعدے کر رہے تھے کہ قوم حیران تھی وہ شاید ایسی زبردست پالیسیاں اپنے دماغ میں لیے ہوئے ہیں کہ ان کے برسر اقتدار آتے ہی دودھ کی نہریں بہنے لگ جائیں گی اور پاکستان ایک بڑی معیشت کے ساتھ دنیا کے اُفق پر نمودار ہو گا۔ مگر عملاً کیا ہوا؟ وزیر اعظم صاحب نے معاشی ترقی کے لیے صرف اور صرف ایک پالیسی کا اعلان کیا‘ وہ تھی ٹیکس کے نظام میں توسیع‘ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ساری قوم ٹیکس ادا کرنے لگ جائے تو ملک ترقی کر جائے گا۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال ہے کہ کسی ملک نے محض ٹیکس کی بنیاد پر ترقی کی ہو؟ وزیر اعظم صاحب اپنی تقاریر میں ترقی کے جو وعدے کیا کرتے تھے وہ کس پالیسی کی بنا پر کرتے تھے؟ ٹیکس کے نظام کو توسیع دینا یہ تو کوئی پالیسی نہیں‘ یہ تو انتہائی ناکام پالیسی ہے‘ یہ تو عوام کو کچھ دینے کی بجائے لینے کی پالیسی ہے‘ یہ تو اثاثے چھپانے کی فرمائش ہے۔ یہ تو کاروبار کو جام کرنے کے لیے ایک اقدام ہے۔ کیا وزیر اعظم صاحب نے ریاست مدینہ کی اقتصادی پالیسی کا مطالعہ بھی کیا ہے؟ جہاں رسول اکرمe نے اعلان فرمایا تھا کہ ’’اگر کوئی شخص مال چھوڑ کر فوت ہو گا تو مال اس کے ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے گا وہ زیادہ حق دار ہیں۔ البتہ اگر کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ذمے کوئی قرض ہے‘ یا اس کے اہل وعیال ہیں تو اس کے قرض کی ادائیگی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ یعنی ریاست مدینہ ذمہ دار ہو گی۔ جو اس کا قرض بھی ادا کرے گی اور اس کے اہل وعیال کی کفالت بھی کرے گی۔ کیا ریاست مدینہ نے ٹیکس لگا کر اقتصادی ترقی کی تھی؟ نہیں بلکہ ریاست مدینہ نے زکوٰۃ کے نظام کو نافذ کر کے امانت داری کو فروغ دے کر اور اپنے وسائل کو بڑھا کر اتنی ترقی حاصل کر لی تھی کہ نبی اکریمe نے سیدنا عدی بن حاتمt (حاتم طائی کے صاحبزادے جب وہ صلیب پہن کر مناظرہ کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ میں آئے تھے۔) سے فرمایا تھا‘ کہ ’’اے عدی! اگر تو نے لمبی زندگی پائی تو دیکھے گا کہ ایک شخص سونا اور چاندی لے کر گھر سے نکلے گا کہ کوئی غریب یا مسکین اس سے زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے مل جائے مگر کوئی مسکین اسے نہیں ملے گا جو اس سے مال زکوٰۃ وصول کر لے۔ بلکہ سارے زکوٰۃ دینے والے ہوں گے۔ لینے والا کوئی نظر نہیں آئے گا۔ سیدنا عدی بن حاتمt کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں یہ دور دیکھا کہ زکوٰۃ دینے والے مستحقین زکوٰۃ کو ڈھونڈتے پھرتے تھے مگر کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا نہ ملتا تھا۔ وزیر اعظم صاحب ریاست مدینہ کے اقتصادی اصول اگر ملک میں آزماتے تو گذشتہ ایک سال کے اندر اندر وہ تمام وعدے اپنی قوم سے پورے کرنے کے قابل ہو جاتے جن کا اعلان وہ اپنی انتخابی مہم اور کنٹینر کے اوپر کھڑے ہو کر کرتے رہے۔
اقتصادی ترقی کے رازوں میں سے ایک راز ہم قرآن مجید کی سورۂ یوسف کے مطالعہ میں پاتے ہیں کہ مصر میں جب قحط کے سات سال آنے والے تھے تو بادشاہ کی نیک نیتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے بذریعہ خواب آنے والے حالات پر مطلع کر دیا تا کہ وہ قحط سالی سے پہلے پہلے اس کا انتظام کر لے۔
مصر کے بادشاہ ریان بن ولید نے خواب دیکھا کہ سات موٹی تازہ گائیوں کو سات پتلی دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ مزید اس نے دیکھا کہ سات سٹے سرسبز وشاداب ہیں جبکہ سات خشک ہیں۔بادشاہ نے اپنی کابینہ کے افراد کے سامنے خواب پیش کیا اور اس کی تعبیر کا مطالبہ کیا۔ کیونکہ غیر معمولی خواب دیکھ کر بادشاہ انتہائی پریشان تھا۔ کابینہ میں خوشامدی لوگوں کی زیادہ بھیڑ ہوتی ہے‘ جو صلاحیتوں سے عاری ہوتے ہیں‘ ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ بادشاہ کو ہر چیز OK کر کے دکھائی جائے۔
کابینہ کے تمام وزراء نے بادشاہ سے کہا کہ یہ خواب پراگندہ خیالات کا نتیجہ ہے جس کی تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ بادشاہ کے خدام میں سے وہ ساقی جو جیل سے رہا ہو کر آیا تھا اس کے خواب کی تعبیر سیدنا یوسفu نے کی تھی۔ اس نے مہلت طلب کی کہ آپ مجھے کچھ وقت کے لیے جیل میں جانے کی اجازت دیں وہاں ایک قابل شخصیت ہے جو خواب کی تعبیر جانتی ہے۔ وہ دوڑتا ہوا سیدنا یوسفu کے پاس آیا کہ اے سچے انسان! آپ بادشاہ کے اس خواب کی تعبیر کر دیں۔ سیدنا یوسفu نے خواب کی جو تعبیر فرمائی اس کا ملک کی بقاء‘ استحکام اور اقتصادی حالت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا کہ سات سال خوشحالی کے ہوں گے اور اس کے بعد سات سال انتہائی قحط والے۔ اس کے ساتھ سیدنا یوسفu نے پلاننگ بھی کی کہ پہلے سات سالوں کے اناج کو سنبھال کر سٹوں کے اندر سٹور کر لیا جائے۔ صرف کھانے کے لیے نکالیں اور باقی سنبھال کر رکھیں جو قحط کے سالوں میں کھانے کے کام بھی آئے گا اور پوری دنیا آپ سے اناج لینے پر مجبور ہو گی۔ لہٰذا اناج فروخت کر کے آپ مصر کو دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی اور معاشی طاقت بھی بنا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کو ریاست مدینہ کا یہ اصول اپنانا چاہیے کہ ترقی کا راز ٹیکس کی وصولی میں مضمر نہیں بلکہ اس کا تعلق پیداوار اور وسائل کو فروغ دینے میں ہے۔ پروڈکشن زیادہ سے زیادہ ہو اور ملکی وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔
اگر وزیر اعظم صاحب قرآن مجید کے بیان کردہ اس اصول پر عمل کرتے اور زراعت کے شعبے کی ترقی کے ساتھ ساتھ مصنوعات کی فیلڈ کی حوصلہ افزائی کرتے تو قوم میں محنت کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا اور ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہو جاتے۔ مگر وزیر اعظم صاحب نے اس کے برعکس ٹیکس کی پالیسی کو ہی مشکل کشا سمجھ لیا اور سارا زور اسی کام پر صرف کر دیا‘ حتی کہ اس گنجلک پالیسی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے اپنے چہیتے وزیر اور تحریک انصاف کے بانی رکن اسد عمر کو وزارت خزانہ سے برطرف کر دیا کیونکہ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اداروں کی ڈیمانڈ صرف اور صرف ٹیکس کے نظام میں توسیع تھی تا کہ ملک ترقی کر ہی نہ سکے۔ جبکہ وزیر موصوف میں پاکستانی ہونے کی غیرت بھی تھی اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیشہ ان اداروں کی بیساکھیوں پر ہی چلتے رہیں اور اقتصادی ترقی کے دیگر راستوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیں۔ غلط پالیسیوں کے نتائج بھی غلط برآمد ہوں گے۔ پھر وہی ہوا کہ ملک میں مہنگائی کا سیلاب آگیا اور تمام وزراء اپنی غلط پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی بجائے یہ کہنے لگے کہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن کی وجہ سے مہنگائی پیدا ہوئی ہے۔ آج بھی اگر وزیر اعظم صاحب اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر لیں اور اس قرآنی اصول کی روشنی میں ملک کو اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر لانے کی کوشش کریں تو سابقہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی ہو سکتی ہے۔
قرآن مجید کے اصول سے ہمیں یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ شاہ مصر نے سیدنا یوسفu کی اس حسن تدبیر اور بہترین پلاننگ پر انہیں ملاقات کی دعوت دی۔ سیدنا یوسفu نے جب اقتصادی پالیسی مرتب کر کے دی تو اس وقت وہ جیل میں تھے۔ ان کے کیس کی پیروی کرنے والا نہ کوئی وکیل تھا نہ کیس کی سماعت کرنے کے لیے کوئی جج مقرر تھا۔ نامعلوم مدت کے لیے گمنام جیل میں زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن جب شاہ مصر کو سیدنا یوسفu کی صلاحیتوں کا علم ہوا تو اس نے فوراً دعوت دی اور پہلی ہی ملاقات میں اس نے اندازہ کر لیا کہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے ان جیسے با صلاحیت انسان کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس نے عزیز مصر کو (جو وزیر اعظم کا درجہ رکھتا تھا) فوراً معزول کر کے سیدنا یوسفu کو یہ منصب عطا کر دیا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اچھی پالیسی کے نفاذ کے لیے اچھے اور با صلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی حکمران یہ دعویٰ کرے کہ میں بڑا امانت دار ہوں لہٰذا قوم مجھ پر ہی اعتماد کرے اور صرف مجھے ہی حق حکمرانی دے تو یہ عقل اور حقائق دونوں کے منافی ہے۔ حکمرانی کے لیے صرف امانت دار ہونا کافی نہیں جب تک اس میں اہلیت اور صلاحیت نہ ہو وہ عہدے کا حق نہیں رکھتا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ نبی اکرمe نے اور خلفائے راشدین نے اپنے گورنروں کا انتخاب صرف ان کی امانت کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ امانت اور صلاحیت دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا۔ سیدنا ابوذرغفاریt کا واقعہ کتب احادیث میں موجود ہے جب انہوں نے نبی اکرمe سے کسی منصب کا تقاضا کیا تو آپe نے فرمایا:
[یا ابا ذر! انك ضعیف وانها امانة، وانها یوم القیامة خزی وندامة] (مسلم)
’’ابوذر! بے شک تو ضعیف ہے اور یہ منصب ایک امانت ہے اور بے شک قیامت کے دن باعث حسرت وندامت ہے۔‘‘
سیدنا ابوذرt امانت ودیانت میں تو ہر شک وشبہ سے بالا تر تھے لیکن اس کے باوجود آپe نے فرمایا کہ ’’آپ کمزور ہیں۔‘‘ یعنی عہدے کو ادا کرنے کے لیے جو تجربہ اور صلاحیت درکار ہے آپ وہ تجربہ نہیں رکھتے۔
شاہ مصر کی پارلیمنٹ اور کابینہ میں جو وزراء کام کر رہے تھے وہ صلاحیتوں سے عاری تھے۔ اسی لیے بادشاہ کے خواب کو پراگندہ خیالات سے تعبیر کر رہے تھے۔ ان نااہل وزراء کی بے تدبیری کی وجہ سے ہی ان کی بیگمات نے مصر کا ماحول اتنا آزادانہ بنا رکھا تھا کہ چادر اور چار دیواری کا تقدس ان کی عیش پرستی کے سامنے پامال ہو کر رہ گیا تھا۔ وزراء کو اپنے گھروں کے ماحول پر کوئی کنٹرول حاصل نہ تھا۔ ان کی بیگمات نے حسن یوسف کو دیکھ کر جب اپنے ہاتھ زخمی کر لیے تھے تو وزراء نے اس کا کیا ایکشن لیا؟ وہ اپنی بیگمات سے باز پرس کرنے کے بھی روادار نہ تھے۔ آجا کر سارا ملبہ سیدنا یوسفu پر ڈال دیا اور سالہا سال کے لیے انہیں پس دیوارِ زنداں کر کے اپنے آپ کو بڑا سمجھ دار اور عقلمند سمجھ بیٹھے تھے۔ شاید وزیر اعظم کے مشیر اور وزراء بھی آج یہی کردار ادا کر رہے ہیں کہ اگر کہیں کوئی خرابی نظر آئے تو خرابی دور کرنے کی بجائے چیزوں پر ہی پابندی لگا دی جائے۔
پلاسٹک بیگز کی وجہ سے اگر صفائی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو صفائی کا انتظام بہتر کرنے کی بجائے شاپروں پر پابندی لگا دی گئی۔ کل کو اگر مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے تو یہی وزراء‘ وزیر اعظم صاحب کو مشورہ دیں گے کہ کھانے پینے پر پابندی لگا دی جائے۔ پہلے مرحلے میں ناشتہ ختم کر دیں‘ دوسرے مرحلے میں ایک ٹائم کا کھانا ختم کر کے صرف ایک وقت کا کھانا کھایا جائے تا کہ غذا کی قلت کا علاج کیا جا سکے۔
وزیر اعظم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی پالیسیاں وضع کرنے والے نا اہل وزراء ہی حکومتوں کے گرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ اپنے وزراء اپنی جماعت سے ہی لیں۔ اگر اہلیت وصلاحیت رکھنے والے افراد آپ کو اپنی جماعت کے باہر سے ملتے ہیں تو ضرور ان کی خدمات حاصل کریں۔ کیا مشیر حضرات کا تقرر ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے؟ یا یاری دوستی نبھانے کے لیے ان کو عہدے دے دیئے گئے ہیں۔
اگر بغیر اہلیت کے عہدے دیئے گئے ہیں اور یقینا ایسے ہی ہوا ہے تو وزیر اعظم صاحب! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بھی کرپشن کی ایک قسم ہے۔ اگرچہ اس کرپشن کا محاسبہ نیب کا ادارہ نہیں کر سکے گا لیکن تاریخ اس کرپشن کا محاسبہ کرے گی۔ حقائق محاسبہ کریں گے اور قیامت کے دن محاسبہ ہو گا۔ یہ ہزاروں سال پرانا واقعہ ہے کہ شاہ مصر نے نا اہل عزیز مصر کو فورا برطرف کر کے سیدنا یوسفu کو عزیز مصر کے اختیارات سونپ دیئے تھے۔ جبکہ سیدنا یوسفu شاہ مصر کی پارٹی کے نہیں تھے۔ بلکہ اصلاً مصر کے باشندے بھی نہ تھے۔ شام سے مصر میں لائے گئے تھے مگر جب بادشاہ مصر نے اس جوہر قابل کو دیکھا اور سنا تو فوراً ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے اور قحط کے بحران سے نکالنے کے لیے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا اور مصر کا سب سے بڑا عہدہ (بادشاہ کے بعد) ان کے سپرد کر دیا۔
وزیر اعظم صاحب! آپ بھی نا اہل وزیروں اور مشیروں کے چنگل سے نکلیں اور ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے‘ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے‘ ۵۰ لاکھ گھر اور ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے‘ پاکستانی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں بلند سطح پر لانے اور دنیا بھر میں پاکستان کی عزت اور پاکستانی پاسپورٹ کے وقار کو بحال کرنے کے لیے با صلاحیت افراد کو تلاش کریں۔ ریاست مدینہ کے اصولوں کا یہی تقاضا ہے۔ اگر آپ ایسا نہ کر سکے تو یاد رکھیں جیل کے وہ کمرے جن میں زرداری اور نواز شریف رہائش پذیر ہیں کل ان کمروں کے دروازے آپ کے لیے بھی کھل سکتے ہیں۔ پھر آپ کو ان کمروں اور عدالتوں کا اسی طرح وزٹ کرنا پڑے گا جس طرح آپ کے پیش رو حکمران اس وقت کر رہے ہیں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)