Saturday, November 02, 2019

تبصرۂ کتب 41-2019


تبصرۂ کتب

تبصرہ نگار: جناب مولانا محمد سلیم چنیوٹی
نام کتاب:               ناموسِ رسالتe کا قانون
اور اظہارِ رائے کی آزادی
مولف:                    رانا محمد شفیق خاں پسروری
ضخامت:                  ۴۱۶ صفحات
ملنے کے پتے:          مرکز اہل حدیث ۱۰۶ راوی روڈ لاہور
مکتبہ اہل حدیث پسرور‘
مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
مکتبہ ایوبیہ محمدی مسجد برنس روڈ کراچی
تبصرہ نگار:               مولانا محمدسلیم چنیوٹی
عزت وناموس رسالت نبی آخر الزماںe کے لیے ہر مسلمان اپنی جان‘ مال‘ عزت وآبرو‘ اولاد واحفاد قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ اسلام اور اہل اسلام اپنے پیغمبر ذی یشان کی قدر ومنزلت‘ شان وشوکت‘ عظمت وبزرگی کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اگر کوئی ذات بزرگی وبڑائی کے لحاظ سے آگے ہے تو وہ نبی آخر الزماں ہیں۔ خاتم النبیین‘ فخر الرسل والمرسلین‘ سید ولد آدم جناب محمد رسول اللہe اور تا قیامت ان کے بعد نہ نبی اور نہ کوئی رسول کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی رسول اللہ کی طرف سے آئے گا۔ ایسے عقیدے کو ہی عقیدۂ ختم نبوت کہتے ہیں جس پر سب مومنین اور سچے مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اب ایسے عظیم الشان پیغمبر کی ناموس اور عظمت وعزت پر اور شان پر تمام مسلمانوں کے مال‘ اولاد‘ ماں باپ قربان کر دیئے جائیں تو یہ بھی پیغمبر کی ناموس کے لیے عمدہ دلیل سمجھی جائے گی۔ ان شاء اللہ!
زیر تبصرہ کتاب کے مؤلف جناب رانا محمد شفیق خاں پسروریd ایک بلند آہنگ خطیب‘ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے سینئر ایڈیٹر‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے اہم رہنما‘ ادیب اور صحافی ہیں۔ کئی ایک کتب کے مصنف ومؤلف ہیں۔ انہوں نے ’’قانون ناموس رسالت اور اظہار رائے کی آزادی کے عنوان سے ایک عظیم الشان مقالہ لکھا اور ترتیب دے کر زیب قرطاس کر دیا ہے۔
جہاں نبی پاکe کی شان بلند فرمائی وہاں اللہ ورسول کے دشمن اور آپe کی عظمت کو گہنانے والے بھی موجود ہیں۔ یہ ازلی دشمن گاہے گاہے نبی پاک علیہ التحیہ والثناء کی ذات بارے گستاخیاں کر کے اپنے خبث باطن وظاہر کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ لوگ آپe کے خاکے‘ کارٹون اور استہزاء اور مذاق کے ضمن میں تحریریں اور کتابیں لکھتے ہیں‘ کبھی قرآن عظیم کو جلانے کی جسارتیں کرتے ہیں۔ کبھی آپe کے اصحاب کے متعلق اور آپe کی ازواج مطہرات واولاد کے متعلق بکواسات بکتے ہیں۔ اس دل آزاری اور قانون ناموس رسالت e کی خلاف ورزی کو یہ لوگ اظہار رائے آزادی کا نام بھی دے ڈالتے ہیں۔
’’رائے کی آزادی‘‘ اور ’’دل آزاری‘‘ دو مختلف نظریے تو کہے جا سکتے ہیں مگر انہیں ایک ہی چیز سمجھ لینا غلط ہو گا۔ معاشرے میں اس بات کی اجازت نہیں کہ رائے کے اظہار کے ذریعے جس کی چاہے عزت پہ ڈاکہ ڈال دیا جائے اور جس کے چاہے دل کے پرخچے اڑا دیں۔ اس رائے کی آزادی کے کوئی خد وخال ہیں اور نہ دلیل دینے کے سلجھے انداز۔
اسلام ایک پُر عظمت دین اور تمام پیغمبروں اور رسولوں کی عظمت وبزرگی سے آشنائی کرواتا ہے۔ تمام مسلمان سب پیغمبروں کو مانتے ہیں اور ان کی ناموس کے محافظ بھی ہیں لیکن دیگر مذاہب میں تمام پیغمبروں کی ناموس اس طرح محفوظ نہیں جس طرح کہ اسلام اور اہل اسلام میں محفوظ سمجھی جاتی ہے۔
یہودیت تو پیغمبرu کی پکی دشمن ہے۔ اسی طرح عیسائیت جو یہودیت کے بعد دوسری قوم ہے ان کے اندر بھی خرابیاں پائی گئی ہیں اور یہ دونوں نظریے اور رائے میں ایک دوسرے سے سبقت لیتے معلوم ہو رہے ہیں۔ عیسائیوں کا نظریہ ملاحظہ کر لیں:
’’عیسائیوں کا تصور نبوت ایسا شایان شان نہیں کیونکہ وہ نبوت ورسالت کے مسئلہ پر اس قدر مبالغہ آرائی اور غلو سے کام لیتے ہیں کہ نبی کو کہیں خدا بنا دیتے ہیں تو کہیں خدا کا بیٹا‘ وہ رسول کو بشریت سے پاک خدا کا جزو یا خدا یا ناسوت ولاہوت کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے اور گنہگار کسی دوسرے گنہگار کو راہ راست پر نہیں لا سکتا‘ اس لیے خدا کا بیٹا آسمان سے زمین پر آنا چاہیے۔‘‘ (ایم ایس ناز‘ مسلم شخصیات کا انسائیکلو پیڈیا بحوالہ کتبا ہذا ص: ۱۴۱)
یہ عیسائیوں کا غلو ہے کہ انہوں نے جناب سیدنا عیسیٰu کو اللہ تعالیٰ کا جزو بنایا جبکہ اسلام عقیدۂ تثلیث کی نفی کرتا ہے۔
تبصرہ کے ضمن میں عرض ہے کہ اس کتاب کو پانچ مفصل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے:
باب اول: ناموسِ رسالت (تعارف وجائزہ) اس کی چار فصول ہیں‘ قرآن کریم کے دلائل تفسیری مباحث‘ گفتگو کے آداب‘ اہانت رسول کی سزا‘ حقوق رسول‘ ناموس رسالت پس منظر اور پیش منظر‘ گستاخان رسالت کے خلاف فیصلہ جیسے اہم نقاط شامل باب ہیں۔
باب دوم: چار فصول ہیں اور توہین رسالت وقانون توہین رسالت بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں اظہار رائے کی آزادی کی پوزیشن کے متعلق ہے۔ قانونی شق 295/3 کا اصل متن۔ اس کے علاوہ مسلم ممالک (سعودی عرب‘ ایران‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ وغیرہ) میں قانون توہین رسالت کے جائزے پر مشتمل مفید مواد دیا گیا ہے۔
باب سوم: بھی آزادئ اظہارِ رائے اور حدود وضوابط پر مشتمل ہے۔
باب چہارم وباب پنجم: آزادئ اظہار رائے کے نام پر ہونے والی غلطیوں اور اس کے تدارک بارے کھل کر بحث کی گئی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ سید المرسلین حضرت محمدرسول اللہe پر ایمان لانا‘ آپe کی عزت وعظمت کی تعظیم اور ادب واحترام کرنا بھی اہل ایمان پر فرض ہے اور یہ ہر مسلم کی سب سے بڑی متاعِ ایمان ہے۔ اس طرح آپe کی کوئی گستاخی کرے یا آپe کے بارے میں گھٹیا زبان ورائے کا اظہار کرے تو یہ ناقابل برداشت امر ہے کیونکہ تحفظ ختم نبوت وناموس رسالت تمام مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے کہ {النبی اولی بالمؤمنین من انفسہم} کہ ’’بلاشبہ نبی کریمe تو اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہیں۔‘‘
یہ کتاب ایک تاریخی مواد لیے مسلمانانِ عالم کے دلوں کی ترجمان بھی ہے۔ جناب پسروری صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایک اہم مسئلہ ’’ناموس رسالتe‘‘ کو انہوں نے بہترین انداز میں بیان کیا ہے۔ اہل ذوق خطباء‘ طلبائے مدارس وکالجز اس اہم کتاب کو ضرور حاصل کریں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)