کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟!
تحریر: جناب سید اکرام
اللہ گیلانی
فرمان الٰہی ہے:
{كلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَة
الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكمْ یَوْمَ الْقِیٰمَة فَمَنْ زُحْزِحَ
عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّة فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوة الدُّنْیَآ اِلَّا
مَتَاعُ الْغُرُوْرِ} (آل عمران:۱۸۵)
’’ہر جان موت کو
چکھنے والی ہے اور تمہیں تمہارے اجر قیامت کے دن ہی پورے دیے جائیں گے، پھر جو شخص
آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا
کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
کہتے ہیں جوقومیں سہاروں سے زندگی بسرکرتی ہیںوہ کبھی بھی کامیاب
نہیں ہوپاتیں اورجن کے حوصلے پست ہوں ان سے ایک چھوٹی سی دیوار پھلانگنا بھی مشکل ہوجاتی
ہے، اس کے برعکس جن کے عزائم پختہ ہوںوہ بڑی بڑی چوٹیوں کو آسانی سے سرکرلیتے ہیں
۔ بالکل اسی طرح اگر آج ہمارے حکمران ملکی وسائل کو کافی اور بروئے کارلاتے ہوئے اغیار
کے سہاروں کوپس پشت ڈال کر اپنے عظیم خالق ومالک پر توکل کرتے ہوئے کام کرناشروع کردیں
تو رزلٹ آپ کے سامنے ہوگا۔ ہم ہر میدان میں ترقی کو آسانی سے حاصل کرلیں گے۔ (ان
شاء اللہ)
رسول اللہ eنے فرمایاـ :
[لَوْ اَنَّكمْ تَوَكلُوْنَ
عَلی اللّٰه حَقَّ تَوَكلِه لَرزقْتُمْ كما یُرزق الطَّیر تغْدُو خماصاً وتروحُ بطاناً]
(الترمذی: ۲۴۴۷)
’’اگر تم اللہ تعالیٰ
پر اسی طرح بھروسہ کرو جیساکہ کرنے کاحق ہے تو پھر کیاہوگا۔۔؟ تو تمہیں پرندوں کی طرح
رزق دیاجائے گا کہ پرندے صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں۔‘‘
لیکن معلوم نہیں آخر کیوں ہمارے قلوب واذہان پراغیار کے نقش
چھائے ہوئے ہیں۔ یورپ کی اندھی تقلید کی وجہ سے ہم اپنی تہذیب کو بھلابیٹھے ہیں۔ کتنے
افسوس کی بات ہے کہ مسلمان نوجوان ناچ گانے کو اپنی تہذیب سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ہماری دوستی
مسلمانوں کی بجائے کافروں سے، ہمارے رہنما، مشعل راہ مسلمان نہیں بلکہ یہود ونصاریٰ
ہیں۔ یہ ہے آج کل کے مسلم نوجوان کاذہن جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کاقرآن کیاکہتاہے:
{لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ
الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِك
فَلَیْسَ مِنَ اللّٰه فِیْ شَیْئٍ} (آل عمران:۲۸)
’’ ایمان والے مومنوں
کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز
میں نہیں‘‘
کتنی سخت وعید ہے لیکن مسلم نوجوان کی طرف دیکھو‘ اس کے بالوں
کاسٹائل، کپڑوں کاڈیزائن، گفتگوکا طریقہ غرضیکہ ہر معاملہ کفار کی نقالی نظر آتاہے۔لیکن
پھر بھی مسلمان ہیں۔ کیا اللہ کے رسولeنے ہمیں مکمل طرز رہن سہن نہیں دیا۔۔؟
ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں‘ کتنے افسوس کی بات ہے ہم اپنے
اوپر عاشق رسول کالیبل تو لگاتے ہیں لیکن کبھی محبت کاعملی نمونہ کماحقہ پیش نہ کرسکے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{قُلْ اِنْ كنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰه فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكمُ اللّٰه وَ یَغْفِرْلَكمْ ذُنُوْبَكمْ
وَ اللّٰه غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ}
’’کہہ دیجیے اگر
تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے
گناہ بخش دے گااور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ (آل عمران:۳۱)
ہمارے بڑوں کایہ حال ہے کہ اپنے ننھے منے بچوں کو اپنے اسلاف
کے واقعات سنانے ، ان کو ان کے رنگ میں رنگنے کی بجائے کفار کے ننگے ہاتھوں فروخت کررہے
ہیں ۔
میں اپنے نوجوان بھائیوں سے یہی اپیل کرتاہوں کہ تم اپنا لباس
، طرز معاشرت اپنے اقدار وروایات میں کفار کی نقالی کرنے کی بجائے اسلامی تہذیب میں
اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔
اے میرے نوجوان بھائیو!قومیں زوال پذیر اس وقت ہوتی ہیں جب ان
میں ذہنی ، فکری ، سماجی ثقافتی اور عسکری کمزوریاں پیداہوجاتی ہیں اوروہ اپنے آپ
کو حقیر وکمتر خیال کرناشروع کردیتی ہیں۔ دشمن سے مختلف محاذوں پر مرعوبیت کا شکار
ہوجاتی ہیںتو ان کی ہمت وحوصلہ ، جوانمردی اور بلند خیالی کاخاتمہ ہوجاتاہے۔
پھر ایسا موقع بھی آتاہے کہ غیورروایات کاحامل انسان اپنے دشمن
کو خوش رکھنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلتانظرآتاہے کہ کسی طرح سے یہ مجھ سے خوش ہوجائے
۔
آج مسلمان جس عالم گیر تہلکے اور زبوں حالی کاشکار ہیں اسے
دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، یہ ابھی ڈیڑھ دو صدی پہلے
کی بات ہے کہ دنیاکے بہت بڑے علاقے پر ہماری حکمرانی کاتخت بچھاہوا تھا۔ ہم ایک ہزار
سال سے عالم انسانیت کی امامت وقیادت کررہے تھے ،پھر کیا ہوا۔۔؟ ہم ثریا سے ثریٰ کی
پستی تک کس طرح آگئے ۔۔؟ معصیت ومصیبت کی گھاٹیوں میں کس طرح گرپڑے۔۔؟ اس کی وجہ صرف
یہ ہے کہ ہم نے اللہ رب العزت کی بندگی سے منہ موڑ لیا۔عزت ومرتبہ دوبارہ حاصل کرنے
کے لیے ان تمام کوتاہیوں کو ترک کرکے اپنے اوپر اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرناہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كآفَّة وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ
اِنَّه لَكمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ} [البقرة:۲۰۸]
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، یقینا
وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ‘‘
یعنی اپنے ظاہر وباطن کو مکمل طور اللہ تعالیٰ کے احکامات اور
رسول اللہ e کے
فرامین کے مطابق ڈھال لیں۔
اے نوجوان اسلام !کبھی تو نے اپنی اداؤں پر غور کیا کہ میری
عادات مجھے کس طرف لے کر جارہی ہیں ۔۔؟ کہیں اپنا اصل مقصد کھوتو نہیں رہے ، کہیں دوستی
شیطان کے چیلوںسے تو نہیں ، کہیںتیرا تعلق دشمنان اسلام اور اللہ تعالیٰ کے باغیوں
سے تو نہیں ، کہیںقلوب واذہان سے شرک کی بدبو تو نہیں آرہی ، کہیں تعلیم مغربی فکر
پر مشتمل تو نہیں، کہیں گھر کا ماحول مغرب کی سازشوں کی لپیٹ میں تو نہیں ، کہیںتیرا
رویہ کفار سے نرم اور مسلمانوں سے سخت تو نہیں ، کہیںایمان رخصت تو نہیں ہورہا، کہیں
تیراتعلق اللہ تعالیٰ سے کمزور اور شیطان سے مضبوط تو نہیں ہورہا، کہیں باہمی مجلسوں
سے اللہ تعالیٰ کے اذکار کی خوشبوکی بجائے گناہوں کی بدبو تو نہیں آرہی ۔
اے میرے نوجوان بھائیو!ذراغور کرو تم ہی تو اصل شاہین ہو لیکن
تم نے اپنی خوبیوں کو ضائع کردیا، اب بھی وقت ہے کہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت، رعب کو دوبارہ
حاصل کیاجائے ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ذرا اپنے ماضی
کی طرف نگاہ دوڑاؤ کہ کس طرح امت کوغموں سے نجات دلانے کے لیے ہمارے پیارے پیغمبر
eنے اپنے ایام زندگی بسر کیے اور کس طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے
لیے کوشش کی ،انہوں نے کس انداز سے اپنے صحابہ کی تربیت کی‘ ایسی تربیت جن کی حرکات
وسکنات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتے ہیں ، قرآن نازل کر دیتے ہیں اور جنت کا پروانہ
جاری فرمادیتے ہیں ۔
[الله اكبر الله
اكبر اللھم اجعلنا منھم]
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے دل اس بات کو ابھی تک تسلیم ہی
نہیں کررہے کہ ہم نے مرناہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوناہے جہاں ہم سے حساب
وکتاب لیاجاناہے۔
مجھے یقین ہے کہ جس دن ہم اپنے اصل مقصد کو پہچان گئے تو وہ
دن ہماری زندگی کابہترین دن ہوگا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{وَمَا خَلَقْتُ
الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ}
’’اور میں نے جنوں
اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذاریات:۵۶)
یہ نہ ہو کہ ہماری حالت ایسی ہو جس کی تصویر کشی قرآن نے یوں
بیان کی:
{یَوَدُّالْمُجْرِمُ
لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْه وَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِیْه وَفَصِیْلَتِه
الَّتِیْ تُؤْویه وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنجِیْه}(المعارج:۱۱ تا
۱۴)
’’مجرم چاہے گا کاش
کہ اس دن کے عذاب سے (بچنے کے لیے) فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو۔اور اپنی بیوی اور
اپنے بھائی کو۔اور اپنے خاندان کو، جو اسے جگہ دیا کرتا تھا۔اور ان تمام لوگوں کو جو
زمین میں ہیں، پھر اپنے آپ کو بچا لے۔ (لیکن اس کی بات نہ سنی جائے گی)۔‘‘
[اللھم لاتجلعنا
منھم]
لہٰذااب موجودہ ذلت اور مصیبت کے گرداب سے نکلنے اور اپنی گم
شدہ میراث وعظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے رب کریم کو منانا ہوگا، اس سلسلہ
میں فوری ضرورت ہے کہ ہم گناہوں سے توبہ کرلیں، ندامت کے آنسو بہائیں، نیکی والی زندگی
بسرکریں اور ہر آن ، ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی سے دعائیں کریں۔ اللہ
تعالیٰ مجھ سمیت تمام مسلمانوں کو اپنے دین کی سربلندی کے لیے چن لے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment