سند کی اہمیت
تحریر: جناب مولانا
حافظ عبدالاعلیٰ درانی (بریڈ فورڈ)
کسی بھی بڑے آدمی کی طرف جھوٹ منسوب کرنانہایت قبیح حرکت سمجھی
جاتی ہے تو اللہ کے بعد تو سب سے بڑے ہمارے نبی اقدسe ہی ہیں‘ ان کی طرف جھوٹ منسوب کرنا کتنی دلیری کا کام
ہے۔ ان سطور میں اس کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی جائیگی۔ ہمارے مبلغین حضرات لچھے دار
گفتگو کرنے کے ماہرہوتے ہیں‘ بعض دفعہ وہ بالعموم ایسی مجہول روایات بیان کرجاتے ہیں
کہ سن کر بھی شرم آتی ہے جیسے نبیe کا جنازہ سب سے پہلے اللہ نے پڑھایا۔ حور عین کا گانا
سنا جائے گا‘ پہلے اللہ تعالیٰ گائے گا‘ ااس گانے کی طوالت ستر سال ہوگی۔ پھر جبریل
کاگانا ہوگا جو شاید ایک کم ستر سال لمبا ہوگا پھر فلاں فلاں۔ پھربموقع معراج عرش رب
العالمین پرعبدو معبود کے درمیان خفیہ گفتگو ان کے ہاتھ لگ گئی‘ ایسے انداز سے بیان
کیا جاتاہے کہ جیسے دو بچھڑے ہوئے محبوب پہلی دفعہ ملے ہوں۔ نعوذ باللہ ۔حالانکہ کائنات
میں اللہ عزوجل کا ادب واحترام سب سے زیادہ انبیاء کرام علیہم السلام کرتے تھے اور
ان سب سے زیادہ ہمارے پاک نبیe کیا
کرتے تھے۔ لیکن ہمارے واعظوں نے اللہ سبحانہ وتعالی اور نبی اقدس کے درمیان کچھ ایسارومانوی
رشتہ پیدا کردیا جس کا ادب واحترام میں کوئی مقام نہیں۔ گویا ہیر رانجھا کی داستان
ہے‘ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔یعنی نہ توباری تعالی کی عظمت و شان کے لائق ہے اور نہ
نبی اقدسu کی
شایان شان۔ سیدنا یعقوبu نے
بھیڑئے سے گفتگوکی تو وہ بھی ان تک پہنچ گئی، اصحاب کہف کے کتے کی تقریربھی ہمارے واعظوں
کو پتہ چل گئی۔ سیدنا علی المرتضیt کی طرف منسوب روایات بھی بڑی گستاخانہ ہوتی ہیں کہ انہوں
نے ہزاروں ٹن وزنی درخیبر ایسے اکھاڑاکہ زمین و آسمان کے قلابے ملادیے ۔ایک بزرگ الشیخ
عبدالقادر جیلانیؒ کو غوث اعظم بنا کر اتنے اختیارات دے دیے کہ انہوں نے عزرائیل سے
قبض کی گئی روحوں کا تھیلا ہی چھین لیا‘ اسے چانٹا بھی مارا جس پر اس نے بارگاہ ربانی
میں استغاثہ دائر کردیاتو رب کا جواب تھا کہ شکر کر‘ تم سے روحیں ہی چھین لی گئیں اگر
وہ یہاں تک آجاتے تو (اگلی بات ناقابل بیان ) نعوذ باللہ ۔ یمنی تابعی حضرت اویس قرنیؒ
کی طرف بھی بے شمار روایات منسوب کرڈالیں۔ اس طرح کی جھوٹی غیر سنجیدہ بلکہ نالائق
روایتیں رسول اللہe کے
منبرپر کھڑے ہوکربیان کی جاتی ہیں جو بادشاہ ارض و سما کے حق میںبہت بڑی جسارت بلکہ
گستاخی کے ضمن میں آتی ہیں‘ حالانکہ منبر رسول پر صرف اللہ و رسول کی بات ہی ہونی
چاہیے۔ یانبی اقدس کی طرف جھوٹی احادیث منسوب کردی جاتی ہیں کہ جو شخص کسی کو رمضان
کی خبر دے گا اس کیلئے جنت واجب ہے۔ یہ خواب دس بندوں تک پہنچانے والے کیلئے لامتناہی
فائدے حاصل ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ جھوٹی روایات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جسے اس کالم
میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔ ایسے واعظ عموماً بے علم ، دینی و دنیوی علوم کے جاہل ہی نہیں
بلکہ کئی تو بڑے عالم سمجھے جاتے ہیں ۔لیکن لچھے دار گفتگو کی خاطریہ غیر سنجیدہ رویہ
بھی اختیار کر لیتے ہیں‘ لیکن اگر یہ واعظین و مبلغین قرآن و حدیث کا علم رکھتے اور
پھرروایات کے صحیح یا غلط ہونے کا معیارجانتے یعنی اصول حدیث سے واقف ہوں تو کبھی ایسی
جسارتیں نہ کر پائیں۔
صحیح بخاری میں نبی اقدسe کا ارشاد ہے:
’’میری طرف جھوٹی بات منسوب کرنے والا شخص اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔‘‘
یعنی یہ بڑی سخت جسارت ہے۔ (بخاری حدیث: ۱۲۲۹)
مقدمہ صحیح مسلم میں بھی اس حدیث کو ذکرکیا گیا۔ دوسری روایت
میں ہے:
’’ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا
شخص جہنم میں جائے گا۔‘‘ (۱۰۶)
صحیح مسلم میں ہے جو میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ زمانے بھرکاجھوٹاشخص
شمار ہوگا۔امام ابن حجر عسقلانی ؒنے مقدمہ فتح الباری میں الشیخ محمد بن ابراہیم الجوینی
اور ان کے ساتھ محقق علماء کی جماعت کے بارے
میں ذکر کیا ہے کہ
’’یہ علماء ایسے شخص کے کفرکی بھی قائل ہیں۔ ایسا ہی فتوی امام ابن
منیرکابھی ہے۔‘‘ (فتح الباری: ج۱‘ ص ۲۲۴)
شیخ الاسلام امام اہل السنہ ابن تیمیہa نے ’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘ کتاب لکھ کر نبی
اقدس کی شان میں گستاخان کیلئے اس کا دروازہ ہی بند کردیااور آپe کے
ساتھ محبت و ایمان کاحق ادا کردیا ہے جس میں گستاخ رسول کی صرف ایک سزا پر امت کا اتفاق
ہے کہ رسول اللہe کی
گستاخی کا مرتکب ہو (عوام نہیں ریاست) ایسے شخص کے قتل کا حکم دے۔ انہوں نے فرمایا
کہ نبیe کے
زمانہ مبارک میں ایک شخص کسی قبیلے کی خاتون سے شادی کرنا چاہتاتھا لیکن وہ راضی نہ
تھے‘ اس نے ایک جبہ پہنا اور کہا یہ مجھے رسول اللہe نے پہناکرنکاح کا پیغام دے کر تمہاری طرف بھیجا ہے۔
لوگوں نے نبیe کوخبرکردی
آپ نے فرمایا: اس اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولااورایک آدمی کو بھیجا کہ اگر وہ مل جائے
تواس کی گردن ماردو ۔شیخ الاسلام نے اس حدیث کوذکرکرکے رسول اللہe پر
جھوٹ باندھنے کی سزا اور شناعت پر تفصیلی گفتگو فرمائی کہ نبی اقدس پر جھوٹ بولنے والا
مسلیمہ کذاب، اسود عنسی جیسا ہے (جیسے ہمارے ہاں ایک جعلی نبی اللہ و رسول پرساری زندگی
بہتان باندھتا رہا) اس قسم کے واعظ علماء و مبلغین کو چاہیے کہ وہ فتح الباری ج۱ ص۲۲۴ اور شیخ الاسلام
کی معروف زمانہ کتاب ’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘ ج۲ ص ۲۲۸ سے ۲۳۹ ملاحظہ کرلیں۔
اللہ تعالیٰ محدثین کرام کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے امت
میں روایات کی سند دیکھنے اور تحقیق کرنے کی روایت ڈالی ۔ اگر اہتمام اسناد نہ کیا
جاتا تو یہ امت راہ راست کی پہچان ہی نہ پاتی۔ حضرت عبداللہ بن مبارکa نے
فرمایا:
[ان الاسناد من الدین
ولولا الاسناد لقال من شاء و ماشاء۔]
’’تمہارا دین سند
کے ساتھ مضبوط ہے ورنہ ہر کوئی جھوٹ سچ کہنے میں آزاد ہوتا۔‘‘
امام ابراہیم نخعیa فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام] نے نبیe کی
سنتوں کو اپنا کر دکھایا کیونکہ انہوں نے اس دین کو رسول اللہe سے
براہ راست حاصل کیا تھا۔
امام سفیان ثوریa کہتے
ہیں: ’’اسناد حدیث مومن کا ہتھیار ہے‘ اگر ہتھیار نہ ہو تو لڑائی کس کے ساتھ کی جائے
گی۔‘‘
امام ابن تیمیہa فرماتے
ہیں: ’’اگر سند ثابت نہ ہو تو روایات میں جھوٹ یا سچ کو کیسے پرکھا جائے گا؟‘‘
حضرت عبداللہ بن مبارکa فرماتے ہیں: ’’سند حدیث کی مثال سیڑھی کی ہے، اگر سیڑھی
نہ ہو توچھت پر کیسے چڑھا جاسکتاہے۔‘‘
محدث بقی بن مخلدفرماتے ہیں: ’’اللہ نے اس امت کو سچ وجھوٹ کے
درمیان فرق برتنے کیلئے سند کی تحقیق کا اعزاز دیا ہے۔ ورنہ یہود و نصاریٰ کی طرح روایات
میں الجھاؤ ہی ہوتا۔‘‘ … مزید فرماتے ہیں: ’’سچائی اور کذب کے درمیان ایک ہی حد فاصل
ہے اور وہ ہے روایت کی سند۔ اس کے سوا باقی سب شیطان کے وساوس ہیں۔‘‘
حضرت سعید بن قطانa کہتے ہیں: ’’حدیث کو نہیں سند کو دیکھو‘ اگر وہ صحیح
ہے تو حدیث مان لو ورنہ رہنے دو۔‘‘
نوٹ: یہ تفصیلات مقدمہ
صحیح مسلم از ۱مام النووی، شرف اصحاب الحدیث از خطیب بغدادی، منہاج السنۃ ج۴‘ ازامام ابن تیمیہؒ اور دیگر کتب اصول حدیث میں بھی تفصیل سے موجود ہیں۔
اللہ کریم واعظین وخطباء حضرات کو خالص قرآن وحدیث بیان کرنے
کی توفیق دے اور اللہ و رسول پر جھوٹ و بہتان باندھنے سے محفوظ فرمائے ۔ آمین!
No comments:
Post a Comment