تذکرۂ علمائے اہل حدیث
تحریر: جناب مولانا
محمد اشرف جاوید
حضرت مولانا عبدالرحمن
آزاد مئوی a
نام: ابونعمان عبدالرحمن بن حافظ عبدالرزاق مئوی۔ آپ کی ولادت:
۱۲۹۵ھ میں قصبہ مئو میں ہوئی۔
اساتذہ کرام:
ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی پھر مولانا حسام الدین
(مرحوم) کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیے جن کے ارتحال کے بعد دیگر علماء سے استفادہ کیا۔
اس کے بعد مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں داخل ہوئے۔ اسی طرح آپ نے مولانا فاروق چڑیا
کوٹی‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری‘ مولانا عبدالرحمن بقا
غازی پوری‘ سے درس نظامی کے اکثر حصہ کی تحصیل کی۔
تکمیل نصاب کے بعد تحصیل حدیث کی غرض سے دہلی چلے گئے اور ایک
سال تک مولانا سید نذیر حسین دہلویa کی
خدمت میں رہ کر اس علم شریف کو علی وجہ الاتم حاصل کیا۔ (تذکرہ علماء اعظم گڑھ: ص ۱۵۴۔ تراجم علماء اہل حدیث: ص ۳۴۸)
مولانا مرحوم ضلع اعظم گڑھ کے ایک ممتاز صاحب علم وفن اور عامل
بالحدیث شخص تھے۔ (پاک وہند میں عربی ادب: ۱۰۳)
تدریس:
1 جملہ معقول ومنقول علوم سبقا پڑھنے کے بعد
۱۳۱۴ھ میں در بھنگہ میں مدرس ہوئے۔
2 کچھ
مدت کے بعد حسب طلب جناب مولانا علامہ شمس الحق ڈیانوی مدرسہ آسن سول بنگال تشریف لے
گئے۔
3 پھر
اس سے الگ ہو کر مدرسہ دار الہدیٰ کلکتہ مولانا ابوالنعمان عبدالرحمن آزاد مئو نے تقریبا
۵ سال تک تعلیم دی‘
یہ زمانہ ۱۹۱۳ء کا ہے۔ (اہل حدیث کی تدریسی خدمات: ص ۱۸۱‘ تراجم علماء حدیث: ص ۳۴۸۔ تذکرہ علماء اعظم
گڑھ: ص ۱۵۴)
جناب امام حافظ عبداللہ غازی پوری مرحوم کے سلسلہ میں امام نے
ایک روایت مولانا عبدالرحمن صاحب کے واسطے سے نقل کی ہے کہ
’’مولانا ابوالنعمان
عبدالرحمن مئوی سے روایت ہے کہ میں نے حافظ صاحب سے عرض کیا جناب نے صدرا قاضی مبارک
اور ہدایہ کتنی مرتبہ پڑھائی ہوں گی؟ فرمایا کہ یاد تو نہیں مگر ۳۰-۴۰ مرتبہ سے کم کیا
پڑھائی ہو گی۔‘‘ (تراجم علماء اہل حدیث: ۳۶۳)
مولانا عبدالرحمن مرحوم ایک لائق مدرس ہونے کے ساتھ بلند پایہ
مصنف بھی تھے‘ جس پر ان کی تصانیف شاہد عدل ہیں: 1 تفسیر القرآن (نا تمام/اردو) 2 ترجمہ
طبقات ابن سعد (نا تمام/مولانا مستقیم ……/اردو) 3 بحر الفرائض (فارسی) ۱۳۳۲ھ میں لکھا۔ 4 شرح
قصیدہ بانت سعاد (غالبا مکمل ہوئی) 5 التحریر (اردو/طبع مطبعہ سعیدیہ کلکتہ ۱۳۱۹ھ)
مولانا کو شعر وادب میں بھی کامل درک حاصل تھا بالخصوص تاریخ
کے استخراج میں بڑی مہارت تھی۔ مولانا مرحوم نے حافظ عبدالمنان بقا‘ ابوالمکارم محمد
علی‘ ابوالفیاض عبدالقادر م۱۹۱۳ء وغیرہ کی تاریخ
وفات استخراج کیں۔ (تراجم اہل حدیث: ۳۴۰-۳۵۹)
مدرسہ دار الہدیٰ کلکتہ کے زمانۂ قیام میں قصبہ مئو میں ہیضہ
کی وبا پھوٹ پڑی جس میں بہت سے افراد لقمہ اجل بنے۔ ان میں سے مولانا عبدالرحمن کے
بھائی اور دو صاحبزادے بھی تھے۔ اس حادثہ کی اطلاع پر مولانا کلکتہ سے مئو تشریف لائے
اور پھر عائلی جھمیلوں میں اس طرح الجھے کہ مئو سے باہر قدم نکالنے کی نوبت نہ آئی۔
(تذکرہ علماء اعظم گڑھ ص ۱۵۴۔ تراجم علماء حدیث:
۳۴۸)
امام خاں نوشہروی ان کے محاسن میں لکھتے ہیں کہ مولانا کو فن
ادب وشعر وشاعری میں بھی درک حاصل تھا۔ (تراجم علماء حدیث: ۳۴۸۔ تذکرہ علماء اعظم گڑھ: ۱۵۴)
عربی شاعری کا نمونہ جو آپ نے مولانا حافظ عبدالمنان غازی پوری
کی وفات پر لکھا:
قد كان بحرا فی العلوم اصولها
وفروعها ومدرسا لا ثانی
………
قد عاش فی الدنیا تقیا زاهدا
متمسك الاخبار والقرآن
(پاک وہند میں عربی ادب: ص ۱۰۳)
وفات:
مولانا مرحوم کی وفات ۱۳۵۷ھ / ۱۹۳۸ء کو ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
حضرت مولانا محمد
سلیمان مئویa
نام: محمد سلیمان اور والد کا نام داؤد تھا۔ آپ کی ولادت بقول
امام خان ۱۲۹۴ھ میں ہوئی۔ (تراجم علماء حدیث: ۳۴۴)
اساتذہ کرام:
1 مولانا احسن احمد کان پور‘ مدرس جامع العلوم کان پور
2 حافظ
عبداللہ غازی پور (م ۲۱ صفر ۱۳۳۷ھ) 3 مولانا
عبدالرحمن بقا غازی پور‘ 4 مولانا
ملا حسام الدین مئوی 5 حضرت
شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی (م ۱۳۲۰ھ)
تلامذہ:
مولانا عبدالحکیم اعظمی (پ ۱۹۲۶ء م ۲۰۱۱ء) اور یو پی کے مشرقی اضلاع اور بنگال میں آپ سے فیض یافتہ
علماء بے شمار پھیلے ہوئے ہیں۔ (اخبار اہل حدیث دہلی یکم جون ۱۹۵۹-۱۸)
تدریس:
مولانا نے حصول علم سے فراغت کے بعد مختلف مدارس میں کتاب وسنت
ودیگر علوم وفنون کا درس دیا‘ جن میں سے مدرسہ دار التکمیل مظفر پور‘ مدرسہ سراج العلوم
بونڈھیا‘ مدرسہ عالیہ مئو‘ میں درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔ مولانا ۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۶ء تک استاذ رہے اور پھر ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۱ء دوبارہ تعلیم دی۔ (تدریسی خدمات: ۶۱/۴۷۔ یکم جولائی ۱۹۵۹ء ص ۱۸)
ناظم:
مولانا مرحوم مدرسہ عالیہ عربیہ مئو ناتھ کے ناظم بھی رہے اور
مولانا نے مدرسہ فیض عام مئو ناتھ میں بھی پڑھایا۔ (جماعت اہل حدیث کی تدریس خدمات:
۶۱۔ تراجم علماء حدیث ہند: ۳۴۴)
حضرت مولانا تہجد گذار متبع سنت‘ مقرر وواعظ اور جامع کمالات
تھے۔ مولانا سید نذیر حسینa عرف
میاں صاحب مرحوم سے فیض لیا تھا اور اپنے استاد کی سیرت کے مجسم پیکر تھے۔ (اخبار اہل
حدیث دلی یکم جون ۱۹۵۹ء ص ۱۸۔ تذکرہ علماء اہل حدیث قلمی: ۳۴۰)
مولانا عبدالرحمن بقا غازی پوری نے احسن القریٰ مؤلفہ مولانا
محمود الحسن صاحب (دیوبندی) کے جواب میں [سر من یریٰ] کی تالیف کی جن حضرات کے اصرار
سے کی تھی ان میں مولانا موصوف بھی تھے۔ (اخبار اہل حدیث دہلی یکم جولائی ۱۹۵۹ء ص ۱۸)
وفات:
شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی (متوفی ۱۳۲۰ھ / ۱۹۰۲ء) کے تلامذہ اب خال خال رہ گئے ہیں‘ خاص کر قصبہ مئو ناتھ بھنجن
میں آپ کے بائیس شاگرد تھے‘ سب چل بسے۔ صرف مولانا حکیم محمد سلیمان مئوی صاحب باقی
رہ گئے تھے افسوس کہ وہ بھی ۸-۹ مئی کی درمیانی شب انتقال کر گئے۔ مرحوم کی رحلت سے تمام عوام
وخواص میں صف ماتم بچھ گئی۔ آپ کے انتقال کی خبر پاتے ہی مئو کے تمام مدارس‘ فیض عام‘
مدرسہ عالیہ اور دار الحدیث اظہار غم میں بند کر دیئے گئے۔
مشرقی اضلاع‘ یو پی میں سید نذیر حسین محدث دہلویa کی
آخری یادگار تھی۔ تقریبا ۶۵ سال تک مختلف مدارس عربیہ میں قرآن وحدیث کا غلغلہ بلند کر کے
۹۴ سال کی عمر میں
اپنے رب کو پیارے ہو گئے۔
آپ کے جنازہ میں مسلمانوں کا ازدھام تھا جس میں ہر فرقہ کے افراد
با چشم نم شریک تھے‘ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں لے لے۔ آپ کے پسماندگان اور
عقیدت مندوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کے حسنات کو ہمارے لیے مشعل راہ بنا دے۔
آمین!
No comments:
Post a Comment