سیرۃ النبی ﷺ ... ایک عالمگیر اور دائمی نمونۂ عمل
(دوسری
قسط) تحریر: جناب سید سلمان ندویa
عزیز قارئین! اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نبی رحمت محمد رسول
اللہ e کے
حالات وواقعات پرمواد کے مآخذ کیا تھے۔سیرتِ پاکe کا سب سے اہم، سب سے مستند اور صحیح ترین ماخذ خود قرآن
ہے جس کی صحت و معتبری میں دشمن بھی شک نہ کر سکے۔قبل از نبوت کی زندگی، یتیمی، غربت،
تلاشِ حق، نبوت، وحی، اعلان و تبلیغ، معراج، مخالفین کی دشمنی، ہجرت، لڑائیاں اور اخلاق
سب قرآن میں موجود ہیں۔
دوسرا مآخذ ایک لاکھ کے قریب احادیث ہیں۔ صحاحِ ستہ ہیں جن
کا ایک ایک واقعہ تولا اور پرکھا ہوا ہے۔مسانید ہیں جن میں ضخیم ترین امام احمد بن
حنبل رحمہ اللہ (م ۴۴۲ھ) کی المُسْنَد ہے۔مسانید میں ہر صحابی کی روایتیں الگ الگ
ہیں۔
تیسرا مآخذ مغازی ہیں جو زیادہ تر رسول اللہ e کے
غزوات اور لڑائیوں سے متعلق ہیں۔ مثلاً مغازی عروہ بن زبیر رحمہ اللہ (م ۴۹ھ)، مغازی زہری رحمہ اللہ (م۴۲۱ھ)، مغازی ابن اسحق
رحمہ اللہ (م۰۵۱ھ) اور مغازی واقدی رحمہ اللہ(م ۷۰۲ھ) وغیرہ۔
سیرت ِ محمدی کا چوتھا مآخذ کتب ِتاریخ ہیں۔ ان میں طبقات ابن
سعد رحمہ اللہ(م۷۰۲ ھ)، تاریخ صغیر
و کبیر امام بخاری رحمہ اللہ (م ۶۵۲ھ) اور تاریخ طبری
رحمہ اللہ(م ۰۱۳ھ) وغیرہ ہیں۔ رسول اللہ e کے معجزات اور روحانی کارناموں پر مشتمل کتبِ دلائل
النبوت ہیں،مثلاً ابن قتیبہa (م ۶۷۲ھ)، بیہقی رحمہ اللہ (م۸۵۴ھ) اور ابونعیم
اصفہانی رحمہ اللہ(م۰۳۴ھ) وغیرہ کی کتب۔پھر آپ کے اخلاق اور معمولاتِ زندگی پر لکھی
گئی کتب ہیں،مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ (م۹۷۲ھ)، ابوالعباس مستغفری رحمہ اللہ (م ۲۳۴ھ) اور قاضی عیاض رحمہ اللہ (م۴۴۵ھ) کی کتابیں۔پھر
مکہ اور مدینہ پر کتابیںہیں جن میں مقامی حالات اور مقامات کے نام و نشان ہیں جنہیں
آپ e سے
کوئی تعلق ہے، مثال کے طور پر ازرقی (م ۳۲۲ھ) کی اخبارِ مکہ اور ابن زبالہ رحمہ اللہ کی اخبارِ مدینہ وغیرہ۔
عہدِ رسالت سے آج تک ہر زمانہ، ہر ملک اور ہر زبان میں آپ
e پر
لاتعداد کتب لکھی گئیں۔ ہر مصنف نے سینکڑوںاور ہزاروں اشخاص سے سن اور پڑھ کر سیرت
ِ محمدی کو دوسروں تک پہنچایا۔حدیث کی پہلی کتاب المَوطأ کو اس کے مصنف امام ما لک
رحمہ اللہ (م ۹۷۱ھ) سے ۰۰۶ لوگوں نے سنا جن میں حکمران، فقہا، علما، اُدبا اورشعراء سب
ہی تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ (م ۶۵۲ھ) تصنیف الجامع
الصحیح کو انکے صرف ایک شاگرد فربریa سے
ساٹھ ہزار لوگوں نے سنا۔
بتاؤ! کس شارع یا بانئ دین کی سوانح عمری اس احتیاط اور اہتمام
کے ساتھ مرتب ہوئی؟ یہ تاریخیّت محمد رسول اللہe کے سوا کس کے حصہ میں آئی؟
مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں نے بھی سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کا پروفیسر مارگیولیوتھ بھی اپنی کتاب محمد (۱۹۰۵ء) میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہواکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سوانح نگاروں
کا ایک نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے، لیکن اس میں جگہ پالینا قابلِ عزت ہے۔
جان ڈیون پورٹ ۱۸۷۰ء میں اپنی کتاب
’’اپالوجی فار محمد اینڈ دی قرآن‘‘ ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں:
’’بلا شبہ تمام قانون
سازوں اور فاتحین میں ایک بھی ایسا نہیں جس کے حالات ِ زندگی محمد (e) کے وقائع عمری
سے زیادہ مفصل اور سچے ہوں۔‘‘
سیرتِ محمدی کی کاملیّت
قارئین! کوئی انسانی زندگی خواہ کتنی ہی تاریخی ہو، وہ جب تک
کامل نہ ہو ہمارے لیے نمونہ نہیں بن سکتی۔ کسی زندگی کی کاملیّت اس وقت تک ثابت نہیں
ہو سکتی جب تک اس کے تمام اجزا ہمارے سامنے نہ ہوں۔ پیغمبر اسلام e کی
ولادتِ مبارک سے لیکر رحلت تک زندگی کا مختصر لمحہ بھی تاریخ کی آنکھ سے اوجھل نہیں۔
بطورِ مثال امام ترمذیa کی شمائلِ ترمذی، قاضی عیاضa کی
الشفاء اور حافظ ابن قیمa کی
زادالمعاد کے ابواب سے اندازہ لگالیں کہ آپ e کے جزئی واقعات بھی کس طرح قلم بند کیے گئے۔ مثلاً آپ
کی شکل وصورت، اسماے گرامی، عمر،بال، کنگھی، خضاب، سرمہ، لباس، عمامہ، پائجامہ، موزے،
پاپوش، انگوٹھی، خاموشی، گفتگو، تبسم، مزاح، خوشبو، تلوار، زرہ، خود، رفتار، نشست،
تکیہ و بستر، وضو، پیالہ، کیا اور کیسے کھاتے پیتے، رات کو باتیں کرنے، سونے اور عبادت
کرنے کے طریقے، گریہ، اخلاق، حجامت، خواب،خطبہ، سواری، سفر، جہاد، معمولاتِ عیادت و
ملاقات، مجالس، اپنے اور دوسروں کے گھروں میں جانے کا انداز اور طریقہ، یادِ ِ الٰہی،
اللہ پر توکل، صبر وشکر، استقامتِ عمل، حسن معاملہ، عدل و انصاف، سخاوت، ایثار، مہمان
نوازی، تحفے قبول کرنا، احسان نہ قبول کرنا، عدمِ تشدد،مساوات، شرم وحیا، اپنے ہاتھ
سے کام کرنا، ایفاے عہد، دشمنوں سے عفو و درگزر، غلاموں اور قیدیوں سے سلوک،اہل کتاب،
منافقین اورغیرمسلموں سے برتاؤ، غریبوں سے محبت، بچوں پر شفقت، عورتوں سے برتاؤ،
اولاد سے محبت، نکاح، بیویوں سے سلوک، ازدواجی تعلقات کا طریقہ، خرید و فروخت،حوائجِ
ضروریہ کے آداب اور جانوروںسے سلوک اور اُن پر رحم وغیرہ۔
اس اجمالی تفصیل سے اندازہ لگالیں کہ جب ان جزئیات کو محفوظ
رکھا گیا ہے تو بڑی اور اہم باتوں کی کیا کچھ تفصیل ہو گی۔
دوستو! بڑے سے بڑا انسان جس کی ایک ہی بیوی ہو، یہ ہمت نہیں
کر سکتا کہ بیوی کو یہ اجازت دے کہ تم میری ہر بات اور ہر حالت سب کو کہہ دو۔ رسول
اللہe کی
بیویوں کو عام اجازت تھی کہ خلوت اور رات کی تاریکی میں مجھ میں جو دیکھو، اسے جلوت
اور دن کی روشنی میں سب کو برملا بیان کر دو۔مسجدِنبوی کے چبوترہ پر رہنے والے صحابہ]
دن رات آپ کے حالات دیکھنے اور اُنہیں دوسروں کو بیان کرنے میں مصروف رہتے۔ دن میں
مدینہ کی تمام آبادی آپe کی
ہر اَدا کا مشاہدہ کرتی۔ جنگوںمیں ہزارہا صحابہ] نے آپ کے شب وروز دیکھے۔ حجۃ الوداع
میں تقریباً ایک لاکھ صحابہ] نے آپ کی زیارت کی۔ ہر شخص کو حکم تھا کہ آپ کی ہر حالت
و کیفیت منظر عام پر لائی جائے۔اس اخلاقی اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟
رسول اللہe ہمیشہ
اپنے پیروکاروں ہی کے درمیان نہیں رہے۔ آپ نے نبوت سے پہلے چالیس اور نبوت کے بعد
تیرہ برس قریشِ مکہ میںگزارے جنہوں نے آپ کو صادق اور امین کا خطاب دیا۔ وہ آپ کے
دعواے نبوت پر برہم ہوئے، گالیاں دیں، نجاستیں ڈالیں، پتھر پھینکے، قتل کی سازشیں کیں،
ساحر، شاعر اور مجنون کہا، مگر کوئی آپ کے اخلاق و اعمال کے خلاف ایک حرف بھی نہ کہہ
سکا۔
رسول اللہe پر
ابتدا میں ایمان لانے والے کوئی مچھیرے یا غلام قوم کے نہیں بلکہ ایک ایسی آزاد قوم
کے لوگ تھے جو اپنی عقل و دانش میں ممتازتھی۔ جو کبھی کسی کے محکوم نہیں ہوئے تھے۔ان
کی تجارت دنیا میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی تھی۔ بھلا ایسے لوگوں سے رسول اللہe کا
کوئی حال چھپا رہ سکتا تھا؟
سیرت ِ محمدی کے آئینہ میں دیکھ کر ہر شخص اپنے جسم و روح،
ظاہر و باطن، قول و عمل اور آداب و رسوم کی اصلاح کر سکتا ہے۔ کوئی اور انسانی زندگی
اس کاملیّت کے ساتھ دنیا کے سامنے موجود نہیں،اس لیے تمام انسانوں کے لیے یہی ایک کامل
نمونہ ہے!
سیرتِ محمدکی جامعیّت
قارئین! محبت ِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے ہر مذہب یہی بتاتا ہے
کہ اس کے بانی کی نصیحتوں پر عمل کیا جائے۔ اسلام نے ایک بہتر تدبیر بتائی۔ اس نے اپنے
پیغمبر کا عملی نمونہ سب کے سامنے رکھ دیا اور اللہ کی محبت اس عملی نمونہ کی پیروی
سے مشروط کر دی۔
کسی مذہب کے حلقۂ اطاعت میںشامل اشخاص مختلف شعبہ ہائے زندگی
سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں حکمران، رعایا، سپہ سالار، سپاہی، فاتح، مفتوح، جج، مفتی،
غریب، دولتمند، عابد، زاہد، مجاہد، اہل وعیال، دوست و احباب، تاجر، خریدار، امام، مقتدی،
اُستاد، شاگرد، جوان، بچے، شوہر اور باپ سب شامل ہیںجنہیں عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔
اسلام اُنہیں اتباعِ سنّت ِ نبوی کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبر ِ اسلامe کی
سیرت میں ہر انسان کے لیے نمونے اور مثالیں ہیں۔
انسان مختلف لمحوں میں مختلف افعال کرتا ہے: چلنا، پھرنا، اُٹھنا،
بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، ہنسنا، رونا، پہننا، اُتارنا، نہانا، دھونا، لینا،
دینا، سیکھنا، سکھانا، مرنا، مارنا، مہمان بننا، میزبانی کرنا، عبادت، کاروبار، راضی
ہونااور ناراض ہونا، خوش اور غمزدہ ہونا، کامیاب اور ناکام ہونا، شجاعت، بزدلی،غصہ،
رحم،سخت گیری، نرم دلی، انتقام، معافی، صبر، شکر، توکل، رضا، قربانی و ایثار،عزم واستقلال،
قناعت واستغنا، تواضع وانکساری، نشیب و فراز اور بلند و پست وغیرہ ان تمام افعالِ انسانی
اور احساسات ِ قلبی کی راہنمائی کے لیے ایک عملی نمونہ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا عملی
نمونہ جس میں سیدنا موسیٰu کی
صرف شجاعانہ قوتیںیا سیدنا عیسیٰu کا صرف نرم اخلاق ہی نہ ہو بلکہ یہ دونوں صفات معتدل
حالت میں موجود ہوں۔ سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ، سیدنا عیسیٰu، سیدنا سلیمان،
سیدنا داؤ، سیدنا ایوب، سیدنا یونس سیدنا یوسف اور سیدنا یعقوبo سب
کی زندگیاں سمٹ کر محمدرسول اللہ e کی سیرت میں سما گئی ہیں۔
دوستو!دنیا میں دو طرح کی تعلیم گاہیں ہیں: ایک وہ جہاں صرف
ایک فن جیسے میڈیکل، انجینئرنگ، آرٹ، تجارت، زراعت، قانون یا عسکری تعلیم دی جاتی
ہے۔ دوسری یونیورسٹیاں ہیں جو ہر قسم کی تعلیم کا انتظام کرتی ہیں۔ صرف ایک ہی فن اور
علم جاننے والوں سے انسانی سوسائٹی مکمل نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ان سب کے مجموعہ سے کمال
کو پہنچتی ہے۔
آؤ! اب اس معیار سے مختلف انبیاے کرام کی سیرتوں پر غور کریں۔
سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کی تعلیم گاہ میں صرف فوج کے افسرو سپاہی، قاضی اور کچھ مذہبی
عہدیدار ملتے ہیں اور سیدنا عیسیٰu کے
مکتب میں چند زاہد فقرا فلسطین کی گلیوں میں ملیں گے۔
لیکن محمد رسول اللہ e کے ہاںاصمحہ حبشہ کا نجاشی بادشاہ، عامر بن شہر رضی
اللہ عنہ ہمدان کا رئیس، بلالt جیسے
غلام اور سمیّہr جیسی
لونڈیاں سب ہیں۔ ملکوں کے فرمانروا، دنیا کے جہانبان، عقلاے روزگار اور اسرارِ فطرت
کے محرم اس درسگاہ سے تعلیم پا کر نکلے ہیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر t، عثمانt اور
علیt ہیں
جن کی مشرق سے مغرب تک فرمانروائی اور عدل و انصاف کے فیصلے ایرانی دستور اور رومی
قانون کو بے اثر کر دیتے ہیں۔ خالد بن ولید t، سعدبن ابی وقاص t، ابوعبیدہ بن جراحt اور
عمرو بن العاصt دنیا
کے فاتح اعظم اور سپہ سالار اکبر ثابت ہوتے ہیں۔ سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا ابن عباس،
سیدنا ابن مسعود، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص، سیدہ عائشہ، سیدہ اُمّ سلمہ، سیدنا
اُبی بن کعب، سیدنا معاذ بن جبل اورسیدنا زید بن ثابت] وغیرہ جیسے فقہا نے دنیاکے قانون
سازوں میں بلند درجہ پایا۔
ستر صحابہ اکرام] پر مشتمل اہل صفہ جن کے پاس مسجدِنبوی کے چبوترہ
کے سوا کوئی اورجگہ نہیں تھی، دن کو مزدوری کرتے اور رات عبادت میں گزارتے تھے۔ سیدنا
ابوذر غفاریt نے
دربار ِ رسالت سے ’’مسیحِ اسلام‘‘ کا خطاب پایا۔ سیدنا سلمان فارسیt زہد
و تقویٰ کی تصویر ہیں۔ بہادر کارپردازوں اور مدبّرین میں سیدنا طلحہt، سیدنا زبیرt، سیدنا مغیرہt، سیدنا مقدادt، سیدنا عبدالرحمن
بن عوفt ہیں۔
سیدہ سمیّہr، سیدنا یاسرt اور
سیدنا خبیبt جیسے
بے گناہ مقتول ہیں جنہوں نے جانیں قربان کر دیں مگر حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ سیدنا بلالt، سیدنا خبابt، سیدنا عمارt، سیدنا زبیرt، سیدنا سعید بن
زیدt جیسے
بھی ہیں جنہوں نے کفارِ مکہ کے مظالم برداشت کیے۔
عزیزو! درسگاہیں اپنے شاگردوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تعلیم انسانی
کی ان درسگاہوں کا جن کے اساتذہ انبیا کرام ہیں، جائزہ لیں تو کہیں دس بیس، کہیں ساٹھ
ستر، کہیں سو دوسو، کہیں ہزار دوہزار اور کہیں پندرہ بیس ہزار طالب علم آپ کو ملیں
گے۔ جب مدرسہ نبوت کی آخری تعلیم گاہ کو دیکھیں گے تو ایک لاکھ سے زیادہ طلبہ بیک
وقت نظر آئیں گے۔ دوسری نبوت گاہوں کے طلبہ کہاں کے تھے، کون تھے،اُن کے اخلاق وعادات
و دیگر سوانح زندگی کیا تھے؟ اس کا کوئی جواب نہیں مل سکتا۔ لیکن محمد رسول اللہ e کی
درسگاہ کے ہر طالب علم کی ہر چیز معلوم ہے۔ اس درسگاہ کے بانی کی دعوت جامع اور عالمگیر
تھی کہ نسلِ آدم کا ہر فرزند اور ارضِ خاکی کا ہر باشندہ اس میں داخل ہوا یا داخلہ
کے لیے اسے آواز دی گئی۔
تورات کے انبیا عراق یا شام یا مصر سے آگے نہیں بڑھے۔ عربوں
کے قدیم انبیا بھی اپنی قوموں سے باہر نہیں گئے۔ سیدنا عیسیٰu کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہیں
تھا۔ ہندوستان کے داعی آریہ ورت سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اگرچہ بدھ
کے پیروؤں نے بدھ مت دوسری قوموں تک پہنچایا مگر یہ عیسائیوں کی طرح بعد کے پیروؤں
کا فعل تھا۔
اب ذرا محمد رسول اللہ e کی درسگاہ دیکھیں: سیدنا ابوبکر وسیدنا عمر، سیدنا عثمان وسیدنا علی ] مکہ کے سیدنا ابوذر
اور سیدنا انسw تہامہ
کے، سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوموسیٰ اور سیدنا معاذ] یمن کے، منذر بحرین کے، سیدنا
عبید و جعفرw عمان
کے، سیدنا فروہt شام
کے، سیدنا بلالt حبشہ
کے، سیدنا صہیبt روم
کے اور سیدنا سلمانt ایران
کے رہنے والے ہیں۔ پیغمبر اسلام ۶ھ میں تمام قوموں
کے سلاطین اور حکمرانوں کے نام دعوت ِ اسلام کے خطوط بھیجتے ہیں۔ درسگاہ ِ محمدی میں
یہ جامعیّت نمایاں ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے رنگ، وطن، نسل اور زبان شرط نہیں بلکہ
دنیا کے تمام انسانوں کے لیے داخلہ کھلاہے۔
دوستو! آپ نے درسگاہ ِ محمدی کی پوری سیر کر لی جس میں آپ
نے ہر رنگ اور ہر ذوق کے طالب علم دیکھے۔ آپ نے کیا فیصلہ کیا؟ اس کے سوا کیا فیصلہ
ہو سکتا ہے کہ رسول اکرمe کی
ذات انسانی کمالات اور صفات ِ حسنہ کا کامل مجموعہ تھی۔ آپ کا وجودِ مبارک ایک ابرِ
باراں تھا جو پہاڑ، جنگل، میدان، کھیت، ریگستان اور باغ ہر جگہ برستا تھا اور ہر ٹکڑا
اپنی اپنی استعداد کے مطابق سیراب ہو رہا تھا اورقسم قسم کے درخت اور رنگارنگ پھول
اور پتے اُگ رہے تھے۔
سیرتِ محمدکی عملیّت
عزیز جوانو! یہ انبیاے کرام اور بانیانِ مذاہب کی موجودہ سیرتوں
کا وہ باب ہے جو تمام تر خالی اور سادہ ہے، لیکن محمد عربیe کی سیرت کا یہی باب سب سے بڑا اَور ضخیم ہے۔ سیرتِ محمدی
کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ آپ نے بطورِ پیغمبراپنے پیروکاروں کو جو نصیحت فرمائی،
اس پر پہلے خود عمل کرکے دکھادیا۔
عام پیروکاروں کو دن میں پانچ وقتوں کی نمازوں کا حکم تھا، مگر
آپ e نے
آٹھ وقت نماز پڑھی۔ عام مسلمانوں پرروزو شب میں سترہ رکعتیں فرض ہیں، مگر آپ ہر روز
کم و بیش پچاس ساٹھ رکعتیں اَدا فرماتے تھے۔ پنجگانہ نمازیں فرض ہونے کے بعدنمازِ تہجد
مسلمانوں کو معاف ہو گئی تھی مگر آپ اسے تمام عمر ہر شب اَدا فرماتے رہے۔مکہ میںکئی
دفعہ دشمنوں نے دورانِ نماز آپ پر حملہ کیا۔ دشمنوں کے خلاف معرکوںحتی کہ مرض الموت
میں بھی آپ کی نماز ترک نہ ہوئی۔ ساری زندگی میں صرف دو مرتبہ نماز قضا ہوئی۔
آپe نے
روزہ کا حکم دیا۔ مسلمانوں پر سال میں تیس روزے فرض ہیں، مگر آپ کا کوئی ہفتہ اور
کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ جاتا تھا۔ آپ دو دو تین تین دن بغیر کھائے پیئے متصل
روزہ رکھتے تھے۔
آپ نے زکوٰۃ اور خیرات کا حکم دیا تو پہلے خود اس پر عمل کرکے
دکھایا۔ جو کچھ آیا، سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔ فتح خیبر کے بعد سال بھر کا غلّہ
ازواجِ مطہرات کو دے دیا جاتا تھا مگر سال ختم ہونے سے پہلے وہ ختم ہو جاتا،اس لیے
کہ اس کا بڑا حصہ اہل حاجت کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ بحرین سے خراج کامال آیا۔
فرمایا: مسجد میں ڈال دو۔ صبح نماز کے بعد ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم کرنا شروع
کر دیا۔ جب سب ختم ہو گیا تو دامن جھاڑ کریوں کھڑے ہوگئے کہ یہ گویا غبار تھا جو دامن
پر پڑ گیا تھا۔ ایک دفعہ نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد خلافِ معمول فوراً تشریف لے گئے
او ر پھر باہر آئے۔ پوچھنے پر فرمایا: ’’مجھے نماز میں یاد آیا کہ سونے کا ایک چھوٹا
سا ٹکڑا گھر میں پڑا ہے، خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ رات آ جائے اور وہ محمد کے گھر
میں پڑا رہ جائے۔‘‘
آپ نے زہد و قناعت کی تعلیم دی تو پہلے خود اس پر عمل کرکے
دکھایا۔ فتوحات کی وجہ سے جزیہ، زکوٰۃ، عشر اورصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے مگر
آپ کے گھر میں وہی فقر و فاقہ تھا۔ سیدہ عائشہr نے فرمایا: رسول اللہ e رحلت فرماگئے مگرآپ کو دو وقت بھی سیر ہو کرکھانا نصیب
نہ ہوا۔ آپ کی رہائش ایک کمرہ تھی جس کی دیوار کچی اور چھت کھجور کے پتوں اور اونٹ
کے بالوں سے بنی تھی۔ آپ کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جو بدنِ
مبار ک پر کپڑا ہوتا تھا، اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہی نہیں تھا جو تہہ کیا جاتا۔
آپ نے مساوات کی تعلیم دی۔ آپ نے خود مساوات، اخوتِ انسانی،
اور جنسِ انسانی کی برابری کی یہ عملی مثال پیش کی کہ ایک غلام کو اپنا فرزندِ متبنٰی
بنایا، اپنی پھوپھی زاد بہن کو ایک غلام سے بیاہا اور مطلّقہ عورتوں سے شادی کی۔
آپ نے ایثار کی تعلیم دی توایثار میں بھی اپنا نمونہ پیش کیا۔آپ
کے پاس چادر نہیں تھی۔ ایک صحابیہr نے
چادر لاکر پیش کی۔کسی نے کہا: کتنی اچھی چادرہے۔ آپ نے چادر فوراً اُتار کر اسے دے
دی۔
عزیزو! آؤ دشمنوں کو پیار کرنے کی عملی مثال پیغمبر اسلام
e میں
آپ کو دکھاؤں۔ مکی حالات چھوڑتا ہوں کہ محکومی، بے کسی اور معذوری، عفوودرگذر اور
رحم کے ہم معنی نہیں ہوتے۔ ہجرت کے وقت سو اُونٹ کے لالچ میں محمدe کاتعاقب
کرنے والے سراقہt کی
جان بخشی کر دی۔ کفار کے سرغنہ ابو سفیانt کو فتح مکہ کے دن معافی مل گئی۔ سب سے بڑے دشمن ابوجہل
کے بیٹے عکرمہ رضی اللہ عنہ آئے تو فرمایا: ’’اے مہاجر سوار! تمہارا آنا مبارک‘‘۔یہ
اسے کہاگیا جس نے آپ e پر
نجاست ڈلوائی، حالت ِنماز میں آپ پر حملہ کیااور آپ کے گلے میں چادر ڈال کر قتل کرنا
چاہا۔ پیغمبر اسلام کی صاحبزادی سیدہ زینبr کے قاتل ہبار بن الاسود کو معاف کر دیاگیا۔ زہر بجھی
تلوار سے قتل کے لیے آنے والا عمیر بن وہب گرفتار ہونے پر رہا کر دیاجاتا ہے۔ آپe نے
آپ پر پتھر برسانے والوں، آپ کادانت شہید اور چہرہ خون آلود کرنے والوں کے لیے دعاکی۔
آپ کو جھٹلانے، گالیاں دینے، راستے میں کانٹے بچھانے اور غریب
و بے کس مسلمانوں کو ستانے والے سردارانِ قریش فتحِ مکہ کے دن صحنِ حرم میں سرجھکائے
سامنے بیٹھے تھے۔ پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ کے ایک اشارہ کی
منتظر تھیں، لیکن وہ سب معاف کر دیئے گئے۔
دوستو!کیا پیغمبر اسلام محمد رسول اللہe کے
سوا،انسانی تاریخ میں ایسی عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی اور نمونہ کہیں نظر
آتا ہے؟
No comments:
Post a Comment