خطبۂ حرم ... شکر کی اہمیت اور
اہل شکر کی فضیلت
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط d
ترجمہ: جناب محمد عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! یاد رکھو کہ ایک دن آپ نے اس کے
سامنے کھڑے ہونا ہے۔ وہی دن حقیقی دن ہے۔
’’جس روز آدمی وہ
سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش!
میں خاک ہوتا۔‘‘ (النبا: ۴۰)
’’جس دن کوئی نفس
دوسرے نفس کے لیے کچھ نہ کر پائے گا اور سارے معاملات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوں گے۔‘‘
(الانفطار: ۱۹)
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے اپنے چنیدہ بندوں کو چند عظیم نعمتوں
سے نوازا ہے۔ یہ ایسی بہترین صفات اور شاندار اخلاق ہیں جن کی بدولت ان کی قدر بڑھ
جاتی ہے، ان کے درجات بلند ہو جاتے ہیں۔ اور پروردگار کے ہاں ان کا مرتبہ بلند ہو جاتا
ہے۔ ان اخلاق میں سے ایک گراں قدر اور عظیم اثر رکھنے والا اخلاق شکر گزاری ہے۔ شکر
یہ ہے کہ اللہ کی نعمت کا اثر انسان کی زبان پر نظر آنے لگے۔ وہ نوازنے والے کی تعریف
کرے، نعمتوں کا اقرار کرے، اس کا دل نوازنے والے کی محبت سے بھر جائے اور وہ نعمتوں
کا ادراک کرے۔ اس کے اعضاء فرماں بردار بن جائیں اور نوازنے والے کے حکم کے پابند بن
جائیں۔ شکر گزاری دل کی نیکی کی دلیل ہے۔ کمال عقل کی، نفس کی تندرستی کی اور روح کی
بلندی کی علامت ہے۔ قرآن کریم میں شکر گزاری کا حکم آیا ہے۔ ناشکری اور نعمتوں کے
انکار سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔ نوازنے والے
کو ناراض کرنے والے کام اسی کی دی ہوئی نعمتوں کے ذریعے کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
فرمایا:
’’لہٰذا تم مجھے
یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو۔‘‘ (البقرۃ:
۱۵۲)
قرآن کریم میں اہل شکر کی تعریف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
اپنے بہترین لوگوں کی یہی صفت بیان فرمائی ہے۔ اپنے خلیل ابراہیم کے بارے میں فرمایا:
’’واقعہ یہ ہے کہ
ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو‘ وہ کبھی مشرک
نہ تھا‘ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا‘ اللہ نے اس کو منتخب کر لیا اور
سیدھا راستہ دکھایا۔‘‘ (النحل: ۱۲۰-۱۲۱)
سیدنا نوحu کے
متعلق فرمایا:
’’اور وہ ایک شکر
گزار بندہ تھا۔‘‘ (الإسراء: ۳)
یعنی: ہر حال میں کثرت سے شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ تعالیٰ
نے یہ بھی بتایا کہ اہل شکر ہی اس کی آیات سے استفادہ کرتے ہیں۔
’’کیا آپ نے نہیں
دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اس کی نعمت سے چلتی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں
دکھا دے۔ بیشک اس میں ہر بڑے صابر و شاکر کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘ (لقمان: ۳۱)
اللہ تعالیٰ نے شکر کو نعمتوں میں اضافہ کرنے والا، ان کی حفاظت
کرنے والا اور ان کا نگہبان بنایا ہے۔
’’اور یاد رکھو!
تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں
گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (ابراہیم: ۷)
اللہ کے بندو! شکر گزاروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ
شکر گزار اللہ کے چنیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’اے آلِ داؤد،
عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔‘‘ (سبا: ۳۱)
پچھلے انبیائےo کی
طرح ہمارے نبی مکرم e بھی
ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ آپ کے اعمال آپ کی شکر گزاری کو
واضح کرتے تھے۔ آپ کی عبادات اس سے پردہ ہٹاتی تھیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں
سیدنا مغیر بن شعبہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہ e تہجد
کی نماز میں اتنی دیر کھڑے رہتے تھے کہ آپ
کے قدم مبارک پر ورم آ جاتا۔ لوگوں نے آپe سے کہا: اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما
دیے ہیں(تو آپ اس قدر طویل تہجد کیوں ادا کرتے ہیں)۔ نبی اکرمe نے
فرمایا: ’’کیا میں اللہ کا
شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
اسی طرح نبی کریم e اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ انہیں نعمتوں پر کثیر
شکر کرنے والا بنائے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں، امام ابوداود، امام ترمذی، امام نسائی نے اپنی کتب میں
صحیح سند کے ساتھ سیدنا عبد اللہ بن عباسw سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e یہ
دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! میری مدد فرما! میرے خلاف دوسروں کی مدد نہ فرما! میری
نصرت فرما! میرے خلاف دوسروں کی نصرت نہ فرما! میرے لیے منصوبہ بندی فرما اور میرے
خلاف منصوبہ بندی نہ فرما۔ مجھے ہدایت عطا فرما اور ہدایت کی راہ میرے لیے آسان فرما۔
جو مجھ پر زیادتی کرے، مجھے اس پر نصرت عطا فرما! اے اللہ! مجھے اپنا کثرت سے شکر کرنے
والا، کثرت سے ذکر کرنے والا، کثرت سے تجھ سے ڈرنے والا، کثرت سے اپنے سامنے جھکنے۔
کثرت سے اپنے سامنے عاجزی کا اظہار کرنے والا، اپنی طرف لوٹنے اور رجوع کرنے والا بنا۔
حدیث کے آخر تک… اسی طرح رسول اللہ e نے سیدنا معاذ سے کہا:
’’اے معاذ! اللہ
کی قسم! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ
دعا کبھی نہ چھوڑنا: اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، اپنا شکر کرنے اور بہترین طریقے سے اپنی
عبادت میں میری مدد فرما!‘‘۔ (ابو داؤد‘ نسائی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔)
اللہ کے بندو! چونکہ شکر گزاری میں کوتاہی کی وجہ انسان کی جہالت،
غفلت اور بھول ہوتی ہے، اس لیے اس طرف توجہ
مبذول کرانے کا طریقہ یہی ہے کہ ہر شخص اپنے حال پر غور کرے اور دیکھے کہ اسے ایسی
کتنی نعمتیں ملی ہیں جس سے دوسرے لوگ محروم ہیں۔ اہل علم بیان کرتے ہیں کہ کوئی انسان
ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اس کی شکل وصورت، اخلاق، صفات، گھر والوں، اولاد، رہائش،
شریک حیات، رشتہ داروں، معاشرتی مقام، یادیگر
محبوب چیزوں میں ایسی نعمت نہ دی ہو، جو اگر اس سے چھین لی جائیں اور ان کی جگہ اسے
ایسی نعمتیں دے دی جائیں جو دوسروں کے پاس ہیں تو وہ اس پر کبھی بھی راضی نہ ہو۔۔ بالخصوص
ایمان، توحید، قرآن، علم، سنت، صحت، فرصت اور امن وغیرہ جیسی نعمتیں۔ امام ترمذی کی
کتاب جامع امام ترمذی اور امام ابن ماجہ کی کتاب سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ
سیدنا عبید اللہ محصنt سے
روایت ہے، جو صحابی رسول تھے، کہ رسول اللہ e نے فرمایا:
’’جس کی صبح اس حال
میں ہو کہ دل گھر اور بال بچوں کے حوالے سے مطمئن ہو، جسم تندرست ہو، اس کے پاس ایک
دن کا کھانا ہو، تو گویا کہ اسے دنیا کی ساری
نعمتیں مل گئیں۔‘‘
شکر گزاری کے اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان ان لوگوں کے
حال کو دیکھے جو مال، اولاد، صحت اور دیگر دنیاوی نعمتوں میں کم تر ہوتے ہیں۔ جیسا
کہ اس حدیث میں آیا ہے جسے امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کیا ہے۔ سیدنا
ابو ہریرہt روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
’’اسے دیکھو جو تم
سے کم تر ہے، اپنے سے زیادہ مالدار کی طرف
نہ دیکھو۔ اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کی ناقدری سے بچ جاؤ گے۔‘‘
اللہ کے بندو! یہ تربیت کا ایک نبوی طریقہ ہے، جو محمد e نے
بڑی حکمت کے ساتھ اپنایا ہے۔ جس سے دل میں اطمینان آ جاتا ہے، نفس کو سکون نصیب ہو
جاتا ہے، زندگی بہترین ہو جاتی ہے۔ فکری انتشار کا خاتمہ ہو جاتا ہے، دل کی تنگی ختم
ہو جاتی ہے، خوشی لوٹ آتی ہے، ہم اور پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں، بیماریاں ختم ہو
جاتی ہیں، جسموں کو گلانے والی آفتیں ختم ہو جاتی ہیں، زندگی کے مزے کو ختم کرنے والے
اور خوشیوں کو تباہ کرنے والے اسباب ختم ہو جاتے ہیں۔
شکر گزاری صرف ان لوگوں کا فرض نہیں جنہیں نعمتیں ملی ہیں، بلکہ
اس میں اہل مصیبت، آزمائش میں پڑنے والے، فقر وفاقہ، بیماری، خوف، مال اور اولاد کی
کمی کا شکار ہونے والے بھی شامل ہیں۔ کیونکہ ہر آزمائش میں چار چیزیں ایسی ہوتی ہیں
جنہیں دانشمند دیکھ لیتے ہیں اور جن پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ مصیبت
اتنی ہی ہے جتنی آئی ہے، یعنی اس سے بڑی بھی تو ہو سکتی تھی۔ چنانچہ اس مصیبت کا اتنا
ہی حصہ آنا ایک نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ دوسری یہ کہ یہ مصیبت دین کی مصیبت
نہیں تھی۔ کیونکہ دین کی مصیبت تو ایسی مصیبت ہے کہ اس سے بری مصیبت کوئی نہیں۔ تیسری یہ کہ مصیبتوں
پر صبر کرنے والوں کو بڑا اجر ملتا ہے، ان کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور ان کے گناہ
جھڑ جاتے ہیں، جس سے وہ مصیبت حقیقت میں نعمت بن جاتی ہے۔ جیسا کہ اس حدیث میں آیا
ہے جسے امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے۔ امام بخاری کے نقل
کردہ الفاظ یہ ہیں کہ سیدنا ابو سعید خدریt اور سیدنا ابو ہریرہ t روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ e کو
فرماتے ہوئے سنا: ’’جب بھی کسی مسلمان کو تھکاوٹ، تکلیف، پریشانی، اذیت یا کسی غم کا
سامنا ہوتا ہے، چاہے وہ تکلیف کانٹا چبھنے کی ہی کیوں نہ ہو، تو اس تکلیف کی وجہ سے
اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے‘‘۔ چوتھی یہ کہ یہ مصیبت اللہ کے ہاں لوح
محفوظ میں لکھی تھی۔ جس کے حق میں لکھی گئی تھی، اس پر اسے نازل ہو کر ہی رہنا تھا۔
اسے قبول کر لینے اور اس پر راضی ہو جانے کے سوا ہمارے پاس کوئی حیلہ نہیں۔ رضا مندی
وہ عمل ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔ امام ترمذی نے اپنی کتاب
جامع امام ترمذی میں، امام ابن ماجہ نے اپنی کتاب سنن ابن ماجہ میں حسن درجے کی سند
سے روایت کیا ہے کہ انس بن مالکt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہ e نے
فرمایا: ’’آزمائش جتنی سخت ہو گی، جزا اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم
کو پسند کرتا ہے تو انہیں آزماتا ہے۔ جو آزمائش میں اللہ سے راضی ہوتا ہے، اسے اللہ
کی خوشنودی مل جاتی ہے، اور جو ناراض ہوتا ہے، اسے اللہ کی ناراضگی ملتی ہے‘‘۔ اللہ
ہم سب کو معاف فرمائے!
اللہ کے بندو! اللہ
سے ڈرو! اللہ رب العالمین کے شکر کا حق ادا کرو۔ اپنے دل سے، اپنی زبان سے اور اپنے
اعضاء سے۔ یہی وہ شکر ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے اور جس سے وہ راضی ہوتا ہے۔
’’اگر تم شکر کر
و تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (الزمر: ۷)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شکر گزاری کا حکم
دیا ہے۔ فرمایا:
’’لہٰذا تم مجھے
یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو۔‘‘ (البقرۃ:
۱۵۲)
اس حکم میں بندوں پر ایک اور احسان موجود ہے۔ ایسی نوازش موجود
ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے۔ وہ یوں کہ ابن قیمa بیان
کرتے ہیں کہ شکر گزاری کا فائدہ دنیا وآخرت میں بندے کو ہی پہنچتا ہے، اللہ کو شکر
گزاری کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ شکر کا فائدہ بندے ہی کو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان
ہے:
’’اور جو کوئی شکر
کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔‘‘ (النمل: ۴۰)
شکر سے انسان دنیا وآخرت میں اپنا ہی بھلا کرتا ہے۔ کیونکہ
شکر گزاری کا فائدہ اسے ہی پہنچتا ہے، وہ شکر
سے اللہ کو انعام نہیں دے سکتا، بلکہ پروردگار کو تو کوئی کبھی انعام دے ہی نہیں سکتا۔
اس کی چھوٹی سے چھوٹی نعمت کا حق بھی ادا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہی نعمتوں سے نوازنے
والا ہے، نعمتوں کو، شکر گزار کو اور شکر گزاری کے ذرائع کو پیدا کرنے والا ہے۔ کوئی
اس کی تعریف کا حق نہیں ادا کر سکتا۔ وہی اپنی نعمتوں سے اپنے بندوں پر احسان کرتا
ہے۔ وہی اپنے بندوں کو شکر کی توفیق عطا فرما کر ان پر احسان کرتا ہے۔ شکر کی توفیق
مل جانا بذات خود ایک قابل شکر نعمت ہے اور اسی طرح دوسری نعمتوں کو دیکھ لیجیے۔
اللہ کے احسانات، اس کی کرم نوازی اور اس کی ذرہ نوازی کو دیکھیے
کہ وہ شکر کی وجہ سے بندے سے راضی بھی ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ شکر گزاروں سے محبت کرتا
ہے۔ وہ ان سے راضی ہو جاتا ہے۔ ان کی تعریف کرتا ہے، حالانکہ شکر کا فائدہ سراسر بندے
ہی کو ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ یہ انتہا درجے کا اکرام
ہے، جس سے بڑھ کر کوئی اکرام نہیں ہو سکتا۔ خود ہی نعمت دیتا ہے، خود ہی نعمت کے شکر
کی توفیق دیتا ہے، پھر اس کی وجہ سے شکر کرنے والے سے راضی ہو جاتا ہے، پھر اس کے شکر
کا فائدہ اسی پر لوٹا دیتا ہے، اور شکر کو مزید نعمتوں اور نوازشوں کا ذریعہ بنا دیتا
ہے، اور اس طرح مزید نعمتیں عطا فرماتا رہتا ہے۔ اگر صرف اسی بات کو دیکھ لیا جائے
تو نعمتوں کا حال اور اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی معلوم ہو جاتی ہے۔ یہاں ابن قیمa کی
بات ختم ہوئی جو انہوں نے شکر کے بارے میں بڑی عمدگی کے ساتھ اپنی کتاب مدارج السالکین
میں لکھی ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ
سے ڈرو! ہر حال میں شکر گزاری پر قائم رہو۔ اس طرح آپ کی زندگی بہتر ین بن جائے گی،
آپ کے معاملات بہتر بن جائیں گے اور مزید نعمتیں نصیب ہوتی رہیں گی۔ ہمیشہ یاد رکھو
کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخلوق میں بہترین ہستی پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے نیکیاں کرنے کا اور برائیاں چھوڑنے کا سوال
کرتے ہیں۔ مسکینوں سے محبت کا سوال کرتے ہیں۔ تیری مغفرت اور رحمت کے خواہشمند ہیں۔
جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنے چاہے تو ہمیں فتنے سے بچا کر اپنا پاس بلا لینا۔
اے اللہ! ہم تجھ سے نعمتوں کے زوال سے، عافیت کے خاتمے سے، اچانک آنے والی پکڑ سے
اور تجھے ناراض کرنے والی ہر چیز سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ اے اللہ! ہمارے نفس کو
پرہیز گار بنا۔ اسے پاکیزہ فرما! تو ہی اسے بہترین طریقے سے پاک کرنے والا ہے۔ تو ہی
اس کا ولی اور مولیٰ ہے۔
No comments:
Post a Comment