Saturday, November 02, 2019

احکام ومسائل 41-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

قرنِ شیطان سے کیا مراد ہے؟!
O حدیث میں ہے کہ مشرق کی طرف سے قرنِ شیطان طلوع ہو گا۔ اس سے کیا مراد ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہابa کی تحریک دعوت توحید کی طرف اشارہ ہے‘ اس کی وضاحت کریں۔
P سیدنا عبداللہ بن عمرw سے روایت ہے‘ انہوں نے رسول اللہe سے سنا جبکہ آپ مشرق کی طرف منہ کیے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے: ’’آگاہ رہو‘ فتنہ اسی طرف سے رونما ہو گا جدھر سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری‘ الفتن: ۷۰۹۳)
قرن کے معنی قوت کے ہیں‘ یعنی مشرق کی طرف سے شیطانی قوت کا ظہور ہو گا۔ رسول اللہe نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بطور پشین گوئی فرمایا کہ ادھر سے فتنہ ظاہر ہو گا۔ مدینہ طیبہ سے مشرق کی طرف کوفہ‘ بابل اور خراسان وغیرہ کا علاقہ ہے۔ سرزمین عراق بھی اسی طرف ہے۔ رسول اللہe کے فرمان کے مطابق یہ علاقہ فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہe نے توجہ دلانے کے باوجود اس علاقہ کے لیے دعا نہیں کی۔ چنانچہ آپe نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔‘‘ …صحابہ کرام] نے عرض کیا‘ اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی۔ آپe نے فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔‘‘ صحابہ کرام] نے عرض کیا‘ اللہ کے رسول! ہمارے نجد میں بھی؟ آپe نے فرمایا: ’’وہاں زلزلے اور فتنے رونما ہوں گے۔ وہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔‘‘(بخاری‘ الفتن: ۷۰۹۴)
واضح رہے کہ نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں اور نجد کے علاقے دو ہیں‘ ایک نجد حجاز ہے اور دوسرا نجد عراق ہے۔ مدینہ طیبہ سے مشرق کی جانب نجد عراق ہے۔ تمام فتنوں کی بنیاد سیدنا عثمانt کی شہادت ہے جس کی منصوبہ بندی سرزمین عراق میں کی گئی۔ اسی کو نجد عراق کہا جاتا ہے۔ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہور ہو گا۔ یاجوج ماجوج اور دجال ادھر سے آئیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سرزمین عراق ہمیشہ سے فتنوں کی تخم ریزی کے لیے بڑی زرخیز واقع ہوئی ہے۔ ہم مختصر طور پر ان فتنوں کی نشاندہی کرتے ہیں جنہوں نے عراق میں جنم لیا یا آئندہ ادھر سے ظاہر ہوں گے:
\          سیدنا نوحu کی دعوت توحید کے مقابلہ میں ود‘ سواع‘ یغوث‘ یعوق اور نسر جیسے بتوں کو سرزمین عراق میں نصب کیا گیا تھا تا کہ شیطان کی بندگی کو رواج دیا جائے۔
\          سیدنا ابراہیم u نے جب ڈنکے کی چوٹ پر اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی تو حکومتی سطح پر ان کی مخالفت کی گئی۔ انہیں زندہ جلانے کے لیے جو الاؤ تیار کیا گیا تھا وہ بھی عراق میں تھا۔
\          سیدنا عثمانt کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے فسادی‘ پھر انہیں شہید کرنے والے بھی عراقی تھے جنہوں نے آپt پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے۔
\          سیدنا علیt نے جب مدینہ طیبہ کی بجائے کوفے کو اپنا دار الخلافہ قرار دیا تو اہل کوفہ نے آپ کو اس قدر پریشان کیا کہ وہ ساری عمر اپنوں سے ہی برسرپیکار رہے۔
\          پارسائی اور دینداری کے روپ میں اٹھنے والا خوارج کا فتنہ تکفیری بھی سرزمین عراق سے پیدا ہوا جنہوں نے اسلام کے عینی شاہدین صحابہ کرام] تک کو کافر قرار دے ڈالا۔
\          سیدنا حسینt کو اپنی ہمدردیوں کا جھانسہ دے کر جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کرنے والے عراقی ہی تھے‘ امت مسلمہ اس فتنے کا درد ابھی تک محسوس کر رہی ہے۔
\          تاتاریوں کا فتنہ بھی اسی طرف سے شروع ہوا جنہوں نے مسلمانوں کا سرمایہ علم وادب دریائے دجلہ کی نذر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے اسلامی ملکوں کو تہس نہس کر ڈالا۔
\          کتاب وسنت کی روشنی میں تحریک آزادی فکر کے مقابلے میں رائے اور قیاس کا فتنہ بھی کوفے کے در ودیوار سے اٹھا‘ انہوں نے صحیح احادیث رد کرنے کے لیے عجیب وغریب اصول وضع کیے۔
\          سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے خلاف عراق کے صدر صدام نے جو گل کھلائے وہ سب اہل اسلام کے علم میں ہے۔
\          مستقبل میں بین الاقوامی فتنہ گر دجال کا ظہور بھی مشرقی جانب سے ہو گا جس سے ہر نبی نے اپنی اپنی امت کو آگاہ کیا۔ یہ ایسا عالمی فتنہ ہو گا جس کے اثرات ہر جگہ محسوس کیے جائیں گے۔
کچھ کج فہم‘ جاہل اور متعصب لوگ شیخ محمد بن عبدالوہابa کی تحریک دعوت توحید کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ نجد حجاز سے تحریک اٹھی نیز وہ مسلمان اور موحد انسان تھے جنہوں نے لوگوں کو خالص توحید اور اتباع سنت کی دعوت دی تھی۔وہ انہیں شرک وبدعت سے منع کرتے تھے۔ قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنا‘ وہاں نذر ونیاز کا دھندا کرنا‘ مصیبت کے وقت غیر اللہ کو پکارنا وغیرہ سے لوگوں کو منع کرتے اور بدعات سے روکتے تھے۔ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث کے عین مطابق ہیں۔ سعودی حکومت بھی اس دعوتِ توحید پر قائم ہے اور دین اسلام کی آبیاری کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قائم ودائم رکھے۔
واضح رہے کہ شیطان طلوع وغروب کے وقت اپنا سر سورج پر رکھ دیتا ہے تا کہ سورج پرستوں کا سجدہ شیطان کے لیے ہو۔ ممکن ہے کہ قرن الشیطان یا قرن الشمس سے یہی مراد ہو۔ واللہ اعلم!
نا تمام بچے کا جنازہ
O اگر کوئی بچہ وقت سے پہلے نا تمام حالت میں پیدا ہو تو کیا شرعی طور پر اس کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔
P نا تمام بچے سے یہ مراد ہے کہ اس کے شکم مادر میں چار ماہ مکمل ہو چکے ہوں اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو پھر وہ مردہ پیدا ہو۔ اس چار ماہ مدت سے پہلے اگر کسی صورت میں ساقط ہو جائے تو میت نہیں کہا جائے گا کیونکہ ابھی تک وہ ایسا مجسمہ ہے جس میں روح نہیں پڑی اور حدیث میں صراحت ہے کہ جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (بخاری‘ بدء الخلق: ۳۲۰۸)
اس وضاحت کے بعد اگر چار ماہ کی مدت کے بعد مردہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے ضروری نہیں‘ اس سلسلہ میں امام بخاریa نے امام ابن شہاب کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ جو بچہ پیدائش کے وقت چیخ مار کر رویا ہو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس نے پیدائش کے وقت چیخ نہیں ماری تو وہ ناتمام بچہ ہے۔ اس لیے اس کی نماز جنازہ نہیں ادا کی جائے گی۔ (بخاری‘ الجنائز: ۱۳۵۸)
لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بچے کے جنازے کے لیے چیخ مارنے کی شرط محل نظر ہے کیونکہ جس روایت پر اس موقف کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں۔ وہ روایت حسب ذیل ہے: ’’جب بچہ آواز نکالے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے گا اور وہ وارث بھی ہو گا۔ (ابن ماجہ‘ الفرائض: ۲۷۵۰)
محدث العصر علامہ البانیa اس کے متعلق فرماتے ہیں: ’’یہ روایت قابل استدلال نہیں۔‘‘ (احکام الجنائز: ۸۱)
البتہ وارث بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ پیدا ہو۔ اس کی بنیاد ایک دوسری روایت ہے جسے سیدنا عبداللہ بن جابرt اور سیدنا مسور بن مخرمہt نے بیان کیا ہے۔ (ابن ماجہ‘ الفرائض: ۲۷۵۱)
نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق حسب ذیل حدیث صریح ہے: ’’وہ بچہ جو ناقص پیدا ہو‘ اس کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الجنائز: ۳۱۸۰)
اس بناء پر نا تمام بچے پر نماز جنازہ کے لیے اس کے چیخ مار کر رونے کی شرط لگانا صحیح نہیں۔ واللہ اعلم!
مدارس میں موبائل رکھنے پر سزا
O ہمارے بعض مدارس میں یہ قانون ہے کہ اسے بڑا موبائل رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی‘ اگر کوئی طالب علم اس قانون کو ہاتھ میں لے کر موبائل اپنے پاس رکھتا ہے تو سزا کے طور پر وہ موبائل توڑ دیا جاتا ہے یا ہمیشہ کے لیے اسے ضبط کر لیا جاتا ہے۔ کیا شرعا ایسا کرنا جائز ہے؟!
P طلبہ کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے اس قسم کا قانون بنایا جا سکتا ہے جو ان کی تعلیم اور حسن تربیت کے لیے ہو۔ مثلاً وہ موبائل اپنے پاس نہ رکھیں تا کہ فیس بک اور یو ٹیوب دیکھنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ یہ ایک انتظامی نوعیت کا قانون ہے‘ اگر کوئی طالب علم اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وقتی طور پر موبائل کو ضبط کیا جا سکتا ہے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ جب طالب علم اپنے گھر جائے تو اسے اپنے والدین کے حوالے کر آئے۔ مستقل طور پر اسے اپنے قبضے میں لے لینا یا اسے توڑ دینا شرعا جائز نہیں۔ کیونکہ ایسا کرنا زیادتی اور ظلم ہے۔ اس سلسلہ میں ہم یہ گذارش کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ طلبہ کی شروع دن سے ذہن سازی کی جائے کہ وہ اپنی تمام تر توجہات اپنی پڑھائی پر مرکوز رکھیں اور ایسی سرگرمیوں میں خود کو مصروف نہ کریں جو ان کی تعلیم میں رکاوٹ کا باعث ہوں۔ ناروا قسم کی پابندیوں سے نقصان ہوتا ہے اور ان سے طلبہ میں بغاوت وسرکشی کے جراثیم پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہم نے اس بات کا جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں دوران تدریس مشاہدہ کیا ہے۔ بہرحال یہ ایک انتظامی معاملہ ہے جسے بہتر انداز میں نمٹانا چاہیے۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)