قرآن کریم سے صحابہ کرام ] کا طریق استفادہ
تحریر: جناب سید
عبدالکریم
قرآن مجید کے ساتھ مسلمانوں کا جو لگاؤ اور شغف ہے وہ کسی
دوسری کتاب کے ساتھ کسی قوم کا نہیں ہے۔ اس گئے گذرے زمانے میں بھی جگہ جگہ قرآنی
مکتب قائم ہیں اور باوجود یہ کہ بے شمار کتابیں اور بے اندازہ دوسرے علوم وفنون موجود
ہیں جو انسان کی دلچسپی کا محور بن رہے ہیں۔ لیکن ہر مسلمان بچہ قرآن ضرور پڑہتا ہے
اور سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد اس کتاب مقدس کو حفظ کرتے ہیں۔ یہ تو ہے ہمارے
زمانہ کی حالت، اب ذرا اس دور زریں کا تصور کیجیے جبکہ مسلمانوں کے درمیان اللہ کا
نبی (آپ پر اللہ کی سلامتی ہو) موجود تھا اور اللہ کا کلام روز وشب اتر رہا تھا۔ دور
صحابہ کرامؓ میں حالت یہ تھی کہ کتاب اللہ صحابہ کرامؓ کی زندگی کا محور تھی۔ عرب جو
اسلوب کے حسن کی بنا پر نثر میں شعر کہتے تھے اور بلا کے ذہین تھے، جب ان کے سامنے
اس قسم کی ایک بلند پایہ کتاب آئی تو وہ اس کے شیدائی بن گئے۔ شعراء اپنے شعر بھول
گئے۔ خطباء قرآن کے مقابلے میں گونگے ہو گئے، جو قادر الکلام تھے ان کو زبان کھولنے
کا یارا نہ رہا۔ اب ان کا اوڑھنا، پچھونا قرآن تھا اور اسی کو انہوں نے حرزِ جان بنا
لیا تھا۔
مسجد نبوی نے ایک مکتب، ایک مدرسہ اور ایک اکادمی کی حیثیت اختیار
کر لی تھی۔ ادھر کتاب اللہ کی کتابت ہو رہی ہے۔ ادھر ایک گروہ تلاوت میں مصروف ہے،
کہیں قرآن کے مضامین سمجھے اور سمجھائے جا رہے ہیں تو کہیں فقہی اور دینی مسائل پر
غور وفکر جاری ہے۔ کسی کو کوئی مشکل پیش آ رہی ہے تو کوئی دوسرا مشکلات کی وضاحت کرنے
میں مصروف ہے۔ اگر کہیں اختلاف ہو گیا تو حضورe کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے اور آپ تعلیم وتربیت اور
تشریح وتوضیح کا فرض سرانجام دے رہے ہیں۔ مسجد نبوی میں ایک طرف ذکر وفکر اور عبادت
گزاری ہو رہی ہے تو دوسری طرف علمی مجلسیں گرم ہیں۔ رسول انورe حجرہ
مبارک سے نکلتے ہیں، دونوں مجالس کی نگاہیں اٹھتی ہیں کہ دیکھیں آپe کس
مجلس میں رونق افروز ہوتے ہیں۔ آپe مجلس تعلیم وتدریس کو اولیت دے کر اشارہ فرما دیتے ہیں
کہ دین میں علم کا کیا مقام ہے؟ غرض ایک طرف تعلیم وتربیت کا یہ سلسلہ چل رہا ہے تو
دوسری طرف کچھ اور صحابہ وحی ربانی کو حفظ کر رہے ہیں، کوئی مفہوم پوچھ رہا ہے، کوئی
کسی کے لہجے کی تصحیح کر رہا ہے۔ غرض ہر طرف قرآن ہی قرآن ہے اور اصحاب صفہ نے تو
اپنے آپ کو قرآن کے لیے وقف ہی کر دیا ہے۔ ساری دنیا سے کٹ کر وہ صرف اللہ کی کتاب
اور اس کے رسولe سے
جڑ گئے ہیں۔ ضروریات زندگی تک سے دست کش ہیں۔ کچھ اصحاب خیر کھجور کے خوشے لاکر مسجد
میں رکھ دیتے ہیں اور یہ لوگ ان پر بسر اوقات کر لیتے ہیں۔
اس دور کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد قرآن اور صحابہ کے تعلق
سے جو بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں ان کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے۔
تلاوت قرآن:
صحابہؓ میں سے ہر فرد قرآن کا کچھ حصہ روزانہ پڑھتا تھا۔ چونکہ
ان بزرگوں کو الفاظ اور تراکیب سمجھنے کی ضرورت نہ تھی (کیونکہ معاملہ اپنی زبان کا
تھا) لہٰذا وہ معانی ہی پر غور وفکر کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے اپنی اپنی طاقت کے مطابق
قرآن مجید کے حصے مقرر کر رکھے تھے جن کی تلاوت وہ ہر روز کرتے تھے۔ حضورe نے
منع فرمایا تھا کہ کوئی بھی سات دن سے کم وقت میں قرآن ختم نہ کرے۔ صحابہ کرامؓ قرآن
کو انفرادی طور پر بھی پڑھتے تھے اور ایک جگہ جمع ہو کر بھی۔ ایک دفعہ مسجد نبوی میں
صحابہ کرامؓ قرآن پڑھ رہے تھے جن میں بدوی، عجمی اور دوسرے صحابہ شریک تھے۔ نبیe تشریف
لائے اور نہایت خوش ہوئے۔ فرمایا: ’’پڑھے جاؤ سب کا طرز اچھا ہے۔ … اس کے بعد ایسی
قوم پیدا ہو گی جو قرآن مجید کو تیر کی طرح سیدھا کرے گی لیکن اس کا مقصد ثواب آخرت
نہ ہو گا بلکہ دنیا ہو گی۔‘‘ … ایک دوسری روایت میں آتا ہے: ’’قرآن ان کے حلق سے
نیچے نہ اترے گا۔‘‘ یعنی یہ لوگ اس پر عمل نہ کریں گے اور نہ ہی اسے سمجھ کر پڑھیں
گے۔ اسی طرح ایک دفعہ آپe نے
صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو تلاوت کرتے دیکھا تو فرمایا: ’’شکر ہے کہ کتاب اللہ ایک
ہے اور تم میں سرخ، سفید اور سیاہ سب قسم کے لوگ شامل ہیں۔‘‘ صحابہ کرامؓ بڑے شوق کے
ساتھ ایک دوسرے سے کلام الٰہی سنتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ کے متعلق ایک روایت میں آتا ہے
کہ وہ دیر سے حجرے میں تشریف لائیں، حضورe نے دریافت فرمایا تو کہا کہ کوئی صحابیؓ نہایت خوش الحانی
سے قرآن مجید کو پڑھ رہے تھے، میں سنتی رہی۔ خود حضورe مختلف
صحابہؓ سے قرآن پاک سنتے تھے۔
حفظ قرآن:
اگرچہ رسول اللہe کے
زمانے میں قرآن مجید کی کتابت ہو چکی تھی لیکن مسلمانوں نے حفاظت کتاب کا مدار صرف
کتاب پر نہ رکھا بلکہ بے شمار افراد نے اسے مکمل طور پر حفظ کر لیا تھا۔ عرب بلا کا
حافظہ رکھتے تھے اور پھر معاملہ جب اللہ کی کتاب کا ہو جو انہیں دنیا کی ہر چیز سے
زیادہ عزیز تھی تو وہ اسے حفظ کیوں نہ کرتے۔ ان کے حفظ کی تو یہ کیفیت تھی کہ صرف ایک
جنگ یمامہ میں (حضرت صدیقؓ کے عہد میں) شہادت پانے والوں میں ۷۰۰ حفاظ تھے۔ رسول
اکرمe کے
زمانے میں جن لوگوں نے پورا قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور مسند تعلیم وارشاد پر متمکن
تھے ان کی تعداد خاصی ہے۔ ان میں خواتین صحابیات بھی تھیں۔
استفادہ کا طریقہ:
صحابہ کرامؓ نے مطالعہ قرآن میں تین طریقے استعمال کیے، حضور
سے دریافت کرنا ایک دوسرے سے دریافت کرنا اور خود غور وفکر کرنا۔ رسول اللہe سے
دریافت کرنے کے کئی واقعات کتب تفسیر اور احادیث میں مذکور ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے
کہ بعض اوقات تفسیر آیات کے لیے وحی نازل ہوئی اور بعض اوقات حضور اکرمe نے
خود تشریح فرما دی۔ یعنی صحابہ کرامؓ صرف عربی سے واقفیت کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ
رسول اللہe سے
مطلب دریافت کیا کرتے۔
جب حرمت شراب نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ کو شبہ ہوا کہ جو لوگ
اعلان حرمت سے پہلے ترک شراب کے بغیر فوت ہو گئے وہ بھی گنہگار ہیں اور ان سے مؤاخذہ
ہو گا۔ اس پر سورہ مائدہ کی آیت ۹۳ نازل ہوئی:
{لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْا…} (المائدۃ: ۹۳)
آیت… {لَمْ یَلْبِسُوٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ} (۶: ۸۲) میں حضورe نے
ظلم کی تشریح شرک سے کی اور آل عمران کی آیت ۶۴ کے بارے میں جب
صحابہ کرامؓ نے یہ سوال کیا کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو ’’اربابا من
دون اللہ‘‘ نہیں سمجھتے۔ حضورe نے
’’رب‘‘ کے مفہوم کی وضاحت فرمائی کہ اس سے مراد قانون ساز ہے اور ظاہر ہے کہ اہل کتاب
اپنے مذہبی پیشواؤں کی بطور خود حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھتے
ہیں۔
حضورe کے
انتقال کے بعد صحابہ کرامؓ کو جب کوئی اشکال یا شبہ ہوتا تو وہ بے تکلفی سے ایک دوسرے
سے استفادہ کرتے۔ رسول اللہe کی
وفات کے وقت حضرت عمرؓ کا شدت غم سے یہ خیال تھا کہ آپe فوت
نہیں ہوئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ جس شخص نے آپe کے
انتقال کا نام لیا میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے آل عمران کی
آیت ۱۲۴ سے استدلال فرمایا
تو آپ خاموش ہو گئے اور عمر بھر حضرت صدیقؓ کے ممنون احسان رہے۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت عمرو بن معدیکربؓ کو غلط فہمی
تھی کہ
{لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْا} (المائدۃ: ۹۳)
کے مطابق شراب بدکاروں کے لیے تو حرام ہے اور نیکوکاروں کے لیے
جائز ہے لیکن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے یہ تشریح کی کہ یہ آیت لوگوں کی اس غلط فہمی
کو دور کرنے کے لیے اتری ہے کہ جو لوگ اب سے
پہلے شراب پیتے تھے اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کو شاید آخرت میں عذاب دیا
جائے گا۔ اللہ نے وضاحت فرما دی کہ ان سے کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا۔ اسی طرح سعی صفا ومروہ
کے بارے میں حضرت عروہ کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا} (البقرۃ: ۱۸۵) سے معلوم ہوتا ہے
کہ اگر سعی کرے تو گناہ نہیں لیکن اگر کوئی چھوڑ دے تو بھی مؤاخذہ نہ ہو گا۔ سیدہ
عائشہؓ نے انہیں سمجھایا کہ دراصل مسلمان اسی سعی کو مکروہ سمجھنے لگے تھے کیونکہ جاہلیت
کے دور میں وہاں بت رکھ دیے گئے تھے۔ اللہ
تعالیٰ نے فرمایا: سعی کرو یہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔
تیسرا طریقہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ آیات پر خود غور وفکر کر
کے نئے نکات سمجھ لیتے تھے لیکن یہ نئے نکات اسلام کے مجموعی تصور کے مطابق اور اسالیب
کلام عرب کے مطابق ہوتے تھے۔ کیونکہ قرآن مجید عام اسلوب کے مطابق عربی مبین میں نازل
ہوتا تھا۔ مثلاً ’’سورۃ النصر‘‘ اور ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ سے صحابہؓ نے یہ استنباط کیا کہ حضورe کی رحلت کا وقت قریب ہے۔
ایک دفعہ جب حضرت عمرؓ نے صحابہ کرامؓ سے سورہ بقرہ کی آیت
۲۶۶ میں بیان کردہ تمثیل
کا مفہوم دریافت کیا جس میں کہا گیا ہے کہ کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے
کہ اس کا بہترین باغ ہو اور وہ ضعیف ہو چکا ہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور اچانک
اس کا یہ باغ جل جائے؟ صحابہ کرامؓ خاموش ہو گئے اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے یہ
توجیہ کی ’’اللہ (دراصل) یہ بیان فرماتا ہے کہ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند نہیں
کرتا کہ وہ ساری عمر نیک کام کرتا رہے کہ جب اس کی عمر انتہا کو پہنچ رہی ہو اور وہ
خاتمہ بالخیر کا محتاج ہو لیکن اس سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جائے جو اس کی بری عاقبت
کا باعث ہو جائے۔ سورہ بقرہ کی اس تمثیل سے مقصود یہ ہے کہ احسان کرنے کے بعد احسان
جتلانے سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں لیکن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس سے مزید مفہوم
اخذ کیا جو قرآن وسنت کے مجموعی تصور کے مطابق ہے۔
عظمت وجلالت
صحابہ کرامؓ کے دلوں میں کتاب اللہ کی جو عظمت وجلالت تھی اس
کا تصور بھی مشکل ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمرؓ نے شرائط صلح کو ناپسند فرمایا
تھا لیکن بعد میں وہ پشیمان ہوئے اور مارے خوف کے چھپتے پھرے کہ کہیں ان کے بارے میں
تادیبی آیات نازل نہ ہو جائیں۔ چنانچہ اسی حال میں انہیں کسی نے پکارا کہ دربار نبوت
سے آپ کا بلاوا آیا ہے، گھبرا کر کانپ اٹھے لیکن جب حضور نے ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ (الفتح: ۱) کی آیات پڑھ کر
سنائیں تو تسلی ہوئی۔
ایک دن رسول اللہe تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہی لوگ گھاٹے میں
ہیں۔‘‘ ابوذرؓ خوفزدہ ہو گئے کہ شاید ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نازل ہو گئی، حالانکہ
دراصل آپe کی
مراد (جیسا کہ وضاحت ہو گئی) ان لوگوں سے تھی جو زکوٰۃ نہ دیتے تھے۔
جب آیت {وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ} نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ بہت گھبرائے کیونکہ بہتوں کے پاس
ضرورت سے زیادہ کچھ نہ کچھ پس انداز کردہ مال موجود تھا، حضرت عمرؓ نے لوگوں کی اس
پریشانی کو بھانپ لیا اور حضورe سے
عرض کیا کہ بظاہر یہ آیت عام لوگوں کے لیے سخت پریشانی اور گھبراہٹ کا سبب بنی ہوئی
ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ مال ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو اور نہ دی گئی ہو۔
اگر مقصود یہی ہوتا کہ ضرورت سے زیادہ کوئی بھی کچھ اپنے پاس نہ رہنے دے تو تقسیم میراث
کے حکم کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے۔ اس تشریح کے بعد حضرت عمرؓ نہایت خوش ہوئے اور
لوگوں کو بھی یہ خوشخبری سنا دی۔
عمل بالقرآن:
صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید پر عمل کر کے ایک ایسا معیار قائم
کر دیا ہے جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ سے نہیں مل سکتی۔ وہ ہر آیت پر عمل پیرا ہونے
کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن آمادہ رہتے تھے۔ تحویل قبلہ کا حکم سنتے ہی نئے قبلے کی
طرف منہ پھیر لیتے ہیں۔ ادھر شراب کی حرمت کا حکم آتا ہے اور ادھر جو جام ہونٹ تک
آچکے تھے وہ واپس چلے جاتے ہیں اور مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ نکلتی ہے، اس کے برتن
تک توڑ دیے جاتے ہیں۔ چار سے زائد بیویاں رکھنے کی ممانعت آتی ہے تو لوگ فوراً اپنی
عزیز بیویوں کو رخصت کر دیتے ہیں۔ اسی طرح حکم آتے ہی مشرک عورتوں کی تفریق کر دی
جاتی ہے۔ جب یہ آیت اترتی ہے {لَنْ تَنَالُُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ} ’’تم اس وقت تک نیکی حاصل نہ کر سکو گے جب تک تم اس چیز کو
خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہے۔‘‘ تو حضرت طلحہؓ اپنا محبوب ترین باغ اللہ کی راہ میں
دے دیتے ہیں۔ جب قرآن کریم نے حکم دیا کہ حضورe کے سامنے بلند آواز سے گفتگو نہ کی جائے تو حضرت عمرؓ
اس قدر آہستہ لہجے میں بات کرتے کہ لوگ سن نہ سکتے۔ دوسرے صحابی حضرت ثابت بن قیسؓ
جو بلند آواز تھے گھر ہی میں بیٹھ گئے اور حضورe کی خدمت میں حاضر ہونا (خدا کی ناراضی کے ڈر سے) چھوڑ
دیا۔ چنانچہ حضورe نے
کسی سے پوچھا کہ وہ بیمار تو نہیں ہیں؟ تفتیش پر انہوں نے بتایا کہ میں اونچی آواز
سے بولنے کا عادی ہوں اور آیت کے موجب وعید کا مستحق ہوں۔ آیت میں بلند آواز کا
مطلب نبیe کی
بے ادبی ہے۔ حضورe نے
فرمایا: ’’آپ تو جنتی ہیں۔‘‘ جب پردے کا حکم ہوا تو سب عورتوں نے اپنی چادریں لٹکائیں
اور اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ شاید ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوئے ہیں۔
غرض یہ تھا صحابہ کرامؓ کے تعلق بالقرآن کا حال، اسی کی برکت
سے اتنے مختصر عرصے میں عرب جیسی قوم نے وہ اصلاحات قبول کر لیں جن کی نظیر انسانی
تاریخ میں نہیں مل سکتی۔
No comments:
Post a Comment