Saturday, November 09, 2019

مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق 42-2019


مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق

تحریر: جناب مولانا محمد عثمان
اسلام باہمی اخوت کا دین ہے۔مسلمانوں کے ایک دوسرے پرکئی حقوق ہیںجن میں سے چھ حقوق بہت اہم ہیں:
سیدنا ابوہریرہt بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا:
[’حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتّ۔‘ قِیلَ: مَا ہُنَّ یَا رَسُولَ اللہِ؟، قَالَ: ’إِذَا لَقِیتَہُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ، وَإِذَا دَعَاکَ فَاَجِبْہُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْہُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللہَ فَشَمِّتْہُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْہُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْہُ۔] (مسلم: ۲۱۶۲)
’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں۔ کہاگیا: اللہ کے رسول! وہ کون کون سے ہیں؟ آپ e نے فرمایا: 1 جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہو۔ 2 جب وہ دعوت پر مدعو کرے تو دعوت قبول کر 3 جب وہ تجھ سے نصیحت (خیرخوا ہی)طلب کرے تو اس کی خیرخواہی کر۔ 4 اورجب وہ چھینک مارکر الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے(یعنی  یَرْحَمُکَ اللہ)کہہ 5 اور جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی بیمار پرسی کر۔ 6 اور جب وفات پاجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کر۔‘‘
 پہلاحق:سلام کہنا اور جواب دینا:
رسول اللہ e نے فرمایا:
[إِذَ  ا لَقِیتَہُ   فَسَلِّمْ عَلَیْہِ۔]
’’جب تو (کسی مسلمان سے) ملے تو اسے سلام کہو۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے۔
[رَدُّ السَّلَام۔] ’’سلام کا جواب دینا۔‘‘
سلام کہنا بھی مسلمان پر حق ہے اور سلام کا جواب دینا بھی حق ہے۔
سلام بمعنی [سَلَامَۃ] ہے یعنی [سَلَامَۃُ اللّٰہِ عَلَیْکُم] ’’تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔‘‘ جب کوئی شخص دوسرے کوسلام کہتاہے تووہ اسے اس بات سے آگاہ کرتاہے کہ میری طرف سے بے فکر ہوجاؤ کہ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا، کیونکہ جو اللہ رب العزت سے اس کی سلامتی کی دعا کررہاہے وہ خود اسے تکلیف کیسے دے سکتاہے۔
جب مسلمان سے ملے اسے سلام کہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب ملاقات ہوتوسلام کرے اور جب جداہوں تو سلام کہنے کی ضرورت نہیں۔
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا:
[إِذَا انْتَہَی اَحَدُکُمْ إِلَی الْمَجْلِسِ، فَلْیُسَلِّمْ فَإِذَا اَرَادَ اَنْ یَقُومَ، فَلْیُسَلِّمْ] (ابوداؤد: ۵۲۰۸)
’’جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تواسے چاہیے کہ سلام کہے اور جب وہاں سے اٹھنا چاہے تب بھی سلام کہے۔‘‘
 اسلام کی بہترین خصلت:
سیدنا عبداللہ بن عمروt سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ e سے سوال کیا کہ کون ساسلام افضل ہے (یعنی اسلام کی کون سی خصلت سب سے بہترین ہے)؟ آپ e نے فرمایا:
[تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ۔] (بخاری: ۲۸)
’’تمہاراکھانا کھلانا اور سلام کہنا اسے،جسے تم پہچانتے ہو اور جسے نہیں پہچانتے۔
 سلام کہنے کی وجہ سے جنت میں داخلہ:
سیدنا عبداللہ بن سلامt بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم e کا جو ارشاد میں نے سب سے پہلے سنا وہ یہ تھا:
[یَا اَیُّہَا النَّاسُ، اَفْشُوا السَّلَامَ، وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُونَ الجَنَّۃَ بِسَلَامٍ] (ترمذی: ۲۴۸۵)
’’اے لوگو! سلام عام کرو،کھانا کھلایاکرو، صلہ رحمی کرو، اور جب لوگ سورہے ہوں توتم رات کو نماز (تہجد) پڑھو،تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔‘‘ (البانی: صحیح)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا:
[وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ! لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا، اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلَی شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ۔] (مسلم: ۵۴)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!)تم لوگ اس وقت تک جنت میں نہیںجا سکوگے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ۔اور اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔کیامیں تمہیں ایسی بات نہ بتادوں کہ اس پر عمل کرنے سے آپس میں محبت کرنے لگو؟،آپس میں سلام بہت زیادہ کیا کرو۔‘‘
 نماز پڑھنے والے کوسلام کہنا:
نماز پڑھنے والے کو سلام کہنا چاہیے البتہ وہ نما زکی حالت میں ہاتھ کے اشارے سے جواب دے‘ زبان سے نہیں۔سیدنا عبداللہ بن عمرw بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ e مسجد قباء میں نمازپڑھنے کے لئے تشریف لائے۔ (اسی اثنا میں آپ کے پاس) انصار آگئے۔ [فَسَلَّمُوا عَلَیْہِ وَہُوَ یُصَلِّی] ’’پس وہ آپ کو سلام کہتے تھے اور آپ e نماز پڑھ رہے تھے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عمر w کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا بلالt سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ e کو کس طرح (سلام کا) جواب دیتے دیکھا،جب کہ آپe نمازپڑھ رہے تھے اور وہ لوگ آپ کوسلام کہتے تھے؟۔سیدنا بلالt نے جواب دیا: [یَقُولُ ہٰکَذَا، وَبَسَطَ کَفَّہُ] ’’آپ e اس طرح کیا کرتے تھے اور (سیدنا بلالt نے) اپنی ہتھیلی پھیلائی۔‘‘ (ابوداؤد: ۹۲۷۔ قال الالبانی: صحیح)
 سلام کے ہر کلمہ پر دس نیکیاں:
سیدنا عمران بن حصینt سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریمe کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ’’السلام علیکم‘‘ آپ نے اس کے سلام کا جوا ب دیااور وہ بیٹھ گیا۔تو نبی کریم نے فرمایا: (اسے) ’’دس‘‘ (نیکیاں ملیں) پھر دوسراآدمی آیااور اس نے کہا: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ آپ نے سلام کا جواب دیااور وہ بیٹھ گیا توآپ نے فرمایا: (اسے) ’’بیس‘‘ (نیکیاں ملیں)۔ پھر ایک اور آدمی آیاتو اس نے کہا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ آپ نے جواب دیااوروہ بھی بیٹھ گیا،تو آپ نے فرمایا: (اسے) ’’تیس‘‘(نیکیاں ملی ہیں)۔ (ابوداؤد: ۵۱۹۵)
سلام کے کامل الفاظ اتنے ہی ہیں،اس سے زیادہ الفاظ رسول اللہ e سے ثابت نہیں ہیں۔
(ومغفرتہ) کے اضافے کی روایت ابوداؤد میں ہے جس کے متعلق منذری نے فرمایا:’’اس میں ابومرحوم (عبدلرحمن بن میمون) اور سہل بن معاذ دوراوی ہیں [لَا یُحْتَج بِھمَا] ’’ان دونوں کے ساتھ دلیل نہیں پکڑی جاتی۔‘‘ اس روایت کو علامہ محمد ناصر الدین الالبانیa نے ضعیف کہا ہے۔
دوسراحق:دعوت قبول کرنا:
رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: [وَإِذَا دَعَاکَ فَاَجِبْہُ] ’’جب وہ دعوت پر مدعو کرے تو دعوت قبول کر۔‘‘
یہ الفاظ عام ہیں کسی مقصد کے لئے بھی مسلمان بھائی بلائے تو اس کے پاس جانا حق ہے۔ مثلا وہ مدد کے لئے پکارتاہے یاکسی مشورہ طلب کرنے کیلئے یاکھانے کے لئے،غرض کسی بھی جائز کام کے لئے دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرنا حق ہے۔
مگر ہاں اگرکوئی آدمی کسی برائی کی دعوت دے، یاکسی ایسے کام کی طرف بلائے جہاں برائی کا امکان ہوتو اسے چاہیے کہ اس کی دعوت کو قبول ہی نہ کیاجائے۔
 تیسراحق:نصیحت،خیرخواہی کرنا:
رسول اللہe نے فرمایا:
[وَإِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَہُ]
’’جب وہ تجھ سے نصیحت(خیرخواہی) طلب کرے تو اسے نصیحت (اس کی خیرخواہی)کر۔‘‘
مسلمان کی خیرخواہی ہر حال میں ضروری ہے۔
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe  نے ارشاد فرمایا:
[وَیَنْصَحُ لَہُ إِذَا غَابَ اَوْ شَہِدَ۔]
’’وہ حاضر ہو یا غائب ہو، اس کی خیرخواہی کرے۔‘‘
یعنی حاضر ہے تو اس کی جھوٹی تعریف، منافقت، دھوکا اور غلط مشورہ نہ دے۔اگر غائب ہے تو اس کی غیبت، چغلی،بدخواہی وغیرہ نہ کرے،یعنی ہر حالت میں اس کی بھلائی کی فکر کرے۔
ایک اورروایت میں ہے سیدنا تمیم داریt بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا:
[الدِّینُ النَّصِیحَۃُ قُلْنَا: لِمَنْ؟ یا رسول اللہ! قَالَ: لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِم۔]
’’دین نصیحت (خلوص، خیر خواہی) کا نام ہے۔ صحابہ کرام] نے پوچھا: (اے اللہ کے رسول!) کس کے لئے؟آپ e نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے لئے،اس کی کتاب کے لئے،اس کے رسول کے لئے،اہل ایمان کے ائمہ،حکام اورعام مسلمانوں کے لئے۔‘‘ (مسلم: ۵۵‘ ابوداؤد: ۴۹۴۴)
اللہ تعالیٰ کے لئے نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبودیت میں سر شاررہے۔اس کی توحید کااقرار واظہار کرے اور شرک سے بیزاراور دور رہے۔ رسول کے لئے نصیحت یہ ہے کہ ان کی رسالت کااقرار واظہار اور بے میل اطاعت کرے،بدعات سے بیزاراوردور رہے۔کتاب اللہ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ کتاب اللہ کواپنا دستور زندگی بنائے اور تمام مسائل اس کی روشنی میں انجام دینے کے لئے کوشاں رہے۔حکام وقت کے لئے نصیحت یہ ہے کہ خیروخوبی کے کاموںمیں ان کی اطاعت کرے اور ان کے ساتھ معاون بنے۔ ظلم وتعدی کی صورت میں انہیں بازرکھنے کی کوشش کرے اور ان کا معاون نہ بنے۔ عام مسلمانوں میں حسب مراتب، دین ودنیاکے معاملات میں بھلائی سے پیش آئے،ان کاخیرخواہ رہے،ان کودھوکا نہ دے،کسی کوتکلیف نہ پہنچائے اور دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے،یہی ان کے لئے نصیحت ہے۔
نصیحت اور خیرخواہی کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ سیدنا  جریر بن عبداللہt نے رسول اللہe کی بیعت کی کہ نماز پڑھاکروں گا،زکاۃ دیاکروں گا [وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ] ’’اور ہر مسلمان کے لئے (اچھی) نصیحت،خیرخواہی کروں گا۔‘‘ (بخاری: ۱۴۰۱‘ مسلم: ۵۶‘ ابوداؤد: ۴۹۴۵‘ ترمذی: ۱۹۲۵)
 چوتھاحق:چھینک کاجواب دینا:
رسول اللہ e نے فرمایا:
[وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللہَ فَشَمِّتْہُ]
’’جب وہ چھینک مارکر الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے‘‘ یعنی [یَرْحَمُکَ اللہ] کہہ۔‘‘
ایک روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہt نبی کریمe سے بیان کرتے ہیں کہ آپ e نے فرمایا:
[إِذَا عَطَسَ اَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ: الحَمْدُ لِلَّہِ! وَلْیَقُلْ لَہُ اَخُوہُ اَوْ صَاحِبُہُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ، فَإِذَا قَالَ لَہُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ، فَلْیَقُلْ: یَہْدِیکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ۔] (بخاری: ۶۲۲۴)
’’جب تم میں سے کسی کوچھینک آئے تو (الحمدللہ) کہے،اس کا بھائی یا ساتھی اسے [یَرْحَمُکَ اللہ] کہے، جب وہ [یَرْحَمُکَ اللہ] کہے تو یہ کہے [یَہْدِیکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ] ’’اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے،جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ  الحمدللہ  کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے [یَرْحَمُکَ اللہ] کہے اور جمائی شیطان کی طرف سے ہے، جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہوسکے اسے روکے،کیونکہ جب وہ ’’ہا‘‘ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستاہے۔‘‘ (بخاری: ۶۲۲۶)
 پانچواں حق:بیمار پرسی کرنا:
رسول اللہ e نے فرمایا: 
[وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْہُ۔]
’’جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی بیمار پرسی کر۔‘‘
سیدنا علیt بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ e کو فرماتے ہوئے سناآپe نے ارشادفرمایا:
[مَنْ اَتَی اَخَاہُ الْمُسْلِمَ، عَائِدًا، مَشَی فِی خَرَافَۃِ الْجَنَّۃِ حَتَّی یَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْہُ الرَّحْمَۃُ، فَإِنْ کَانَ غُدْوَۃً، صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُمْسِیَ، وَإِنْ کَانَ مَسَائً، صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُونَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُصْبِحَ۔] (ابن ماجہ: ۱۴۴۲۔ وقال الألبانی صحیح)
’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پاس عیادت کے لئے آتاہے تو وہ مریض کے پاس آکر بیٹھنے تک جنت کے پھل چنتا آتاہے۔جب وہ بیٹھ جاتاہے تو اس پر رحمت سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ اگر (عیادت) صبح کے وقت ہوتو شام تک ستر ہزار فرشتے اسے دعائیں دیتے رہتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہوتو صبح تک سترہزارفرشتے اسے دعائیں دیتے رہتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہt بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا:
[إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: یَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِی، قَالَ: یَا رَبِّ کَیْفَ اَعُودُکَ؟ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِینَ، قَالَ: اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ، اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ عُدْتَہُ لَوَجَدْتَنِی عِنْدَہُ؟]
’’بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا:’’اے آدم کے بیٹے!میں بیمار ہوا تم نے میری عیادت نہیں کی؟۔‘‘وہ کہے گا:اے میرے رب! میں آپ کی عیادت کیسے کرتاجبکہ آپ تو رب العالمین ہیں؟۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ مریض ہے،پھر تم  نے اس کی عیادت نہیں کی! کیا تمہیں علم نہیں تھااگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے بھی وہیں پاتا!۔‘‘ (مسلم: ۲۵۶۹‘ صحیح ابن حبان: ۲۶۹)
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق سی
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
چھٹا حق:اتباع الجنائز:
رسول اللہe نے فرمایا: [وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْہُ۔]
’’جب وفات پاجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کر۔‘‘
جب مسلمان فوت ہوجائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہونا گویا مسلمان کا یہ حق ہے اور اس میں بہت بڑا اجر ہے۔
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے ارشاد فرمایا:
[مَنْ شَھِدَ الجَنَازَۃَ حَتَّی یُصَلِّیَ، فَلَہُ قِیرَاطٌ، وَمَنْ شَھِدَحَتَّی تُدْفَنَ کَانَ لَہُ قِیرَاطَانِ، قِیلَ: وَمَا القِیرَاطَانِ؟ قَالَ: ’مِثْلُ الجَبَلَیْنِ العَظِیمَیْنِ۔‘]
’’جو شخص جنازے میںشریک ہوا حتیٰ کہ اس نے نماز(جنارہ)پڑھی،پس اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے۔ اور جو شخص دفن تک ساتھ رہااسے دوقیراط کاثواب ملتاہے۔پوچھا گیاکہ دوقیراط کتنے ہوں گے؟آپeنے فرمایا:(دوقیراط) دوعظیم پہاڑوں کے برابر(ہیں)۔‘‘ (ایک روایت میں ہے کہ احد پہاڑ سے بھی زیادہ قیراط کاوزن ہے۔‘‘) (بخاری: ۱۳۲۵‘ مسلم: ۹۴۵)
مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا کا مروجہ قیراط نہیں،جو درہم کا بارہواں حصہ ہوتا ہے،بلکہ اس سے اجر وثواب کی وہ عظیم مقدار مراد ہے جس کا صحیح معنوں میں ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)