تذکرۂ علمائے اہل حدیث
تحریر: جناب مولانا
محمد اشرف جاوید
حضرت مولانا علامہ فیض اللہ مئویؒ اعظم گڑھی
ولادت: آپ کی ولادت با
سعادت ۱۲۳۰ھ بمطابق ۱۹۱۴ء کو مشہور محلہ
ڈومن پورہ (مغربی مئو) میں ہوئی۔ والد محترم کا نام یار محمد جو ایک حاذق طبیب تھے۔
(تذکرہ محمد احمد: ص ۳۱)
ابتدائی تعلیم اور اساتذہ کرام: ابتدائی تعلیم اپنے
والد سے حاصل کی اور قرآن مجید فارسی‘ عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے وطن قصبہ مئو ضلع
اعظم گڑھ میں پڑھیں۔
مولانا سخاوت علی جون پوریؒ: پھر آپ جون پور
تشریف لے گئے جو ہمیشہ سے مرکز علمی اور قحط الرجال میں بھی مرجع طلاب تھا۔ مولانا
سخاوت علی صاحب کی درس گاہ مشہور تھی‘ بڑے بڑے مستند متوقد طلبہ کا ہجوم رہتا تھا جس
میں آپ بلا عوض مخلصانہ طریق پر درس دیتے تھے۔ اسی درس گاہ میں مولانا فیض اللہ جا
پہنچے۔ مولانا سخاوت علی چونکہ بڑے پایہ کے بزرگ اور نہایت عاقل اور مردم شناس تھے‘
مولانا فیض اللہ کی رفتار‘ کردار‘ گفتار دیکھ کر اور خوش اطوار وہونہار سمجھ کر سب
طلبہ حاضرین سے زیادہ توجہ اور شفقت کے ساتھ پڑھانا شروع کیا۔ مولانا فیض اللہ بھی
شوق اور محبت کے ساتھ پڑھے کہ ہر امر میں سب پر سبقت لے گئے۔
مولانا عبدالحلیم لکھنوی: جب مولانا جون پوری بغرض ادائیگی فریضہ حج مکہ معظمہ تشریف لے گئے تو مولانا عبدالحلیم
لکھنوی سے جو نواب باندہ کے مدرسہ میں مدرس اعلیٰ تھے پڑھا تھا۔ جب مولانا جون پوری
حج سے واپس آئے تو پھر آپ ہی کی خدمت میں چلے آئے اور بقیہ کتب معقول ومنقول کی تکمیل
کی اور سند فراغت حاصل کی۔ (معارف: اکتوبر ۱۹۷۸ء ص ۳۰۴۔ ہفت روزہ اہل حدیث ۱۳ فروری ۱۹۲۰ء)
مولانا عبدالرحمن معروف بہ ظہیر اعلیٰ‘ مولانا کو نسائی کے اطراف
سنا کر سند ملی جو اب تک ان کے خاندان کے پاس محفوظ ہے۔
تلامذہ کرام: مولانا شبلی نعمانی (۱۳۳۲ھ)‘ مولانا ابوالحسنات عبدالغفور دنیا پوری (م ۱۳۳۳ھ / ۱۹۱۵ء)‘ مولانا خدا بخش مہراج گنجی (۱۳۳۳ھ / ۱۹۱۵ء)‘ مولانا محمد سعد اللہ (۱۳۲۱ھ / ۱۹۰۳ء)‘ مولانا عبدالرحیم مبارکپوری (ستمبر ۱۹۱۲ء)‘ مولانا عبداللہ واعظ (۱۳۲۱ھ)‘ مولانا عبدالرحمن
مبارک پوری (م۱۹۳۵ء)‘ ابوالفیاض عبدالقادر مئوی (۱۹۱۳ء / ۱۳۳۱ھ)‘ مولانا ابوالکلام محمد علی بن مولانا فیض اللہؒ (۱۹۳۳ء)‘ مولانا ولی محمد گھوسوی (۱۳۳۳ھ)‘ مولانا ابوالمعالیم
حمد علی (۱۹۳۵ء)‘ مولانا عبدالغفار عراق (۱۹۳۵ء)‘ مولانا خلیل الرحمن بن حافظ عبداللہ مئوی (۱۳۱۴ھ / ۱۸۹۷ء)‘ ملا حسام الدین مدرس مدرسہ عالیہ مئو (۱۳۱۰ھ / ۱۸۹۳ء)‘ مولانا ابوالکبرکات محمد شفیع بانی مدرسہ اصلاح سرائے میر
(م ۱۳۶۵ھ / ۱۹۴۵ء)‘ مولانا سلیم
اللہ بن میاں محمد صادق مصحح مطبع نول کشور (۱۳۳۴ھ / ۱۹۰۶)
تیرہویں صدی ہجری میں ظلم وضلالت کے رفع کے لیے اللہ تعالیٰ
نے سید احمد شہیدa وشاہ
اسماعیل شہیدa کو
تجدید دین کے لیے پیدا کیا جنہوں نے از سر نو پاک وہند کے ظلمت کدہ میں رشد وہدایت
کی شمع فروزاں کی جس کی ضیاء پاشیوں سے گمراہ اور تاریک قلوب (دل) منور ہوئے۔ ایک چراغ
سے سینکڑوں چراغ جلے اور اسلام کی روشنی جگمگا اُٹھی۔ شاہ اسماعیل شہید پہلے مجاہد
اسلام تھے جنہوں نے جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر اس زور کا نعرہ حق بلند
کیا کہ اہل باطل کے ایوانوں کی بنیادی متزلزل ہو گئیں اور علماء سوء اور مکار صوفیاء
گھبرا اٹھے۔
ظلمت وجہالت کے خیمے اکھڑنے لگے‘ سرزمین پاک وہند ایک بار پھر
نور اسلام سے جگمگا اٹھی۔ جاء الحق وزہق الباطل کا منظر سامنے آگیا۔
یہ دونوں ۶ مئی ۱۸۳۱ء میں بالا کوٹ
کے میدان میں جام شہادت نوش فرما کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔ انہیں بزرگان کا فیض روحانی
اور نقش اول تھا۔
پاک وہند کمند غلامی سے رہا ہوا اور یہاں کے باشندوں کو آزادی
نصیب ہوئی۔ کتنی تحریکیں وجود میں آئیں اور فنا ہوئیں لیکن انہی بزرگان سلف کا فیض
ہے کہ سرزمین پاک وہند شرک وبدعت اور توحید وسنت کا ما بہ الامتیازمعروف ہوا۔
انہی کا فیض بتوسل مولانا سخاوت علی جون پوری (م ۱۸۵۸ء) آیۃ من آیات اللہ مولانا محمد فیض اللہ مئوی (م ۱۳۰۶ھ / ۱۸۸۹ء) کو ملا اور ضلع اعظم گڑھ کے اطراف واکناف خصوصا مئو ناتھ
کے ظلمت کدہ کو روشنی ملی۔ باپ کا روحانی فیض بتوسل شاگرد خاص ملاں حسام الدین (م ۱۳۱۱ھ / ۱۸۹۳ء) کو ملا۔ (حیات ابوالمکارم: ص ۱۵-۱۶)
مولانا فیض اللہ صاحب دانا پور جانے سے پہلے علی گنج سیوان میں
رہتے تھے‘ وہاں بھی طلبہ کو پڑھاتے اور وعظ وتقریر کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کیا کرتے
تھے۔ بعد میں دانا پور گئے وہاں بھی یہی مشغلہ تھا۔
علامہ سید سلیمان ندویa نے لکھا ہے کہ آخر میں مطب کرنے لگے تھے‘ اسی تعلق سے
دانا پور پٹنہ میں رہتے تھے۔ (معارف اکتوبر ۱۹۷۸ء: ص ۳۰۶۔ حیات شبلی ۷۱ حاشیہ)
درس وتدریس: مولانا مرحوم نے جن اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی تھی ان کے
طریقہ درس کے مطابق آپ پڑھتے بھی تھے اور نیچے درجہ کے طلبہ کو پڑھایا بھی کرتے تھے۔
اس لیے پڑھنے کے بعد درس وتدریس کے لیے آپ کو اس کی ٹریننگ کی ضرورت پیش نہ آئی اور
نہ تیاری کی۔ (معارف: اکتوبر ۱۹۷۸ء‘ ص ۳۰۵)
معلوم ہوا کہ مولانا دوران تعلیم ہی اساتذہ کرام کے حکم کے مطابق
طلبہ کو پڑھاتے‘ یہ مولانا کے لائق ہونے کی آخری دلیل ہے۔ اسی طرح ہمارے مولانا حافظ
محمد شریف فاضل جامعہ سلفیہ جب آخری سال میں پڑھتے تھے تو راقم نے دیکھا کہ کتنے طالب
علم ان سے مختلف علوم وفنون اور احادیث کا درس لیتے تھے۔ مولانا عبدالحی‘ ڈاکٹر عبدالقادر
گوندل وغیرہ کو منطق کا درس دیا کرتے تھے۔
مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی ان کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ
[الشیخ الفاضل فیض
اللہ المئوی الاعظم گڑھی احد العلماء المتقنین من الدرس والافادۃ وفقہ اللہ سبحانہ
فی صغر سنہ بالاشتغال فی العلم فلازم الشیخ سخاوت علی العمری الجون بوری قرائۃ علیہ
الکتب الدرسیۃ وبرز فی المعقول والمنقول ثم أخذ الطریقۃ من السید خواجہ أحمد بن محمد
یٰسین الحسنی النصیر آبادی وکان علی قدم شیوخہ فی اتباع السنۃ السنیۃ واقتضاء آثار
السلف یدرس ویفید۔] (نزہۃ الخواطر: ۸/۳۶۹)
’’ہمارے فاضل مولانا
فیض اللہ مئوی اعظم گڑھی ان علماء میں سے ایک تھے جو درس وتدریس وافادہ میں کامل دستگاہ
رکھتے تھے۔ آپ بچپن ہی سے تحصیل علم میں مشغول ہو گئے۔ مولانا سخاوت علی جون پوری کی
دیر تک تلمیذی اختیار کی آپ ایک جامع العلوم عالم با عمل سالک کامل با فیض مقدس بزرگ
تھے۔ فیوض باطنی میں بھی بہت لوگ کامیاب ہوئے۔ آپ کو امراء سے طبعاً نفرت تھی اور غرباء
سے انسیت‘ اپنی زندگی کے دن نہایت ورع وزہد کے ساتھ اول تا آخر گذارے۔‘‘ (اہل حدیث:
امرتسر: ۱۳ فروری ۱۹۲۰ء)
آپ نے درسی کتب پڑھیں اور معقول ومنقول میں نام حاصل کیا‘ اس
کے بعد حضرت سید خواجہ احمد بن یٰسین حسنی نصیر آبادی سے علم طریقت حاصل کیا۔ آپ اپنے
شیوخ کی طرز پر اتباع سنت اور آثار سلف پر گامزن تھے۔ اہل علم کو پڑھاتے اور مستفید
کرتے۔ (نزہۃ الخواطر: ۸/۴۶۹۔ مترجم)
مولانا مرحوم اہل علم طبقہ میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے
جاتے تھے‘ آپ کا (علمی) مقام بہت بلند تھا۔جناب علامہ حافظ امام عبداللہ غازی پوری
آپ کو رئیس العلماء اور اسوۃ الفضلاء فرماتے تھے۔ جناب حکیم عبدالحفیظ صاحب لکھنوی
آپ کو بحر مواج اور سراج وہاج جیسے القاب سے یاد کرتے تھے۔ (مولانا محمد احمد: ص ۳۳‘ نوائے اسلام دہلی: اپریل ۱۹۹۵ء ص ۳۲)
مولانا جب تعلیم سے فارغ ہو کر وطن تشریف لائے تو آپ نے درس
وتدریس کا مشغلہ اختیار کیا اور گھر ہی پر طلبہ کو پڑھانے لگے۔ مگر تھوڑے ہی دنوں کے
بعد طلبہ کے ہجوم کے باعث درس وتدریس کا یہ سلسلہ شاہی مسجد کڑہ میں بھی شروع کرنا
پڑا۔ (معارف: ۱۹۷۸ء اکتوبر: ص ۳۰۴-۳۰۵)
دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ آپ اپنے گھر پر محض بلا معاوضہ طلبہ
کو پڑھاتے تھے‘ آپ نے دانا پور میں بھی پڑھایا۔ (اہل حدیث کی تدریسی خدمات: ۶۶)
آپ علی گنج سہیوان میں بھی مدرس اعلیٰ رہے۔ پھر جب مدرسہ عالیہ
بنا تو آپ صدر مدرس بنائے گئے۔
مولانا شبلی نعمانی کے والد شیخ حبیب اللہ نے جب شہر اعظم گڑھ
کے دوسرے اہل استطاعت احباب سے مل کر اعظم گڑھ میں ۱۲۸۰ھ میں ایک مدرسہ اسلامیہ قائم کیا تو مولانا فیض اللہ صاحب کو درس وتدریس کے لیے
مدعو کیا اور مدرس اعلیٰ مقرر ہوئے۔ یعنی پہلے تھوڑے عرصہ میں مولانا شبلی نعمانی نے
مولانا موصوف سے عربی کی کچھ کتابیں پڑھیں۔ (مولانا محمد احمد: ۳۲‘ حیات شبلی: ص ۷۱-۷۲)
تنبیہ: حیات ابوالمکارم
کے مؤلف نے اقبال سہیل کے بیان کو نقل کیا ہے کہ مدرسہ اسلامیہ اعظم گڑھ کی بناء ۱۲۸۱ھ میں علامہ شبلی نعمانی کے والد محترم شیخ حبیب اللہ نے ڈالی۔ (حیات ابوالمکارم:
۳۲) جبکہ پہلا بیان ہی درست ہے یعنی ۱۲۸۰ھ کا۔
مدرسہ عالیہ مئو: مولانا کے کارناموں میں سے بقول امام خاں کہ
’’مئو میں پہلا مدرسہ آپ ہی نے قائم کیا تھا یہ ابھی تک جاری ہے۔ اب
اس کا نام مدرسہ عالیہ ہے اور اپنے نام کی مناسبت کی وجہ سے بلند پایہ بھی ہے۔‘‘ (ہندوستان
میں اہل حدیث کی علمی خدمات: ص ۱۳۲)
وعظ اور اس کے اثرات: جب فراغت کے بعد
وطن تشریف لائے تو اس وقت مسلمانوں کی دینی حالت کیا تھی! مولانا وطن واپس تشریف لائے
اور بدعات وخرافات کے ظلمت کدہ میں توحید وسنت کا بیج بویا اور مئو ناتھ بھنجن میں
عمل بالکتاب والسنہ کی قدیم منتشر روایات کی از سر نو شیرازی بندی کی۔ (حیات ابوالمکارم:
۲۲)
لکھا ہے کہ اتباع کتاب وسنت کے جذبہ کو فروغ دیتے رہے اور لوگوں
کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے۔ (تذکرہ مولانا محمد احمد: ۳۳)
حضرت امام خان نے لکھا ہے کہ مئو میں توحید کا بیج مولانا کے
ہاتھوں بویا گیا جس کی آبیاری بعد میں ہوتی گئی۔ (تراجم علماء اہل حدیث: ۳۳۷)
[الشیخ فیض اللہ
المئوی عالما عاملا بالکتاب والسنۃ وأنہ واصل جہودہ فی القضاء علی الخرافات الشائعۃ
فی بلدۃ مئو وفی تقویۃ العمل بالکتاب والسنۃ۔] (مجلۃ جامعۃ سلفیۃ بنارس ـ رمضان:
۱۳۹۷ھ، ص ۵۷-۵۸)
حصول علم کے بعد جب مئو واپس آئے تو اس وقت ایک سرے سے شرک کی زمین بنی ہوئی تھی‘
گھر گھر غازی میاں کا جھنڈا اور امام حسینؓ کا تعزیہ رکھا جاتا تھا‘ آپ نے وعظ کہنا
شروع کیا‘ سامعین نہایت خاموشی سے سنتے اور اثر قبول کرتے‘ قصبہ سے شرک کا استیصال
ہونے لگا۔ (تراجم علماء حدیث: ۳۳۶)
مولانا کے وعظ وتذکرہ کا یوں واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وعظ
وتذکیر کے ذریعہ بھی خلق خدا کو فائدہ پہنچاتے رہے‘ اتباع کتاب وسنت کے جذبہ کو فروغ
دیتے رہے‘ لوگوں کی اصلاح کی کوشش فرماتے رہے‘ آپ جب وعظ فرماتے تو ایک سماں بندھ جاتا‘
تمام سامعین انتہائی خاموشی اور حضور قلب کے ساتھ سنتے اور کأن علی رؤوسہم الطیر کا
منظر ہوتا۔
قیامت کے احوال ومناظر کا بیان اتنا رقت انگیز ہوتا کہ لوگ پھوٹ
پھوٹ کر رونے لگتے تھے۔ (نوائے اسلام: ۱۹۹۵ء‘ ص ۳۳۔ اہل حدیث امرتسر: ۲۵ فروری ۱۹۲۷ء)
ہمارے ممدوح جناب شیخ مولانا فیض اللہ ان اوصاف سے بھی متصف
تھے کہ مولانا علم وفضل کی دولت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے زہد واتقاء سے بھی نوازا
تھا۔ (چند اہل حدیث رجال: ص ۱۳۲)
مولانا کا زندگی بھر یہی مشغلہ تھا‘ کتابوں کا درس دیتے‘ وعظ
وتبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے اور حسن سلوک کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح بھی کرتے۔ آپ
نے پوری زندگی اس طرح بسر کر دی‘ آپ کے ذریعہ مخلوق کو بہت فائدہ پہنچا اور اطراف وجوانب
میں اتباع سنت کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ الحمد للہ!
وعظ ونصیحت کے ذریعہ دین کی بات لوگوں تک پہنچانا انبیاء کرام
o کی
سنت ہے اور علماء اہل اللہ نے ہمیشہ اس سنت پر عمل کیا۔ مولانا فیض اللہ بھی اس سنت
پر عمل کرتے اور جہاں رہتے جمعہ کو بالالتزام آپ کا بیان ہوتا۔ آواز بلند تھی اور اس
میں اثر تھا‘ لوگ دور سے آپ کا وعظ سننے آتے اور متأثر اور مستفید ہوتے۔ (معارف اعظم
گڑھ: ۱۹۲۸ء اکتوبر: ۳۱۲)
مولانا فیض اللہ نے مئو میں درس وتدریس اور وعظ وتذکیر کے ذریعے
توحید خالص اور براہ راست کتاب وسنت کی اتباع کے لیے جس جذبہ کی تخم ریزی کی اور آبیاری
فرماتے رہے آپ کے شاگرد رشید ملا حسام الدین اور صاحبزادے گرامی مولانا ابوالمکارم
وغیرہ اور ان کے رفقاء نے کھل کر اور سخت جد وجہد اور محنت سے اس کی آبیاری جاری رکھی
اور اس کو تنا ور درخت بنایا۔ اس میں خصوصا ملا حسام الدین کو مخالفین کی طرف سے سخت
مزاحمتیں اور مصیبتیں بھی جھیلنا پڑیں۔ جنہیں آپ خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔
مگر آپ کے پا بہ شباب میں کبھی کوئی لغزش آئی نہ اتباع قرآن وسنت اور صراط مستقیم سے
سرمو انحراف کیا۔ (نوائے اسلام دہلی‘ اپریل: ۱۹۹۵ء: ص ۳۷)
مولانا نہایت بے لوث اور پاک نفس تھے‘ سب لوگ آپ کے تابع رہے‘
قصبہ کے سارے مسلمانوں کا صرف ایک جگہ شاہی مسجد میں جمعہ کا خطبہ ہوتا جس میں اہل
حدیث بے روک ٹوک آمین بالجہر اور رفع الیدین کے ساتھ نماز ادا کرتے اور آپ بھی اسی
مسجد میں درس دیتے۔ رعب ایسا تھا کہ مجال نہیں کوئی دم مارے‘ اسی شاہی مسجد میں ایک
مسافر مولوی گل صاحب آئے چونکہ بڑے واعظ اور سخت حنفی تھے‘ بعد جمعہ اپنے بیان میں
رفع الیدین کی منسوخیت کا بھی ذکر کر دیا‘ مولانا موجود تھے اور فرمایا کہ یہ کیا بیان
کرتے ہو؟ ہرگز منسوخ نہیں بلکہ سنت مححکمہ ہے۔ بیان کرو کہ سنت ہے چنانچہ مولوی صاحب
موصوف کو سنت کا اقرار کرا کے اسی وعظ میں رفع الیدین کا سنت ہونا بیان کروایا جس سے
یہاں کے متعصب لوگوں پر ایک خاص اثر پڑا۔
پھر بیرونی حضرات علماء مقلدین کی آمد اور مولانا کی عدم موجودگی
کی وجہ سے پھر وہ تعصب زندہ ہو گیا حتی کہ اسی مسجد میں زد وکوب تک نوبت پہنچی اور
اہل حدیث نے بوجہ غلبہ احناف ایک جگہ جمعہ پڑھنا شروع کیا۔ یہ غالباً ۱۳۰۰ھ میں ہوا۔ (اہل حدیث امرتسر ۱۳ فروری ۱۹۲۰ء)
تحریک المجاہدین سے تعلق: اس دور میں ہر اہل حدیث کو تقریبا انگریز (عیسائی)‘ سے طبعی نفرت تھی‘ مولانا
بھی انگریزوں سے نفرت رکھتے تھے‘ تاریخ نے لکھا ہے کہ پڑھنے کے بعد مولانا فیض اللہ
علماء صادق پور کی انجمن میں شامل ہو گئے۔ اسی انجمن کے تحت تبلیغی دورے کرتے رہے‘
مگر ۱۸۶۳ء میں وہابیوں کو باغی قرار دے دیا گیا‘ علماء صادق پور کی خانہ
تلاشی ہونے لگی تو پٹنہ سے اپنے سسرال بہادر گنج ضلع غازی پور چلے آئے۔ یہاں بہت دنوں
تک روپوش رہے‘ جب اطمینان ہو گیا کہ باغیوں کی فہرست میں ان کا نام نہیں تو اپنے گھر
مئو آئے۔ (معارف اکتوبر ۱۹۷۸ء‘ ص ۳۰۴)
مولانا نے جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی تھی ان میں خصوصاً مولانا
سخاوت علی جون پوری جو حضرت سید احمد شہید کے خلیفہ تھے۔ مولانا فیض اللہ مرحوم‘ مولانا
سخاوت علی جون پوری کے تلمیذ رشید تھے‘ ان سے مجاہدین شاہ اسماعیل شہید کا تعارف ہوا
اور ان کی ڈگر پر آپ بھی چل پڑے۔
مولانا عبداللہ شائق نے اپنے ایک خطبہ میں لکھا ہے کہ مولانا
فیض اللہ a صوفی
منش‘ خاشع‘ متورع اور خواجہ احمد بریلوی کے خلیفہ تھے۔ آپ کی تمام عمر درس وتدریس میں
گذری۔ آپ کے بیان میں خدا نے ایسا اثر رکھا تھا کہ تذکیر کے وقت سامعین کی حالت کأن
علی رؤسہم الطیر کی سی ہوتی تھی۔ (اہل حدیث امر تسر ۲۵ فروری ۱۹۲۷ء، ص ۴)
مولانا عبدالرحمن آزاد ان کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
’’مولانا ممدوح یعنی
مولانا فیض اللہ کو خدا نے علاوہ اور کمالات وفضائل کے قوت بیانیہ اور جوہر تقریر ایسا
بخشا تھا کہ جس جلسہ میں آپ رہتے سب لوگ نہال ہو جاتے‘ ہمیشہ بعد جمعۃ المبارک وعظ
فرماتے اور اس طرز واداء سے فرماتے کہ جملہ سامعین کی یہ حالت ہوتی کہ ’’کان علی رؤسہم
الطیر ایک سکتہ کا عالم رہتا اور ایسے ایسے نکات قرآنیہ اور رموز فرقانیہ فرماتے کہ
لوگوں پر ایک خاص اثر ہوتا اور اکثر لوگ روتے روتے بدحواس ہو جاتے۔ آپ کے وعظ کا اثر
تھا کہ مئو اور اطراف مئو سے رسوم بدعیہ اور افعال شرکیہ کا استیصال ہو گیا۔‘‘ (اہل
حدیث‘ امر تسر: ۱۳ فروری ۱۹۲۰ء)
بقول عبدالرحمن ندویa:
’’ان کے نزدیک اصل
کام یہ تھا کہ قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیم کو پھیلایا جائے‘ توحید کی دعوت کو عام کیا
جائے‘ بدعتوں کو مٹایا جائے اور مردہ سنتوں کو زندہ کیا جائے۔‘‘ (معارف‘ اعظم گڑھ:
۱۹۷۸ء اکتوبر، ص ۳۱۰)
مولانا حبیب الرحمن ندوی‘ مولانا کے اخلاق وکردار کے متعلق لکھتے
ہیں کہ
’’مولانا صاحب حد
درجہ شریف‘ نیک‘ صلح پسند‘ متواضع اور ملنسار تھے۔ اس لیے ہر طبقہ اور ہر مسلک کے لوگ
ان کا یکساں احترام کرتے اور ان سے تعلق رکھتے۔ لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ مولانا گھر
آ رہے ہیں تو مئو سے میلوں آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے۔‘‘ (معارف اعظم گڑھ‘ اکتوبر
۱۹۷۸ء، ص ۳۱۲)
دیوبند مکتب فکر کے مولانا حبیب الرحمن قاسمی لکھتے ہیں کہ
’’مولانا فیض اللہ نہایت ذہین اور تیز فہم تھے۔‘‘ (تذکرہ علماء اعظم گڑھ: ۲۳۹)
کتب خانہ: مولانا صاحب علوم
وفنون کے بڑے شیدائی‘ وسیع النظر اور با ذوق عالم تھے۔ آپ کے پاس مختلف اسلامی علوم
وفنون کی گراں قدر کتابوں پر مشتمل ایک عظیم کتب خانہ بھی تھا جس میں بہت سے نوادرات
موجود تھے۔ مولانا مرحوم نے ملک کے دوسرے ممتاز کتب خانوں میں سے عربی کی نادر وکمیاب
کتابیں نقل کرا کے اپنے یہاں محفوظ کی تھیں جن میں سے علامہ ہاشم سندھی کی ’’دراہم
الصرۃ فی وضح الیدین تحت السرۃ‘‘ علامہ سیوطی کی ’’انتباہ الاذکیاء فی حیاۃ الانبیاء‘‘
ان کے دوسرے متعدد رسائل میں امام حازمی کی ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ امام حسین بن ہلال
کی ’’عدۃ المنسوخ من الحدیث‘‘ اور ملا علی قاری کے متعدد رسائل اور احادیث کے کئی مجموعے
خاص طور پر لائق ذکر ہیں۔
آپ کا کتب خانہ مئو کا ایک نفیس کتب خانہ سمجھا جاتا جس کے وارث
آپ کے فرزند ارجمند مولانا ابوالمکارم محمد علی ہوئے۔ (معارف ۱۹۷۸ء اکتوبر ص ۳۰۸ - نوائے اسلام دہلی ۱۹۹۵ء اپریل ۳۲‘ محمد احمد ص ۳۳)
اولاد: مولانا کی اولاد میں سے مولانا محمد علی فاضل‘ ذہین‘
مناظر اور کثیر التصانیف تھے۔ چار کا عدد آپ کے ساتھ کچھ یوں تھا:
1 مولانا چار بھائی تھے‘
سب سے زیادہ تعلق بڑے بھائی حکیم رکن الدین صاحب سے تھا جو نہایت متقی اور پرہیز گار
وصوفی منش بزرگ تھے جو مولانا عبدالرحمن کے خسر تھے۔
2 آپ چار یار بھی تھے‘
سب سے زیادہ راز داری حافظ عبدالرزاق سے تھی‘ یہ مولانا عبدالرحمن‘ صاحب کے والد محترم
تھے۔
3 آخری دور میں آپ کے
چار ممتاز شاگرد بھی تھے جن میں سب سے زیادہ خصوصیت مولانا ابوالحسنات عبدالغفور دانا
پوری سے تھی جنہوں نے آپ کی سوانح لکھی جو طبع نہ ہو سکی۔
4 آپ کی چار اولاد ذکور
بھی تھے جن میں تین تو آپ کی حیات ہی میں فوت ہو گئے اور ایک فخر قوم جناب مولانا حکیم
ابوالمکارم محمد علی ہیں جو آپ کے علمی جانشین‘ عزلت گزیں بزرگ‘ نامی طبیب اہل قلم
ہیں۔ متعدد رسائل محدثانہ طرز میں شائع کیے۔ (اہل حدیث امرتسر ۱۳‘ فروری ۱۹۲۰ء) مزید حالات حیات ابوالمکارم محمد علی میں دیکھیں۔
وفات: مولانا کی وفات ۱۳ ربیع الآخر ۱۳۰۶ھ کو ہوئی‘ دانا پور سے دو روز کے لیے اپنے بڑے بھائی حکیم رکن الدین کی عیادت
کے لیے تشریف لائے‘ دانا پور واپس پہنچے تھے کہ چوتھے یا پانچویں دن پنج شنبہ کو حسب
دستور آپ نے درس شروع کیا‘ اثناء وعظ میں شدید قے ہوئی اور بے ہوش ہو گئے۔ تین چار
روز تک اسی حالت میں مبتلا رہے‘ وہاں کے حکیموں نے بہت کچھ علاج کیا مگر کچھ فائدہ
نہ ہوا اورا للہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
جنازہ میں وہ کثرت تھی کہ یہاں کسی رئیس کے جنازہ میں بھی نہیں
تھی‘ بڑے بڑے علماء فضلاء‘ حکماء آپ کے جنازہ میں شریک تھے‘ راہ میں جنازہ لے چلنے
پر ہر شخص سبقت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ (معارف ۱۹۷۸ء اکتوبر ص ۳۰۶) اہل علم کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
No comments:
Post a Comment