درسِ قرآن
مدد ونصرت کے لیے اللہ ہی کافی ہے
ارشادِ باری ہے:
﴿اَلَيْسَ اللّٰهُ
بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ يُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ﴾
’’یا اللہ اپنے بندے
کے لیے کافی نہیں؟ اور وہ آپ کو ان (معبودوں )سے ڈراتے ہیں جو انہوں نے اللہ کے سوا
بنا رکھے ہیں۔‘‘
انسان کو زندگی گزارتے ہوئے مختلف حالات کاسامنا رہتاہے۔بعض
اوقات دنیوی پریشانیوں اور ھموم و غموم کے بھنور میں انسان جکڑا جاتا ہے، اپنوں کی
لا تعلقی‘ بے رخی اور غیروں کی دشمنی کے سبب طبیعت بوجھل‘ دل مضطرب اور پریشان ہوجاتا
ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات میں یہ آیت ہماری رہنمائی
کرتی ہے کہ ایسے نا مساعد لمحات میں انسان اللہ کی طرف رجوع کرے اور اللہ پر ہی
توکل کرتے ہوئے اسی سے حالات کی بہتری کی امید رکھے تو اللہ تعالی ایسے بندہ کے لیے
کافی ہوجاتے ہیں۔
قرآن مجید کا اسلوب بیان خود ہی دیگر آیات قرآنیہ کی مدد
سے کسی خاص آیت کا مفہوم و توضیح کے لیے کافی ہے ، اور یہ ایجاز و بیان، تشریح و تفسیر
قرآن کا اہم اور اساسی ذریعہ ہے۔ چنانچہ اسی اسلوب کی روشنی میں مذکورہ آیت کی تفہیم
کے لیے دیگر آیات کا مطالعہ ہی کافی ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ
حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۶۴﴾
’’اے نبی! آپ کے
لیے اللہ کافی ہے اور ان کے لیے بھی جو مومنوں میں سے آپ کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘
﴿وَ اِنْ يُّرِيْدُوْۤا
اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ﴾
’’ اگر وہ آپ کو
دھوکہ دینا چاہیں تو بے شک آپ کے لیے اللہ کافی ہے۔‘‘
﴿فَاِنْ تَوَلَّوْا
فَقُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ﴾
’’پھر بھی اگر وہ
منہ پھیر لیں تو کہہ دیجئے میرے لیے اللہ کافی ہے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبرu کو مختلف حالات میں یہ نصیحت فرمارہے ہیں کہ جب بھی ایے حالات بنیں کہ جس سے دل افسردہ ہوتو اللہ
کو یاد کیحئے اور اسی پر توکل کیجیے اور یاد رکھیے کہ وہی آپ کے لیے مدد گار کافی
ہے۔
امتیوں کے لیےبھی یہی فرمایاکہ
﴿وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ
عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ﴾
’’اور جو شخص اللہ
پرتوکل کرے تو وہ اسے کے لیے کافی ہے۔‘‘
درسِ حدیث
عقیدہ ختم نبوت
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، قَالَ:
إِنَّ " مَثَلِي وَمَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى
بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ، فَجَعَلَ
النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ، وَيَعْجَبُونَ لَهُ، وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ
اللَّبِنَةُ؟ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ."]
(متفق عليه)
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے‘ بیشک رسول اللہe نے
فرمایا: ’’یقیناً میری اور مجھ سے پہلے دیگر انبیاء کی مثال ایک شخص کی مثال کی طرح
ہے جس نے گھر بنایا پس اس نے اسے بہت خوبصورت بنایا اور بڑی عمدہ تزئین وآرائش کی
سوائے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ کے‘ پس لوگ اس کے گرد گھومتے ہیں اور اسے دیکھ
کر خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟‘‘ آپe نے
فرمایا: ’’میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘ (بخاری ومسلم)
اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدمu سے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے انبیاء ورسلo بھیجے
اور ان پر وحی نازل فرمائی تا کہ وہ اپنی اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلائیں اور اپنی
آخرت بہتر بنانے کی فکر کریں۔ یہ سلسلہ جاری رہا حتی کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد
e تشریف
لائے۔ پہلے انبیاء کی نبوت ورسالت ان کے بعد آنے والے نبی تک یا اپنی بستی تک محدود
ہوتی تھی۔ ایک وقت میں کئی کئی نبی اپنی اپنی بستی کی طرف مبعوث کیے گئے۔ ان کی نبوت
نہ دائمی ہوئی اورنہ ہی آخری۔ بعض کی نبوت ان کی مدت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی مگر حضرت
محمد رسول اللہe کی
نبوت پوری کائنات اور قیامت تک کے لیے ہے۔
ذکر کردہ حدیث میں رسول اللہ e نے اپنی نبوت کے متعلق ایک عمارت کی مثال دے کر فرمایا
کہ جس طرح خوبصورت عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑی ہوئی تھی وہ اینٹ لگا دی گئی
تو عمارت مکمل ہو گئی۔ بعینہٖ نبوت کا محل نبی پاک e کے بغیر ادھورا تھا آپe کے
مبعوث ہونے کے بعد نبوت کی عمارت مکمل ہو گئی۔ آپe کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔
حضور اکرم e نے
پیش گوئی فرمائی کہ میرے بعد کچھ جھوٹے نبوت کے دعویدار پیدا ہوں گے‘ ان میں سے ہر
کوئی یہی دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں۔ یاد رکھو! میں آخری نبی ہوں‘ میرے بعد قیامت
تک کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے‘ جو بھی عقیدہ
ختم نبوت کا منکر ہے اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ آپe ہی خاتم الانبیاء اور شافع روز محشر ہیں۔
No comments:
Post a Comment