مطالعۂ سیرت ... ضرورت، اہمیت اور افادیت
تحریر: جناب پروفیسر
محمد یٰسین ظفر
ربیع الاول کا چاند طلوع ہوتے ہی ملک بھر کی فضا میں عجیب ارتعاش
پیدا ہو جاتا ہے۔ جگہ جگہ سیرت النبیe کے
عنوان پر کانفرنسیں، سیمینار اور محفلیں شروع ہو جاتی ہیں۔ خاص کر میلاد النبیe کی
خوشی میں صرف محافل یا جلسے ہی نہیں بلکہ بھرپور جلوس اور چراغاں کا وسیع انتظام ہوتا
ہے اور یہ سلسلہ پورا مہینہ جاری رہتا ہے۔ اس اہتمام کے پس منظر میں جذبہ محبت کار
فرما ہوتا ہے۔ عوام اس خوبصورت جذبے کے اظہار کے لیے اپنا من پسند طریقہ اختیارکر لیتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ نعت خوانی تو کسی جگہ قوالی اور محفل سماع‘ کسی جگہ ڈھول
کی تھاپ پر رقص تو کسی جگہ سپیکروں پر فلمی گیت نشر ہو رہے ہوتے ہیں۔ لا علمی اور غیر
شعوری طور پر محبت کے اظہار کے لیے ایسے ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں جو شرعاً ناپسندیدہ
اور غیر مناسب ہیں۔ اس کی حقیقی وجہ سیرت النبیe سے عدم واقفیت ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر سیرت الرسولe سے
آگاہی ہوتی تو غیر پسندیدہ رویے کبھی اختیار نہ کیے جاتے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں جتنے بھی بڑے لوگ اور شخصیات
ہوئیں انہوں نے اپنی سوانح حیات کو مرتب کیا ۔جس میں اپنی خوبیاں‘ حسن کارکردگی اور
زندگی میں کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستانیں اور ذاتی مشاہدات وتجربات قلم بند کیے
تاکہ لوگ ان سے آگاہ ہوں۔ بلکہ بعض نامور لوگوں نے اپنی سوانح حیات مرتب کرنے کے لیے
قلم کاروں کو بھاری معاوضے بھی دئیے۔ جبکہ ان کی زندگیاں نامکمل‘ ادھوری ، گناہ آلودہ
اور ظلم سے بھری ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میں سب سے زیادہ حق دار نبی کریمe کی
ذات اقدس ہے کہ ان کی سیرت کاایک ایک پہلو اجاگر کیا جائے‘ گھر گھر اس کی تشہیر کی
جائے اور قدم قدم پر آپ کی سیرت پر عمل کیا جائے۔ سیرت کی لازوال اورصحیح ترین کتاب
تو قرآن مجید ہے جس میں انبیاء کی دعوت ، اسلوب ، نتائج اور انجام سے آگاہ فرمایا
گیا اور قصص الانبیاء کا ایک سبق آموز سلسلہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چند
منتخب انبیاء کا ذکر قرآن حکیم ،زبور ، تورات اور انجیل میں بھی کیا ہے لیکن تفصیلی
تذکرہ سید الانبیاء حضرت محمد e کا
کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ آپ کی سیرت طیبہ جس طرح محفوظ ہے اور اسے بیان کیا گیا‘ کسی
اور کے حصے میں یہ کام نہ آیا۔ دنیا میں آپ واحد شخصیت ہیں جن پر ہزاروں کتابیں لکھی
جا چکی ہیں اور قیامت تک لکھی جاتی رہیں گی۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اور شعبے
کو الگ الگ بیان کر دیا گیا ہے جس سے آپ کی مقبولیت اور عالمگیریت کا پتہ چلتا ہے۔
صحابہ کرام] نے
بھی کمال ہنر مندی سے آپ کی ایک ایک ادا کو نہ صرف نوٹ کیا بلکہ آئندہ نسلوں تک پوری
دیانت داری اور سچائی کے ساتھ بیان کر دیا ۔ لہذا آپ کی سیرت طیبہ صحیح ترین ذریعہ
سے ہم تک منتقل ہو گئی۔ آپ بحیثیت پیغمبر ،داعی حق ، بطور حاکم ، منصف ،قائد ، تاجر
، امام ، خطیب ، مفتی ، باپ ، خاوند انسان کامل کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
اگرچہ ہم ظاہری آنکھوں سے آپ کی زیارت سے محروم ہیں۔ لیکن سیرت طیبہ کے مطالعہ سے
ہم آپ کی صحبت میں گویا موجود ہوتے ہیں اور دل کی آنکھ سے آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ اب
جو شخص بھی یہ چاہتا ہے کہ آپ کی زیارت سے بہرہ مند ہوتو اسے چاہیے کہ وہ پوری کوشش
محبت اور لگن سے سیرت کا مطالعہ کرے۔
سیرت النبیe کو
پڑھنے سے چند اہم فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کا اختصار کے ساتھ یہاں تذکرہ کرتے ہیں۔
1 سیرت النبی
e کا
وہ حصہ ہمارے لیے قابل عمل ہے جو باوثوق اور مستند ذرائع سے منقول ہو۔ اگر یہ صحیح
ثابت ہو جائے تو اس کی پیروی کا حکم ہے۔ یہی دین اسلام کا اصل واصول ہے۔ قرآن حکیم
میں سابقہ انبیاء کرام کے حالات وواقعات ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا: {وَكلًّا نَّقُصُّ عَلَیْك مِنْ اَنْبَآئِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ
بِهٖ فُؤَادَك وَجَآئَك فِیْ ھٰذِه الْحَقُّ وَمَوْعِظَة وَّذِكرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ} گویا انبیاء کرام کے حالات محض آگاہی کے لیے نہیں بلکہ یہ
باتیں زندگی میں اختیار کرنے کے لیے ہیں۔ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے 19 انبیاء
کرام کے ذکر کے بعد نبی رحمت e کو
ان کی پیروی اور اقتداء کا حکم دیا۔ ارشاد فرمایا: {اُوْلٰٓپك الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰه فَبِھُدٰٹھُمُ اقْتَدِه}
اس کی روشنی میں
ہمیں یہ درس اور سبق ملتا ہے کہ ہم سیرت کا مطالعہ عمل کے لیے کریں۔ اس لیے کہ سیرت
سے ہی ہمیں صحیح رہنمائی ملتی ہے۔
2 سیرت کے مطالعہ
کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ آپ e نے شریعت کے ایک ایک حکم پر کس طرح عمل کیا اور ہم یہ
بات جان سکیں کہ شرعی احکامات ناقابل عمل نہیں ہیں‘ یا بشری طاقت سے زیادہ ہیں۔ قرآن
حکیم میں ارشاد ربانی ہے: {لَقَدْ كانَ لَكمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه اُسْوَة حَسَنَة لِّمَنْ كانَ یَرْجُو
اللّٰه وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ} آپ کی زندگی قرآن حکیم کی عملی تصویر تھی۔ ام المومنین سیدہ طاہرہ عائشہ رضی
اللہ عنھا سے جب بعض صحابہ نے یہ دریافت کیا کہ آپ کا اخلاق کیسا تھا تو انہوں نے
فرمایا: [عن سعد بن هشام
بن عامر قال: اتیت عائشة رضی الله عنھا فقلت یا ام المومنین أخبرنی بخلق رسول اللهﷺ
قالت : كان خلقه القرآن ا ما تقرأ القرآن قول الله عزوجل: وانك لعلی خلق عظیم] سعید بن ہشام بن عامر فرماتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہr کی
خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی‘ اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ e کے
اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کے اخلاق حسنہ عادات مبارکہ تو
قرآن ہے۔ کیا تم قرآن حکیم نہیں پڑھتے؟ ’’بیشک آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔‘‘ معلوم
ہوا کہ قرآن حکیم پر عمل دراصل آپ کے اخلاق عالیہ کی پیروی ہے۔
3 جتنی بڑی شخصیت
اتنی بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں انبیاء کرام کے واقعات سے بخوبی یہ بات واضح
ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیمu کی
زندگی بہترین نمونہ ہے۔ حضرت اسماعیلu کی قربانی‘ حضرت یعقوبu کا آزمایا جانا‘ حضرت موسیu کا
فرعون نے مقابلے میں استقامت اور نبی اسرائیل کی آزادی کے لیے جدوجہد ہمارے لیے سبق
آموز ہے۔خصوصاً پیغمبر اسلام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ مشرکین
مکہ نے کیسی آزمائشوں میں ڈالا ۔ تین سال شِعب ابی طالب میں محصور رہے۔ طائف کاسفر
اور وہاں کے سرداروں کی بدسلوکی ، ہجرت کا سفر ، بدروحنین کے معرکے ، فتح خیبر ومکہ
، سفر تبوک کا منفرد واقعہ آپ کے اولو العزم ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ جس صبر وتحمل اور
استقامت کے ساتھ آپ نے ان حادثات کا سامنا کیا۔ اللہ تعالیٰ پر غیر متزلزل ایمان اور
یقین کامل نصرت الٰہی کی نوید دیتا ہے۔ سیرت کے مطالعہ سے کم ازکم ایک عام مسلمان کے
دل میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی کسی مشکل وقت میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے
اور اسی سے مدد طلب کرے تو اس کے لیے کشادگی پیدا ہو سکتی ہے۔ سیرت کے ذریعے عقیدہ
توحید کی درستگی اور پختہ ایمان میسر آتا ہے۔
4 سیرت کا مطالعہ
ہمیں اسلام کی عظمت اور اسکی عالمگیریت سے آگاہ کرتا ہے۔ نبی کریم e نے
صرف 23 سال کے قلیل عرصہ میں انقلابی اقدام اٹھائے۔ جزیرہ عرب
سے دعوت اسلام کی شعاعیں روم وفارس تک پھیل گئیں اور اس دعوت دین نے عالمی سطح پر اپنے
آپ کو منوالیا۔ سیرت کا مطالعہ کم از کم ایک داعی اسلام اور مبلغ کو یہ سبق ضروردیتا
ہے کہ اگر پرخلوص کوشش کی جائے تو اسلام کی خصوصیات بہت جلد لوگوں کو متاثر کر دیتی
ہیں۔ اور کم وقت میں زیادہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔
5 سیرت النبی
e مقبول
اور غیر مقبول اعمال میں سب سے بڑا میزان ہے۔ دائیں بائیں جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ ہم
جو کچھ دین کے نام پر نیکی سمجھ کر کرتے ہیں اس کی قبولیت اور عدم قبولیت کے لیے بہترین
ترازو نبی رحمت علیہ السلام کی سیرت مبارکہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی
ہے جو چیز سیرت سے موافقت کرے وہ قبول ہے اور جو موافقت نہ کرے وہ مردود ہے۔ اس ضمن
میں خطیب بغدادی نے سفیان بن عیینہ کا قول اپنی کتاب کے مقدمہ میں نقل کیا ہے جو بہت
ہی جامع ہے۔ فرماتے ہیں: [ان رسول اللهﷺ ھو المیزان الاكبر، فعلیه تعرض الاشیاء علی خلقه وسیرته وھدیه،
فما وافقھا فھو الحق، وما خالفھا فھو الباطل] اس صورت میں اس میزان سے صرف وہی شخص آگاہ ہوگا۔ جو سیرت طیبہ
کا مطالعہ کرتا ہوگا جس نے کبھی اس سے آگاہی کی کوشش نہیں کی وہ کس طرح اچھے برے کھرے
اور کھوٹے کی پہچان کرپائے گا۔ ہم لوگ اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ علماء فرقہ واریت
پھیلاتے ہیں اور نئے نئے مسائل بیان کرتے ہوں۔ دراصل یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس کے
مقتدی جاہل مطلق ہوں۔ اگر لوگ سیرت کا کم از کم مطالعہ کرلیں تو کسی عالم کو یہ جرأت
نہیں کہ وہ انہیں گمراہ کر سکے۔ ہماری سیرت النبی e سے عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے جو فرقہ واریت کی شکل میں
بھگت رہے ہیں۔ سیرت طیبہ سے باخبر آدمی کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔ موجودہ محبت کے
اظہار کے طریقوں سے بھی پردہ اٹھ جائے گا۔
بدقسمتی
سے ہم اپنی ضروری اور غیر ضروری خواہشات کی تکمیل کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں
لیکن کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ سیرت النبی e پر کتابیں خرید کر گھر میں لائیں۔ خود پڑھیں اور بچوں
کو بھی اس کا عادی بنائیں۔
6 سیرت مبارکہ
کا مطالعہ قرآن فہمی کا بھی ذریعہ ہے۔ کیونکہ بہت ساری آیات کے اسباب نزول میں پیش
آمدہ واقعات آپ کو سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہونگے۔ مثلاً تییم کا حکم کب اور کس طرح
نازل ہوا۔ اس کے پس منظر میں جو واقعہ ہوا اس کی تفصیل کتب سیرت میں موجود ہے اور بہت
سارے واقعات موجود ہیں۔
7 سیرت کا مطالعہ
دراصل نبی کریمe سے
محبت کا ذریعہ ہے۔ جو مسلمان بھی آپe کو محبوب سمجھتا ہے اس کی خواہش ہوگی کہ آپ کی ہرہر
ادا کو جان سکے اور اس کا واحدذریعہ سیرت طیبہ کا مطالعہ ہی ہے۔ اس ضمن میں ثمامہ بن
أثال کا واقعہ بہت ایمان افروز ہے۔ ایک جنگ میں یہ گرفتار ہوئے تو مسجد نبوی میںلاکر
ستون سے باندھ دئیے گئے۔ ان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا خیال رکھا گیا۔ وقت پر کھانا
پینا اور آرام وغیرہ : آپ e آتے
جاتے ان کی خیریت دریافت کرتے لیکن ثمامہ بڑی تلخی سے جواب دیتا: [ان تقتل تقتل ذا دم، وان تنعم تنعم علی شاكر، وان كنت ترید
المال فسأل منه ما شئت۔] (بخاری) یہاں تک کہ تین دن بعد بھی یہی گفتگو ہوئی تو آپ نے انہیں رہا کرنے کا
حکم دیا۔ لیکن ثمامہ پر آپ کے اخلاق حسنہ کا اثر ہو چکا تھا۔ قریبی باغ میں گیا اور
غسل کیا کپڑے پاک کیے اور واپس آکر مسلمان ہو گیا۔ ثمامہ نے براہ راست آپ کے اخلاق
کریمہ کو دیکھا۔ آپ کا بہترین رویہ‘ حسن سلوک اور انداز گفتگو کو ملاحظہ کیا جواسلام
قبول کرنے کا ذریعہ بنا۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اس وقت براہ راست آپ کو دیکھ نہیں سکتے
لیکن کتب سیرت کے ذریعے تو جان سکتے ہیں۔ آپ کی عادات اور طرز زندگی سے آگاہی حاصل
کر سکتے ہیں۔ یہی محبت کا تقاضا بھی ہے۔
8 نبی کریمe پر
ہمارا ایمان بالغیب ہے۔ اس ایمان میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب ہم آپ کی سیرت
کا مطالعہ کرتے ہیں اور ایمان افروز واقعات سنتے ہیں۔ خصوصاً غزوات میں آپ کی بنفس
نفیس شرکت ، دشمنان اسلام کے ساتھ بھی نرم رویہ اور حسن سلوک ، بچوں ، عورتوں ، بزرگو
ں کے ساتھ محبت وشفقت اور ہمدردی کا اظہار۔ صلہ رحمی ، خیر خواہی ،ایثار وقربانی جیسے
اوصاف حمید کے حامل شخصیت کی زندگی یقینا ایمان میں اضافے کا ذریعہ ہے اور یہ تمام
باتیں سیرت مبارکہ سے معلوم ہوتی ہیں۔
9 اگر کوئی مسلمان
مکمل دین کی معرفت حاصل کرنا چاہے تو سیرت کے مطالعہ کو معمول بنالے ۔ اس میں عقیدہ
توحید ورسالت ، عبادات اور اخلاقیات سب مل جاتا ہے۔ یہی دین ، یہی وہ راستہ ہے جو آپ
e اور
آپ کے پیروکار اختیار کرتے ہیں۔ فرمایا [قل ھذه سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة انا ومن اتبعنی]
0 سیرت نگاروں
نے ہماری سہولت کے لیے رسول کریم e کی
زندگی کے ایک ایک لمحے کو محفوظ کردیاہے۔ آپ بحیثیت پیغمبر ، آپ بحیثیت داعی، آپ
بحیثیت معلم، آپ بحیثیت مربی، آپ بحیثیت خاوند، آپ بحیثیت باپ، آپ بحیثیت قائد،
آپ بحیثیت جرنیل، سپہ سالار، حکمران غرضیکہ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں کہ جس کی
تفصیل کتب کی شکل میں موجود نہ ہو۔ آپ اس بات کا اندازہ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ
ممتاز دانشور اور صاحب علم وفضل پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ کی ذاتی لائبریری
’’بیت الحکمت‘‘ کے نام سے ملتان روڈ بالمقابل منصور ہ لاہور میں موجود ہے۔ جس میں صرف
سیرت النبی e پر
چھ ہزار سے زائد کتب موجود ہیں جن سے اہل علم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ غرضیکہ اگر کوئی
شخص سیرت پر کتابیں حاصل کرنا چاہے تو کتب خانے سیرت کی کتب سے بھرے پڑے ہیں۔ بآسانی
مطلوب کتابیں مل سکتی ہیں۔ لہٰذا ہم سب کو سیرت النبیe کا بھر پور مطالعہ کرنا چاہیے اور یہی طریقہ ہمیں راہ
راست پر لانے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں مسلمان بنائے۔ نبی
کریم کی سیرت طیبہ کوپڑھنے اور اس کے ذریعے حقیقی محبت اجاگر فرمائے ۔ آمین۔
No comments:
Post a Comment