ایک خوبصورت کہانی
تحریر: جناب مولانا
عبدالمالک مجاہد
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے اسلاف پر سنہرے ایام کا دور دورہ
تھا۔ تاریخ اسلام کے نامور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کوقیصر روم نِقفور کی جانب سے
ایک خط موصول ہوتا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کی سطوت وہیبت اور عسکری قوت کا عالم یہ
تھا کہ رومیوں کی ملکہ ’’رِینا‘‘نے مسلم افواج سے مقابلے کی طاقت نہ رکھنے کے باعث
ہارون الرشید کے ساتھ جزیہ کی ادائیگی کا معاہدہ کررکھا تھا۔ وہ باقاعدگی سے ہر سال
مسلمانوں کو جزیہ کی مقررہ رقم وقت مقرر پر بھجوادیتی۔ اس طرح اسے چین اور سکون سے
حکومت کرنے کا موقع ملا ہواتھا۔ 187 ہجری میں روم میں انقلاب برپا ہوا اور حکومتی مناصب
میں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ملکہ کو معزول کرکے رومیوں نے نقفور کو اپنا بادشاہ بنالیا۔
ملکہ کو اس کی کمزور پالیسیوں کی سزااس طرح دی گئی کہ اس کی آنکھوں میں لوہے کی گرم
سلائیاں پھیر دی گئیں۔ اس وحشیانہ عمل کے نتیجے میں ملکہ کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا
پڑا اور وہ دونوں آنکھوں سے محروم ہو کر نابینا ہوگئی۔ جیسے ہی نقفور نے اقتدار پر
اپنی گرفت مضبوط کی‘ اسے پادریوں‘ درباریوں اور عام شہریوں نے تجویز دی کہ وہ اگرمسلمانوں
کو جزیہ دینے سے انکار کردے تو مسلم حکمران اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔
ایک دن ہارون الرشید اپنے قصر خلافت میں پورے پروٹوکول کے ساتھ
تشریف فرما تھا۔ ارد گرد بڑے بڑے اعیان حکومت‘ وزراء اور مشیران کرام بیٹھے تھے کہ
سرکاری پوسٹ مین ایک خط لے کر حاضر خدمت ہوا۔ یہ خط روم کے بادشاہ نقفور نے ہارون رشید
کی جانب لکھاتھا۔مکتوب کی خاص اہمیت کے پیش نظراسے براہ راست خلیفہ کے ہاتھ میں دیا
گیا۔ خلیفہ نے سر بمہر خط کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ خط کی عبارت پڑھتا
جا رہا تھا‘اس کے چہرے پر غصے اور ناگواری کے اثرات ظاہر ہوتے چلے جا رہے تھے۔خط کا
مضمون کچھ اس طرح سے تھا:
’’رومیوں کے بادشاہ نقفور کی جانب سے عربوں کے بادشاہ ہارون کی طرف‘
أما بعد!
مجھ سے پہلی
سربراہ حکومت ہماری ملکہ نے آپ کو بہت اونچے مقام پر لا کھڑا کیااور خود کوذلت وادبار
کی پستی میں گرا لیا تھا۔ وہ آپ کوجزیہ کے طور پر اموال بھی بھیجتی رہی‘ لیکن میں
آپ لوگوں کو اس ضمن میں ایک درہم بھی دینے پر تیار نہیں۔ یہ معاہدہ اور جزیہ اس عورت
کی فطری کمزوری اور حماقت کا نتیجہ تھا۔ آپ کو جیسے ہی میرا یہ خط ملے آپ فوراً وہ
سارا مال واپس کریں جو ملکہ رِینا نے آپ کو ارسال کیاتھا۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا
تو پھر ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ تلوار کے ذریعے ہوگا۔‘‘
ہارون الرشید خط پڑھ رہاہے۔شدید غصے کے آثار اس کے چہرے سے
ہویدا ہیں۔ غیض وغضب سے اس کا چہرہ سرخ ہو چکاہے۔ خلیفہ کے غصے کا یہ عالم تھا کہ اس
کے رعب و دبدبہ کے باعث کوئی شخص اس کی طرف آنکھ اٹھا کردیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ خلیفہ
کی حالت دیکھ کر ان کا وزیر اعظم بھی ان سے مخاطب ہونے میں دشواری محسوس کررہاتھا۔
ہارون الرشید نے اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھا اور حکم دیا: جلدی سے
قلم دوات اور کاغذ لایا جائے۔ حکم کی فوراً تعمیل ہوتی ہے۔ انہوں نے اسی خط کی پشت
پر اپنے ہاتھ سے جواب لکھا:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم… امیر المؤمنین ہارون الرشید کی جانب سے
روم کے کتے نقفور کی طرف‘ کافرماں کے بچے ! میں نے تمہارا خط پڑھ لیا ہے۔ تمہاری اس
بکواس پر ہمارا جواب سننے سے نہیں‘ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
خط کو بند کرکے اس پر سرکاری مہر لگائی جاتی ہے اور اسی وقت
نقفور کو بھجوا دیاجاتاہے۔ خلیفہ اسی وقت حکم جاری کرتا ہے : فوجوں کو تیار کیا جائے۔
رومی حکمران کو بد عہدی کا مزا چکھا نے کے لیے ہمیں آج ہی اس کی طرف روانہ ہونا ہو
گا ۔
تیاری تو پہلے ہی سے مکمل تھی‘ فوج چند گھنٹو ںمیں تیار ہوگئی۔دیکھیے!
امیر المؤمنین ہارون الرشید اس لشکر کی قیادت کے لیے کسی جرنیل کو نامزد نہیں کرتے‘
بلکہ خود بنفس نفیس فوجوں کی کمان کے لیے اپنے قصر سے تشریف لاچکے ہیں۔ شام سے پہلے
پہلے مجاہدین اسلام کا لشکر بغداد سے رومیوں کے علاقے کی طرف روانہ ہوچکا ہے۔ وہ سفر
جو عام حالتوں میں کئی ہفتوں میں طے ہوتا تھا‘ اسے دنوں میں طے کرکے ہارون الرشید’’ہرقلیہ‘‘
کے مقام پر جا پہنچتا ہے۔
ہارون الرشید جب جنگ کے مقام پرپہنچا تو اس نے دیکھا کہ بزدل
دشمن کھلے میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہ پاتے ہوئے ایک مضبوط قلعے میں پناہ لیے
ہوئے ہے۔مسلم لشکر قلعے کا محاصرہ کر لیتا ہے۔ عیسائی بادشاہ نقفور کا تعلق آل جفنہ
غسانی سے تھا۔ یہ لوگ بڑے بہادر اور شجاع تھے۔ بالآخر دونوں فوجیں آمنے سامنے آتی
ہیں اور ان کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ یہ بلاشبہ بڑی یاد گار جنگ تھی۔ رومیوں
کے بے شمار لوگ قتل ہوئے۔ خود ان کے بادشاہ نقفور کو بھی تین کاری زخم آئے۔ رومیوں
کے مقابلے میں مسلمانوں کا نقصان بڑا مختصر اور تھوڑا ساتھا۔ نقفور کو معلوم ہوگیا
کہ مسلمانوں پر فتح حاصل کرنا نہایت دشوار کام ہے۔اس جنگ کے نتیجے میں مسلم فوج یہ
علاقہ فتح کرنے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اس نے صلح کی درخواست کی۔ اس جنگ کے دوران کتنے
ہی رومی مسلمانوں کی قید میں آچکے تھے۔ ادھر مختلف سابقہ جنگو ں کے نتیجے میں بھی
بعض مسلمان رومیوں کی قید میں تھے۔ ہارون الرشید بڑا سمجھ دار اور ذکی شخص تھا۔ اس
نے سوچا مسلمان قیدیوں کو چھڑانے کا یہ نادر موقع ہے؛ چنانچہ اس نے صلح کی پیشکش قبول
کرلی۔ اس لڑائی کا بڑا مقصد نقفور کو بدعہدی کی سزا دینا تھا۔وہ اب زخمی تھا اور اس
نے اطاعت قبول کرلی تھی۔ صلح کی شرائط میں لکھا گیا کہ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردیا
جائے گا۔ رومیوں نے تین لاکھ دینا ر بطور جزیہ ادا کرنے کا بھی اقرار کیا۔ صلح نامہ
پر دستخط ہونے کے بعد ہارون الرشید اس شان سے بغداد واپس آتا ہے کہ اس کے پاس بہت
سا مال غنیمت تھا۔ مسلمان قیدیوں کوبھی رہا کردیا گیا۔ امام ابن کثیرؒ کے مطابق اس
نے شاہی خاندان کی ایک دوشیزہ کو بھی اپنے لیے پسند کیا۔ مؤرخین کے مطابق عباسی زمانہ
حکومت میں ہارون الرشید کا دور سب سے اہم اور سنہرا دور تھا۔ ہارون الرشید دیگر خلفاء
کے مقابلہ میں قرآن وحدیث کا زیادہ علم رکھنے والا اور اللہ تعالیٰ کا زیادہ خوف رکھنے
والا حکمران تھا۔یہ ایک سال رومیوں کے خلاف جنگ کرتا اور اگلے سال حج کے لیے مکہ مکرمہ
جاتا۔ جس سال اسے خلافت ملی اس سال اس نے رومیوں کے نواحی علاقے میں جنگ کی اور شعبان
کے مہینہ میں واپس بغداد آگیا۔حکومت سنبھالنے کے بعد ذو القعدہ میں وہ حج کے لیے روانہ
ہوتا ہے اور اسی سال حج بھی کرتا ہے۔ اس نے حرم کے فقراء اور حرم شریف پر بے دریغ خرچ
کیا۔
ہارون الرشید کی حکومت اتنی وسیع وعریض تھی کہ وہ ایک دن باغ
میں بیٹھا ہواتھا۔ گرمی شدید تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اللہ کرے اور آج ان کے یہاں
بارش ہوجائے۔تھوڑی دیر گزری اس نے آسمانوں پر کالے رنگ کے بادل دیکھے۔اس کی امید بر
آئی۔ اس نے خوشی سے آسمانوں کی طرف دیکھا۔بادلوں نے پورے علاقے پر سایہ کردیا تھا۔
لگتا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر کے بعد ٹھیک ٹھاک بارش ہوگی۔ہارون بڑی بے چینی سے بارش
کا انتظار کرنے لگا‘ مگر یہ کیا؟ اس نے دیکھا کہ بادل ایک طرف چلنا شروع ہو گئے۔ اسے
بڑی مایوسی ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد مطلع صاف ہوگیا۔اس نے بادلوں سے مخاطب ہوکر اپنا تاریخی
جملہ ارشاد فرمایا:
[اَمْطِرِي حَیْثُ
شِئْتِ فَسَوْفَ یَاْتِینِي خَرَاجُك]
’’ جہاں چاہو جا برسو۔ تمہارے ذریعے پیدا ہونے والی فصلوں کا خراج تو
میرے پاس ہی آئے گا۔ ‘‘
ایک مرتبہ ہارون الرشید کو ایک بے دین‘ ملحد‘ زندیق شخص کی موجودگی
کے متعلق معلوم ہوا۔ ایسے لوگ نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے
بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہارون اس قسم کے فتنہ پر ور لوگوں
سے خوب واقف تھا۔ اس نے حکم دیا کہ اس زندیق کا سر قلم کردیاجائے۔ زندیق ہارون سے کہنے
لگا : جناب! آپ مجھے کیوں قتل کررہے ہیں؟ ہارون کہنے لگا: تاکہ لوگوں کو تم سے نجات
دلائی جاسکے۔ زندیق نے کہا: چلیے میں تو قتل ہوجاؤں گا‘ مگر آپ ان ایک ہزار جھوٹی
احادیث کا کیا کریں گے جو میں نے خود بنا کر احادیث نبویہ میں شامل کر دی ہیں۔ ان میں
ایک لفظ بھی اللہ کے رسول e کا
بتایا ہوا نہیں ہے۔ ہارون نے برجستہ کہا : او اللہ کے دشمن! کوئی فکر کی بات نہیں!
ہمارے پاس ابو اسحاق فزاری اور عبداللہ ابن المبارک جیسے لوگ موجود ہیں۔ یہ وہ لوگ
ہیں جو مکمل چھان پھٹک کر کے ایک ایک حدیث سے جعلی اور من گھڑت الفاظ نکال باہر کریں
گے۔ اللہ تعالیٰ اس نیک دل خلیفہ ہارون الرشید کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ انہوں نے حدیث
کی عزت اور عظمت کا بہت خیال رکھا اور علمائے حدیث کی بڑی قدر کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں
قیامت والے دن عزت ووقار نصیب فرمائے۔
بنو عباس سے پہلے بنو امیہ کی حکومت تھی۔ انہوں نے بھی اپنے
عہد کی حکومت میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی خلافت
کا دور اگرچہ بڑا مختصر تھا‘ مگر ان کے ڈھائی سال صدیوں پر بھاری تھے۔ جس خوبصورت طریقے
سے انہوں نے حکومت کی‘ تاریخ آج بھی اس کی مثالیں دیتی ہے۔بنو امیہ کی حکومت 41ہجری سے 132 ہجری تک قائم رہی۔ 91 سالہ عہد حکومت میں بنو امیہ نے جو نمایاں کارنامے سر انجام دیے‘ ان
میں دمشق میں تعمیر کی جانے والی اموی مسجد بھی شامل ہے جو اپنے زمانے میں دنیا کی
سب سے بڑی مسجد تھی۔ آج بھی یہ مسجد نہایت خوبصورت ہے۔بنو امیہ کے دورہی میں مراکش
فتح ہوتا ہے۔ اندلس میں مسلمانوں کی حکومت بنو امیہ کے ہاتھوں قائم ہوئی۔ یہ حکومت
کم وبیش آٹھ سو سال تک اسپین میں کامیابی سے چلتی رہی۔محمد بن قاسم ثقفی نے بنو امیہ
ہی کے دور میںموجودہ پاکستان کے علاقے سندھ کو فتح کیا۔ ملتان پر اسلام کے جھنڈے محمد
بن قاسم اور ان کے ساتھیوں ہی نے لہرائے۔ اس طرح برصغیر پاک وہند کے تمام علاقوںمیں
اسلام انہی مجاہدین اسلام کے ذریعے پہنچا۔ قتیبہ بن مسلم باہلی نے افغانستان اور بلاد
ماوراء النہر کو فتح کیا۔ قتیبہ بن مسلم وہ مشہور زمانہ اسلامی جرنیل ہے جس نے چین
کی مٹی کو روندنے کی قسم کھائی تھی۔ہشام بن عبدالملک کے دور میں مسلمان جنوبی فرانس
پر حملہ آور ہوئے تھے اور اس کے کچھ حصہ پر قابض بھی ہوگئے تھے۔کہنے کا مقصد یہ ہے
کہ محمد رسول اللہ کا قافلہ کبھی رکا نہیں‘ تھما نہیں‘ بلکہ مسلسل چلتا رہا۔ جہاں تک
عباسی دور کا تعلق ہے تو وہ 132ہجری
میں شروع ہوا اور 656 ہجری تک چلتا رہا۔اموی حکومت کا دار الخلافہ دمشق تھاجبکہ عباسی خلفاء نے بغداد
کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ عباسی حکومت کی نمایاں خوبی یہ رہی کہ کم وبیش دوسو سال تک
اس خاندان نے مسلم علاقوں میں مکمل عروج حاصل کیا۔ بغاوت ہوئی تو اسے سختی سے کچل دیا
۔ہارون الرشیدعباسی ہاشمی 149 ہجری میں پیدا ہوئے۔
والد کا نام محمد المہدی ، دادا کا نام ابو جعفر عبداللہ المنصور اور بڑے دادا کا نام
محمد بن علی تھا جو سیدنا عبداللہ بن عباس ہاشمی کے پوتے تھے۔ یہ بنو عباس کے پانچویں
خلیفہ تھے۔ ان کی والدہ کا نام خیزران تھا جو محمد المہدی کے دور میں بڑی طاقتور خاتون
تھی۔ خلیفہ نے اپنی اہلیہ کو بے پناہ اختیارات دے رکھے تھے۔ ہارون الرشید جب پیدا ہوا
تو اس کا والد ’’ ا لرّی‘‘ شہر کا گورنر تھا۔ یہ ایران کا ایک شہر تھا جوتہران کے قریب
واقع تھا۔ہارون نے اپنے بھائی موسیٰ الہادی کے ساتھ بغداد ہی میں بچپن گزارا۔ اس کے
دادا ابو جعفرمنصور اس وقت خلیفہ تھے۔ اس کی تعلیم و تربیت کا بہت ہی عمدہ بندوبست
کیا گیا۔ اس زمانے میں عباسی خاندان پر ’’برامکہ‘‘ اثر انداز ہوچکے تھے۔برامکہ ایرانی
النسل تھے۔ یہ نہایت ہی ذہین وفطین‘ اصحاب علم اور معاملہ فہم لوگ تھے۔ ہارون کے والد
کے حکم پر برامکہ خاندان کے لوگوں نے ہارون کی تعلیم وتربیت میں مؤثر کردار ادا کیا۔ہارون
کو عربی زبان سکھانے کے لیے علم نحو کے مشہور عالم علی بن حمزہ الکسائی کی خدمات حاصل
کی گئیں۔گھڑ سواری‘ نیزہ بازی اور تلوار سے لڑائی کرنا تو عربوں کی گھٹی میں پڑا ہوا
تھا۔ اس کے باوجود چھوٹی عمر ہی سے بچوں کی تربیت اس طرح کی جاتی تھی کہ انہیں بڑے
ہو کر لوگوں کی قیادت کی ذمہ دار یاں سنبھالنا ہیں۔ بطور خاص حکمران طبقہ اپنے بچوں
کی اس نوعیت کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتا تھا۔ اس زمانے میں آج کی طرح کالج اور یونیورسیٹیاں
تو نہیں تھیں‘ مگرہر فن کے لائق ترین اساتذہ کا انتخاب کرکے ان کا تعین کیا جاتا اور
بچوں کی خصوصی تعلیم پر بھر پور توجہ دی جاتی۔ بڑے بڑے قابل اتالیق سارا دن بچے کے
ساتھ رہا کرتے تھے۔ جہاں تک ہارون الرشید کا تعلق ہے تو اس کی تعلیم وتربیت کے لیے
بہت ہی خاص بندوبست کیا گیاتھا۔
قیصر نِقفور کے بارے میں لکھتے ہوئے یہ خیال آیا کہ کیوں نہ
ہم قارئین کرام کو رومن ایمپائر کے بارے میں کچھ بتاتے چلیں۔ رومن ایمپائر ایک بہت
بڑی سلطنت تھی۔ اس کے دو حصے تھے‘ ایک مغربی رومن ایمپائر اور دوسری مشرقی رومن ایمپائر
کہلاتی تھی۔ اس کا صدر مقام روم تھا۔ روم کے مغربی حصے کی ساری غذائی ضروریات مصر اور
شام کی گندم سے پوری ہوتی تھیں۔ کچھ عرصہ گزرا تو مغربی رومن ایمپائر کوقانون قدرت
کے تحت زوال کا سامنا کرنا پڑا اور مشرقی رومن ایمپائر آہستہ آہستہ خودمختاری کی
طرف بڑھنے لگی۔رسول اللہ e کی
پیدائش سے قریباً سو سال پہلے مغربی رومن ایمپائر کا شیرازہ بکھرگیا اور وہ چار بڑے
ممالک جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ اور سپین پرتگال وغیرہ ہیں تقسیم ہوگئی۔ دوسری طرف مشرقی
رومن ایمپائر خود مختار اور مستحکم ہوگئی‘ اس کا صدر مقام قسطنطنیہ تھا۔مصر‘ شام‘ لبنان‘
فلسطین‘ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے بہت سے علاقے اس کے زیر نگیں تھے۔ خلفائے راشدین‘
بنو امیہ اور بنو عباس کے ادوار میں اس کے ساتھ بہت سے معرکے ہوئے اور مسلمان اس کے
حجم کو کم کرتے رہے۔ اس کے صدر مقام قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور اس کے خاتمے کی سعادت
عثمانی ترکوں کے سلطان محمدالفاتح کے حصے میں آئی۔ انہوں نے 21 جمادی الأولی 857 ہجری میں قسطنطنیہ فتح کیا اور اس کا نام استنبول رکھا جو اس کے
بعدعثمانی ترکوں کا دار الخلافہ بن گیا۔
ہارون کے دادا ابو جعفر منصور 158 ہجری میں وفات پاتے ہیں تو ان کی جگہ ہارون کے والد
محمد مہدی خلیفہ بنتے ہیں۔ مہدی نے بیٹے کی تربیت پر مزید توجہ دی۔بطور خاص گھڑ سواری
اور شمشیر زنی پر ہارون نے خوب مشق کی۔ اس وقت ہارون رشید کی عمر صرف پندرہ سال تھی
جب انہیں ایک چھوٹے سے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے رومیوں کی سرحد پر بھیجا گیا۔ دشمن
’’ سمالوا‘‘ نامی قلعہ میں بند تھا۔ مسلمانوں نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا جو 38 دن
تک جاری رہا۔ ہارون کا یہ پہلا امتحان تھا۔ وہ نہایت کامیابی سے اس قلعہ کو فتح کرتا
ہے۔ ہارون اس شان سے بغداد واپس آتا ہے کہ اس کے ہمراہ بہت سارا مال غنیمت تھا۔ اہل
بغداد لشکر کے استقبال کے لیے شہر سے باہر نکل پڑتے ہیں۔15 سالہ
نوجوان قائد کا بھر پور استقبال ہوتا ہے۔ ہارون کے والد مہدی اپنے بیٹے کو اس کامیابی
پر یہ انعام دیتے ہیںکہ انہیں آذربیجان اور آرمینیہ کا گورنر بنا دیا جاتا ہے۔
ہارون کی اصل شہرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ قسطنطنیہ پر حملہ آور
ہوتا ہے اوراس کے دروازوں تک جا پہنچتا ہے۔ اگرچہ وہ اسے فتح نہ کرسکا‘ مگر صلیبیوں
کو مسلمانوں کی طاقت کا خوب اندازہ ہوجاتا ہے۔
یہی وقت تھا جب ہارون کی شادی اپنی چچازاد بہن زبیدہ بنت جعفر
سے ہوتی ہے۔ زبیدہ اپنے وقت کی نہایت خوبصورت‘ سمجھ دار اور ذہین خاتون تھی۔ یہ شادی
تاریخ کی مشہورترین شادیوں میں سے ایک تھی۔ زبیدہ سے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا ہے جس
کا نام محمد الامین رکھا جاتا ہے۔ہارون کا دوسرا بیٹا عبداللہ المامون مراجل نامی لونڈی
کے بطن سے پیدا ہوا۔ مراجل کا تعلق ایران سے تھا۔ اس کے آباء واجداد مجوسی تھے۔ ہارون
الرشید رومیوں سے لڑائیوں میں مسلسل مشغول
رہا۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیابیوں سے نوازتا چلا گیا۔ وہ دن بھی آیا کہ جب وہ بغداد
پہنچا تو اس کا والد مہدی اس کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ باپ نے بیٹے کو سینے سے
لگایا‘ اس کا ماتھا چوما‘ اسلام دشمن قوتوں کے خلاف کامیابیوں پر اسے مبارک باد دی
اور بیٹے کو رشید کے خطاب سے نوازا۔وہ ہارون کے بڑے بھائی موسیٰ الہادی کو ولی عہد
مقرر کر چکا تھا۔ اس نے موسی الہادی کے بعد ہارون کے خلیفہ بننے کا اعلان کیا۔ اس طرح
ہارون الرشید نائب ولی عہد بنتے ہیں۔
ہارون
رشید اپنے بڑے بھائی موسیٰ الہادی کی وفات کے بعد 14 ربیع الاول 170ہجری
میں خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کی حکومت مشرق سے مغرب تک اور
شمال سے جنوب تک پھیل چکی تھی۔ اتنی وسیع مملکت میں بعض فتنوں کا سر اٹھانا ایک طبعی
عمل تھا۔ حکومت کے نظام کو چلانے کے لیے بہت سمجھ دار‘ ذہین وفطین اور بر وقت فیصلہ
کرنے والی شخصیت کی ضرورت تھی۔ یہ تمام صفات اور خوبیاں ہارون الرشید میں بدرجہ اتم
پائی جاتی تھیں۔ ہارون الرشید نے 21 سال تک حکومت کی اور 191ہجری
میں محض 41 سال کی عمر میں خراسان کے علاقے طوس میںجسے موجودہ دور میں مشہد (ایران) کہا
جاتا ہے وفات پائی۔
No comments:
Post a Comment