Saturday, November 16, 2019

سر کے بال ... احکام ومسائل 43-2049


سر کے بال ... احکام ومسائل

تحریر: جناب مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری
سر کے بال اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں جن میں ہیبت و سطوت بھی ہے اور حسن وجمال بھی۔سنت ِرسول کے مطابق بال رکھنے سے جہاں اللہ تعالیٰ کی رضاو خوش نودی حاصل ہوتی ہے وہاںقیام دین اور غلبہ اسلام کی بہترین کوشش بھی ہے۔
آج کے مسلمان کفار کی وضع قطع اور تہذیب و تمدن کے دل دادہ ہیں۔جب سے انہوں نے اپنے عملی امتیازات ترک کئے مجبور ومقہور ہو کر رہ گئے ہیں،اپنا مذہبی تشخص اور اسلامی شعار کھو بیٹھے ہیں۔ان کے اور اللہ کے باغیوں کے مابین ظاہری فرق وتمیز ختم ہو گئی ہے۔
مسلمانوں کی غفلت وسرکشی اور بدعملی کا یہ عالم ہے کہ فطرت پرست انسان انہیں ایک نظر نہیں بھاتا۔مغلوبیت کے ماروں نے کفار کی دیکھا دیکھی مسنون بالوں سے نفرت شروع کر دی ہے،کفار بالوں سے نفرت بھی کرتے ہیں اور بالوں سے ڈرتے بھی ہیں، گوبالوں کا تعلق عبادات سے نہیں معاملات سے ہے ،لیکن بال رکھنے میں رسول اللہeکا طریقہ اختیار کرنا مستحب ضرور ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ کفار کی مشابہت میں الٹے سیدھے بال رکھنا کسی صورت درست نہیں۔
افسوس کن امر یہ ہے کہ بعض خاصے مذہبی قسم کے لوگ بھی دین دار نوجوانوں کو سختی کے ساتھ بال کٹوانے کا حکم دیتے نظر آتے ہیں،حالانکہ مستحب امور کی ترغیب ہونی چاہیے۔
بعض احباب یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بڑے بالوں کو سنوارنا مشکل ہے اور اس سے طالب علم کا حرج ہوتا ہے۔لیکن یہ وہم ہے،کیوں کہ دین آسان ہے اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ چھوٹے بال سنوارنا قدرے مشکل ہے، بلکہ ان کے سنوارنے میں زیادہ اخراجات اٹھتے ہیں اور وقت کا ضیاع  ہے۔
مسلمان گھرانوں میںبچپن ہی سے اسلامی آداب ِمعاشرت سکھائے جائیں تا کہ  بڑے ہو کراسلامی شعار اور اسلامی طرز ِزندگی اپنا سکیں اور پوری دنیا کے سامنے اسلامی تہذیب وتمدن کا بہترین نمونہ پیش کر سکیں۔
رسول اللہﷺ کے بال مبارک:
رسول اللہeکے بال تین طرح کے تھے:
1          جُمَّہ… کندھوں پر لٹکتی زلفیں۔
2          لِمَّہ … کانوں کی لو سے بڑھی ہوئی زلف۔
نوٹ: لِمَّہ اور جُمَّہ ایک دوسرے کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہیں۔
3          وَفْرَہ … کانوں کی لو تک پہنچی ہوئی زلفیں۔
معروف لغوی امام حافظ نوویa لکھتے ہیں :
[قَالَ اَھْلُ اللُّغَة: الْجُمَّة اَكثَرُ مِنَ الْوَفْرَة، فَالْجُمَّة؛ الشَّعْرُ الَّذِي نَزَلَ إِلَی الْمَنْكبَیْنِ، وَالْوَفْرَة؛ مَا نَزَلَ إِلٰی شَحْمَة الْـاُذُنَیْنِ، وَاللِّمَّة؛ الَّتِي لَمَّتْ بِالْمَنْكبَیْنِ۔]
’’اہل لغت کہتے ہیں کہ جُمَّہ بال وَفرہ سے بڑے ہوتے ہیں۔جمہ کندھوں پر لٹکتے بالوں کو کہتے ہیں۔وفرہ وہ جو کانوں کی لو تک پہنچیں اور لِمَّہ مونڈھوں کو چھو تے ہیں۔‘‘ (شرح صحیح مسلم: 285/2)
نبی اکرمeکے مبارک بالوں کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں:
n          سیدنا انس بن مالکtبیان کرتے ہیں :
[إِنَّ رَسُولَ اللّٰةﷺ كانَ یَضْرِبُ شَعْرُة مَنْكبَیْة۔]
’’رسول اللہeکے بال مونڈھوں کو چھوتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم : 2338/95)
n          سیدنا براء بن عازبt فرماتے ہیں:
[إِنَّ جُمَّتَة لَتَضْرِبُ قَرِیبًا مِّنْ مَّنْكبَیْة۔]
’’آپeکے جُمَّہ کندھوں کے قریب پہنچتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري : 5901)
n          سنن نسائی (5063) کی روایت میں ہے :
[وَرَاَیْتُ لَة لِمَّة تَضْرِبُ قَرِیبًا مِّنْ مَّنْكبَیْة۔]
’’میں نے آپeکے لِمَّہ بال دیکھے جو کندھوں کے قریب تھے۔ــ‘‘
n          ایک روایت میں ہے :
[شَعْرُة یَضْرِبُ مَنْكبَیْة۔] (صحیح مسلم : 2337/92)
’’آپeکے بال کندھوں کو چھوتے تھے۔‘‘
n          قتادہ aبیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا انس بن مالکt سے رسول اللہeکے بالوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا :
[كانَ شَعَرًا رَّجِلًا، لَیْسَ بِالْجَعْدِ وَلَا السَّبْطِ، بَیْنَ اُذُنَیْة وَعَاتِقِةٖ۔]
’’آپeکے بال نہ بالکل سیدھے تھے نہ بالکل گھنگریالے ۔وہ آپeکے کانوں اور کندھوں کے درمیان پڑتے تھے۔‘‘ (صحیح مسلم)
مسند ابو یعلیٰ (وسندہٗ صحیح)کے الفاظ یہ ہیں :
[بَیْنَ الْجِیدِ وَعَاتِقِةٖ۔]
’’گردن اور کندھوں کے درمیان تھے۔‘‘
n          سیدنا براء بن عازبt بیان کرتے ہیں :
[لَة شَعْرٌ یَّبْلُغُ شَحْمَة اُذُنَیْة۔]
’’آپeکے بال کانوں کی لو تک تھے۔‘‘
n          صحیح مسلم میں یوں ہے :
[عَظِیمُ الْجُمَّة إِلٰی شَحْمَة اُذُنَیْة۔]
’’آپeکے بڑے بڑے جمہ بال تھے جو کانوں کی لو تک تھے۔‘‘
n          سیدنا انس بن مالکt کا بیان ہے:
[كانَ شَعْرُ رَسُولِ اللّٰةﷺ إِلٰی اَنْصَافِ اُذُنَیْة۔]
’’رسول اللہeکے بال کانوں کے وسط تک تھے۔‘‘  (صحیح مسلم : 2338/96)
n          سیدنا انسtہی بیان کرتے ہیں :
[كانَ شَعْرُ رَسُولِ اللّٰةﷺ إِلٰی شَحْمَة اُذُنَیْة۔]
’’رسول اللہeکے بال کانوں کی لو تک تھے۔‘‘ (سنن أبي داوٗد : 4185، سنن النسائي : 5064، وسندہٗ صحیحٌ)
n          سیدنا انسtہی سے روایت ہے :
[إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كانَ یُجَاوِزُ شَعْرُة اُذُنَیْة۔]
’’نبی اکرمeکے بال کانوں سے بڑھے ہوئے تھے۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 142/3، وسندہٗ صحیحٌ)
n          ابورمثہt بیان کرتے ہیں :
میں والد ِگرامی کے ساتھ نبی اکرمeکے خدمت میں حاضر ہوا۔جب میرے والد صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ رسول اللہe ہیں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
[وَكنْتُ اَظُنُّ رَسُولَ اللّٰةﷺ شَیْئًا لَّا یُشْبِة النَّاسَ، فَإِذَا بَشَرٌ لَّة وَفْرَة، وَبِھَا رَدْعٌ مِّنْ حِنَائٍ۔] (مسند الإمام أحمد : 228-226/2، وسندہٗ صحیحٌ، وصحّحہ ابن حبّان : 5995، والحاکم : 425/2، ووافقہ الذھبيّ)
’’میرا خیال تھا کہ رسول اللہeلوگوں جیسے نہیں ہوں گے، لیکن اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ آپeتو بشر ہیں۔آپ کے بال کانوں کی لو تک تھے اور انہیں مہندی لگی ہوئی تھی۔‘‘
n          سیدہ عائشہr بیان کرتی ہیں :
[كانَ شَعْرُ رَسُولِ اللّٰة ﷺ فَوْقَ الْوَفْرَة وَدُونَ الْجُمَّة۔] سنن ترمذی(1755، وقال : حسن صحیح غریب)اور شمائل ترمذی(24، وسندہٗ حسن) میں یہ الفاظ ہیں :
’’رسول اللہeکے بال وفرہ(کانوں کی لو)سے زیادہ اور جمہ (کندھوں)سے کم تھے۔‘‘ (سنن أبي داوٗد : 4187، وسندہٗ حسنٌ)
 [فَوْقَ الْجُمَّة وَدُونَ الْوَفْرَة۔]
’’آپeکے بال جمہ سے زیادہ اور وفرہ سے کم تھے۔ــ‘‘
شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں :
[وَجَمَعَ بَیْنَةمَا شَیْخُنَا فِي شَرْحِ التِّرْمِذِيِّ بِاَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِةٖ : فَوْقَ وَدُونَ بِالنِّسْبَة إِلَی الْمَحَلِّ، وَتَارَة بِالنِّسْبَة إِلَی الْكثْرَة وَالْقِلَّة، فَقَوْلُة : فَوْقَ الْجُمَّة، اَيْ اَرْفَعُ فِي الْمَحَلِّ، وَقَوْلُة : دُونَ الْجُمَّة، اَيْ فِي الْقَدْرِ، وَكذَا بِالْعَكسِ، وَةوَ جَمْعٌ جَیِّدٌ ۔۔۔ ۔]
’’ان الفاظ کے مابین ہمارے شیخ نے سنن ترمذی کی شرح میں یوں تطبیق دی ہے کہ زیادہ یا کم کے الفاظ ایک دفعہ جگہ کے اعتبار سے بولے گئے اور دوسری دفعہ قلت وکثرت کے اعتبار سے۔یعنی جمہ سے اوپر تھے جگہ کے اعتبار سے اور جمہ سے کم تھے مقدار میں۔اسی طرح بالعکس بھی۔یہ اچھی تطبیق ہے۔۔۔‘‘ (فتح الباري : 358/10)
نیز دیکھیں قوت المغتذي علی جامع الترمذی للسیوطي(443/1
تنبیہ:
بعض صوفی اور ملنگ لمبے لمبے بال رکھتے ہیں،حتی کہ کمر تک جا پہنچتے ہیں، یہ عمل درست نہیں۔شریعت نے ایسے بالوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا، جیسا کہ :
n          سیدنا وائل بن حجرt بیان کرتے ہیں :
[رَآنِي النَّبِيُّ ﷺ، وَلِيَ شَعَرٌ طَوِیلٌ، فَقَالَ: ’ذُبَابٌ، ذُبَابٌ‘، فَانْطَلَقْتُ، فَاَخَذْتُة، فَرَآنِي النَّبِيُّ ﷺ، فَقَالَ: ’إِنِّي لَمْ اَعْنِك، وَةٰذَا اَحْسَنُ‘۔] (سنن أبي داوٗد : 4190، سنن النسائي : 5055، سنن ابن ماجة : 3636، وسندةٗ صحیحٌ)
’’نبی اکرمeنے مجھے دیکھا تو میرے لمبے بال تھے۔فرمایا : مصیبت ،مصیبت ۔میں گیا اور کچھ بال کاٹ دیے۔نبی اکرمe نے دیکھا تو فرمایا: میری یہ مراد نہیں تھی،بہر حال بہتر ہے۔‘‘
n          سیدنا ابو درداءt نے صحابی رسول سیدنا سہل بن حنظلیہt سے کہا :کچھ ایسا بتائیں جو ہمیں فائدہ دے تو فرمایا ؛
[قَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰة ﷺ: ’نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَیْمٌ الْـاَسَدِيُّ، لَوْلَا طُولُ جُمَّتِةٖ وَإِسْبَالُ إِزَارِةٖ‘، فَبَلَغَ ذٰلِك خُرَیْمًا، فَعَجِلَ، فَاَخَذَ شَفْرَة، فَقَطَعَ بِھَا جُمَّتَة إِلٰی اُذُنَیْة، وَرَفَعَ إِزَارَة إِلٰی اَنْصَافِ سَاقَیْة۔] (سنن أبي داوٗد : 4089، مسند الإمام أحمد : 180/4، المستدرك علی الصحیحین للحاكم : 184/4، وسندةٗ حسنٌ)
’’ہمیں رسول اللہeنے فرمایا،خریم اسدی بھی کیا خوب  ہیں،اگر ان کے بال زیادہ لمبے نہ ہوں اور شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔یہ بات خریم اسدی tکو پہنچی تو انہوں نے جلدی سے قینچی لی،بال کانوں تک کاٹ دئیے اور شلوار نصف پنڈلی تک اٹھا لی۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم aنے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی aنے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے ۔
اس حدیث کا راوی ہشام بن سعد جمہور کے نزدیک ’’موثق ، حسن الحدیث‘‘ ہے ۔
کندھوں تک بال رکھنا رسول اللہeسے ثابت ہیں، لہٰذا یہاں بالوں کی ناپسندیدہ لمبائی سے مراد کندھوں سے بھی بڑھے ہوئے بال ہیں۔
معلوم ہوا کہ کندھوں تک بال رکھنا جائز ومستحب اور اس سے بڑے بال ناپسندیدہ ہیں۔
تنبیہ:
سیدہ امِ ہانیr سے منسوب ہے کہ رسول اللہeجب مکہ تشریف لائے :
[وَلَة اَرْبَعُ غَدَائِرَ، تَعْنِي عَقَائِصَ۔] (سنن أبي داوٗد : 4191، سنن الترمذي : 1481، الشمائل للترمذي : 31، سنن ابن ماجة : 3631)
’’آپeکے بالوں کی چار مینڈھیاں تھیں۔‘‘
سند ’’ضعیف‘‘ہے، ابن ابو نجیح ’’مدلس‘‘ہیں اور بصیغۂ’’عن‘‘ روایت کر رہے ہیں۔
معجم کبیر طبرانی (429/24) کی سندمسلم بن خالد زنجی (ضعیف عند الجمہور)کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے،جب کہ معجم صغیر طبرانی (87/2) والی سند میںامام طبرانیaکے استاذ محمد بن ادریس حلبی ’’مجہول‘‘اور قتادہ’’مدلس‘‘ ہیں۔
رسول اللہe کے مبارک بالوں کی مختلف اوقات میں کیا کیفیت تھی؟واضح ہو گئی۔ان کے علاوہ بالوں کی کوئی کیفیت پسندیدہ نہیں۔سلف صالحین ،یعنی صحابہ کرام اور ائمہ دین کے بال سنت کے مطابق ہوتے تھے،جیسا کہ :
b          سیدنا کعب بن مالکt کے بال کانوں کی لو تک تھے۔ (صحیح البخاري : 4191)
b          عبد اللہ بن بسر مازنیtکے بال کانوں کی لو تک تھے۔ (معرفۃ الصحابۃ لابي نعیم :1595/3،وسندہٗ حسنٌ)
b          اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عباس(مصنف ابن ابی شیبہ: 450/8، وسندہ صحیح)،سیدنا عبد اللہ بن عمر(مصنف ابن ابی شیبہ: 446/8، وسندہ صحیح)،سیدنا جابر بن عبداللہ(مصنف ابن ابی شیبہ: 446/8، وسندہ صحیح)، سیدنا عبد اللہ بن زبیر (مصنف ابن ابی شیبہ: 450/8، وسندہ صحیح) ،سہل بن سعد ساعدی (التاریخ الاوسط للبخاري، 10230، العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل: 779، وسندہ حسن) سے کندھوں تک بال رکھنا ثابت ہے۔
b          نیز تابعین میں سے قاسم بن محمد(مصنف ابن ابی شیبہ: 447/8، وسندہ صحیح)،عبید بن عمیر(مصنف ابن ابی شیبہ: 450/8، وسندہ صحیح) ابن الحنفیہ(مصنف ابن ابی شیبہ: 450/8، وسندہ صحیح)اور سعید بن مسیب (العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد بن حنبل: 5590، وسندہ صحیح)سے بھی کندھوں تک بال رکھنا مروی ہے۔
تبع تابعی معتمر بن سلیمان کے بال بھی کندھوں تک تھے۔ (العلل لاحمد بن حنبل:1227،وسندہٗ صحیحٌ)
b          علامہ ابن قدامہ مقدسی (541۔620ھ) لکھتے ہیں؛
[وَیُسْتَحَبُّ اَنْ یَكونَ شَعْرُ الْإِنْسَانِ عَلٰی صِفَة شَعْرِ النَّبِيِّ ﷺ إذَا طَالَ فَإِلٰی مَنْكبَیْة، وَإِنْ قَصُرَ فَإِلٰی شَحْمَة اُذُنَیْة۔]
’’رسول اللہeجیسے بال رکھنا مستحب ہے،لمبے ہوں تو کندھوں تک ،چھوٹے ہوں تو کانوں تک۔‘‘ (المغني لابن قدامۃ :66/1)
لہٰذا ہر مسلمان کو سنت ِرسول کی روشنی میں بال رکھنے چاہئیں۔کفار کی تقلید میں الٹے سیدھے بال رکھنے سے بالکل گریز کرنا چاہیے۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)