Saturday, November 16, 2019

مساجد ومدارس کا مقام 43-2019


مساجد ومدارس کا مقام

تحریر: جناب مولانا مزمل حسین
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰه اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْكرَ فِیْها اسْمُه یُسَبِّحُ لَه فِیْها بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ} (النور: ۳۶)
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰه اَنْ یُّذْكرَ فِیْها اسْمُه وَسَعٰی فِیْ خَرَابِها اُولٰـئِك مَا كانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَة عَذَابٌ عَظِیْمٌ}(البقره: ۱۱۴)
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے‘ ان کی بربادی کی کوشش کرے‘ ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے‘ ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔‘‘
دین اسلام میں مساجد ومدارس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی اللہ تعالی احکم الحاکمین کی عبادت کرناہے، نہ کہ اس (خالق) کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک کرنا۔
تمام عبادات میں اہم ترین عبادت نماز ہے‘ اس لیے قرآن مجید میں بیسیوں بار نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے اور مسجدیں نماز کی جگہیں ہیں جہاں اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں قیام، رکوع وسجود اور دعائیں ومناجات کی جاتی ہیں۔
چونکہ عبادت قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کیے بغیر ادا نہیں کی جاسکتی اس لیے مساجد کے ساتھ ساتھ مدارس دینیہ کی ترغیب دی گئی ہے جہاں قرآن وسنت کی تعلیم دی جائے۔ رسول اللہ e کے دور میں مدینہ اور گردونواح میں جتنی مسجدیں معرض وجود میں آئیں تمام میں تعلیم وتربیت کے لیے مدارس کا بھی اہتمام تھا۔
وہاں ایسے مخلص دینی طالب علم قیام پذیر تھے جو اپنی معاشی ضروریات کے لیے لکٹریاں اکٹھی کر کے بیچتے اور دین سیکھ کر دوسرے لوگوں میں دین کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے تھے۔
دنیا میں بڑے بڑے جلیل القدر پیغمبروں کی چھوڑی ہوئی یادگاریں کوئی شاہی محلات نہیں اور نہ کوئی عالیشان بنگلے ہیں بلکہ نبیوں کی نشانیاں اور یادگاریں تو مساجد ومدارس ہیں۔
حتیٰ کہ سیدنا سلیمانu جو کہ عظیم الشان بادشاہت کے مالک تھے‘ ان کی نشانی آج بھی اگر موجود ہے تو کوئی تفریح گاہ، پارک، محل یا کوٹھی نہیں بلکہ ان کی عظیم یاد گار مسجد اقصیٰ کی صورت میں موجودہے۔
جد الانبیاء خلیل اللہ ابراہیمu نے بھی اگر کوئی عمارت بنائی تو وہ بیت اللہ بنایا جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ پیغمبروں کے امام اور اولاد آدم کے سردار نبی رحمتe قبل از نبوت تعمیر کعبہ میں بنفس نفیس شریک تھے‘ اس کی تعمیر کے لیے پتھر لاتے اور اس کام میں اپنے چچاؤں کا ہاتھ بٹایا۔ جب ہجرت کر کے مدینہ سے پہلے قُباء کے مقام پر قیام فرمایا تو پہلا جو کام کیا وہ تعمیرِمسجد ہی تھا۔ جب مدینہ تشریف لائے تو اپنے گھر کے لیے نہیں بلکہ سب سے پہلے زمین پسند کر کے خریدی تو مسجد ہی کے لیے خریدفرمائی اور صحابہ کے ساتھ خود اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی تعمیر فرمائی۔ دوران تعمیر پیش آنے والا ایک ایمان افروز واقعے کا ذکر پیش خدمت ہے:
سیدنا عمار بن یاسرt مسجد نبویe کی تعمیر کے وقت پتھر اٹھا رہے تھے ان کی کمر پر مٹی لگ گئی رسول اللہ e بڑے پیار سے اپنے دست مبارک سے مٹی جھاڑ رہے تھے اور دعافرمارہے تھے۔
غور کیجیے! رسول اللہ e ہجرت فرماکر مدینہ آئے چند دن قباء کے مقام پر رونق افروز ہوئے تو مسجد قباء تعمیر کرادی پھر مدینہ شہر میں جلوہ افروز ہوئے، سیدنا ابو ایوب انصاریt کے مکان میں ٹھہرے‘ اپنی رہائش کے بجائے مسجد کی تعمیر کی فکر ہے‘ جب مسجد تعمیر ہوگئی تو اس سے متصل انتہائی معمولی قسم کے حجرات امہات المؤمنین کے لیے تعمیر کروائے اور اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام تک انہی حجرات میں رہائش پذیر رہے۔ غنیمت میں جتنا مال آتا مسلمانوں میں تقسیم فرماتے حتیٰ کہ اپنے حصے کا مال بھی تقسیم فرمادیا کرتے‘ کبھی اپنے گھر کی زینت کاخیال نہ کیا۔
نبی مکرم e نے اپنے ارشادات میں بھی مسجد یں بنانے، ان کی صفائی ونظافت کا خیال رکھنے اور انکی ضرورتیں پوری کرنے اور آباد کرنے کی زبردست ترغیب دی۔ اس موضوع کے متعلق چند احادیث مبارکہ ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔
{مَنْ بَنٰی لِلَّه مَسْجِدًا صَغِیرًا كانَ اَوْ كبِیرًا بَنَی اللَّه لَه بَیْتًا فِی الجَنَّة}
’’جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی چھوٹی ہو یا بڑی تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘ (الترمذی: ۱/۴۲۱)
کیسی زبردست فضیلت ہے کہ دنیا میں مسجد تعمیر کرنے کے بدلے میں جنت کے اندر ہمیشہ کے لیے بنگلہ مل جائے گا۔
[اَمَرَ رَسُولُ اللَّهﷺ بِبِنَائِ الْمَسَاجِدِ فِی الدُّورِ وَاَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَیَّبَ۔](ابوداؤد: ۱/۱۲۴)
’’رسول اللہ e نے آبادیوں اور کالونیوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا ہے اور انہیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔‘‘
عرش کا سایہ پانے والے پانچ خوش نصیبوں میں وہ شخص بھی ہوگا جس کا دل مساجد میں لگا رہتاہے۔
[وَرَجُلٌ قَلْبُه مُعَلَّقٌ فِی المَسَاجِدِ۔] (البخاری: ۱/۱۳۳)
’’وہ شخص جس کا دل مساجد سے معلق رہتا ہے۔‘‘
سبحان اللہ! مسجد سے دل لگانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے کہ ایسے شخص کو اس دن اللہ تعالی کے عرش کا سایہ حاصل ہوگا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
ایک شخص (مرد یاعورت) مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتا تھا‘ ایک روز نبی کریم e نے اسے نہ پایا، ساتھیوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا توصحابہ نے بتایا کہ وہ رات وفاپاگیا (پاگئی) تھی ہم نے اسے دفنادیا، نبی مکرمe نے فرمایا:
’’مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے رات کے وقت آپ e کو زحمت دینا گوارہ نہ کیا، آپ e نے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر بتلاؤ، پھر آپe نے اس کی قبر پر جاکر نماز جنازہ اداکی۔‘‘ (بخاری)
غور کیجیے! مسجد کاخادم، جھاڑو دینے والا‘ رسول اللہe کی نگاہ میں کس قدرو منزلت کا حامل تھا۔
نبی کریم e نے فرمایا:
[فِی الإِنْسَانِ ثَلَاثُ مِائَة وَسِتُّونَ مَفْصِلًا، فَعَلَیْه اَنْ یَتَصَدَّقَ عَنْ كلِّ مَفْصِلٍ فِی كلِّ یَوْمٍ بِصَدَقَة قَالُوا: وَمَنْ یُطِیقُ ذَلِك یَا رَسُولَ الله؟ قَالَ: النُّخَاعَة تَرَاها فِی الْمَسْجِدِ فَتَدْفِنُها، اَوِ الشَّیْئُ تُنَحِّیه عَنِ الطَّرِیقِ، فَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ فَرَكعَتَا الضُّحَی تُجْزِئُك۔] (مسند احمد: ۳۸/۱۴۵)
انسان کے (جسم میں) ۳۶۰ جوڑ ہیں پس اسے چاہیے کہ ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرے، (لوگوں نے) کہا کون اس کی قدرت رکھتاہے‘ اللہ کے رسول! آپe فرمایا: (ان تین کاموں میں سے کوئی ایک کام کرلو تمام جوڑوں کا صدقہ ادا ہوجائے گا)‘ مسجد میں کوئی گندگی وغیرہ ہواسے باہر پھینک دو‘ صفائی کردویا راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادو یا پھرچاشت(ضحی) کی دو رکعتیں پڑھ لو انگ انگ کا صدقہ ادا ہوجائے گا۔
زمین کے تمام ٹکڑوں میں اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین ٹکڑے مسجدیں ہیں۔ (مسلم)
مسجد میں داخل ہونے کی دعا:
[اللَّهمَّ افْتَحْ لِی اَبْوَابَ رَحْمَتِك۔]
’’اے اللہ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
اس دعاء سے ثابت ہے کہ مسجد میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کا نزول بھی ہوتاہے۔
بلا عذر شرعی فرض نماز مسجد میں ادا کرنا ضروری ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ مسجد میں باجماعت ادا کی جانے والی نماز درجے میں ۲۰ یا ۲۵ گنا زیادہ اجر کی باعث ہے۔ (مسلم)
نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا گناہوں کی بخشش کا ذریعہ،درجات کی بلندی اور شیطان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے مورچہ بندی کا کام کرتا ہے۔ (مسلم)
جو شخص نماز پڑھنے کے بعدمسجد میں بیٹھا رہے اور باتیں نہ کرے اور کسی کو تکلیف نہ پہنچائے توفرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں:
[اللَّهمَّ اغْفِرْ لَه، اللَّهمَّ ارْحَمْه، اللَّهمَّ تُبْ عَلَیْه۔] (سنن ابن ماجه: ۱/۲۶۲)
’’یا اللہ! اس کو بخش دے‘ یا اللہ! اس پر رحم فرما، یااللہ! اس کو معاف کر دے۔‘‘
قرآن کریم میں مساجد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رب تعالی کا رشاد ہے:
{فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰه اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْكرَ فِیْها اسْمُه یُسَبِّحُ لَه فِیْها بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ} (النور: ۳۶)
’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰه مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰه وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوة وَاٰتَی الزَّكٰوة وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰه فَعَسٰٓی اُولٰـئِك اَنْ یَّكوْنُوْا مِنَ الْمُهتَدِیْنَ}
’’اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقینا ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ (التوبۃ: ۱۸)
ان لوگوں کے لیے قرآن میں وعید آئی ہے جو مساجد سے لوگوں کو روکتے اور مساجد کو گراتے ہیں:
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰه اَنْ یُّذْكرَ فِیْها اسْمُه وَسَعٰی فِیْ خَرَابِها اُولٰـئِك مَا كانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَھُمْ فِی الْاٰخِرَة عَذَابٌ عَظِیْمٌ} (القرة: ۱۱۴)
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے‘ ان کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے‘ ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔‘‘
مساجد امن کی جگہیں ہیں اور اللہ کی پسندیدہ جگہوں میں سے ہیں اور مساجد سے باہر انسان کے فتنوں میں مبتلاء ہونے کا ڈر ہوتاہے، اسی لیے نبی کریم e نے مسجد سے باہر نکلنے کی جو دعاسکھائی ہے اس میں اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا گیاہے:
[اللَّهمَّ إِنِّی اَسْاَلُك مِنْ فَضْلِك۔] (ابوداؤد: ۴۶۵)
’’اے اللہ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں۔‘‘
بعض اسلامی ممالک میں فحاشی کے اڈے سینماگھر یا اور اسی طرح کی فضولیات کی تعمیر آسان ہے مگر مسجد کی تعمیر مشکل ہوچکی، نہ جانے کتنے محکموں سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مذہبی جماعتیں نئی مساجد کو اپنی دکانداری کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے تعمیر مساجد کو رکواتی ہیں اور انتہائی بھونڈے قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں تاکہ عوام کو اشتعال دلایا جاسکے اور تعمیر رکوادی جائے۔
یہ لوگ اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیںلیکن اللہ اپنے ہر کام پر قادر ہے۔
گھر کی مسجد:
رسول اللہ e کی عادت مبارکہ تھی کہ نوافل گھر میں ادا فرماتے اور فرض نماز مسجد میں پڑھاتے اور لوگوں کو بھی اپنے گھروں میں مساجد کی تعمیر کی ترغیب دلاتے، خیر القرون میں تقریباً ہر گھر میں نماز کے لیے مخصوص جگہ ضرور ہوتی جسے مسجد البیت، یا مسجد الداریعنی گھر کی مسجد کہا جاتا۔ آج ہم بھی مکانات تعمیر کرواتے ہیں‘ نقشہ جات بنائے جاتے ہیں، ٹی وی لاؤنج، ڈائننگ ہال نشت وبرخاست کی مخصوص جگہیں تو بنوانے کا بڑا ہتمام کرتے ہیں، اپنے من سے سوال کیجئے کیا ہم نے اپنے گھروں کے نقشہ جات میں مسجد کے لیے بھی کوئی جگہ مختص کی ہے؟؟ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کا تصور ہی نہیں۔
آخر میں رب تعالی سے دعا گو ہوں اللہ ہم سب کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)