خطبۂ حرم ... سلف صالحین کا
منہج وعقیدہ
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس d
ترجمہ: جناب مولانا فرہاد سالم
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو تقوی الٰہی اختیار کرو! جان لو تقوی اللہ کی خشیت
کے لئے دلوں کا نور اور روشنی ہے،نیز اس کی محبت کا راستہ اور زینہ، اور اس کے خوف
کی دلیل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{یَااَیُّها الَّذِینَ
آمَنُوا اتَّقُوا اللَّه وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّه
إِنَّ اللَّه خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} (الحشر: ۱۸)
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور
اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔‘‘
تقویٰ بہترین تحفہ ہے جسے آپ لے سکتے ہو اور بھلائی سب سے اچھی
چیز ہے جسے انسان پاتا ہے۔
تقویٰ میں نشانیاں ہیں جن سے دل شفا پاتے ہیں، جیسے موسلا دھار
بارش سے پھول کھل جاتے ہیں۔
مسلم اقوام! میڈیا کی حیران کن عالمی ترقی جو مختلف چینلز، ٹیکنالوجیز
اور ایجادات و مخترعات کی بدولت رونما ہوئی ہے،تو ایسے وقت میں ہر عقلمند و زیرک اور
ماہر و سمجھدار انسان کے لیے صاف اور روشن منہج کا ہونا بہت ضروری ہے کہ جس کے ذریعے
وہ سیدھے راستے کی رہنمائی حاصل کرے تاکہ وہ غلط منہج سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہوئے
درست راستے کا انتخاب کر سکے اور اللہ رب العالمین کی طرف جانے والے راستوں کا راہ
رو بن سکے۔
یہ سب کچھ صرف اور صرف پختہ ایمان اور سلف صالحین] کے
عقیدہ کی طرح صحیح سند سے ثابت ومنقول عقیدہ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
صحیحین میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود t سے روایت ہے کہ آپ e نے فرمایا:
[خَیْرُ اُمَّتِی
الْقَرْنُ الَّذِینَ یَلُونِی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَهمْ۔]
’’میر ی امت میں
سے بہترین اس دور کے لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں(صحابہ)،پھر وہ ہیں جو ان کے ساتھ (کے
دور میں) ہوں گے (تابعین)، پھر وہ جوان کے ساتھ (کے دور میں) ہوں گے (تبع تابعین)۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعودt فرماتے ہیں: جس کو کسی کی سنت اختیار کرنی ہو تو وہ
فوت شدہ لوگوں کی سنت اختیار کرے‘ اس لئے کہ زندہ لوگ فتنوں سے مخفوظ نہیں ہوتے، وہ
نبی e کے
صحابہ ہیں جو سب سے زیادہ پاکیزہ دل، سب سے زیادہ نیک، علم میں سب سے گہرے اور سب سے
کم تکلف برتنے والے تھے، وہ ایسی قوم تھے جن کو اللہ نے اپنے نبی e کی
صحبت دی اور دین کو قائم کرنے کے لئے چنا تھا۔
امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز (رحمہ اللہ تعالی) نے فرمایا:
نبی کریم e اور
ان کے بعد سربراہوں نے سنتیں مقرر کیں، ان کو پکڑنا کتاب اللہ کی پیروی، اللہ کی اطاعت
کا تکملہ اور اللہ کے دین کی قوت ہے، مخلوق میں کسی کے لئے روا نہیں کہ وہ ان میں رد
و بدل کرے یا کسی ایسی چیز میں غور کرے جو ان کے خلاف ہو، جس نے اس سے ہدایت حاصل کی
وہ ہدایت یافتہ ہے، جس نے اس سے مدد طلب کی اس کی مدد کی جائے گی، جس نے اس کو چھوڑ
دیا اور غیر مومنوں کی راہ کی پیروی کی اللہ اس کو اسی طرف پھیر دے گا جہاں وہ پھرے
گا اور اسے واصل جہنم کرے گا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
امام مالک سے صحیح سند سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا: اس امت کے
آخری لوگوں کی اصلاح بھی اسی سے ہو گی جس سے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔
مسلمانو! سلف صالحین کے پاک عقیدے کے نشانات میں سب سے پہلا
نشان اللہ کے لئے توحید خالص کا اہتمام ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{اَلَا لِلَّه الدِّینُ
الْخَالِصُ} (الزمر: ۳)
’’خبردار! خالص دین
صرف اللہ ہی کا حق ہے۔‘‘
اور نبی e کا
فرمان ہے:
[إِنَّمَا الاَعْمَالُ
بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی۔]
’’اعمال کا مدار
نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا۔‘‘
اللہ تعالی کی توحید میں، توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید
اسماء و صفات شامل ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلِلَّه الْاَسْمَائُ
الْحُسْنَی فَادْعُوه بِها وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی اَسْمَائِه سَیُجْزَوْنَ
مَا كانُوا یَعْمَلُونَ}
’’اور سب سے اچھے
نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں
کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں، انہیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا
کرتے تھے۔‘‘ (الأعراف: ۱۸۰)
باوجود اس کے کہ توحید کا روشن مقام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ
اس کی بطور خاص حفاظت، اس پر عمل، اس کی شرائط اور تقاضوں کو پورا کرنا پوری زندگی
کا عظیم ترین مقصد شمار کیا جاتا ہے، اس لئے کہ وجود و عدم کے اعتبار سے روشن شریعت
کا عظیم ترین مقصد دین کی حفاظت، امن کا قیام اور ہر قسم کی مخالفت اور شرک و بدعات
سے عقیدے کی حفاظت ہے۔
بندوں پر سب سے پہلی ذمہ داری رحمن کی اس کی توحید کے ساتھ معرفت
ہے۔ یہ کہ وہ خلق و ارادہ میں منفرد ہے نیز وہ حاکم ہے اور اپنے ارادے میں جلالت و
شان والا ہے۔
مومنوں کی جماعت! سلف کے عقیدے کے ارکان میں اللہ پر، اس کے
فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، آخرت کے دن پر اور تقدیر کے اچھے اور برے ہونے
پر ایمان لانا شامل ہے۔
اور ایمان باللہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر اس چیز پر ایمان
رکھا جائے جس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب(قرآن مجید)میں خود بیان فرمایا،اور نبی e نے
حدیث مبارکہ میں واضح فرمایا بغیر تحریف (تبدیلی کرنے) تعطیل (فضول قرار دینے)، تکییف
(کیفیت بیان کرنے) اور تمثیل (مثال دینے) کے، بلکہ سلف صالحین اس بات پر پختہ ایمان
رکھتے تھے:
{لَیْسَ كمِثْلِه
شَیْئٌ وَهوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ}
’’اللہ سبحانہ جیسی
کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالی نے جن صفات سے خود کو متصف کیا ہے ان میں
سے کسی کی بھی نفی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی تحریف اور نہ ہی اس کے اسماء و صفات اور
نشانیوں میں کسی قسم کی کج روی کی جائے گی، نیز اس کی کیفیت بیان کی جائے گی نہ ہی
اس کی صفات کی مخلوق کے ساتھ تمثیل، اس لئے کہ اللہ پاک کا نہ کوئی ہم نام ہے، نہ اس
کے کوئی برابر ہے اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے۔ [هلْ تَعْلَمُ لَه سَمِیًّا] کیا تو اس کا کوئی ہم نام جانتا ہے۔
وہ اللہ جل جلالہ بابرکت ہے، وہ بڑا سخی، کریم اور کامل ہے،
اس کی مثال نہیں بیان کی جا سکتی، اس کی ذات کی شوکت اوصاف سے بالاتر ہے، وہ بلند اور
کامل ترین ہے۔
یقینا سلف صالحین] کے ہاں ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے۔ زبان سے
اقرار، ارکان پہ عمل اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے۔ جو اطاعت کرنے کی وجہ سے
بڑھتا اور نافرمانیوں کی وجہ سے کم ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرما ن ہے:
{وَمَا اُمِرُوا
إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّه مُخْلِصِینَ لَه الدِّینَ حُنَفَائَ وَیُقِیمُوا الصَّلَاة
وَیُؤْتُوا الزَّكاة وَذَلِك دِینُ الْقَیِّمَة} (البینة: ۵)
’’اور انہیں اس کے
سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص
کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہی مضبوط ملت
کا دین ہے۔‘‘
نبی e کا
فرمان ہے:
[الإِیمَانُ بِضْعٌ
وَسَبْعُونَ شُعْبَة، فَاَفْضَلُها قَوْلُ لَا إِلَه إِلَّا الله، وَاَدْنَاها إِمَاطَة
الْاَذَی عَنِ الطَّرِیقِ، وَالْحَیَائُ شُعْبَة مِنَ الْإِیمَانِ۔]
’’ایمان کے ستر سے
اوپر شعبے (اجزاء) ہیں۔ سب سے افضل جز لاالہ الا اللہ کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا
کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے
ایک ہے۔‘‘
اس حدیث میں قول و فعل دونوں کو ایمان شمار کیا گیا ہے۔ اللہ
تعالی کا فرمان ہے:
{فَزَادَتْهمْ إِیمَانًا}
(التوبة: ۱۲۴)
’’اس نے ان کے ایمان
کو زیادہ کیا۔‘‘
نیز فرمایا:
{لِیَزْدَادُوا إِیمَانًا}
(الفتح: ۴)
’’تاکہ ان کا ایمان
بڑھے۔‘‘
پتا چلا کہ ایمان عمل سے بڑھتا اور گناہوں اور معصیتوں سے کم
ہوتا ہے۔
مسلمانو! صحیح سلف کا عقیدہ افراط و تفریط اور غلو سے ہٹ کر
میانہ روی پر قائم ہے۔
{وَكذَلِك جَعَلْنَاكمْ
أُمَّة وَسَطًا}(البقرة: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم
نے تمہیں سب سے بہتر امت بنایا۔‘‘
سلف صالحین] کا
عقیدہ افراط و تفریط(حد سے زیادہ کمی وبیشی)جیسی خرابی سے پاک اور متوسط تھا۔ وہ اللہ
تعالی کی صفات اور وعید و عذاب، ایمان و دین اور صحابہ کرام] کے
بارے میں متوسط عقیدہ کے حامل تھے۔
اے وہ آدمی جو حساب کے دن،جہنم اور بھڑکتی آگ سے اپنی نجات
چاہتا ہے۔ اقوال و اعمال میں رسول اللہ e کی پیروی کر اور قرآن سے باہر نہ نکل اور صحیحین کو
پکڑ لے جو کہ دین و ایمان کے قیمتی ہار کا جوڑ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں سے جو کچھ بھی قرآن میں آیا
ہے یا نبی e سے
بسند صحیح ثابت ہے، اس پر ایمان لانا اور اسے تسلیم و قبول کرنا ہے نیز اس کی تاویل،
تشبیہ اور تمثیل کے ذریعے رد سے بچنا بھی واجب ہے۔
ان میں سے جس میں کوئی اشکال ہو تو اس کے الفاظ کا اثبات واجب
ہے۔ اس کے معانی کا تعارض چھوڑ دیا جائے گا نیز اس کو اہل علم اور اس کے قائل کے طرف
لوٹایا جائے گا اور اس کا ذمہ ناقل پر ہو گا، یہ ہی علم میں رسوخ رکھنے والوں کی پیروی
ہے:
{وَالرَّاسِخُونَ
فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِه كلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا}
’’اور جو علم میں
پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے متشا بہ آیات کی تاویل کرنے والے لوگوں کی مذمت
میں فرمایا:
{فَاَمَّا الَّذِینَ
فِی قُلُوبِهمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَه مِنْه ابْتِغَائَ الْفِتْنَة وَابْتِغَائَ
تَاْوِیلِه وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیلَه إِلَّا اللَّه} (آل عمران: ۷)
’’پھر جن لوگوں کے
دلوں میں کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں،
فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں‘
جانتا مگر اللہ۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالی نے تاویل کی جستجو کو کج روی کی علامت قرار
دیا اور اس کی مذمت میں اسے فتنہ کی تلاش سے جوڑا، پھر ان تاویل کرنے والوں کو ان کی
امید سے روک دیا اور ان کی چاہت کو ان سے الگ کر دیا۔
اللہ سبحانہ و تعالی آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی اور
اپنی مخلوقات سے بلند ہے نیز وہ ان کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی رہیں۔ اسی طرح قرآن کریم
اللہ تعالی کا کلام ہے اسے نازل کیا گیا ہے وہ خلوق نہیں ہے۔
اسی طرح سلف صالحین کے عقیدے میں حشرکے دن، صحیفوں کے تقسیم،
دفتروں کے پھیلائے جانے اور مخلوقات کے لئے میزان کے قائم ہونے پر ایمان بھی شامل ہے،
ساتھ ساتھ پل صراط کے قائم ہونے اور شفاعت پر ایمان بھی سلف کے عقیدے کا حصہ ہیں۔
اسی طرح سلف صالحین کے عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جنت
اور جہنم مخلوق ہیں اور یہ کہ مومن قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے جیسے کہ وہ چودہویں
رات کے چاند کو دیکھتے ہیں، نیز اس بات کی بھی صراحت ہے کے اہل ایمان حشر کے دن اللہ
کو آسمانوں کے اوپر اپنی آنکھوں سے واضح دیکھیں گے جیسے چاند اور سورج دیکھے جاتے
ہیں۔
امت مسلمہ! امامت اور جماعت کے بارے میں سلف صالحین کا عقیدہ
یہ ہے کہ وہ جماعت اور امامت کو لازم پکڑتے ہیں۔ دین سے نکل جانے والے خوارج کے بر
خلاف سمع و اطاعت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کو قبول کرتے ہیں۔
امام طحاویa فرماتے
ہیں: کہ ہم جماعت کو حق اور درست سمجھتے ہیں اور اس سے علیحدگی کو گمراہی اور عذاب۔
آپa یہ
بھی فرماتے ہیں: ہم اپنے سربراہوں اور حکمرانوں پر خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ
کہ وہ ظلم کریں، نہ ہم ان کے لیے بد دعا کرتے ہیں اور نہ ان کی فرمانبرداری سے ہاتھ
کھینچتے ہیں۔ اس لیے کے ان کی اطاعت بطور فریضہ اللہ کی اطاعت میں سے ہے۔ جب تک ہمیں
معصیت کا حکم نہ دیں نیز ہم ان کے لیے درستگی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں۔
امام احمد بن حنبلa فرماتے ہیں: اگر مجھے معلوم ہو کہ میری کوئی ایک دعا
ضرور قبول ہو گی تو وہ دعا میں اپنے امام (حاکم) کے لئے کروں گا۔
سلف صالحین کسی گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں کرتے جب تک کہ وہ
اس گناہ کو حلال نہ سمجھتا ہو۔ بلکہ وہ تکفیر اور تفجیر سے ڈرتے اور ڈراتے ہیں اور
عظیم ربانی علماء کے راستے پر چلتے ہیں، اسی طرح وہ تابعین اور ان کے بعد کے علماء
جو اہل خیر، اچھے اثرات، اور فقہ کے حاملین ہیں ان کا ذکر جمیل کرتے ہیں۔ جو کوئی انہیں
برائی سے یاد کرے وہ سلف صالحین کے منہج سے الگ ہے۔
آج کل سوشل میڈیا پر علماء پر طعن زنی کا بڑا فتنہ کس قدر بڑھ
گیا ہے، جس میں بڑے معتبر اور قدوۃ علماء کے خلاف باتیں کی جاتیں ہیں تاکہ ان کی شان
کم کی جا سکے، اس موقع پر مسلمانوں کو اس خطرناک راہ کی سنگینی کو سمجھنا اور اس سے
بچنا ضروری ہے۔
سلف صالحینs کے
روشن عقیدے میں سے عقیدہ و منہج کی بنیاد پر اخوت بھی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ
إِخْوَة} (الحجرات: ۱۰)
’’مومن تو سب آپس
میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
دلوں اور جذبات کا جڑنا اور اہداف و مناہج کا متحد ہونا اسلام
کی مؤثر ترین تعلیمات اور مخلص مسلمانوں کی لازم ترین صفات میں سے ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ هذِه اُمَّتُكمْ
اُمَّة وَاحِدَة} (الأنبیاء: ۹۲)
’’بے شک یہ ہے تمہاری
امت جو ایک ہی امت ہے۔‘‘
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ
اللَّه جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}
’’اور سب مل کر اللہ
کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۳)
مسلمانوں کے دل مسلمانوں کے لیے پاک اور صاف ہوتے ہیں۔
{وَالَّذِینَ جَآئوا
مِنْ بَعْدِهمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا
بِالإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّك
رَئُوفٌ رَحِیمٌ} (الحشر: ۱۰)
’’اور (ان کے لیے)
جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے
جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ
نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا
ہے۔‘‘
پس دین میں نہ گروہ بندی ہے اور نہ مسلک پرستی، نہ فرقہ بندی،
نہ عصبیت اور نہ نسل پرستی، بلکہ اتفاق سے دین کو مضبوطی سے پکڑنے،تفرقہ کو چھوڑنے
رحمت، نرمی کے اظہار، تشدد اور باہمی لڑائی کو ترک کرنے کی دعوت ہے۔ اسی طرح گفتگو
اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے، جھگڑے اور تصادم سے دور ہونے کی دعوت ہے۔
یہ ہمارے سلف صالح کا اجمالی عقیدہ ہے، اللہ تعالی ان پر اپنی
رحمت کرے اور ان سے راضی ہو۔
اے آدمی! جو اپنی نجات چاہتا ہے،اس خیر خواہ کی بات کو غور
سے سن۔ اپنے تمام امور میں وحی کو مضبوطی سے تھام نہ کہ لوگوں کی الٹی سیدھی باتوں
کو۔ اللہ کی کتاب اور رسول e کی
سنت کی اتباع کر۔ حقیقی مسلمان کا شعار حقیقی شریعت ہی ہے اور میرے لئے ہی یہ حقیقی
مذہب ہے۔ جب تم نے عزم کر لیا اور جان لیا تو سلف صالحین کے اس منہج کو مضبوط پکڑ لو۔
یاد رکھو ہر بھلائی سلف کی پیروی میں اور ہر برائی نئی چیزوں
کی ایجاد میں ہے۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں صحیح عقیدے پر زندہ رکھے
واضح ترین منہج پر موت دے، بلاشبہ وہ جواد اور کریم ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَاَنَّ هذَا صِرَاطِی
مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوه وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكمْ عَنْ سَبِیلِه
ذَلِكمْ وَصَّاكمْ بِه لَعَلَّكمْ تَتَّقُونَ} (الأنعام: ۱۵۳)
’’یہ کہ بے شک یہی
میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستے
سے جدا کردیں گے۔ یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمہیں دیا ہے، تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن و سنت کی برکت سے نوازے اور سید
المرسلین کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ
عزوجل سے اپنے لیے آپ سب کے لیے اور باقی تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ سے مغفرت طلب
کرتا ہوں‘ آپ بھی اسی سے توبہ کیجئے بلاشبہ میرا رب بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔
No comments:
Post a Comment