احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
سونے کا پہاڑ یا پٹرول کی بہتات
O حدیث
میں ہے کہ قربِ قیامت دریائے فرات میں ایک سونے کا پہاڑ نمودار ہو گا‘ کچھ حضرات کا
کہنا ہے کہ اس سے مراد حقیقی سونے کا پہاڑ نہیں بلکہ سرزمین عرب میں تیل اور پٹرول
کے کنویں ہیں۔ اس کے متعلق صحیح موقف کی نشاندہی کریں۔
P رسول اللہe نے قرب قیامت کی جو علامات بیان کی ہیں‘ انہیں حقیقت
پر ہی محمول کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس کی حقیقت اس کے ظاہر ہونے کے بعد ہی کھلے گی تا ہم
اجمالی طور پر اس کا جوں کا توں ماننا ہی ایمان کا تقاضا ہے۔ کتب احادیث میں قیامت
کی کئی ایک علامتیں بیان کی گئی ہیں‘ کچھ تو ظاہر ہو چکی ہیں اور کچھ نشانیوں کا ابھی
تک ظہور نہیں ہوا۔ سوال میں جس نشانی کا ذکر ہے اس کے متعلق رسول اللہe نے
فرمایا: ’’عنقریب دریائے فرات سے سونے کا خزانہ ظاہر ہو گا جو کوئی وہاں موجود ہو اس
سے کچھ نہ لے۔‘‘ (بخاری‘ الفتن: ۷۱۱۹)
ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ دریائے فرات سے
سونے کا پہاڑ نمودار ہو گا۔ (بخاری حوالہ مذکور)
علاقہ عرب میں آج کل جو تیل اور پٹرول کے ذخائر ہیں‘ کچھ حضرات
نے دریائے فرات سے نمودار ہونے والے سونے کے پہاڑ سے یہی ذخائر اور کنویں مراد لیے
ہیں کیونکہ پٹرول کو ’’سیال سونا‘‘ بھی کہا جاتا ہے لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی احادیث میں آمدہ نص صریح کے خلاف ہے۔ کیونکہ حدیث میں
سونے کے پہاڑ کی صراحت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت دریائے فرات کی روانی سونے
کے پہاڑ کے اوپر کی مٹی بہا کر لے جائے گی تو نیچے سے وہ پہاڑ ظاہر ہو گا۔ جو اس کے
پانی کے اترنے سے نمایاں ہو جائے گا۔ اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول
اللہe نے
فرمایا: ’’عنقریب زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑے نکال باہر پھینکے گی جیسے سونے اور چاندی
کے بڑے بڑے ستون ہوتے ہیں‘ قاتل آئے گا اور کہے گا میں نے اس کے لیے قتل کیا‘ قطع رحمی
کرنے والا کہے گا میں نے اس کے لیے رشتوں کو توڑا‘ چور آئے گا اور کہے گا اس کی خاطر
میرا ہاتھ کاٹ دیا گیا‘ پھر سب کے سب اس کو چھوڑ دیں گے اور اس سے کچھ نہیں لیں گے۔‘‘
(مسلم‘ الزکوٰۃ: ۲۳۴۱)
بہرحال اس نشانی کا ظہور ابھی تک نہیں ہوا اور سونے کے پہاڑ
سے مراد حقیقی سونا ہی ہے۔ اس سے تیل کے کنویں یا پٹرول کے ذخائر مراد لینا انتہائی
محل نظر ہے۔ وہاں سے کچھ نہ لینے کی ممانعت اس لیے ہے کہ دنیوی مفادات کی خاطر وہاں
قتل وغارت کی صورت پیش آئے گی۔ جیسا کہ سیدنا ابی بن کعبt کا بیان ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’دریائے فرات میں سونے کا پہاڑ نمودار ہو گا جب لوگ اس کے متعلق سنیں گے تو
اس کی طرف چل دیں گے اور جو لوگ وہاں موجود ہوں گے وہ کہیں گے‘ اگر ہم نے انہیں اس
پہاڑ سے سونا لینے دیا تو یہ تمام سونا لے جائیں گے۔ آخر کار وہاں جنگ ہو گی تو ننانوے
فیصد لوگ وہاں مارے جائیں گے۔‘‘ (مسلم‘ الفتن: ۷۲۷۶)
عین ممکن ہے کہ امام مہدی یا اور کوئی مسلمان سربراہ اس خزانے
کو سرکاری تحویل میں لے کر مسلمانوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کر دے۔ واللہ اعلم!
بہرحال عافیت اسی بات میں ہے کہ قرب قیامت کے وقت ظاہر ہونے
والی اس قسم کی نشانیوں کو اپنے حقیقی ظاہری معنی پر رہنے دیا جائے اور اپنی طرف سے
اس کی کوئی تاویل نہ کی جائے۔
لعان کی حقیقت
O قرآن
کریم میں ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو مشکوک حالت میں دیکھے تو اس کا حل لعان کی شکل
میں پیش کیا گیا ہے۔ لعان کے بعد کیا ہو گا؟ اس کی وضاحت قرآن میں نہیں‘ اس کے متعلق
اطمینان وتسلی مطلوب ہے۔
P اہل ایمان خواتین پر بدکاری کی تہمت لگانا انتہائی سنگین
جرم ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اسے سات بڑے بڑے مہلک گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ (بخاری‘
الحدود: ۶۸۵۷)
قرآن کریم میں ہے کہ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر
چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ۔‘‘ (النور: ۴)
ایک دوسری آیت میں ہے کہ ’’جو لوگ پاکدامن اور بھولی بھالی مومن
عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا میں بھی لعنت ہے اور آخرت میں بھی لعنت۔‘‘ (النور:
۲۳)
تیسری آیت میں خاوند کا اپنی بیوی پر تہمت لگانے کا بیان ہے‘
چونکہ اس کے پاس گواہ نہیں ہوتے‘ اس لیے لعان کے ذریعے اس کا حل پیش کیا گیا ہے۔ عقلی
اعتبار سے بھی ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہی حل قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر
کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا دیکھے تو کیا کرے؟ گواہ ڈھونڈنے جائے تو گواہوں
کے آنے تک معاملہ ختم ہو چکا ہو گا۔ اگر گواہوں کے بغیر بات کرے تو اس پر حد قذف پڑتی
ہے۔ اگر خاموش رہے تو ایسا کرنا دوسروں کے لیے تو ہو سکتا ہے مگر اپنی بیوی کے متعلق
یہ کڑوی گولی کس طرح نگلی جائے؟ اگر طیش میں آکر بیوی کو قتل کر د ے تو خود قصاص میں
مارا جائے گا اور اگر طلاق دے دے تو اس میں نہ صرف اپنا نقصان ہے بلکہ زانی اور زانیہ
کے لیے خوشی فراہم کرنے کے مترادف ہو گا۔ اگر کڑوا گھونٹ پی کر صبر کرے تو ایک ناجائز
بچے کی پیدائش اور اس کی کفالت کا بوجھ اس کے گلے پڑتا ہے جو بعد میں اس کا وارث بھی
ہو گا۔ ان تمام پیچیدگیوں کا حل لعان ہے جو قرآن نے بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’اور
جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور خود اپنے علاوہ ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو
ہر ایک شہادت دے کہ پہلے تو وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم اٹھائے کہ بلاشبہ وہ سچا ہے اور
پانچویں مرتبہ اس طرح کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔… اور عورت
سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار مرتبہ اللہ کی قسم اٹھائے کہ بلاشبہ وہ
جھوٹا ہے اور پانچویں بار وہ یوں کہے کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل
ہو۔‘‘
اس طرح لعان مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کی حدیث
میں وضاحت ہے کہ لعان کے بعد خود بخود میاں بیوی میں ہمیشہ کے لیے جدائی ہو جاتی ہے
خواہ حاکم وقت نہ بھی کرائے۔ کیونکہ وہ عورت اب اس شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو چکی
ہے۔ مرد کے ذمے عورت کا خرچہ یا رہائش کا بندوبست نہیں کیونکہ ان کے درمیان طلاق اور
وفات کے بغیر ہی جدائی عمل میں آگئی ہے۔ اس کے بعد اگر عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو تو
اس کی نسبت ماں کی طرف ہو گی۔ وہ اپنی ماں کا وارث ہو گا اور ماں اس کی وارث ہو گی۔
پھر عورت کو بچے کی وجہ سے بدنام بھی نہیں کیا جا سکے گا۔
مطلقہ عورت کیلئے فراغت تیسرے حیض کی ابتداء یا انتہاء؟
O قرآن
کریم میں مطلقہ عورت کی عدت تین قروء بیان ہوئی ہے۔ اب وضاحت طلب امر یہ ہے کہ تیسرا
حیض شروع ہوتے ہی عورت فارغ ہو جائے گی یا فراغت کے لیے اسے اختتام حیض کا انتظار کرنا
ہو گا؟!
P طلاق یافتہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور طلاق
والی عورتیں تین قروء تک انتظار کریں۔‘‘ (البقرہ: ۲۲۸)
اس آیت کریمہ میں وہ طلاق یافتہ عورتیں مراد ہیں جو حاملہ نہ
ہوں اور انہیں حیض بھی آتا ہو۔ نیز ان سے خاوند کا ملاپ بھی ہو چکا ہو کیونکہ قرآن
کریم کی صراحت کے مطابق حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے اور جسے حیض نہیں آتا اس کی عدت
تین اسلامی مہینے ہیں اور جس عورت سے خاوند کا ملاپ یا خلوت صحیح عمل میں نہیں ہوئی‘
اگر اسے طلاق ہو گئی ہے تو اس پر کوئی عدت نہیں۔ آیت کریمہ میں لفظ قروئْ‘ قرء ً کی
جمع ہے جو عربی لغت کے اعتبار سے اضداد کلمات سے ہے۔ اس کے معنی طہر کے بھی ہیں اور
حیض کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لغوی اختلاف کی وجہ سے احناف کے نزدیک اس
کا معنی حیض اور شوافع حضرات اس سے مراد طہر لیتے ہیں۔ اس فرق کو ہم ایک مثال سے واضح
کرتے ہیں: ایک عورت کو ہر قمری مہینے کے ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے‘ اس کے خاوند
نے اسے حیض سے فراغت کے متصل بعد چار محرم کو طلاق دے دی۔ اب احناف کے نزدیک اس کی
عدت تین حیض ہے یعنی وہ تین ربیع الثانی کی شام کو جب وہ حیض سے فارغ ہو گی تب اس کی
عدت ختم ہو گی۔ جبکہ شوافع کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہو
چکے ہوں گے۔ یعنی یکم ربیع الثانی کی صبح کو حیض شروع ہونے پر اس کی عدت پوری ہو چکی
ہو گی۔ اس طرح قروء کی مختلف تعبیروں سے تین دن کا فرق پڑ گیا۔ ہمارے رجحان کے مطابق
قروء کے معنی حیض کے ہیں کیونکہ رسول اللہe نے سیدہ فاطمہ بنت حبیشr سے
فرمایا تھا: [دعی الصلوٰۃ ایام
اقرائک] (دار قطنی حدیث
نمبر ۸۲۲) … یعنی ’’ایام حیض میں نماز چھوڑ دو۔ اس کے علاوہ خلفائے راشدین‘
بہت سے دیگر صحابہ کرام] اور
تابعین عظام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قروء کے معنی حیض ہیں‘ طہر نہیں۔ لہٰذا ایسی
طلاق یافتہ عورت کی عدت تیسرے حیض کے اختتام پر مکمل ہو گی۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment