Saturday, November 16, 2019

اداریہ ... وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین 43-2019


وَمَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ

اس وقت امت مسلمہ بے شمار مسائل سے دو چار ہے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں اتحاد کا فقدان ہے اور وہ ایک متفقہ قیادت پیدا نہیں کر سکی۔ جب کہ اس کا دشمن متحد ہے۔ [اَلْکُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ ] پورا کفر اہل اسلام کے بالمقابل کھڑا ہے۔ دنیا میں کم وبیش ساٹھ مسلم ریاستیں موجوود ہیں جن کے پاس قدرتی وسائل‘ دولت کی فراوانی اور افرادی قوت بھی ہے مگر وہ استعماری قوتوں کے زیر اثر ہیں۔ ان استعماری طاقتوں نے مل کر مسلمان ممالک عراق‘ مصر‘ شام اور افغانستان وغیرہ کا جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اب پاکستان بھی ان کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ سعودی عرب بھی ان کی نظروں میں ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ حرمین شریفین کے تحفظ اور تقدس کے لیے امت مسلمہ کا ہر فرد جان دینا بھی بہت بڑی سعادت سمجھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلماں متحد ہو جائیں۔ اسی صورت میں وہ دین ودنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کے ساتھ سرد جنگ شروع کر رکھی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر اور امریکی سفارتخانہ کی منتقلی کا فیصلہ کر کے جہاں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے وہاں اخلاق وانسانیت کی تمام قدروں کو نہ صرف پامال کیا بلکہ مسلمانوں کے دلوں کو چھلنی کر دیا۔ یاد رہے کہ ایسی ہی قرار داد بیس سال پہلے ہی امریکی کانگریس میں پیش ہو چکی ہے اور اس وقت امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے لیے ایک سو ملین ڈالرز کا بجٹ بھی پاس ہو گیا تِھا اور امریکہ نے اس کے بعد کئی بار اس کی کوشش بھی کی ہے لیکن اب تک ناکام رہا اور آئندہ بھی ناکام رہے گا۔ القدس شریف امت مسلمہ کے نزدیک حرمین شریفین کی طرح مقدس اور عالم اسلام کا قبلۂ اول بھی ہے۔ مسجد اقصیٰ‘ مقدس زمین‘ فلسطین اور سرزمین نبوت‘ رسول کریمe کی جائے معراج اور آخری امت کی میراث ہے۔ مکہ مکرمہ میں ۱۳ سال اور مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ۱۷ مہینوں تک نبی اکرمe بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا اور پھر نبی کریمe نے مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنا شروع کر دی۔ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کا تعلق بھی بہت پرانا ہے۔ نبی اکرمe کو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس لے جایا گیا اور پھر بیت المقدس سے آسمان کا سفر کرایا گیا۔ سفر معراج میں نبی کریمe کی امامت اور تمام انبیاء کا مقتدیٰ بننا اس بات کا اعلان تھا کہ دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے جو نبی کریمe پر نازل ہوا۔ اسی طرح اس میں یہ اعلان بھی تھا کہ اسلام ہی مسجد اقصیٰ کا وارث ہے اور اب ان شاء اللہ یروشلم ہی فلسطین کا دار الحکومت بنے گا۔ عالم اسلام نے ٹرمپ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔
پچھلے دنوں امام کعبہ نے فرمایا ہے کہ ’’آج فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ثقافتی‘ تہذیبی اور دینی لڑائی ہے یہ ایک ایسا کام ہے کہ جس سے ساری دنیا مشکل اور خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسا خطرہ ہے کہ جس کی مقدار اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ امت مسلمہ کے مخلص افراد اور دنیا کے دانشور قائدین کو چاہیے کہ وہ فلسطین میں ہونے والے اس ظلم وزیادتی کے سلسلے کو روکیں۔ زمین‘ انسان‘ جائیداد اور دینی مقامات اور اس کی علامات پر کیے جانے والے حملوں کو روکیں۔ اس کھدائی کو بھی ختم کریں جو مسجد اقصیٰ کی نبیادیں ہلا رہی ہے۔ جسے انبیاءo نے عظیم ٹھہرایا ہے اور جسے آسمانوں کے رب نے عزت بخشی ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور اس کی ویرانی کے درپے ہو۔‘‘ مسئلہ فلسطین کسی ایک ملک‘ نسل یا گروہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے یہ مسلمانوں کے جذبات کو ابھارتا ہے اور انہیں اتفاق واتحاد کی طرف لے جاتا ہے۔ دراصل یہ مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی علامت ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس پر پوری امت مسلمہ متفق ہے۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور اہل پاکستان کے بارے میں کبھی کلمۂ خیر نہیں کہا حالانکہ پاکستان نے دہشت گردی کے انسداد کے لیے سب سے زیادہ جانی ومالی قربانیاں دی ہیں۔ اس نے چند ارب ڈالرز دے کر سمجھ لیا ہے کہ پاکستان کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ سراسر خام خیالی ہے۔ ٹرمپ کا حالیہ بیان لا علمی پر مبنی ہے جس میں انہوں نے پاکستان کو مذہبی آزادی کے بین الاقوامی معیار کے آئینے میں غیر اطمینان بخش قرار دیا ہے حالانکہ اقلیتوں کے لیے مذہبی آزادی پاکستان کے آئین کا حصہ ہے اور آئین کے مطابق غیر مسلم قوموں کو ثقافتی‘ مذہبی آزادی حاصل ہے۔
اسلام وہ دین ہے جو تمام ادیان کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اسلام مذاہب کے درمیان نفرت کا قائل نہیں بلکہ مکالمہ کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں جو قوم بھی ظلم کو اپنا شعار بنا لے گی اس کا مقدر زوال ہے۔ تباہی وبربادی ہے۔ اہل اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کی عظمت اور حقیقت کو سمجھیں اور اس کی بنیاد پر متحد ہو جائیں اور ان باتوں سے اجتناب کریں جن سے اختلاف وانتشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور ان امور کو حرزِ جان بنا لیں جن سے اتحاد واتفاق پیدا ہو۔ اور یہ چیزیں کتاب وسنت کو لائحہ عمل بنانے سے حاصل ہوں گی۔ علامہ اقبال کے اشعار پر بات ختم کرتے ہیں   ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک                      ایک ہی سب کا نبی‘ دین بھی‘ ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی‘ قرآن بھی ایک                               کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
یہ بھی یاد رکھیں کہ مسلمانوں کی رسوائی ہمیشہ ان کے باہمی انتشار اور افتراق سے ہوئی ہے     ؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں                              کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)